مبشر الدین فاروقی
چند افراد واٹس اپ کے پیغامات پڑھنے میں مصروف ہیں، جن کے واٹس اپ کے گروپس کی تعداد کم ہے وہ فیس بُک سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ چند معصوم افراد نادانستہ طور پر نیند کی آغوش میں جا چکے ہیں اور دیگر کئی افراد بہت جلد جانے والے ہیں۔ دیگر چند افراد کی بیزارگی مسلسل لی جانے والی سستی و جمائی سے ظاہر ہورہی ہے۔ کئی افراد کے چہرے مرجھاگئے ہیں۔ پزمردگی چھائی ہوئی ہے۔ ایک گروہ مستقل چہرے اور سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس اذیت سے چھٹکارے کا انتظار کر رہا ہے۔ سیکنڈ منٹوں کی طرح اور منٹ گھنٹوں کی طرح گذر رہے ہیں۔ کئی لوگ سوچ رہے ہیں کہ،’پتہ نہیں کس جرم کی سزا مل رہی ہے‘۔
’بُری تقریر‘ کا شکار ہونے والے سامعین کی حالت قابل رحم ہوجاتی ہے۔ لگتا ہے کہ ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ کسی دیندار دوست کا دل رکھنے کے لئے اس کی دعوت پر وہ اس پروگرام میں شریک ہوگئے۔ اور اب اپنی دین دوستی کے ثبوت کے طور پر اس بیزار کُن ماحول کا حصہ بنے رہنے پر مجبور ہیں۔
آئیے، بُری تقاریر کے مختلف شکلوں کو ان کے ماڈلس کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کریں۔
ایک ماڈل تو ایسے مقریرین کا ہے جن میں اپنی بات کو طول دینے کی صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہوتی ہے۔ وہ اپنی تقریر میں ایک ہی بات کو مختلف طریقوں سے بار بار دہراتے ہیں۔ اس کو نئے انداز میں پیش کرتے رہتے ہیں، یا اس کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس کے لئے وہ الفاظ تبدیل کرتے رہتے ہیں، ہم معنی الفاظ کی لمبی فہرست کا استعمال کرتے ہیں، لوگوں کے عظمت اور رزالت کی تفہیم کی خاطر القابات اور ۔۔۔۔ یکے از بعد گناتے چلے جاتے ہیں۔جزئیات کی بحث میں بآسانی گھنٹوں صرف کر سکتے ہیں۔ موضوع سے متعلقہ اور غیر متعلقہ باتیں بھی کہتے جاتے ہیں۔ ان کی ساری تقریر اسی کے گرد چکر لگائے رہتی ہے۔ ان میں سے بعض کو وقت کے گذرنے کا اندازہ تک نہیں ہوپاتا، اور بعض وہ ہین جو مستقل گھڑی پر نظریں جمائے اپنے وقت کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔
کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو تقریر کو محض ذاتی رائے کے اظہار کا پلیٹ ففارم سمجھتے ہیں۔ یہ اس وقت تو قابل قبول ہے جب منتظمین کی جانب سے اس بات کی صراحت کی جائے۔ لیکن بالعموم ایسا رویہ ہر مقرر اختیار کرنے لگے تو لازماً اسے بری تقریر کے زمرہ میں ہی شمار کیا جانا چاہیے۔ ایسے افراد کے متعلق محسوس ہوتا ہے کہ انہیں کسی بھی جگہ بولنے کا موقع نہیں دیا جاتا ہے۔ اور ہر مرتبہ ان کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔ اس لئے اب چونکہ موقع میسر آیا ہے تو اسے بالکل نہیں گنوائیں گے اور حال دل سنا کر ہی رہیں گے۔
تقریر کا ایک ماڈل وہ بھی ہے جس کا آغاز بہت شاندار طریقے سے ہوتا ہے۔ سامعین بڑے انہماک کے ساتھ سماعت کرتے ہیں۔ منتظمین کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ لیکن اس اچھی تقریر کو بُری تقریر میں بدلتے دیر نہیں لگتی جب ٹرین کے پٹری سے اترنے کے مانند تقریر بھی اپنے موضوع سے بتدریج ہٹنے لگتی ہے۔ بالآخر کسی نا آشنا وادی میں بھٹکنا شروع کردیتی ہے۔ سامعین حسن ظن کی وجہ سے تقریر کو موضوع سے مربوط کرنے کی لاکھ کوشش کرلیں لیکن مایوسی اور ذہنی پزمردگی ہاتھ لگتی ہے۔منتظمین کا تودل ہی ڈوب جاتا ہے۔
چند مقرر ایسے ہوتے ہیں جو کسی ایک عنوان یا موضوع پر مضبوط گرفت رکھتے ہیں۔ اس کی تفصیلات و جزئیات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ ان کی تقریر مواد سے بھر پور اور علم میں اضافہ کرنے والی ہوتی ہے۔سامعین کو سوچنے سمجھنے کے نئے زاویوں کا علم ہوتا ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ایسے مقررین اپنی دیگر تقریروں میں بھی اسی بات کو جبراً گھسا لیتے ہیںجو ان کا پسندیدہ موضوع ہو۔ موضوع چاہے کچھ بھی ہو وہ اس بات کو پیش کرنے کا راستہ ڈھونڈ ہی لیتے ہیں کیونکہ وہ بات انہیں ذاتی طور پر بہت اہم معلوم ہوتی ہے۔ کسی کو نوجوانوں کے جنسی مسائل، کسی کو ورزش یا جسمانی صحت، کسی کو سیاسی جدوجہد۔ اس سے نہ صرف یہ کہ ان کی موجودہ تقریر بُری ہوجاتی ہے بلکہ ان کے خیالات کی اہمیت بھی گھٹتی رہتی ہے۔
کچھ تقریر نیوز بلیٹن کی مانند ہوتی ہیں۔ فرق دونوں میں صرف اتنا ہوتا ہے کہ نیوز بلیٹن کا آغاز ہنڈ لائینس کے ساتھ ہوتا ہے۔ جبکہ ایسی تقریر ہیڈ لائینس کے بغیر شروع کر دی جاتی ہیں۔ ایسی تقریروں میں اصحاب کلام اپنی جماعت، تنظیم یا ادارہ کی کارکردگی اور سرگرمیوں کی تفصیلی روداد بیان کرتے ہیں۔ نیوز بلیٹن میں سامعین کو اندازہ ہوتا ہے کہ چیزیں کس تسلسل سے پیش کی جائیں گی اور اختتام کہاں ہوگا۔ لیکن ایسی تقریرمیں سامع ہر سرگرمی کو آخری رپورٹ سمجھتا ہے اور بہت جلد بصیرت کی کمی کو محسوس کر لیتا ہے۔
کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ مقررین تقریر کے لئے نہایت گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں۔ یقینا یہ قابل تعریف فعل ہے۔ لیکن جو بات مناسب نہیںہے وہ ہے مقررہ وقت میں اپنی بات کو نہ سمیٹ پانا۔ اس لئے ان کی بات ادھوری رہ جاتی ہے۔ ایسی تقریروں کی تمہید اتنی طویل ہوجاتی ہے کہ ماہرین ادب کو اس کے لئے نئی اصطلاح وضع کرنی پڑے۔ سامعین منتظر ہوتے ہیں کہ یہ جناب کب اصل مدعا پر بولنا شروع کریں گے۔ جب اصل مدعا شروع ہوتا ہے تو کچھ ہی دیر میں کنوینر کی جانب سے دی جانے والی چِٹ وقت کے ختم ہونے کا اعلان کرتی ہے۔ مقرر اور سامعین دونوں کی حسرتیں نامکمل رہ جاتی ہیں۔
کچھ مقررین ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی تقریر سامعین کے لئے پر کشش ہوتی ہے۔ سننے میں مزہ آتا ہے۔ ان کی تقریروں میں مزاح کا عنصر غالب رہتا ہے۔ صرف الفاظ ہی سے نہیں بلکہ جسمانی حرکات سے بھی سامعین کو محظوظ کراتے ہیں۔ لیکن درحقیقت ان کی تقریر کے بہت کم نکات موضوع سے مربوط ہوتے ہیں۔ ایسی تقریروں سے گو بہت کچھ حاصل ہو، لیکن عنوان سے متعلق مواد ملنے کی ضمانت بہت کم ہوتی ہے۔
چند صالح نفوس ایسے بھی ہیں جو تقریر کے لئے بھر پور تیاری کرتے ہیں لیکن اپنے انداز بیان، اسلوب اور طریقہ خطابت کے باعث موثر تقریر نہیں کر پاتے۔ کبھی بہت کم آواز میں بولنا، زیر و بم کا نہ ہونا، حرکات و سکنات کا نہ ہونا، وقت کے مشکل ترین الفاظ کا استعمال کرنااور سامعین کے چہروں کو نہ پڑھ پانا، یہ وہ کمزوریاں ہیں جس کی وجہ سے ایسی تقاریر کو بھی بُری تقاریر میں شمار کیا جانا چاہیے۔
تقریر کے برے ہونے کا تعلق بولنے والے کی رفتار سے بھی ہے۔ تقریر بہت تیز رفتاری کے ساتھ کی جائے تو سامعین کو اندازہ نہیں ہوپاتا کہ بات کب اور کہاں سے شروع ہوئی اور کب اور کہاں ختم ہوئی۔ یکے بعد دیگرے تیز رفتاری سے پیش ہونے والے نکات کا طوفان، سامعین کے لئے اس بات کو مشکل بنا دیتا ہے کہ وہ ان کے درمیان باہم ربط کو ملحوظ رکھ سکیں۔ انہیں لکھ سکیں یا انہیں حافظہ میں محفوظ کر سکیں۔ اس کے بالمقابل دھیمی رفتار سے کی جانے والی تقریر بھی متاثر کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ اس میں سامعین کے لئے توجہ کو مرکوز کرپانا مشکل ہوجاتا ہے۔ الفاظ کے درمیان موجود لمبا وقفہ بیزارگی میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔
ان تمام ماڈلس کو پیش نظر رکھنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ’بری تقریر‘ کا مطلب صرف وہ تقریر نہیں جس میں لوگوں کو بوریت محسوس ہو یا جس میں لوگوں کے لئے کشش اور رغبت کا سامان نہ ہو۔ بلکہ دیگر کئی وجوہات تقریر کو بُری بنادیتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ بُری تقریر کی تعریف کیا ہوگی؟ اس بارے میں آراء بہت سی ہو سکتی ہیں۔ راقم کے نزدیک ہر وہ تقریر جو تقریر کی حیثیت کو، عنوان کی اہمیت و افادیت کو، سامعین کی استعداد کو، منتظمین کے مقاصد کو، پروگرام کے مجموعی احوال کو، دئے گئے ذیلی نکات Synopsis کو پیش نظر رکھ کر اور ہر قسم کی عصبیت، تنگ نظری، ذاتی مفاد اور خودنمائی کے جذبہ سے بلند تر ہوکر نہ کی جائے، بُری تقریر ہے۔اس سے آگے بڑھ کر چونکہ ہماری تقاریرقلب و ذہن کی تبدیلی کے مقصد کے تحت منعقد کی جاتی ہیں، اس لئے ہر وہ تقریر جو اس مقصد کی طرف نہ لے جائے اسے ہم بُری تقریر میں شمار کریں گے۔
مرکز یا حلقہ کے پروگراموں میں ’بُری تقریروں‘ کا مسئلہ اتنا سنگین نہیں ہوتا۔ لیکن اکثر و بیشتر مقام کے ہفتہ واری اجتماعات ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ چونکہ تقریر اچھی نہیں ہوتی اس وجہ سے بذات خود ’تقریر‘ پر ہی سوال اُٹھا دئے جاتے ہیں۔ بُری تقریر کی وجہ سے محنت سے بلائے گئے سامعین بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کو نہ صرف تقریر سے بلکہ اس قسم کے پروگرامس سے بھی نفرت پیدا ہوجاتی ہے جس کا حصہ وہ تقریر تھی۔پھر منتظمین مجبوراً غیر اثر پذیر ذرائع کی طرف تجربے کرنے لگتے ہیں۔
بُری تقریر کی وجوہات میں جو بات سب سے اہم نظر آتی ہے وہ اس کے لئے نامکمل تیاری کرنا ہے۔ ایک عالم کو ہی اپنی کم علمی کا اندازہ ہوتا ہے۔ جبکہ جاہل شخص اپنے آپ کو علمی دنیا کا بادشاہ سمجھتا ہے۔ تقریر کے لئے صرف اکّا دُکّا کتابیں پڑھ لینا، اس سے متعلق چند ویڈیوز دیکھ لینا کافی نہیں ہے۔ محض سطحی قسم کی جانکاری کی بنیاد پر تقریر کرنا ’بُری تقریر‘ کو جنم دیتا ہے۔
ایک بات یہ بھی ہے کہ فرد بظاہر کتنے ہی جذباتی یا جوشیلے انداز میں تقریر کرلے اس کی بات میں اس وقت تک تاثیر پیدا نہیں ہوتی جب تک کہ مجموعی حیثیت میں اس کا دل سچائی قبول کرنے والا نہ ہو۔ اس کی زندگی پر ان افکار کا کتنا اثر ہے، جن کا تذکرہ وہ اپنی تقریر میں کر رہا ہے۔ زبان کی تاثیر اور دل کا سوز کوئی مصنوعی چیز نہیں ہے اس لئے اسے مصنوعی طریقے سے پیدا بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اچھی تقریر لوگوں کی زندگی میں تبدیلی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ انہیں عمل پر ابھار سکتی ہے۔ انہیں سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے پر مجبور کرسکتی ہے۔علم کا شوق پیدا کرسکتی ہے۔
کل ملا کر تقریر کے ذریعے لوگوں کو جگانے کا کام بھی کیا جاسکتا ہے اور سُلانے کا بھی۔