ایس آئی او کی پالیسی اور سوشل سائنسیس

ایڈمن

سوال: ایس آئی او کی پالیسی میں سوشل سائنس کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ کیا یہ مناسب ہے؟ مجھے سوشل سائنس میں بالکل دلچسپی نہیں ہے ، لیکن بارہویں جماعت میں نشانات کم ہونے کی وجہ سے اکثر…

سوال: ایس آئی او کی پالیسی میں سوشل سائنس کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ کیا یہ مناسب ہے؟ مجھے سوشل سائنس میں بالکل دلچسپی نہیں ہے ، لیکن بارہویں جماعت میں نشانات کم ہونے کی وجہ سے اکثر لوگ مجھے سوشل سائنس میں داخلہ لینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کیا میرے لئے بی ایس سی جیسے کورسیس کرنا مناسب نہیں ہے؟

(ندیم احمد ، بیدر)

جواب: آپ کے سوال کے دو حصے ہیں اور ان کو مختلف طریقہ سے جواب دینا ہوگا۔ پہلی بات یہ کہ ایس آئی او کی پالیسی میں سوشل سائنس کو اہمیت ایک مخصوص سماجی مزاج کے تناظر میں دی گئی ہے۔ اگر یہ سماجی تناظر باقی نہ رہے تو پالیسی کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہے گی۔ وہ سماجی تناظر یہ ہے کہ ہندوستان میں سماجی تبدیلی کے لئے جن سماجی ، سیاسی ، فلسفیانہ اور معاشی محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے ان میں دیندار اور ذہین مسلم حضرات کی زبردست قلت ہے۔ یہ قلت تحریک اسلامی کی ایک بڑی کمزوری ہے اسی وجہ سے ہم ابھی تک تبدیلی کا کوئی واضح لائحہ عمل تلاش نہیں کرپائے ہیں۔ اسی کے ساتھ متبادل نظام جو کہ قرآن و سنت سے آہنگ رکھے اس کی صورت گری کرنے سے اب تک قاصر ہیں ۔ مثلاً ہم نے اب تک اسلامی حکومت کا وہ نقشہ پیش نہیں کیا جو کہ قرآنی اصول مشاورت کے مطابق ہو ساتھ ہی وہ قائد کو جمہور کا غلام بنانے والا نہ ہو۔ ان تمام اصولوں کی فروع کو تیار کرنا اور منطقی بقشہ بنانا ایک بہت ہی اہم ذمہ داری ہے جسے امت مسلمہ کو مجموعی حیثیت میں ادا کرنا چاہئے۔ لیکن امت مسلمہ کا ذہین طبقہ صرف پروفیشنل کورسیس اور ایسے کورسیس جن کے ذریعہ پیسہ کمانا جلد از جلد ممکن ہو ایسے ہی کورسیس میں پیشِ رفت کررہا ہے۔ اس لئے امت کی توجہ کو اس ضرورت کی طرف مبذول کرنے اور ذہین طلبہ کو دین کی خدمت کا ایک اہم محاذ دینے کی غرض سے گزشتہ کچھ میقاتوں سے یہ پالیسی بنائی گئی ہے۔ البتہ یہ تناظر تبدیل ہوجائے تو ایس آئی او کی یہ پالیسی کے باقی رہنے کی کوئی وجہ نہیں رہ جائے گی۔

دوسری بات یہ کہ کیا آپ کو سماجی علوم کی ڈگری حاصل کرنا چاہئے یا نہیں اس کا فیصلہ ایس آئی او کی پالیسی اور مقامی ذمہ داران کی خواہش کی بنیاد پر کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ اس بنیاد پر ہونا چاہئے کہ کیا آپ کسی بھی مخصوص کورس میں ”حقیقی“ دلچسپی اور ”قابل قدر“ صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں (اس میں وسائل کا بھی کردار ہے ، لیکن چونکہ آپ نے وسائل کا حوالہ نہیں دیا ہے اس لیئے جواب میں بھی اسے شامل نہیں کیا گیا)۔ اگر آپ کسی سماجی علوم کے مضمون میں بی اے کی ڈگری وغیرہ میں داخلہ لے لیں گے مگر آ پ کی دلچسپی پھولوں پودوں پر غور و فکر کنے میں ہے ، تو آپ تاریخ کی کلاس میں کھڑکی سے باہر درختوں پر زیادہ توجہ رکھیں گے۔ اس میں آپ کا ادارہ ، آپ کی تنظیم ، آپ کے والدین اور سب سے اہم آپ خود بہت بڑے نقصانات اٹھاتے ہیںل۔ یہ جبر آپ کی فہم و تدبر کی قوت کو کمزور کردے گا۔ اور آپ دونوں میں سے کسی ایک بھی مضمون میں مہارت حاصل کرنے سے محروم رہ جائیں گے۔

ہم اصولی طور پر تو اس بات کے قائل ہیں کہ تعلیم روزگار کے لئے حاصل کرنا مناسب نہیں ہے، لیکن فی زمانہ یہ ایک المیہ ہم دیکھتے ہیں کہ روزگار اور تعلیم لازم و ملزوم کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ اس اعتبار سے قابل قدر روزگار کا حصول بھی ہمارے پیش نظر ہونا ضروری ہے۔ وہ کورسیس جن میں باآسانی مستحکم روزگار کا حصول ممکن ہے ان میں داخلہ لینا کوئی بری بات نہیں ہے، سوشل سائنسیس میں بالعموم ان لوگوں کو روزگار میسر آتا ہے جن کا اکیڈمک رکارڈ بہت اعلیٰ ہو ، جن کا اکیڈمک ریکارڈ بہترین نہ ہو ان کے لئے فی الحال روزگار کے بالکل مواقع میسر نہیں ہیں۔ اس لئے اگر بہترین انداز میں سماجی علوم کو حصل کرنے کا داعیہ اور صلاحہت ہو تب ہی ان کورسیس میں داخلہ لینا مناسب ہے۔

اس کالم کے تحت قارئین کے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی جائے گی۔ اپنے سوالات بذریعہ ای میل یا وہاٹس ایپ (اس نمبر 9673022736 پر) بھیج سکتے ہیں۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں