تبدیلیٔ مذہب کے انسداد کی لا قانونیت

ایڈمن

ڈاکٹر سلیم خاناتر پردیش میں پچھلے سال(2020) نومبر میں ضمنی انتخابات ہونے والے تھے۔ جونپور ضلع کے ملہنی حلقہ انتخاب میں بی جے پی کی حالت پتلی تھی ۔ اس انتخابی مہم میں وزیر اعلیٰ ادیتیہ ناتھ نے پہلی بار…


ڈاکٹر سلیم خان


اتر پردیش میں پچھلے سال(2020) نومبر میں ضمنی انتخابات ہونے والے تھے۔ جونپور ضلع کے ملہنی حلقہ انتخاب میں بی جے پی کی حالت پتلی تھی ۔ اس انتخابی مہم میں وزیر اعلیٰ ادیتیہ ناتھ نے پہلی بار لوجہاد کو روکنے کے لیے قانون بنانے کا اعلان کیا ۔ ان کے پاس عوام کو دکھانے کے لیے کوئی فلاح و بہبود کا کام تو تھا نہیں اس لیے رام مندر اور دفعہ ۳۷۰ کے کالعدم قرار دینے کے بعد اس نئے قانون کا وعدہ کردیا ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ بی جے پی دیگر حلقہ جات میں تو جیت گئی مگر جہاں لو جہاد کا شوشہ چھوڑا گیا تھا وہاں بری طرح ہار گئی۔ اس حلقہ میں سماجوادی پارٹی نے ہیٹ ٹرک لگائی اور اس کے امیدوار لکی یادو نے ۷۳ ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے جبکہ دوسرے نمبر پر ایک آزاد امیدوار دھننجے سنگھ تھے ۔ بی جے پی اور بی ایس پی سمیت ۱۴ آزاد امیدوارکی ضمانت تک ضبط ہوگئی ۔ ادیتیہ ناتھ کو چاہیے تھا کہ وہ اس کراری ہار کے بعد لوجہاد سے کان پکڑتے لیکن جس بیچارے کے پاس عوام کو بیوقوف بنانے کے جذباتی استحصال کے سوا کوئی حربہ ہی نہ ہو تو وہ کر بھی کیا سکتا ہے؟ اس شکست کے ٹھیک دوہفتے بعد یوگی جی نے یہ تبدیلیٔ مذہب کا مذموم آرڈیننس جاری کرکے خود کو ہندو ہردیہ سمراٹ ثابت کردیا ۔
اترپردیش میں اس آرڈیننس کے ذریعہ شادی کیلئے غیر قانونی(جبری) مذہبی تبدیلی پر پابندی عائد کردی گئی ۔ شادی کی خاطر جبر، دھوکہ دہی، غیر واجب دباؤ یا ورغلا کر غیر قانونی طریقے سے مذہب تبدیل کرنے کو غیر ضمانتی جرم قرار دے کر اِس کا ارتکاب کرنے والے پر بیش از بیش 10 سال تک کی قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کا التزام کیا گیا ۔ اس قانون میں اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کی ذمہ داری ملزم پر ڈال دی گئی ہے جو سراسر ظلم ہے ۔ عدلیہ کی روح یہ ہے کہ جب تک جرم ثابت نہ ہوجائے ملزم بے قصور ہے اور یہ استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ الزام کے حق میں شواہد پیش کرے لیکن بی جے پی نے اس اصول کو الٹ دیا ہے۔ اس کی اندھی نگری میں جھوٹے الزام لگانے والوں پر کوئی قدغن نہیں الٹا بے قصور ملزم کو اپنی بے گناہی ثابت کرنی پڑتی ہے۔
اترپردیش ایک ایسا صوبہ ہے جہاں ہاتھرس جیسی بربریت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ایک پسماندہ (ذات) خاتون کی دن دہاڑے عصمت دری کی جاتی ہے ۔ ظالموں کو بچانے کے لیے انتظامیہ ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے اور پولس مظلومہ کے خاندان کو گھر میں نظر بند کر اس کی لاش مٹی کے تیل جلاڈالتی ہے ۔ یہاں تک کہ عدالت کے اندر پسماندگان کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے لیکن جب قانون سازی کی بات آتی ہے تو مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے یہ لکھا جاتا ہے کہ اگر خاتون کا تعلق درج فہرست ذاتوں یا درج فہرست قبائل سے ہے تو مجرم کی سزا 5 سے بڑھا کر 10 برس تک ہوگی ۔ اِس آرڈیننس میں سزا اور جرمانہ کے علاوہ جبراً تبدیلی مذہب کے بعد کی گئی شادی کو کالعدم قرار دینے اور بین المذاہب شادی کرنے والے جوڑے کو متعلقہ ضلع مجسٹریٹ سےپیشگی اجازت لینے کو بھی لازم کیا گیا ہے۔ عام طور پر محبت کی شادی چوری چھپے ہوتی ہے ایسے میں اگر جوڑا مجسٹریٹ کے پاس اجازت لینے کے لیے جائے تو وہ ان کے والدین کو خبر کردے گا اور سارا معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہوجائے گا۔ یوگی جی تو خیر بال برہما چاری ہیں انہیں کیا پتہ کہ شادی کے لیے مذہب تک کی پرواہ نہیں کرنے والے ان سے کب خوف کھائیں گے ؟
وطن عزیز میں ہندو شدت پسند اپنی ہم مذہب لڑکی کےمسلمان لڑکے سے شادی کو اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔ ہندو لڑکی کا اسلام قبول کرلینا ان کے لیے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کے برابر ہوتاہے۔ اپنی خجالت مٹانے کے لیے یہ پروپگنڈہ شروع کردیا جاتا ہے کہ مسلمان لڑکے نے لڑکی کو پیار کے جال میں پھنسا کر زبردستی مذہب تبدیل کروا لیا حالانکہ جب بھی کسی لڑکی کے والد نے اپنی بیٹی کے اغوا کا الزام لگا کر عدالت سے رجوع کیا تو اس کو مایوس ہوکر لوٹنا پڑا۔ لڑکی عدالت میں کہہ دیا کہ اس نے اپنی مرضی سے بلا کسی دباو کے شادی کی ہے اور عدالت نے ایک بالغ شہری کے اس حق کو تسلیم کرتے ہوئے والدین کو بے نیل مرام لوٹا دیا ہے۔ الہ باد ہائی کورٹ بھی ایسے کئی فیصلے دے چکا ہے۔ ہندو فرقہ پرست یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ اس طرح مسلمان اپنی آبادی بڑھا تے ہیں حالانکہ مردم شماری میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح اس دعویٰ کی تردید کرتی ہے۔وہ لوگ ہندو عوام کے دل میں یہ خوف بٹھاتے ہیں کہ لو جہاد کے ذریعہ مسلمان اسلامی قانون لانا چاہتے ہیں حالانکہ اسلامی نظام تو دعوت و تبلیغ کافطری نتیجہ ہے ۔ وہ قانون ہندو راشٹر و سیکولر نظام حکومت سے ہزارہا گنا بہتر ہے ۔ جس دن اکثریت اس بات کو مان لے گی ملک کا مقدر بدل جائے گا۔
ماہِ ستمبر (2020) میں ایک بین المذاہب جوڑےنے الہ باد کی عدالت عالیہ میں درخواست کرکے اپنی شادی شدہ زندگی میں مداخلت کرنے والوں (لڑکی کے والدین)کے خلاف عدالتی مدد چاہی تھی۔ اس پر عدلیہ کی سنگل بینچ نےمانا تھا کہ یہاں کوئی جرم نہیں ہواکیونکہ دو بالغ افراد ہمارے سامنے ہیں جو اپنی مرضی اور اتحاد سے ایک سال ساتھ رہ چکے ہیں۔ اس حکم نامہ سے عبرت پکڑ کر یوگی سرکار عقل کے ناخن لیتی تو اچھا تھا لیکن عدالت کی پھٹکار سنتے سنتے اس کی چمڑی اتنی موٹی ہوگئی ہے کہ اب اس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔دلچسپ بات یہ ہے بی جے پی کے زیر اثر ۹ ریاستوں نے یہ قانون تو بنادیا لیکن 2009 سے لے کر 2014 تک “لوجہاد”کے بارے میں سرکاری تحقیقات کے دوران اس سرگرمی کا کوئی ٹھوس ثبوت سرکار کے ہاتھ نہیں لگا ۔ اس حقیقت کا اعتراف خود بی جے پی کے وزیر مملکت برائے امورِ داخلہ نے ایوانِ پارلیمان میں کیا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق اتر پردیش میں پولیس کی ایک خصوصی تفتیش میں 14 معاملات کے اندر جبر کا کوئی ثبوت ہاتھ نہیں لگا۔
یوگی حکومت نے جس “جبراً تبدیلی مذہب” قانون کو متعارف کرایا ہے، اس کے متعلق سپریم کورٹ کے سابق جج مدن بی لوکر کی رائے ہے کہ “یہ قانون عدالت میں ٹِک نہیں سکے گا، کیونکہ اس میں قانونی اور آئینی طور پر کئی خامیاں ہیں۔”انھوں نے عدالت عظمیٰ کی سردمہری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘سماجی انصاف’ کا نظریہ اس وقت سرد خانے میں چلا گیا ہے کیونکہ سپریم کورٹ حسبِ توقع سرگرمی نہیں دکھا رہا ہے ۔ ویسے الٰہ آباد ہائی کورٹ بالغ جوڑے کے اپنی مرضی سے شادی کر نے کے آئینی حق کو تسلیم کرچکا ہے۔ مدن بی لوکر دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس آنجہانی راجندر سچر پر لکھی گئی کتاب’ اِن پرسوٹ آف جسٹس- این آٹو بایوگرافی’ کے رسم اجراء کی تقریب میں کہا تھا کہ “آئین کے مطابق آرڈیننس اسی وقت جاری کیا جا سکتا ہے جب فوراً کسی قانون کو نافذ کرنے کی ضرورت ہو۔ جب اسمبلی کا سیشن نہیں چل رہا تھا، تب اسے فوراً جاری کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ بے شک کسی بھی صورت یہ (تبدیلی مذہب) آرڈیننس نہیں ٹِکے گا۔‘‘
عدلیہ کے علاوہ انتظامیہ کے بھی باشعور افراد اس جبرو استبداد کے خلا ف صدائے احتجاج بلند کرچکے ہیں ۔ مذکورہ آرڈیننس کے خلاف 104 معمر ترین سابق بیورکریٹس نےمرکزی حکومت کو خط لکھ کر اپنی ناراضی ظاہرکی ۔اس مکتوب میں تبدیلیٔ مذہب سے متعلق قانون سازی کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے جاری کیے گئے آرڈیننس کو فوری واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ۔ خط میں لکھا ہے کہ اس قانون سازی کے باعث اُتر پردیش نفرف انگیزی اور معاشرتی امتیازی سلوک کا مرکز بن گیا ہے۔ مذکورہ مکتوب میں یوپی کے مختلف شہروں میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے تفریق وامتیازاور قانون کے ذریعہ انہیں نشانہ بنانے کے متعدد واقعات کا حوالہ موجود ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں مراد آباد کے اندر بجرنگ دل نے ایک شخص پر ہندو لڑکی کی زبردستی مذہب تبدیل کروانے کا الزام لگایا ۔ اسی کے بعد دو نوجوانوں کو اس قانون کی آڑ میں ہندو انتہا پسند گروہوں کی جانب سے نشانہ بنایا گیالیکن عدالت میں انہیں منہ کی کھانی پڑی ۔ ان معمر ترین سرکاری افسران میں قومی سلامتی کے سابق مشیر شیوشنکر مینن، سابق سیکریٹری خارجہ نروپما راؤ اور وزیر اعظم کے سابق مشیر ٹی کے اے نائر بھی شامل ہیں۔ ان لوگوں نے یوپی میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتی ہوئی اشتعال انگیزی کی مذمت کی اور مستقبل سے متعلق گہری تشویش کا ا ظہار کیا۔
حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور ہریانہ سرکاروں کے ذریعے‘لو جہاد’ کے خلاف قانون کو شخصی آزادی میں دخل اندازی اور ملک میں فرقہ وارانہ کھائی کوگہراکرنے کی کوشش قرار دیا۔ اترپردیش ، مدھیہ پردیش، گجرات اور ہریانہ کے درمیان گھرے ہوئے راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت نے کہا کہ یہ اصطلاح بی جے پی نے ملک کوتقسیم کرنےاورفرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کے لیے گڑھی ہے۔ ان کے مطابق شادی شخصی آزادی کا معاملہ ہے جس پر لگام لگانے کے لیے قانون بنانا پوری طرح سے غیرآئینی ہے اور یہ کسی بھی عدالت میں ٹک نہیں پائےگا۔ عشق میں جہاد کا کوئی مقام نہیں ہے۔ اس قانون پر تنقید کرتے ہوئے گہلوت نے کہا کہ وہ ملک میں ایسا ماحول بنا رہے ہیں جہاں بالغوں کی آپسی رضامندی ،ریاستی سرکار ی رحم و کرم کے تابع ہوجائے۔ شادی جیسے ذاتی فیصلےپر لگام لگا نا شخصی آزادی چھیننے کے مترادف ہے۔یہ آرڈیننس سرکار کے ذریعہ شہریوں سے کسی بھی بنیاد پرامتیازی سلوک نہ کرنے کے آئینی اہتمام کی خلاف ورزی ہے۔
چھتیس گڑھ کےوزیرصحت ٹی ایس سنگھ دیو نے “لو جہاد” کوبی جے پی کے ذریعہ پروپگنڈے کی خاطر گڑھی جانے والی بےحد وحشیانہ اصطلاح قرار دیا۔ انہوں نے باہم رضامندی سے ہونے والی بین المذاہب شادی کے خلاف بے حیائی کے ساتھ قانون لانے کی کوشش کونفرت اور عدم رواداری کی انتہا بتایا۔ سنگھ دیو نے اس تعلق سے پنڈت نہرو کا تجزیہ یاد دلاتے ہوئے کہا کہ شادی ایک شخصی اور گھریلو معاملہ ہے، جو بنیادی طور پر اس میں شامل دونوں افراد اورجزوی طور پران کے خاندانوں سے وابستہ ہے ۔ انہوں نے اس مقدس ادارے کو کسی ایک فرقہ کے تئیں شدت پسندی اورنفرت سے جوڑنے کی مذمت کی ۔ سنگھ دیو نے ٹویٹ میں لکھا کہ سماجی اور آئینی طو رپر شادی ہمیشہ رضامند بالغوں کی اپنی پسند رہی ہے ۔ بی جے پی ملک کی سالمیت پر حملے کے لیے کیسی بھی کوشش کر لے ، ہمیں اپنے آئین اور اس عظیم ملک کی سالمیت کو بنائے رکھنے کے لیے مضبوطی سے کھڑا ہونا پڑے گا ۔ سنگھ دیو کی معقول باتوں کو وہی سمجھ سکتا ہے جو شادی کرکے اس رشتے کا تقدس بحال رکھتا ہو۔ یوگی جی نے تو شادی کی زحمت ہی نہیں کی اور مودی جی نے شادی کرکے منہ موڑ لیا۔ اس لیے انہیں کیا معلوم ازدواجی رشتہ کیا ہوتا ہے اور اسے کیسے نبھایا جاتا ہے؟
کیرلا میں ایل ڈی ایف کے کنوینر اورسی پی آئی رہنما اے وجئےراگھون کی نظر میں مجوزہ قانون بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے شدت پسند ہندوتوا وادیوں کے ذریعہ اٹھائے جانے والے لوجہاد کے وجود کا انکار کردیا ۔ان کے مطابق مجوزہ قانون صرف ہندوتوا کو فروغ دینے کی خاطر ایک مسلم مخالف ایجنڈہ ہے۔ ترنمول کانگریس کے صوبائی وزیر براتیا باسو کے مطابق عشق انفرادی ہوتا ہے۔ یہ دونوں ا لفاظ یعنی لو جہاد ایک ساتھ نہیں آ سکتے۔جھارکھنڈ میں ریاستی کانگریس کےصدر رامیشور ارانو نے سوال کیا کہ بی جے پی آخر کیا کرنا چاہ رہی ہے؟ اور پھر ازخود اپنے سوال کے جواب میں بولے عشق کسی مذہب کے مطابق نہیں ہوتا ہے…یہ آرڈیننس قانون کی کسوٹی پر پورا نہیں اترے گا۔ رانو کے خیال میں بی جے پی فرقہ وارایت پھیلا کر مذہب پر مبنی سیاست کرتی ہے۔ پنجاب کانگریس کے صدر سنیل جاکھڑ اس قدم پر تنقید کرتے ہوئےبولے، ‘کیا یہ سنگھی دور ہے؟ ہمیں ایک مہذب سماج کا رویہ اختیار کرتے ہوئے باشندوں کی ذاتی زندگیوں سے دور رہنا چاہیے۔ یہ پیچھے لے جانے والا قدم ہے۔ انہوں نے یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ جو لوگ آج اینٹی لو جہاد کا نعرہ لگار ہے ہیں کل اینٹی لو مہم شروع کردیں گے۔ دہلی کانگریسی ترجمان سپریہ شرینیت نے کہا کہ ، “اگر سرکاریں یہ فیصلہ لیں گی کہ ہمیں کیا کھانا چاہیے؟ کیسے سونا چاہیے؟ کس سے شادی کرنی چاہیےیا کس سے محبت کرنی چاہیے؟ تو بڑی مشکل کھڑی ہو جائےگی۔”
اس تنقید سے بے نیاز مرکزی وزیر گریراج سنگھ نے اس آرڈیننس کی حمایت میں کہا کہ یہ معاملہ ملک کی مختلف ریاستوں میں پریشانی کا سبب بنا ہوا ہے۔انہوں نے نتیش کمار سرکار سے گزارش کی کہ بہار میں بھی ایسا قانون بنائیں نیز کہا کہ لو جہاد اورآبادی پر قابو پانا فرقہ واریت نہیں بلکہ سماجی ہم آہنگی کے معاملات ہیں۔ وزیر موصوف نے لو جہاد کو نہ صرف ہندوؤں میں بلکہ سبھی غیر مسلموں میں پریشانی کے طور پر دیکھنے کا مشورہ دیا اورکیرلا کے عیسائیوں میں اس پرتشویش کا حوالہ دیا ۔ گری راج سنگھ نے اس پریشانی کو جڑ سے ختم کرنے کی خاطر لو جہاد کے خلاف بہار میں قانون سازی پر زور دیا۔ سوال یہ ہے کہ ملک کی ساری ریا ستوں کو قانون بنانے کا مشورہ دینے والے مرکزی وزیر ایوان پارلیمان میں قانون کیوں وضع نہیں کرتے ؟ اس لیے کہ انہیں ڈر ہے ایسا کرنے سے دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوگی اور کئی ریاستیں اس کو نافذ کرنے سے انکار کردیں گی ۔
بی جے پی کی اس گھٹیا سیاست بازی کے سبب ملک کی دنیا بھر میں جو ساکھ بنی تھی وہ مٹی میں مل گئی ہے ۔ ساؤتھ ایشیا اسٹیٹ آف مائنارٹی رپورٹ 2020 میں نئے شہریت سے متعلق قوانین کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ ہندوستان مسلمانوں کے لئے ایک انتہائی خطرناک ملک ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہری قوانین میں ترمیم کے ساتھ ہی ہندوستان مسلم اقلیتوں کے لئے ایک “خطرناک اور پُر تشدد مقام” بن چکا ہے۔رپورٹ کے مطابق 2014 سے بی جے پی کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد سے، مذہبی اقلیتوں پر حملے بڑھے ہیں اور ہندوستان میں مسلمانوں اور مسلم تنظیموں کے حقوق اور اظہار رائے پر اثر پڑا ہے۔ مئی 2019 میں بی جے پی زبردست اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپس لوٹی تو صورت حال مزید ابتر ہو گئی۔ اس نے فارین کنٹریبیوشن (ریگولیشن) ایکٹ جو ہندوستان کے اداروں کے لئے بیرونی عطیات پر نظر رکھتا ہے میں بھی تبدیلی کی تا کہ مسلمانوں کو پریشان کیا جاسکے ۔ اس کا دائرہ وسیع ہوا تو ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے ادارے کو اپنا کام کاج بند کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس کے سبب حقوق انسانی کے حوالے سے ساری دنیا میں بدنامی ہوئی لیکن اقتدار کی حرص وہوس میں اسے گوارہ کرلیا گیا ۔ یہ نیا قانون بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
مذکورہ بالا رپورٹ میں ہندوستان کے اندر مسلم اداکاروں، انسانی حقوق کے وکلاء، جہد کاروں، مظاہرین، ماہرین تعلیم، صحافیوں، دانشوروں اور جو بھی حکومت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں ان پر حملوں کی بابت تشویش کا اظہار کیا گیا ۔ انسانی حقوق کے کارکنان پر پابندی، تشدد، ہتک عزت کے معاملوں اور استحصال کی تفصیل پیش کی گئی ۔رپورٹ میں گزشتہ سال جموں و کشمیر میں مرکزی حکومت کے آئین کی دفعہ 370 کے تحت ریاست کو حاصل خصوصی درجہ کو منسوخ کر نے کے بعد وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بھی تذکرہ کیا گیا نیز اس پرگرفت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کشمیر کا معاملہ ظاہر کرتا ہے کہ باضابطہ جمہوری ڈھانچے کے اندر شہریوں کے حقوق کو کس طرح پامال کیا جا سکتا ہے۔شخصی آزادی پر لگائی جانے والی ان احمقانہ پابندیوں کے سبب عالمی موقر ادارہ فریڈم ہاؤس نے عدم رواداری ، صحافیوں، مظاہرین اور مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے سبب ہندوستان کو مکمل کے بجائے جزوی طور پر آزاد قرار دیا اور اس کی ریٹنگ کم کردی گئی۔ یعنی مودی جی نے گویا عوام کی نصف آزادی کو سلب کردیا۔
انا پرست مرکزی حکومت آج کل اس طرح کے سنگین الزامات کا جواب دینے کے بجائے انہیں ملک کو بدنام کرنے والی عالمی سازش کا حصہ قرار دے کر مسترد کردیتی ہے۔ حالانکہ سوچنے والی بات ہے کہ کل تک جو لوگ ہندوستان کی تعریف و توصیف کیا کرتے تھے آج آخر خلاف کیوں ہوگئے؟ جبکہ وزیر اعظم کو اندرون ملک سے زیادہ دلچسپی بیرونِ ملک دوروں میں ہے۔ وہ بڑے فخر سے اعلان کرتے ہیں کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک کا وقار بڑھا ہے اور ہندوستان بہت جلد “وشوگرو”(امامِ عالم) بننے جارہا ہے۔ اس طرح کے ظالمانہ قوانین وضع کرنے کے بعداب وزیر اعظم کے لیے بلند بانگ دعویٰ کرنا ممکن نہیں رہا ۔ نجی مگر آزاد تنظیموں کی رپورٹس کو تو خیر وزیر خارجہ اپنے گودی میڈیا کے سامنے ڈھٹائی سے مسترد کرسکتے ہیں لیکن امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے جو جائزہ پیش کیا اس کو سازش بتا کر جھٹلا دینا دراصل خارجہ پالیسی کی کھلی ہوئی ناکامی قرار پائے گا۔ وہ اگر اپنی صوبائی حکومتوں کو ایسے قوانین وضع کرنے سے روک پاتے تو عالمی سطح پر یہ رسوائی ہاتھ نہ آتی۔
امریکہ کی سرکاری رپورٹ میں ہندوستان کے اندر مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے تئیں تشویش کا اظہار معمولی بدنامی نہیں ہے ۔ موجودہ عالمی تناظر میں چین کے خلاف ہندوستان امریکہ کا حلیف بنا ہوا ہے اس کے باوجود امریکی سرکاری جائزے میں تنقید پانی کے سر سے اونچا ہونے کا اظہار ہے۔ رپورٹ میں صاف درج ہے کہ فی الحال انسانی حقوق کے مسائل کی سنگینی غیرمعمولی حد تک بڑھ گئی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ دیگر اقلیتوں پر بھی سرکاری حکام اور پولیس کی جانب سے ظلم و زیادتی کی جارہی ہیں۔ ان کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پولیس ماورائے عدالت کارروائی کرتے ہوئے بے قصور اقلیتوں کو ہلاک کررہی ہے۔ اندھادھند گرفتاریاں کی جارہی ہیں۔ اظہارخیال کی آزادی پر پابندی عائد کرتے ہوئے لوگوں کو جیل میں ڈالا جارہا ہے۔ صحافت کا گلا گھوٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ خواتین، مذہب کی بنیاد پر اور سماجی رتبے کے حامل افراد کے بشمول اقلیتی گروپ کے ارکان پرتشدد کے کوڑے برسائے جارہے ہیں ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ نے انسانی حقوق سے متعلق سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا کہ ہندوستان میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے گروپوں کو سب سے زیادہ خطرات کا سامنا ہے۔
تبدیلیٔ مذہب کے انسداد کا قانون اترپردیش سے قبل آٹھ ریاستوں میں موجودتھا ۔ ایم پی اور اڑیسہ میں اسے 1968میں وضع کیا گیا تھا۔ یوپی میں اس کے اندر “لو جہاد ” کا زاویہ شامل کیا گیا اور پھر دیگر صوبوں نے اپنے پرانے قوانین میں ترمیم کرکے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانا شروع کردیا۔ اس سے قبل یہ قانون عیسائی مشنری کے خلاف ایک حربہ سمجھا جاتا تھا اب اس میں سختی پیدا کرکے اسے مسلمانوں کی طرف موڑ دیا گیاحالانکہ پہلے اس کی وضاحت میں شادی کا ذکر نہیں تھا۔ یوگی جی نے چونکہ شادی کی نہیں اس لیے وہ نہیں جانتے کہ شادی کرنے کے لیے توتبدیلی مذہب کا امکان ہے لیکن شادی کے ذریعےمذہب کی تبدیلی ممکن نہیں ہے کیونکہ عقل و شعور کے ساتھ انسان نیا دین اختیار کرتا ہے۔ ہندو احیاء پرستوں کو اگر لگتا ہے کہ کسی کو ورغلایا گیا ہے تو وہ اسے سمجھا دیں لیکن ایسا کرنا ان کے بس کی بات نہیں اس لیے وہ ڈنڈے کا زور استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ آئین ہند کی شق 25 میں جہاں ایک بار مذہب کو بدلنے کی آزادی موجود ہے وہیں دوبارہ رجوع کرنے پر پابندی نہیں ہے۔
اترپردیش کے حالیہ قانون کو غور سے دیکھا جائے تو اس پر غصے کے ساتھ ہنسی بھی آتی ہے۔ اس کی دفعہ2(ایف)میں مذہب کی اجتماعی تبدیلی کو زیادہ سنگین بتایا گیا ہے حالانکہ ہر خیر کا کام مثلاً اجتماعی شادی کے اہتمام کو ہمیشہ ہی قابلِ قدر سمجھا گیا ہے اور اس کی فخریہ تشہیر بھی کی جاتی ہے۔ اس قانون کی دفعہ2(آئی)کے ذریعے داعیان کو گھیرنے کی کوشش کی گئی حالانکہ تبلیغ کا حق دنیا کا کوئی دستور سلب نہیں کرسکتا اور اگر کرے بھی تو داعیانِ حق اس کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ویسے کئی لوگ دین کا مطالعہ کرکے کسی کی مدد کے بغیر بھی اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہہ کر مذہب تبدیل کرلیتے ہیں۔ اس قانون کے ذریعہ تبدیلی مذہب کے لیےراغب کرنے کو سازش کہہ کر دعوت دین کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔یہاں پر دفعہ12 کے مطابق اگر کسی پر جبری مذہب تبدیل کروانے کا الزام لگا دیا جائے تو اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس نے ایسا نہیں کیا ۔ ایسی صورت میں اگر مذہب قبول کرنے والا یہ گواہی دے کہ اس نے برضا و رغبت نیا دین قبول کیا ہے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی ۔
اس طرح کے مصنوعی طریقوں سے جو اپنے مذہب کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں وہ دراصل احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ۔ یہ منفی کوشش نہ تو ماضی میں کارگر ہوئی ہے اور نہ مستقبل میں کامیاب ہوگی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس قانون میں پرانے مذہب کی جانب رجعت کو مکمل استثناء دیا گیا ہے یعنی انہیں یقین ہے کہ دیگر مذہب سے کوئی ہندو مت قبول نہیں کرے گا ۔ دفعہ 5 (2) میں ‘تبدیلی مذہب کے متاثرہ’ کو پانچ لاکھ روپے تک معاوضہ دینے کی بات تو سراسر سرکاری لالچ ہے اور اس کے سبب حریص لوگ یہ رقم وصول کرنے کے لیے تبدیلیٔ مذہب کا ناٹک بھی کرسکتے ہیں ۔ دفعہ 4 کی روُ سے تبدیلیٔ مذہب کی شکایت کرنے والوں کا دائرہ بہت وسیع کرکے مذہب قبول کرنے والے کو بلیک میلنگ کے ممکنہ خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دفعہ 8 (3) ڈی ایم کے ذریعہ پولیس انکوائری بدعنوانی کا دروازہ کھولتی ہے۔ حلف نامہ کو مشتہر کرکے اعتراض کی دعوت دینا بھی حکومت کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے ۔
یہ آرڈننس ہنوز عدالت کی توثیق کا منتظر ہے لیکن اس کی فتنہ سامانی اپنے بال و پر نکالنے لگی ہے۔ ۱۹؍ مارچ کو جھانسی اسٹیشن پر ہونے والا شرمناک واقعہ اس منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس روز دو نوجوان خواتین کے ساتھ دہلی سے اڈیشہ جا نے والی دو راہبات کو اے بی وی پی کے کارکنان نے جھوٹی شکایت کرکے ٹرین سے اتروادیا۔ راہبات پران خواتین کو تبدیلیٔ مذہب کی خاطر لے جانے کا الزام لگایا گیا جبکہ وہ پیدائشی عیسائی تھیں اور اپنے مذہب کی تعلیم لینے کے لیے دہلی آئی تھیں ۔ وائرل ویڈیو کے مطابق ان غنڈوں نے نوعمر خواتین کے شناختی کارڈ دیکھے اوران کے مذہب سے متعلق جارحانہ انداز میں استفسار کیا۔ حد تو یہ ہے کہ ان غنڈوں کو جیل میں ڈالنے کے بجائے پولس چاروں خواتین کو اپنے ساتھ لے گئی۔بشپ ہاؤس کی مداخلت کے بعد اگلے دن انہیں دوبارہ سفر کرنے کی اجازت ملی۔ اس دوران ان خواتین کو تنہا مردوں اور مرد پولیس والوں کا سامنا کرنا پڑا ۔
اس نہایت شرمناک واقعہ کی چہار جانب سے مذمت کی گئی۔ کیرالا کیتھولک بشپس کانفرنس (کے بی سی) نے اسے راہبات کی تذلیل قرار دے کرانہیں ہراساں کرنے والوں کے خلاف مناسب کارروائی کا مطالبہ کیا۔ وہ راہبات چونکہ کیرالا کی رہنے والی تھیں اس لیے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین نے وزیر داخلہ امیت شاہ کو خط لکھ کر ان سے مداخلت کا مطالبہ کیا۔ وزیر داخلہ نے اس معاملے میں مداخلت کا وعدہ بھی کیا لیکن جھانسی کی پولس افسر کے مطابق شکایت کنندگان اور پولس کا رویہ حق بجانب تھا ۔ اس طرح کی بدمعاشیوں میں اضافے کی وجہ یہ ہے کہ فرقہ پرست غنڈوں پر انتظامیہ کارروائی نہیں کرتا اور سیاسی رہنما اس کی پذیرائی کرتے ہیں ۔ بظاہر بہادر نظر آنے والے ہندو فرقہ پرست اس قدر خوفزدہ ہیں کہ وہ دو راہباوں کے ذریعہ اپنے مذہب کی تبلیغ کے خطرے سے بھی ڈر جاتے ہیں اور انہیں ڈرانے دھمکانے لگتے ہیں ۔ ان کے اندر جرأت اور حوصلہ نہیں ہے کہ خود اپنے ہم مذہب کو سمجھا بجھا کر تبدیلیٔ مذہب سے روکیں ۔ دوسروں کو اپنے مذہب میں لانے کی بات تو خیر وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہندو فسطائیوں کا یہ جبرواستبداد دراصل ان کے اندر موجود عدم اعتماد کی علامت ہے ۔ سیاسی مفاد کے علاوہ ان کا عدم تحفظ بھی عدم رواداری کی ایک اہم وجہ بنا ہے۔ باہمی رواداری کے لیے جو خود اعتمادی درکار ہے اس کا ان فسطائیوں کے اندر شدید فقدان پایا جاتا ہے اس لیے پانچ منٹ کی گفتگو کے بعد یہ گالی گلوچ اور دس منٹ کے اندر ہاتھا پائی پر اتر آتے ہیں اس لیے کہ ان کے پاس دلائل نہیں ہوتے۔یہی چیز ان کو ایسے او ٹ پٹانگ قوانین کو وضع کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ خیر وہ اپنا کام کرتے ہیں اور ہم اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہیں اور کامیابی و ناکامی کا فیصلہ تو احکم الحاکمین کے ہاتھ میں ہے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں