لئن شکرتم لأزیدنکم ولئن کفرتم ان عذابی لشدید۔ (سورۃ ابراہیم: آیت نمبر.۷)
ترجمہ : ’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا، اور اگر تم نے ناشکری کا رویہ اختیا کیا تو میرا عذاب بھی انتہائی سخت ہے‘‘ ۔
عزیزو! اللہ رب العزت نے ہمیں اور آپ کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ، انسان بنانا، انسانوں میں بھی مسلمان بنانا، مسلمانوں میں امت محمدیہ میں پیدا کرنا ، امت میں پیدا کر کے ضلالت سے بچانا، ہدایت کے راستے پر چلانا ، اور ہدایت کے راستے پر باقی رکھتے ہوئے دوسروں کو بھی اس راہ پر لانے کی جد و جہد کرنے کی توفیق دینا۔ عقل سے نوازنا، اور صحیح غلط میں فرق کرنے کی صلاحیت دینا۔ ایسی کئی ایک نعمتیں ہیں جس کے بارے میں نعمت ہونے کا احساس بھی کم ہی ہوتا ہے۔ اللہ کی ایسی بہت سی نعمتیں جو ہمیں حاصل ہے، ان میں فراغت اور تندرستی ایسی نعمتیں ہے جس کے بارے میں زبان نبوت نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان نعمتوں کے متعلق اکثر لوگ غفلت اور دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔
بعض روایات میں پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھنے کو کہا گیا ہے، ان میں صحت کو مرض سے پہلے اور فراغت کو مصروفیت سے پہلے خاص توجہ کے لائق ہیں۔ عموماََ ہم یہ سوچتے ہیں کہ عبادات اور نیک اعمال کے ذریعے اللہ کو راضی کرکے جنت کے حصول کی کوشش تو بعد میں بھی کی جاسکتی ہے، ابھی تو جوان ہیں جب بوڑھے ہوجائیں گے، اوریہاں وہاں کی مشغولیات سے چھٹکارا ملے گا تب خوب اعمال کر سکتے ہیں، جوانی کے ایام میں اتنی فرصت ہی کہاں ہے ۔ آخر کا ر بڑھاپا سوار ہوجاتا ہے او ر جو توانائیاں اور طاقت وقوت جوانی میں حاصل تھی، جو کام آدمی اس وقت کر سکتا تھا، اب کمزوری اور ناتوانی کی وجہ سے نہیں کر سکتا، اب صرف تمناکر سکتا ہے کہ کاش! طاقت ہوتی تو فلاں فلاں کام کرتا، لیکن موقع ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے ۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ اللہ کو بھی جوانی کے ایام کی عبادتیں زیادہ محبو ب ہیں۔ شاید اسی وجہ سے جوانی کو اللہ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کی کوشش میں گزارنے والے کو محشر کے روز عرش کا سایہ نصیب ہونے کی بھی بات کہی گئی ہے ۔ تکلیف اور پریشانی کے ایام بن بلائے مہمان ہوتے ہیں ، برے دن آپ کو پوچھ کر نہیں آتے۔ اس لئے صحت اور تندرستی کو غنیمت سمجھنا چاہئے، نہ جانے کب بیماریاں حملہ آور ہوجائیں اور آدمی بستر کا ہو کر رہ جائے ۔
خوشی کی آنکھ میں آنسو کی بھی جگہ رکھنا
برے زمانے کبھی پوچھ کر نہیں آتے
دوسری ایک بہت بڑی نعمت فراغت ہے ۔ زمانے کی ترقیات نے ’’ٹائم پاس ‘‘ کے نام سے بے شمار چیزوں کا تحفہ ہمیں دیا ہے۔ ہم بے تحاشہ ان کا استعمال کرتے ہیں۔ نوجوان اپنا کتنا وقت فضول اور لایعنی کاموں میں گزارتے ہیں اس کا انداز ہ کرنا مشکل ہے۔ انٹر نیٹ کی دنیا سے واقف افراد اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ سوشل میڈیا پر ہر وقت آن لائن رہنے والے بے شمار ایسے بدنصیب بھی ہیں کہ سالہا سال ایسے گزر جاتے ہیں کہ قرآن مجید پڑھنا، سمجھنا یا سمجھنے کی کوشش کرنا تو درکنار جنھیں قرآن کھولنے تک کا موقع نہیں ملتا ۔ وہ لوگ دنیا کے و قتی محبوب سے تعلقات استوار رکھنے کے لئے پیدا کرنے والے کے دائمی پیغام کو نظر انداز کر کے انتہائی درجہ کی بے عقلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔فضول چاٹنگ اور بے کار مشغلوں میں اپنا وقت برباد کرتے ہوئے یہ اچھی طرح یا د رکھیں کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وقت انسان کو بیکار بناکر چھوڑ دیتا ہے ۔ دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ وقت اور صحت جیسی عظیم نعمتوں کا احساس اپنے اندر پیدا کریں، اور شکر ادا کرتے رہیں، ان نعمتوں کی شکر گزاری کا طریقہ یہ ہے کہ ان کوبامقصد طریقے سے استعمال کریں، شکر ادا کرنے سے یقیناًًان میں بیش بہا اضافہ ہوگا۔اگر خدانخواستہ ان نعمتوں کوبے مصرف استعمال کیا گیا، یا بے سوداور لاحاصل کاموں میں لگادیا، تویہ نعمت کی ناقدری اور نا شکری کہلائے گی اورکفران نعمت سے نہ صرف یہ کہ نعمتیں چھن جاتی ہیں بلکہ ناشکری کا عذاب بھی بڑاسخت ہوتاہے ۔ اللہ رب العزت ہم سب کو اپنا مقصد حیات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(برماور سید احمد سالک ندوی، بھٹکل )
اگر تم شکر ادا کرو گے
لئن شکرتم لأزیدنکم ولئن کفرتم ان عذابی لشدید۔ (سورۃ ابراہیم: آیت نمبر.۷) ترجمہ : ’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا، اور اگر تم نے ناشکری کا رویہ اختیا کیا تو میرا عذاب…