(حالیہ دنوں میں ملک کی کئی ریاستوں میں تبدیلی مذہب کے متعلق ایسے قوانین منظور کئے گئے ہیں جو ضمیر کی آزادی سمیت فرد کے بنیادی حقوق پر قدغن لگانے والے ہیں۔ اس موضوع کو مختلف پہلوؤں کے ساتھ سمجھنے کے لئے ادارہ رفیق منزل نے ایس آئی آف انڈیا کے نیشنل سیکریٹری برادر فواز شاہین سے خاص گفتگو کی۔افادہ عام کی خاطر گفتگو کا خلاصہ یہاں پیش کیا جارہا ہے۔)
سب سے پہلے ہم آپ سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ” لو جہاد” اس اصطلاح کی حقیقت کیا ہے؟ آپ کی رائے میں ملک میں “لوجہاد”کے نام پر جس قسم کا ماحول بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اس کی اصل غرض و غایت کیا ہے؟
“لو جہاد” یہ اصطلاح سرے سے کسی حقیقت کی ترجمانی نہیں کرتی بلکہ یہ ایک پرانا فسانہ ہے جو ہندوتوا گروپ کی طرف سے بنایا گیا ہے۔ ایک لمبے عرصے سے یہ پروپگینڈا کیا جارہا ہے کہ مسلمان چار چارشادیاں کرتے ہیں،زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں تاکہ اپنی آبادی بڑھا کر وہ ہندوستان پر قبضہ کرسکیں۔”لوجہاد” کے نام پر چلائی جارہی مہم اسی پروپیگنڈا کا تسلسل ہے جس میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ مسلمان ،ہندو عورتوں سے بھی شادی کر کے ان کا مذہب تبدیل کروانا چاہتے ہیں۔
کچھ ریاستوں مثلاً کیرالا، مدھیہ پردیش، اتر پردیش وغیرہ میں جب تبدیلی مذہب کے معاملات بڑھنے لگے تو نتیجتاً لوگوں میں اضطراب بڑھا اور اس طرح کی افواہیں اور کہانیاں پھیلائی گئی کہ مسلمان لو جہاد کرتے ہیں۔ جبکہ اس بات کا کوئی خاص ڈیٹا موجود نہیں ہے جو شادی کے لیے اسلام قبول کرنے والی لڑکیوں کی تعداد کو ظاہر کرتا ہو۔
دنیا کے دوسرے ملکوں مثلاً امریکہ،سویڈن، ہنگری،سوئٹزر لینڈ وغیرہ میں بھی اکثریت کے ایک گروہ کی جانب سے اقلیتی گروہ کو نشانہ بنانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔اقلیت کو ایک خاص نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔بطور خاص یہ بات پھیلائی جاتی ہے کہ فلاں طبقہ تعداد میں کم ہے اور اپنی تعداد بڑھانے کے لئے زیادہ بچے پیدا کررہا ہے۔ امریکہ میں سیاہ فام لوگوں کے متعلق یہی بات دہرائی جاتی ہے۔اس طرح کی باتوں سے عام اکثریت کے ذہنوں میں خدشات کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اکثریت میں ہونے کے باوجود بھی اکثریت اس احساس عدم تحفظ کا شکار کیوں ہونے لگتی ہے؟
اس کےپس پشت چند تاریخی وجوہات کار فرما ہیں۔ جیسے کہ موجودہ حالات کو 1930 کی دہائی کے حالات کے مماثل قرار دیا جاتا ہے جب جرمنی اور اٹلی شدید معاشی بحران کا شکارتھااور فاشزم کی شروعات ہوئی۔پچھلے بیس سالوں میں امیروں اور غریبوں کے درمیان ویلتھ گیپ کا بڑھنا شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا ہے۔جس کی وجہ سے معاشی مسائل بڑھ رہے ہیں اور معیار زندگی گھٹتا جا رہا ہے۔چونکہ معاشی مسائل کا تصفیہ آسان نہیں ہوتا اس لئے جب بھی اس طرح کے حالات پیدا ہوتے ہیں تب سیاسی گروہ ،لوگوں میں پائے جانے والے معاشی عدم تحفظ کے احساسات کو channelize کرنے کے لئے کچھ حربے استعمال کرتا ہےمثلاً یہ حربہ کہ پہلے افراد کا معیار زندگی بہتر تھا لیکن اب ایک خاص گروہ اپنی تعداد بڑھا کر وسائل پر قبضہ کررہا ہے جس کے نتیجے میں معیار زندگی گررہاہے۔
لیکن ملک عزیز میں اس کا ایک خاص تناظر موجود ہے جسے آر ایس ایس کی جانب سے بڑھایا گیا۔ وہ یہ ہے کہ ہندوؤں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی جارہی ہے کہ وہ پچھلے ڈیڑھ ہزار سال سے اپنے ہی ملک میں غلام رہے۔ ایک ہزار سال پہلے مسلمان یہاں آئے، جبکہ اس سے پہلے کادور سنہری تھا ۔پھر انگریزوں نے ملک پر قبضہ کیا۔ بعد ازاں مسلمانوں نے ملک کا بٹوارا کروایا اور جو حصہ ہمیں دیا گیا اسے لبرل، نیشنلسٹ اور سیکولر تسلیم کرلیا گیا۔اس طرح ہندو عوام کے ذہنوں میں اس خیال کو فروغ دیا جاتا ہے کہ تم سے تمہاری زمین، تمہاری حکومت چھین لی گئی ہےاور اب تمہیں اپنی حکومت کی بازیافت کرنی ہے۔اس نظریہ کی ترویج کے لئے ایک محرک کی ضرورت تھی کیونکہ جب تک ڈر یا خوف ہی نہ ہو تحریک کہاں سے ملے گی؟ اسی لیے لو جہاد جیسے اشوز کوموضوع بحث بنایا جانے لگتا ہے۔ مزید یہ کہ ملک کے معاشی حالات نے اس نظریہ کواور جلا بخشی ہے۔
پچھلے کچھ عرصے سے” جہاد” اس اصطلاح کے خلاف عالمی سطح پر زبردست منفی پروپیگنڈا کیا گیا ہے۔”لوجہاد” کے پروپگینڈے کے ذریعے بھی “جہاد” جو کہ اسلامی فریضہ ہے ،کو بدنام کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔سوال یہ ہے کہ “جہاد” کے معنی و مفہوم کو آسان الفاظ میں کسی غیر مسلم کو کیسے سمجھا یا جائے؟
جہاد ایک سنگھرش ہے جو نا انصافی کے خلاف حق کی آواز بلند کرنے کے لیے کیا جاتا ہے،جو کہ فرض ہے۔لیکن پچھلے اٹھارہ بیس سالوں میں جہاد کے نام پر اسلام کو بدنام کرنے کی جو کوششیں کی گئی ،اس صورتحال میں جہاد کا دفاع کرنے والے لوگ دو قسم کی انتہاءپسندی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پہلی انتہا یہ ہےہر(اچھے کام )کو جہادقرار دیا جائے مثلاً کسی کو دیکھ کر مسکرا دینا یا روزانہ نہانا وغیرہ۔ دوسری انتہا یہ کہ صرف قتال کے ذریعے سے بات منوانے کو ہی جہاد قرار دیا گیا۔جبکہ جہاد اصلاً ناانصافی کے خلاف اٹھنے اور انصاف فراہم کرنے کے لئے کی جانے والی جدوجہد کا نام ہے جو کہ ایک مسلمان کا فریضہ ہے اور ایک مسلمان ظلم کو دیکھ خاموش نہیں رہ سکتا۔
لیکن ہمارے پاس ہندوستان میں حکومت کا باقاعدہ ایک نظام ہے۔ ہم بطور شہری اس معاہدے کا حصہ ہیں اور اس کے پابند ہیں۔ اس لئے اس صورتحال میں ہم پر تشدد ہو کر جدوجہد نہیں کر سکتے بلکہ شہری ہونے کی حیثیت سے ہمارے پاس جو مواقع موجود ہیں اس دائرہ میں رہ کر ہمیں کام انجام دینا ہے۔
آپ نے کہا کہ لو جہادکو ثابت کرنے والا کئی ڈیٹا حقیقت میں موجود نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ملک کی مختلف ریاستوں میں اس سے متعلق قوانین بنالئے گئے ہیں۔ ان پر آپ کا تبصرہ کیا ہے؟
حکومت کو جب کوئی سماجی ایجنڈا آگے بڑھانا ہوتا ہے تو وہ اس سے متعلق قانون بناتی ہے۔ مثال کے طور پر تین طلاق کے قانون کی آڑ میں یہ کہا گیا کہ یہ عورتوں کو ظلم سے بچانے کے لیے ہے،جب کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ اور اب لو جہادکے نام پر تبدیلی مذہب کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کے لیے اس قانون کو منظوری دی جا رہی ہے جو آر ایس ایس کا بہت پرانا مقصد تھا۔اس قانون کی رو سے دو مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ازدواجی تعلقات قائم نہیں ہوں گے یہ تو مختلف چیز ہے لیکن اگر کوئی مذہب تبدیل کرنا چاہتا ہے تو اسے ایک طویل کارروائی سے گزرنا پڑے گا۔یہ لوگ دراصل اپنی تعداد کو لے کر متفکر ہیں۔ یہ لوگوں کے ضمیر کی آواز کو دبانا چاہتے ہیں جس کے ذریعےوہ اپنے مذہب کو تبدیل نہ کریں اور ان کی تعداد متاثر نہ ہو۔ اس کے علاوہ یہ لوگ خود اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ وہ عورتوں اور نچلے طبقے کے لوگوں کے ساتھ ظلم کرتے ہیں جس کی بناء پر عین ممکن ہے کہ ان لوگوں کا رجحان دوسرے مذہب کی طرف بڑھے۔ یہ نچلے طبقے کے لوگوں اور عورتوں کو مکمل طور پر انسان نہیں سمجھتے اور یہ ذہنیت رکھتے ہیں کہ یہ لوگ کسی بھی بہکاوے میں آسکتے ہیں ۔اس نفسیات کے ماتحت اس طرح کے قانون بنائے جارہے ہیں۔
اس قسم کے قوانین سماجی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر کس طرح اثرانداز ہوسکتے ہیں ؟
اثرات تو پہلے سے ہی ہورہے ہیں، ایک تو یہ کہ ہمارا آئین اس بات کی آزادی دیتا ہے کہ ہم اپنے ضمیر کی سنیں اور جو بہتر لگے وہ کریں، لیکن اس طرح کے قوانین کے سبب فرد کی شخصی آزادی بُری طرح سےمتاثر ہو رہی ہے۔ بعدازاں سماج پر بھی اس کے اثرات بہت تیزی سے مرتب ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ قانون بعد میں ہے، پہلے یہ ایک اصطلاح ہے جسےاکثریتی طبقے کے مابین عام کرکے ان کے دلوں میں خوف و اضطراب پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ان کے دلوں میں اس بات کا ڈر پیدا کیا جا رہا ہے کہ تبدیلی مذہب کے ذریعے آئے دن اقلیتی طبقہ کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور رفتہ رفتہ اکثریتی طبقہ اپنا مقام کھوتا جارہا ہے ،یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا تو ایک دن اقلیت اکثریت پر مسلط ہوجائے گی۔ اس طرح کی باتوں کو عام کرنے اور لوگوں کے ذہن بنانے کے نتیجے میں ہوتا یہ ہے کہ جو افراد اس طرح کی اصطلاحات کو نظریاتی طور پر نہیں مانتے، وہ بھی کسی نا کسی درجے میں اس پروپگینڈے سے متاثر ہونے لگتے ہیں۔ لوگوں میں تعصب پیدا ہوجاتا ہے، بالخصوص کسی خاص مذہب یا خاص طبقہ کے لوگوں کے ساتھ تعلق استوار کرنے سے وہ احترازبرتتے ہیں اور ان سے سماجی سطح پر دور ہونے لگتے ہیں۔
اس قسم کے قوانین کا بالخصوص مسلمانوں کی نفسیات پر کیا اثر ہوگا ؟
ظاہر ہے کہ گذشتہ چند برسوں سے بالخصوص مسلمانوں کو کسی نہ کسی معاملے میں نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان میں خوف پیدا کرنے کی کوششیں مستقل جاری ہیں۔ ایسے میں اس طرح کے قوانین کی وجہ سے مسلمانوں میں خوف مزید بڑھنے لگے گا۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ خوف کے ماحول میں جینے کی عادت ڈال لی جائے یا کوئی لائحہ عمل نہ طئے کیا جائے۔ کیونکہ محض خوف میں زندگی گزار دینا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ملت اسلامیہ ہند کو محض سیاست اور دیگر چھوٹے موٹے معامالت میں الجھ کر نہیں رہ جانا چاہیے بلکہ اس سے اوپر اٹھ کر ایک مضبوط لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔ واقعی کچھ ایسے حالات ہیں جن سے متعدد بار خوف کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے لیکن اس وقت احتیاط برتنے اور سوچ سمجھ کر اقدامات کرنےکی ضرورت ہے۔
کیا کسی فرد کا اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرنا یادوسروں کو اپنے مذہب کی دعوت دینا کوئی منفی رویہ ہے ؟
جہاں تک رویوں کی بات ہے تو انسان فطری طور پر آزاد ہے اور اللہ نے ہر انسان کو فطری طور پر آزاد ہی پیدا کیا ہے۔ انسان پڑھتا لکھتا ہے، سوچتا اور پھر ازخود کسی نتیجے پر پہنچتا ہے یہ ایک فطری عمل ہے۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کوئی فرد ایک چیز کو اپنے لئے بہتر سمجھتا ہے تو وہ یہ بات دوسروں تک پہنچاتا ہے،یہ بھی انسانی فطرت کا حصہ ہے۔یعنی انسان اپنے مذہب کو بہتر سمجھتا ہے تو وہ اپنے مذہب کی باتیں دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ تبدیلی مذہب کی اصطلاح جو ان دنوں موضوع بحث بنی ہوئی ہے، ایک قدیم اصطلاح ہے جو یورپ و افریقہ سے ہندوستان آئے عیسائیوں کے ذریعے سے منظر عام پر آئی۔ عیسائی پیشوا باقاعدہ دیگرمذاہب والے افراد کی فہرست بناتے اور انہیں چرچ سے جوڑنے کا کام کرتے تھے۔ لیکن اسلام کا تصور تبلیغ مختلف ہے ۔اسلام دعوت و تبلیغ کے ذریعے عام کیا جاتا ہے، اسلام فطری طرز عمل اختیار کرتا ہے اور جس چیز میں انسان کےلئے نجات ہےاس بات کو پیش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اسلام کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ایک شخص کا نام کیا ہے ؟ یا اس کی شناخت کیا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ۔ البتہ کوئی فرد اگر دل سے ایک اللہ پر، اس کے رسول اور اس کی کتاب پر ایمان رکھتا ہے تو وہ مسلمان کہلائے گا۔ اس کے بر خلاف اگر کوئی فرد کسی قسم کے دباؤ میں آکر یا کسی خوف میں مبتلا ہوکر مذہب تبدیل کرتا ہے تو اسے قبولِ اسلام تصور ہی نہیں کیا جائے گا۔
کیا اس قسم کے قوانین کے سبب دعوت دین کا کام مزید مشکل ہوجائے گا ؟
مشکل تو ہوگا، چونکہ اس قانون کے تحت ہمارا محض اپنی بات رکھنا ہی غیر قانونی قرار دے دیا جائے گا، مذہب تبدیل کرنا یا کرانا تو بہت دور کی بات ہے۔ لیکن فی الحال یہ قانون مکمل طور پر تو لاگو نہیں ہوا ہے، اس کی کئی دفعات آئین سے راست طور پر ٹکراتی ہیں اس لئے اس کا قانونی شکل اختیار کر جانا مشکل ہے۔ لیکن اگر اس طرح کے قوانین لاگو ہوجاتے ہیں جس سے دعوت و تبلیغ کے کاموں میں مزید دشواریاں آئیں گی تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس مشکل صورتحال میں ہم کس طرح دعوت دین کے لئے راستے نکال پاتے ہیں۔
اس پورے منظر نامے میں امت مسلمہ کو اپنے طور پر کیا کام انجام دینے چاہئیں ؟ اس کے علاوہ دستوری اقدار کی حفاظت کے خاہشمند افراد کی پالیسی کیا ہونی چاہئے؟
سب سے پہلے تو امت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے ہم ایک نظریاتی امت ہیں ۔ اسلام صرف مروجہ معنوں میں کوئی مذہب نہیں ہے بلکہ ایک نظریہ ہے۔ ہمیں تبدیلی مذہب کے متعلق اسلامی نظریہ کی وضاحت کرنی چاہئے کہ یہ کیسے ملک میں اس حوالے سے بنائے جارہے پروپگنڈے سے مختلف ہے۔ اس بات کو واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم فرد کی دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی چاہتے ہیں جو اسی صورت ممکن ہے جب انسان اپنی فطرت کو پہچانے اور اس کے مطابق زندگی کو بسر کرے۔ یہی ہمارا اصل منشا ہے۔ قانونی سطح پر بھی اس قانون کے خلاف لڑائی ہونی چاہئے جو کہ چند لوگوں کی جانب سے شروع کی جاچکی ہے۔ملک کے دیگر انصاف پسند حضرات سے مستقل رابطہ قائم کرکے اس طرح کے قوانین کے خلاف محاذ تیار کرنا چاہئے۔ یہ صرف مسلم مخالف قانون نہیں ہے بلکہ ہر طرح سےایک اکثریت پسند قانون ہے جو ہندو عوام میں ایک خاص سوچ کو پروان چڑھانے کے لئے بنایا گیا ہے جو کہ اکثریت پسند سماج بنانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔صرف مسلمان اور عیسائی ہی اس قانون کی زد میں نہیں آئیں گے بلکہ درج فہرست ذاتوں اور قبائل کو بھی یہ قانون کمتر درجے میں دیکھتا ہے۔ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ اس قانون کے ان تمام پہلوؤں کو بھی اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔عوام میں اس بات کا شعور پیدا کرنا چاہئے کہ مذکورہ قوانین محض کسی مخصوص مذہب یا طبقے کے لوگوں کےلوگوں کے لئے نقصان دہ نہیں ہے بلکہ اس کے مضر اثرات دیگر طبقات پر بھی پڑیں گے۔