طلبہ تحریک اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن (ایس آئی او) کے قومی صدر لبید شافی نے سنجو بھٹ کو مجرم قرار دیے جانے پر تاسف کا اظہار کیا ہے. انہوں نے اسے “انتقامی کاروائی” اور “سچ بولنے کی سزا” قرار دیا. 1990 میں جب سنجیو بھٹ گجرات کے جام نگر میں بطور اے ایس پی اپنے فرائض انجام دے رہے تھے، زیر حراست موت کے ایک معاملے میں انہیں مجرم قرار دیا جانا متعدد سوالات کو جنم دیتا ہے.
حراست میں جس شخص کی موت ہوگئی تھی وہ وشوا ہندو پریشد (VHP) کا رکن تھا اور ان 133 افراد میں سے ایک تھا جنہیں جام نگر پولیس نے فساد کرنے کی وجہ سے حراست میں لے لیا تھا. ضمانت پر رہائی کے دس دن بعد اس کی وفات ہوگئی، اور اس دوران اس نے سنجیو بھٹ یا کسی دوسرے پولس افسر کے خلاف ٹارچر کرنے یا غلط رویہ اختیار کرنے کی کوئی شکایت درج نہیں کرائی. سنجیو بھٹ کے خلاف شکایت بعد میں وی ایچ پی کے ایک مقامی ذمہ دار کی طرف سے درج کرائی گئی تھی. شکایت درج کرانے کے بعد بھی سی بی آئی نے اس معاملے میں تفتیشی کاروائی کی. کاروائی میں سنجیو بھٹ کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا.
2011 تک تقریبا سبھی لوگ، بشمول شکایت کنندہ، اس معاملے کو بھول چکے تھے. جب سنجیو بھٹ نے 2002 کے مسلم نسل کش فسادات میں وزیر اعلی نریندر مودی، دیگر وزراء اور اعلی سطحی افسران کے ملوث ہونے کا ثبوت فراہم کیا، تبھی گجرات حکومت نے اس کیس کی فائل دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا. عدالت عظمی کے روبرو سنجیو بھٹ کی سچی شہادت نے گجرات حکومت کی پوری مشینری کو اس معاملے میں دلچسپی لینے پر مجبور کیا. اس مقدمے کی کاروائی کوجس طرح چلایا گیا ہے، اس پر بھی ابتداء سے ہی شک و شبہ کے بادل چھائے رہے ہیں. استغاثہ نے اس معاملہ کے 300 گواہوں میں سے محض 32 سے پوچھ تاچھ کی. جب کہ سنجیو کے اپنے گواہوں کی پیشی کی درخواست کو بار بار مسترد کیا گیا. یہ بالکل ابتداء سے ہی واضح تھا کہ سنجیو بھٹ کے خلاف مقدمہ چلانے اور انہیں مصیبت میں ڈالنے کی کاروائی ان کی اس شہادت کی وجہ سے ہورہی ہے جس میں انہوں نے گجرات فسادات کے تار نریندر مودی سے جوڑے تھے. کئی دیگر افراد کی طرح، سنجیو بھٹ کو بھی حق گوئی کی سزا دی جارہی ہے.
شعبہ ذرائع ابلاغ، ایس آئی او آف انڈیا
سید احمد علی (قومی سکریٹری، ایس آئی او آف انڈیا)
ای میل: [email protected]