ایک جائزہ : ہندوستان میں انصاف اور دلت سماج

ایڈمن

سماجی انصاف ایک پیچیدہ اور وسیع موضوع ہے. چونکہ روہت ویمولہ کی خودکشی نے اس سوال کو ملک بھر میں پھر سے موضوع گفتگو بنادیا ہے اس لئے ہم اپنی گفتگو کو دلتوں تک محدود رکھتے ہیں۔ عموما ًسماجی انصاف…

سماجی انصاف ایک پیچیدہ اور وسیع موضوع ہے. چونکہ روہت ویمولہ کی خودکشی نے اس سوال کو ملک بھر میں پھر سے موضوع گفتگو بنادیا ہے اس لئے ہم اپنی گفتگو کو دلتوں تک محدود رکھتے ہیں۔ عموما ًسماجی انصاف سے مراد ہندوسماج میں جن اچھوتوں کو کوئی مذہبی و سماجی مقام حاصل نہیں جسکی بناء پر وہ تعلیمی، سماجی، مذہبی، معاشی و سیاسی لحاظ سے پسماندہ رہ گئے تھے انہیں اونچا اٹھانا تھا۔اس ضمن میں پسماندہ افراد کے لئے تعلیم ،روزگار اور انتخابی سیاست میں تحفظات کا طریقہ کار اپنایا گیا۔ ان اقدامات سے پسماندہ طبقات کی تعلیمی معاشی و سیاسی صورتحال میں کچھ بہتری ضرور آئی ہے لیکن سماجی و مذہبی لحاظ سے انہیں انکا جائز مقام حاصل نہیں ہوا ہے اور ہزاروں سال سے جاری سماجی،مذہبی و طبقاتی امتیاز و تعصب کا مستقبل قریب میں خاتمہ ممکن نہیں۔ ہندوستانی سماج کی نفسیات اور ڈی این اے میں یہ امتیاز و تفریق اسقدر رچ بس گئی ہے کہ صرف تحفظات اسکا علاج نہیں۔ بلکہ اعلی ذاتوں کی موجودہ نسل جو تحفظات کی فراہمی کے پس پردہ حقائق سے لاعلم ہے ان میں سے اکثر تحفظات کے متعلق شدید مخالفانہ و معاندانہ جذبات رکھتے ہیں۔ گجرات میں پٹیل ریزرویشن تحریک اور آندھراپردیش میں کاپو ریزرویشن مطالبہ کو اس پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تحفظات کی فراہمی بھی برہمن قیادت کی چالاکی اور چالبازیوں کا پرتو ہے۔ امبیڈکر اور جناح نے دلتوں اور مسلمانوں کے لئے علیحدہ انتخابات کا مطالبہ کردیا تھا جسکو انگریزوں نے قبول بھی کرلیا لیکن گاندھی نے اسکے خلاف مرن برت رکھدیا اور سارے ہندوستان میں ایک شدید تناؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی ۔گاندھی کے مرن برت پر مجبور ہوکر امبیڈکر نے پونا پیکٹ کے نام سے گاندھی اور کانگریس سے دلتوں کے لئے تحفظات کا حق حاصل کرلیا۔

اسی نفسیاتی و مذہبی تعصب کی موجودگی میں دلتوں کو سماج میں انکا جائز مقام اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب ہندو مذہبی ،سماجی و معاشرتی ڈھانچہ میں تبدیلی آئے جس کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ ہندو مذہب اور سماجی ڈھانچہ ذات پات کی بنیاد پر ہی قائم ہے۔ اس ڈھانچہ میں کسی بھی نوعیت کی بنیادی تبدیلی اس سارے نظام کو ڈھادے گی بلکہ ہندومت کا خاتمہ ہوجائے گا۔اعلیٰ ذاتوں کو صدیوں سے جاری اس برتری کا خاتمہ کیسے گوارا ہوسکتا ہے۔ گفتگو کو موجودہ تعلیمی اداروں میں جاری تعصب سے جوڑتے ہوئے اس مذہبی و تاریخی پس منظر کا جائزہ لیتے ہیں جو اس فساد کی جڑ ہے۔ آزادی سے پہلے اور بعد میں ہندوستانی تعلیمی اداروں میں دلتوں کے و دیگر پسماندہ و اقلیتی طلباء کے ساتھ ناانصافی و تعصب کی ہزاروں مثالوں ہیں جن سے اخبارات و رسائل بھرے پڑے ہیں انکا ذکر رفیق کے باشعور قارئین کے لئے ضروری نہیں۔تعلیمی اداروں میں دلتوں کے ساتھ تعصب کے پیچھے ہندومت کی مذہبی روایات کا عمل دخل رہا، جن کو مذہبی تقدس کے ساتھ ریاستی سرپرستی حاصل رہی۔

ہندؤوں کی مذہبی کتب میں دو مشہور واقعات ملتے ہیں جو علوم و فنون کو اعلی ذاتوں تک محدود رکھنے کی ہندو نفسیات اور مذہبی تعلیمات کو اجاگر کرتے ہیں.شودروں کے لئے گیتا اور وید پڑھنے کی ممانعت ایک معروف چیز ہے البتہ درج ذیل واقعات اس رویہ کی وضاحت کرتے ہیں جو اس امتیاز و تعصب کی اصل وجہ ہے۔ ان میں سے ایک واقعہ درونا چاریہ اور ایکلویا کا ہے۔ دروناچاریہ کورؤوں اور پانڈووں کا شاہی استاد تھا ، جسے شہزادوں کو تیراندازی سکھانے پر معمورکیا گیا تھا۔ایک قبائلی شہزادہ ایکلویا دروناچاریہ کے پاس تیر اندازی سیکھنے کی خواہش لیکر آتا ہے لیکن طبقاتی لحاظ سے کم تر حیثیت کے پیش نظر اسکی درخواست ناقابل التفات ٹھیرتی ہے۔ایکلویا شدید مایوسی کے عالم میں لوٹتا ہے لیکن تیراندازی سیکھنے کی شدید خواہش اسے مجبور کرتی ہے کہ خفیہ طور پر شہزادوں کو درونا سے تیراندازی سیکھتے ہوئے دیکھے ۔اس خفیہ مشاہدہ اور تیراندازی کی انفرادی کوششوں کے دوران وہ استاد کی جگہ درونا کا مٹی کا پتلا بناکر اسکے سامنے پریکٹس کرتا رہتا ہے۔ دھیرے دھیرے تیراندازی میں اسکی مہارت اسقدر بڑھ جاتی ہے کہ وہ ارجنا اور دیگر شہزادوں سے بڑھکر ماہر تیرانداز بن جاتا ہے۔ ایک موقع پر ایکلویا اپنے استاد درونا کے سامنے اس فن کا مظاہرہ کرتا ہے جس سے متاثر ہوکر درونا گرودکشِنا کے طور پر ایکلویا کے اسی انگوٹھے کا مطالبہ کرتا ہے جس سے وہ تیراندازی کرسکتا ہے۔ایکلویا اپنے استاد کے مطالبہ کے سامنے سرجھکادیتا ہے۔ایکلویا خوب سمجھتا ہے کہ تیراندازی سکھانے کی درخواست کو مسترد کرنے اور پھر انگوٹھے کی دکشِنا درحقیقت پسماندہ افراد کو علوم و فنون سے محروم رکھنا ہے۔

دوسرا کردار(واقعہ) گوتما کا ہے جو دلچسپ ہونے کے ساتھ اعلی ذات ہندؤوں کی ذہنیت کو واضح کرتا ہے. اپنشدوں میں ستیاکاما نامی ایک شخص کا ذکر ہے جو ایک غیرشادی شدہ عورت کا بیٹا تھا۔حصول علم کی خاطر وہ گوتما کے آشرم میں داخل ہوتا ہے۔گوتما اس کے حسب و نسب کے بارے میں پوچھتا ہے جس پر وہ اپنے باپ سے لاعلمی کا اظہار کرتا ہے۔گوتما اسکی سچائی کو برہمن خصوصیت پر محمول کرتے ہوئے آشرم میں رہنے کی اجازت دیتا ہے اور داخلہ سے قبل کی رسم ادا کرتے ہوئے اسے دوبار پیدا ہونے والا برہمن قرار دیتا ہے۔

ستیاکاما کا اعتراف سچ برہمن یا غیر برہمن ہونے کا پیمانہ کیسے ہے اس سوال کو کسی اور موقع کے لئے اٹھارکھتے ہیں.البتہ اس واقعہ سے یہ وضاحت ہوجاتی ہے کہ ہندو مذہبی کتابوں کے مطابق حصول تعلیم صرف برہمنوں اور اعلی ذاتوں کا حق ہے۔ ان نفسیاتی ،سماجی و ثقافتی جڑوں کو اسقدر مضبوطی کے ساتھ ہندو سماج میں پیوست کردیا گیا ہے کہ ان سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں۔چنانچہ آج بھی ٹیچرس ڈے ایک برہمن سروے پلی رادھا کرشنن کے نام پر منایا جاتا ہے۔اور بہترین کوچ کا ایوارڈ درونا چاریہ کے نام سے اور بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ ارجنا کے نام سے موسوم ہے۔

ہزاروں سال سے پچھڑے دلتوں کو مسلم دو حکمرانی میں بڑی حد تک راحت ملی اور ان میں سے ایک کثیر تعداد نے صوفیا اور صلحاء ِامت کی دعوتی و تبلیغی کوششوں کے نتیجہ میں اسلام کے سایہ آغوش میں اپنی سماجی و روحانی پناہ ڈھونڈھی۔ مسلم حکمرانوں نے سیاسی مصلحتوں کی بناء پر یہاں کی مذہبی و سماجی ڈھانچہ سے زیادہ تعارض نہیں کیا جسکی بناء پر برہمنوں کا ہندو سماج میں غلبہ و اقتدار باقی رہا۔چناچہ امبیڈکر سے قبل دلتوں نے تین طریقوں سے اپنی سماجی صورتحال کو درست کرنے کی کوشش کی۔

۱) سنسکرتیانا

۲) ہندو مذہب کی تحقیر،اور ذات پات کے نظام کی نفی کے ذریعہ اس سارے نظام کا ڈھانچہ گرانا

۳) اسلام،بدھ مت یا عیسائیت کو اختیار کرنا،ہندومت کو چھوڑکر دیگر مذاہب کو اختیار کرنا

سنسکرتیانا کی ان کوششوں کے طور پر دلتوں کے بعض لیڈروں نے اعلی ذات طبقہ کی طرح کھانے پینے میں گوشت خوری سے پرہیز،پیشانی پر صندل کا پیسٹ لگانا اور اسی طرح کی ان مذہبی رسوم کو اختیار کیا جو برہمنیت کی خصوصیات ہیں۔کیرالہ میں سوامی تھائکیاڈ،مول داس ویشیا(گجرات) مون وتھوبھا راؤ جی پانڈے (مہاراشٹر) اور پنڈت سندرلال ساگر کی تحریکیں ان ہی کوششوں کا حصہ ہیں۔ سنسکرتیانا درحقیقت ورن آشرم کے اس نظام میں الگ تھلگ پڑے دلتوں کی طرف ہندونظام میں اپنے مقام کے حصول کی کوشش رہی۔

دوسری طرف دلتوں میں رد عمل کے طور پر آدی ہندو نام سے ملک کے مختلف خطوں میں تحریکات شروع ہوئیں.دلتوں کے بعض رہنماؤں کا ماننا تھا کہ دلت ہندوستان کے اصل باشندے ہیں اور یہ ہندو نہیں ہیں۔آریاؤں نے اس ملک پر حملہ کرکے یہاں کے اصل باشندوں (دلتوں) کو اپنا غلام بنالیا اور انہیں اچھوت قراردیدیا۔انکا ماننا تھا کہ اگر ہندو مذہب سے پیچھا چھڑالیا جائے تو انکے سارے دلدّر دور ہوسکتے ہیں اور ذات پات کے نظام کا ازخود خاتمہ ہوجائیگا۔چنانچہ آندھراپردیش میں آدی آندھرا ،کرناٹک میں آدی کرناٹکا،ٹملناڈو میں آدی دراویڈ ، یوپی میں آدی ہندو اور پنجاب میں آدی دھرمی کے نام سے تحریکات شروع ہوئیں۔

تیسری طرف دلتوں نے تبدیلیٔ مذہب کو بھی پسماندگی سے ابھرنے کے راستہ کے طور پر اختیار کیا۔امبیڈکر نے اپنے لاکھوں متبعین کے ساتھ بدھ مت اختیار کرلیا جبکہ ایک خاصی تعداد نے عیسائیت اور اسلام کو نجات دہندہ کے طور پر اختیار کرلیا۔پنجاب کے کبیر پنتھی،مذہبی نامدھاری بھی اصلاً دلت ہیں جنہوں  نے سکھ مت اختیار کرلیا۔

ہندو مذہب کے خلاف شدید نفرت کے جذبات کا اظہار کرنے والے دلت دانشوروں میں سابق میں امبیڈکر سے لیکر موجودہ دور کے پروفیسر کنچا الّیا شامل ہیں .جہاں امبیڈکر نے رڈلز آف ہندوازم لکھی وہیں پروفیار الیا نے وائی آئی ایم ناٹ اے ہندو کے ذریعہ ہندوازم سے دلتوں کے عدم تعلق کا اظہار کیا۔ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے ذات پات کے نظام پر بہت خوب تبصرہ کیا ہے۔’ہندؤوں کی اخلاقیات پر ذات پات کے نظام نے بہت ہی گہرا اور افسوسناک اثر ڈالا ہے۔طبقاتی نظام نے عوامی حس اور انسانی ہمدردی کے جذبات کا خاتمہ کردیا ۔ایک ہندو کے لئے عوام اسکی ذات ہیں،اسکی ذمہ داری اور وفاداری اسکی ذات تک محدود ہے ،نیکی اور اخلاقیات کا تصور ذات پات کی بندشوں میں جکڑدیا گیا،مستحق اور مجبور کے ساتھ ہمدردی ،حاجت مند کے ساتھ حسن سلوک اور پریشان حال کی مدد کا تصور مفقود ہوگیا،ہمدردی و غمخواری اپنی ذات کے ساتھ شروع ہوتی اور اپنی ذات پر ختم ہوجاتی ہے۔‘

دلت حقوق کے لئے جتنی بھی تحریکیں اٹھیں ان سب کے نتیجہ میں دلتوں کو کچھ حقوق ضرور ملے ہیں لیکن بنیادی مسئلہ جہاں کا وہیں ہے۔ گیل اومویت کے بقول دلت تحریکوں کی ان ساری کوششوں کے نتیجہ میں گوکہ صدیوں سے دبے پسماندہ طبقات میں بیداری ضرور آئی ہے لیکن یہ تحریکات تبدیلی اور انقلاب کا راستہ دکھانے میں ناکام ہوگئیں۔ایک عرصہ دراز تک دلت دانشوروں اور دلت کاز میں مخلص بے شمار رہنماؤں کی امید بھری نگاہیں امت مسلمہ کی طرف اٹھ رہی تھیں جنکا انہوں نے اظہار بھی کیا لیکن افسوس ہم اس سے غافل رہے۔ اگر آج بھی ہم ان مظلوم طبقات کو دین کی دعوت دینے پر کمر بستہ ہوجائیں تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ وہ جوق در جوق دین اسلام کو سینہ سے لگائیں۔

 

از: عبدالمجید شعیب

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں