تاریخ ہند: رائٹ اور لیفٹ کے نرغے میں

ایڈمن

سعود فیروز                     تاریخ نویسی انسانی علم وفن کے قدیم ترین شعبوں میں سے ایک ہے۔انسانی شعور کے ابتدائی ایام سے ہی زندگی کے اہم واقعات و حادثات کو دستیاب وسائل کی مدد سے محفوظ کیا جاتا رہا ہے۔نہ صرف…

سعود فیروز        

            تاریخ نویسی انسانی علم وفن کے قدیم ترین شعبوں میں سے ایک ہے۔انسانی شعور کے ابتدائی ایام سے ہی زندگی کے اہم واقعات و حادثات کو دستیاب وسائل کی مدد سے محفوظ کیا جاتا رہا ہے۔نہ صرف محفوظ کیا جاتارہا بلکہ ان کی روشنی میں زندگی کی سچائیوں کو تلاش کرنے کی کوشش بھی جاری رہی۔البتہ تاریخ کیا ہے، تاریخ نویسی کیا ہے؟ تاریخ کے مطالعہ کی غرض کیا ہے،تاریخ نویسی کا مقصد کیا ہے؟ تاریخ نویسی کا مقصد ہونابھی چاہیے یا نہیں،یہ چند ایسے سوالات ہیں جوہمیشہ کسی معمہ سے کم نہیں رہے۔انسان کی معلوم دانشوارانہ تاریخ میں ان امور پر کبھی اتفاق رائے نہیں رہا۔ابن خلدون سے لے کر ہیگل اور پروفیسرٹوائن بی تک مختلف فلسفیوں اور تاریخ دانوں نے آزادانہ طور پر بھی اور اپنے مخصوص افکار و نظریات کی روشنی میں بھی ان سوالات کا جواب تلاش کرنے سعی کی ہے۔اس کوشش کے نتیجے میں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ تاریخ نویسی کے کم از کم درجن بھر مکاتب فکر وجود میں آچکے ہیں۔ان غیر معمولی عدم اتفاقات کے باجود کم از کم اس امرمیں غیر علانیہ ہی سہی،اکثرتاریخ نویسوں میں بشمول بعض مسلم مؤرخین،یہ اشتراک پایاگیا ہے کہ انہوں نے تاریخ کی اپنے فکر ونظر کے تقاضوں کے تحت تعبیر کی اور ان تعبیروں کے ذریعے اپنے فکر و نظر کی تبلیغ و اشاعت کا’فریضہ‘ انجام دیا۔

            تاریخ نویسی کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ماضی کے اہم حادثات و واقعات کی ایمان دارانہ تعبیر و تشریح اور ان کے صحیح اسباب و علل کی تشخیص کرکے انہیں نسل نو تک منتقل کرنے کا نام ہے۔یہ انتہائی نازک اور ذمہ دارانہ عمل ہے جو صحیح طور پر اسی وقت انجام پاسکتا ہے جب کہ تاریخ نویسی برائے تاریخ نویسی ہی مورخین کے پیش نظر ہو۔ لیکن عملا ایسا ہوا نہیں ہے۔ انسان کی معلوم تاریخ میں اکثرتاریخ نویسی سے فروغ نظریات کی خدمت لی جاتی رہی ہے۔پھر تاریخ چوں کہ سیاسی و تہذیبی اعتبار سے غالب اور حکمراں طبقے نے بھی لکھی یا ’لکھوائی‘ ہے اس لیے یہ جانب داری اور چھیڑ چھاڑ سے پاک نہیں رہ سکی۔ نتیجہ یہ ہے کہ تاریخ مجموعہ تضادات کی شکل میں ایک افسانوی ادب بن کر رہ گئی۔ تاریخ کی مثال اب ایک ایسے کباڑ خانے کی ہو گئی ہے جس میں ہر نظریہ کا پرچارَک اپنے اپنے نظریہ کے حسب حال ’حقائق‘ در آمد کر سکتا ہے۔

             اقوام عالم میں مسلمان ہی وہ قوم ہیں جو اپنے پیچھے ایک عظیم الشان تاریخی ورثہ رکھتے ہیں۔ خودہندوستان میں بھی مسلمانوں کی شاندار تاریخ موجود رہی ہے۔یہاں مسلم امراء و سلاطین اور علماء و صوفیاء کی ایک دلکش گلیکسی صدیوں سے موجود رہی ہے جس نے اپنے سیاسی انتظام و انصرام کی مہارت اور علم و حکمت کی روشنی سے ایک زمانے کو فیض یاب کیا ہے۔تاہم مختلف اقوام اور مذہبی گروہوں کی تاریخ کاتقابلی مطالعہ بتاتا ہے کہ عالمی و قومی سطح پر سب سے منصوبہ بند چھیڑ چھاڑ(distortion)بھی مسلمانوں کی تاریخ کے ساتھ ہی کی گئی ہے۔

            سیموئل جانسن نے 1775میں یہ بات نہ جانے کس تناظر میں کہی تھی کہ ”قوم پرستی ’بدمعاش سیاست دانوں‘ کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے۔“ بات اگر ہندوستان جیسے ملک کی کی جائے جو ایک متنوع اور تکثیری سماج رکھتا ہے، تو صحیح بات یہ ہوگی کہ ’بدمعاش دانشور نما سیاست دانوں‘کی اصل پناہ گاہ ’تاریخ‘ ہوتی ہے اور ’تاریخ میں تحریف‘ان کا سب سے کارگر ہتھیارہوتا ہے۔ جس طرح سماج میں ایک فرد کو بدنام کرنے کے لیے اس کے معاندین اس کے اخلاق و کردار پر گھناؤنے الزامات لگاکر اسے isolateکرنے کی کوشش کرتے ہیں، ٹھیک اسی طرح ہندوستان میں ملت اسلامیہ کو ’غیر‘ ثابت کرنے  (otherization) کے لیے مسلمانوں کی تاریخ کو مشتبہ کرنے اور مسخ کرنے کا کام ادارہ جاتی سطح پر کیا جاتا رہا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کرنے کے اس ’کار خیر‘ کی راہ انگریزوں نے سجھائی تھی جس پرہندو انتہاپسندانہ تحریکوں نے لبیک کہا، ان کے شانہ بہ شانہ مارکس وادی نظریہ کے علم برداروں نے بھی اس کام میں دانشورانہ جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا۔

            اٹھارویں صدی کے نصف آخر سے لے کر بیسویں صدی کے نصف اول تک کا زمانہ یورپ(بطور خاص فرانس، برطانیہ،جرمنی،اٹلی،اسپین) کے خوں ریزاستعماری تسلط کا زمانہ رہا ہے۔1858سے 1947تک ہندوستان بھی برطانیہ کا غلام رہا۔عالمی سطح پریورپ کے استعماری اقدامات کی راہ میں اسلام نظریاتی بنیادوں پر حائل ہوسکتا تھا۔اس لئے اسلام کی کردار کشی یوروپ کے استعماری عزائم کی ضرورت تھی۔ ہندوستان میں بھی برطانوی تسلط اسی صورت میں قائم رہ سکتا تھاجب کہ ہندو-مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کردیا جائے۔ الغرض یہ ہندوستان میں برطانوی سیاست کا تقاضہ تھا کہ یہاں کی ایک قوم کو دوسری کے خلاف ورغلایا جائے۔اس کوشش سے نہ صرف یہ کہ خاطر خواہ مقاصد حاصل ہوسکتے تھے بلکہ ان مقاصد کے حصول کے لیے ہونے والے تشدد اور خوں ریزی کی وجہ سے یوروپ کے خلاف اٹھنے والی صدائے احتجاج کو آسانی سے اسلام کی طرف موڑا جا سکتا تھا۔چنانچہ عالمی اور قومی سطح پر ان مقاصد کو بروئے کار لانے کے لئے ’تاریخ کے ہتھیار‘ کا بھر پور استعمال کیا گیا۔ سیدابوالاعلی مودودیؒ اس حوالے سے لکھتے ہیں؛ ”دور جدید میں یورپ نے اپنی سیاسی اغراض کے لیے اسلام پر جو بہتان تراشے ہیں ان میں سب سے بڑا بہتان یہ ہے کہ اسلام ایک خون خوار مذہب ہے اور اپنے پیروؤں کو خوں ریزی کی تعلیم دیتا ہے۔اس بہتان کی اگر کچھ حقیقت ہوتی توقدرتی طورپر اسے اس وقت پیش ہونا چاہیے تھا جب کہ پیروان اسلام کی شمشیر خارا شگاف نے کرہ زمین میں ایک تہلکہ برپا کررکھا تھااورفی الواقع دنیا کو یہ شبہ ہوسکتا تھا، کہ شاید ان کے یہ فاتحانہ اقدامات کسی خوں ریز تعلیم کا نتیجہ ہوں۔مگر عجیب بات ہے کہ اس بہتان کی پیدائش آفتاب عروج اسلام کے غروب ہونے کے بہت عرصہ بعد عمل میں آئی اور اس کے خیالی پتلے میں اس وقت روح پھونکی گئی جب کہ اسلام کی تلوار توزنگ کھاچکی تھی مگر خود اس کے موجد یورپ کی تلوار بے گناہوں کے خون سے سرخ ہورہی تھی اور اس نے دنیا کی کمزورقوموں کو اس طرح نگلنا شروع کردیا تھا جیسے کوئی اژدہاچھوٹے چھوٹے جانوروں کو ڈستا اورنگلتاہو۔اگر دنیا میں عقل ہوتی تووہ سوال کرتی کہ جو لوگ خود امن وامان کے سب سے بڑے دشمن ہوں، جنہوں نے خود خون بہا بہا کر زمین کے چہرہ کو رنگین کردیا ہو اور جو خود قوموں کے چین وآرام پر ڈاکے ڈال رہے ہوں، انہیں کیا حق ہے کہ اسلام پر وہ الزام عائد کریں جس کی فرد جرم خود ان پر لگنی چاہیے؟کہیں ان تمام مؤرخانہ تحقیق و تفتیش اور عالمانہ بحث واکتشاف سے ان کا یہ منشا تو نہیں کہ دنیا کی اس نفرت وناراضی کے سیلاب کا رخ اسلام کی طرف پھیر دیں جس کے خود ان کی اپنی خوں ریزی کے خلاف امنڈ کر آنے کا اندیشہ ہے۔“(الجہاد فی الاسلام)

            ہندوستان میں بیسویں صدی کے ربع ثانی میں ہندو مہا سبھا جیسی ہندو انتہا پسند تحریکوں کی جڑیں مضبوط ہونا شروع ہوئیں۔ساورکراور گولوالکر جیسے نظریہ سازوں نے اپنی کتابوں ’ہندتوا‘ اور ’بَنچ آف تھاٹ‘ میں ایک نئے ہندوستان کی تعمیر کا انتہاپسندانہ نقشہ پیش کیا۔ان کے مطابق قدیم زمانے سے ہندوستان ایک ہی تہذیب’ہندو تہذیب‘ کا گہوارہ رہا ہے مگر مسلمان حکمرانوں اور عیسائی و کمیونسٹ تحریکوں کی مداخلت نے اس ایوان تہذیب کے نقش و نگار کو تہ و بالا کردیا۔ضرورت ہے کہ ایک مرتبہ پھر اسی ہندو تہذیب کا احیاء کیا جائے۔ مسلمان،عیسائی اور کمیونسٹ اگر برضا و رغبت اس تہذیب میں اپنے آپ کو ضم کرلیں تو زہے نصیب،اگر وہ ہندو تہذیب کا حصہ نہیں بننا چاہتے تو ہندوستان میں بہرحال ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔وہ یا تو از خود کسی اور ملک میں پناہ تلاش کریں یا پھر انہیں ہندو احیاء پرستوں کی جانب سے تشدد کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔دیگر ہندو انتہاپسند دانشوروں نے گوہار لگائی کہ مسلمانوں نے جب اپنے لئے پاکستان کی شکل میں ایک الگ ملک حاصل کرلیا ہے تو اب ہندوستان میں مسلمان بن کر رہنے کا انہیں کوئی اختیار نہیں ہے۔اس نظریہ کو ہندوستان میں عوامی مقبولیت حاصل ہو اس کے لئے کلیدی ہتھیار کے طور پر ’تاریخ‘ کا استعمال کیا گیا۔ ایسی تاریخیں لکھی گئیں جنہیں پڑھ کر نوجوان نسل کو یہ تاثر ملا کہ اس ملک کے لیے مسلمانوں کا کوئی کنٹری بیوشن نہ تقسیم سے پہلے رہا ہے اور نہ اس کے بعد۔ مسلمان جس قوم کا نام ہے وہ درحقیقت خوں خوار لٹیروں کاایک گروہ ہے،جو ہندوستان پر حملہ آور ہوا، جس نے مندروں کو منہدم کیا،ہندوؤں کو بالجبر مسلمان بنایا، ہندو تہذیب کے دیگر شعائر کا قلعہ قمع کیا۔یہی وہ گروہ ہے جودوقومی نظریہ کا بانی اور تقسیم ہند کا تنہا ذمہ دار ہے۔چنانچہ پاکستان کے وجود میں آجانے کے بعداب یہ ’ناجائز‘ طور پر ہندوستان میں متوطن ہے۔مسلم تاریخ کو مسخ کرنے کی یہ مہم تاحال جاری ہے۔ یہ کام مختلف محاذوں پرا نجام دیا جارہا ہے۔ کبھی مسلم تاریخی عمارتوں کی تاریخ میں رد وبد ل کیا جارہا ہے، مسلم نام والے شہروں کے نام من گھڑت قصے کہانیوں کی بنیاد پر تبدیل کیے جارہے ہیں۔سب سے زیادہ اہتمام کے ساتھ اسکولوں کی نصابی کتب پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے۔

            ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ مسخ کرنے والا دوسرا محاذلیفٹ یعنی اشتراکی کوچہ گردوں کا ہے۔ہم اس اعتراف میں کوئی تکلف نہیں کرتے کہ ہندوانتہاپسند مؤرخین کی تاریخی موشگافیوں کا اسلام پسندوں سے زیادہ شاندار اور انصاف پسندانہ جواب مارکس وادیوں نے ہی دیا ہے۔بلکہ اُن کا اگر کسی نے صحیح معنوں میں مقابلہ کیا ہے تو اِن ہی نے کیا ہے۔اس کے باوجودجب انہوں نے خود تاریخ پر قلم اٹھایا ہے تو اپنے آپ کوتعصب سے پاک نہیں رکھ سکے ہیں۔ دانشوری،روشن خیالی اور ترقی پسندی کے زعم میں یہ بے چارے سنگین مغالطوں کے شکار ہیں۔ایک طرف انہوں نے مذہب کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دے رکھا ہے۔دوسری طرف معاش کے سوال کو زندگی کا سب بڑا سوال قرار دیتے ہیں۔اس فکر کے ساتھ جب وہ تاریخ پر خامہ فرسائی کرتے ہیں تو اسباب و علل کی ساری تان مذہب اور معاشی بدحالی پر توڑتے ہیں۔ہندوستانی مسلمانوں کو معاشی طور پر انتہائی پسماندہ اور مذہبی طورپر انتہا پسند اور جنونی ثابت کرنے کا کوئی موقع فروگزاشت نہیں کرتے۔ان کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کے مسائل کے ذمہ دار انگریز یا ملک کاحکمراں طبقہ نہیں بلکہ وہ خود ہیں۔ کیوں کہ وہ ایک طرف مذہبی طور پر انتہا پسند ہیں،اور دوسری طرف معاشی لحاظ سے انتہائی بدحال۔چنانچہ مذہب کو خیرآباد کہنا اور معاشی طور پر بااختیار ہونا ہی مسلمانوں کے تمام مسائل کا اصل ہے۔

            بہر حال یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ گزرے ہوئے چند سالوں میں ملت کے تعلیم یافتہ حلقے میں اس سلسلے میں بھی بیداری آئی ہے۔ اسلامی طلبہ تحریک نے ملک کی مختلف ریاستوں میں اور قومی سطح پر اس حوالے سے متعدد سمینار اور کانفرنسیں منعقد کی ہیں۔البتہ دلی ہنوز دور است!انگریز، ہندو انتہا پسند اور اشتراکی حضرات نے ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ کے ساتھ جو چھیڑ چھاڑ کی ہے،جس کی مہم بدستور جاری ہے،اس کے سلسلے میں صرف تحریک اسلامی کو نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کوبیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ملت کے ذہین اور ہونہار طلبہ تاریخ کو اپنا میدان تخصص بنائیں اور تاریخ کو مسخ کرنے کی ہر نئی کوشش کے مقابلے میں مستقل چوکسی(eternal vigilance)کا کام انجام دیں۔ چندافراد کے کرنے سے اس کام کا حق ادا نہ ہوگا۔اس کام کو منصوبہ بند طریقے سے ادارہ جاتی سطح پر انجام دینا ہوگا۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں