مانینی چٹرجی
مترجم : سعود فیروز
شفین جہاں (درخواست دہندہ) اور اشوکن کے۔ایم۔ ودیگر (جواب دہندہ) کے معاملے میں سپریم کورٹ میں داخل کی گئی رہائی کی خصوصی درخواست ہوسکتا ہے کہ پہلی نظر میں ایک داستان ماضی معلوم ہو۔
کیرلا کے ساکن ایک نوجوان ،شفین جہاں نے قانونی طور پر رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئی اپنی بیوی کو آزادی اور انصاف دلانے کے لئے ملک کی عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ ان کی بیوی کو ان کی مرضی کے خلاف ان کے والد اشوکن کے۔ایم۔ نے ” گھر میں نظر بند ” کر رکھا ہے۔ جج صاحبان سے یہ گزارش بھی کی گئی ہے کہ وہ متعلقہ اتھارٹیز کو حکم دیں کہ وہ ان کی بیوی کو عدالت میں پیش کریں۔
ہم نے حقیقی زندگی میں بھی اور فلموں میں بھی ایسے بے شمار معاملات دیکھے ہیں جن میں نوجوان جوڑے اپنے والدین کی مرضی سے انکار کرتے ہوئے بین طبقاتی شادیاں کرنا چاہتے ، غصہ میں والدین ان کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کر تے ۔اس طرح کے معاملات اکثر خاندان کے افراد اور دوستوں کی مداخلت سے حل ہوجاتے ۔کئی دنوں تک یہ تنازعہ باقی رہتا ،لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ رشتے بالاخر دوبارہ بحال ہوجاتے ۔
لیکن اب ہم جس دنیا میں جی رہے ہیں اس میں یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں ہے۔ بالی ووڈ کے ممتازترین اسکرپٹ رائٹر بھی ایسی کہانی نہیں لکھ سکے ہوں گے جس میں اس قدر تجسس و اسرار کی پرتیں ہوں، جس میں زعفرانی نظریہ کے پسندیدہ تار باہم اس طرح مربوط ہوں کہ ایک لڑکی کی عام کہانی ایک سنسنی خیز ڈرامہ بن کر ‘اسلامی دہشت گردی اور ‘لَو جہاد میں تبدیل ہوگئی ہو۔
سپریم کورٹ کے جج حضرات پیش قدمی کرسکتے تھے،اور معاملہ کو سنجیدگی سے لے کر اس کی پیچیدگیوں کو فرو کرسکتے تھے۔ اس طرح وہ ایک ایسی خاتون کے قضیے کو حل کرلیتے جس کے معاملے کو سازشی الزامات کا سہارا لے کر پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔ بد قسمتی سے چیف جسٹس کی بنچ جے ۔ایس ۔کھے ہار، اور جج ڈی۔وائی۔چندرا شود نے ایسا کرنے سے خود کو باز رکھا۔صرف یہی نہیں ،بلکہ جج صاحبان نےقومی تفتیشی ایجنسی (نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی) کو حکم دےدیا کہ وہ ان الزامات کی تحقیق کرے کیرلا میں آئی ایس آئی ایس (ISIS) سےتعلق رکھنے والی بعض تنظیمیں ہندو لڑکیوں کو اسلام میں داخل کروا رہی ہیں۔اس فیصلہ نے ان شر پسندوں کے بیانیے کو محض تقویت ہی دی جو مذہب اور شادی کے سلسلے میں انفرادی آزادی کے مخالف ہیں۔ کیرلا حکومت کا بھی یہی رویہ رہا۔ ایک ایسا معاملہ جس کی تحقیقات اب تک کیرلا پولس کر رہی تھی اسے قومی تفتیشی ایجنسی کے حوالے کرنے کے فیصلے کو قبول کرکے کیرلا حکومت نے وفاقی نظام کے اصولوں کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔
اس ہنگامے میں جس کی آواز دب کر رہ گئی، وہ ہے اس معاملہ کی کلیدی شخصیت، ایک خاتون، اکھیلا ،جس نے اکھیلا سے ‘ہادیہ بننا پسند کیا۔اس کی کہانی سماعت کی مستحق ہے۔پٹیشن کے مطابق، اکھیلا شیوراج ہومیوپیتھی میڈیکل کالج،سیلم کی طالبہ تھی۔تبھی جسینہ نامی ایک لڑکی سے اس کی گہری دوستی استوار ہوگئی۔جس کے ذریعہ اکھیلا نے اسلام کے اساسی تصورات کا تعارف حاصل کیا۔ اسے اسلام کے اصول و اقدار میں کشش نظر آئی اور اس نے اپنا مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس طرح وہ اکھیلا سے ہادیہ بن گئی۔بالغ اور باشعور ہونے کے سبب، اسے یہ فیصلہ کرنے کا حق حاصل تھا۔چونکہ اس کے والدین کٹر ہندو تھے لہذا وہ اپنے گھر نہیں گئی۔ بس والدین کو اپنے فیصلہ سے آگاہ کردیا۔
رد عمل کے طور پر اس کے والد نے habeas corpus رِٹ داخل کردی۔ ( ہاباس کارپس ایک درقانونی درخواست ہے جس کے ذریعہ کسی گرفتار شدہ شخص کو عدالت میں حاضر کرنے کی گزارش کی جاتی ہے تاکہ اس کی رہائی کو ناممکن بنایا جاسکے)۔الزام یہ لگایا کہ اکھیلا کو اس کی مرضی کے خلاف بالجبر اسلام قبول کروایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ کیرلا ہائی کورٹ نے معاملے کو یہ کہہ کر ختم کردیا تھا کہ اکھیلا نے اپنی مرضی سے اپنے والدین کا گھر چھوڑا ہے۔ اور اسے حکم دیا تھا کہ ضلع ملاپرم میں واقع ایک ہوسٹل میں قیام کرے جو کہ مرکزالہدایہ ستیا سرانی ایجوکیشنل اینڈ چیریٹیبل ٹرسٹ کے زیر انصرام ہے۔جہاں اکھیلا نے اپنی پڑھائی جاری رکھی۔
اس کے والد نے بس نہیں کیا۔ انہوں نے مزید ایک ہاباس کارپس پٹیشن دائر کی۔اس مرتبہ یہ الزام لگایا کہ اس کی بیٹی کو ادارے اور ایک خاتون،زینب کے ذریعے ،جس کا اسلامک اسٹیٹ اور دوسری دہشت گرد تنظیموں سے تعلق ہے، انتہا پسند بنایا جا رہا ہے۔معاملہ کی سماعت کے دوران ہادیہ نے اعتراف کیا کہ اس نے اپنی رضامندی سے اسلام قبول کیا ہے۔اور اسلام پر اپنے ایمان کا اقرار کیا۔ہائی کورٹ نے پھر یہ بیان دیا کہ اس معاملے میں زبردستی مذہب تبدیل کروانے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
ابھی معاملے کی سماعت جاری ہی تھی کہ ہادیہ نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے میٹریمونیل ویب سائٹس پر اس خواہش کا اظہار کیا۔ پچاس لوگوں نے ہادیہ سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ انٹر نٹ کے ذریعے شیفن جہاں سے ہادیہ کا رابطہ ہوا۔شفین کے افراد خانہ سے ملاقات کے بعد دونوں نے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوجانے کا فیصلہ کرلیا۔09 دسمبر 2016 کو دونوں نے اسلامی شریعت کے مطابق شادی کرلی۔
ایسا لگتا ہے کہ شادی نے ہائی کورٹ کا رویہ تبدیل کردیا۔چنانچہ کورٹ نے ہادیہ کے والد کی اس شکایت کو اہمیت دینا شروع کردیا جس میں کہا گیا تھا کہ انتہا پسند اسلامی گروپ سے وابستہ افراد نے ہادیہ کی ذہن سازی کی ہے۔اور اس کی شادی ایک ایسے نوجوان سے کرائی جا رہی جس کے بارے میں شبہ ہے کہ اس کا تعلق دہشت گردتنظیموں سے ہے۔واضح رہے کہ شفین جہاں اعلانیہ طور پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کا رکن ہے،جوکہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا نامی اسلامی تنظیم کا سیاسی بازو ہے۔شفین جہاں تنظیم کے سوشل میڈیا گروپ کا سرگرم رکن بھی ہے۔
ان حقائق کو بنیاد بناتے ہوئے کیرلا ہائی کورٹ نے 24 مئی،2017 کو شفین جہاں اور ہادیہ کی شادی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے منسوخ کردیا۔شفین کے بیانات کی سماعت کے بغیر، اور شفین کے نکاح میں برقرار رہنے کے ہادیہ کے اصرار کے علی الرغم، عدالت نتیجے تک پہنچ گئی ۔ہادیہ – جسے عدالت ہمیشہ اکھیلا ہی کہتی ہے-کو واپس اپنے والدین کے گھر میں رہنے کے لئے بھیج دیا گیا۔
سپریم کورٹ میں دائر کردہ اپنی پٹیشن میں شفین جہاں نے ہائے کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کیا جس میں عدالت نے ان کی شادی کو منسوخ کردیا تھا اور اس کی بیوی کو اس کی مرضی کے بغیر اس کے والد کی تحویل میں دے دیا گیاا تھا۔ڈھیروں الزامات اور کردار کشی کی کوششوں کے باوجود شفین جہاں کے خلاف اب تک کوئی معاملہ ثابت نہیں ہوسکا ہے۔اور وہ بدستور بھارت کا ایک بونافائڈ شہری ہے۔پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شفین جہاں اور ہادیہ کہ شادی کو ‘لَو جہاد کا معاملہ قرار دے کر ہائی کورٹ نے غلطی کی ہے۔ پٹیشن میں کہا گیا ہے ؛ ” اس معاملے میں لڑکی نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا ہے، پٹیشن دائر کردہ سے شادی کرنے کے لئے نہیں۔یہ تو مذہب تبدیل کرنے کہ بعد ہوا ہے کہ دونوں شادی کی ویب سائٹ کے ذریے ایک دوسرے کے ربط میں آئے اور شادی کرنے کا فیصلہ کیا”۔
پٹیشن میں مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ہائی کورٹ نے ” آئین ہند کی دفعات 21 اور 25 میں بالغ مرد و خاتون کو اپنے پسند کا مذہب اختیار کرنے اور اپنے پسند کردہ شخص سے شادی کرنے کی دی گئی آزادی ” کی خلاف ورزی کی ہے۔
اسی تناظر میں پٹیشن میں 2006 میں لتا سنگھ بمقابلہ حکومت اتر پردیش کے کیس کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔جس میں عدالت نے یہ فیصلہ سنایا تھا کہ “ہمارے ملک کی طرح سیکیولر جمہوری ملک میں،کس سے شادی کرنا ہے یہ فیصلہ کرنے کااختیار صرف فرد کو حاصل ہے ۔والدین شادی کے معاملہ میں کسی فرد کو مجبور نہیں کر سکتے”۔
شفین جہاں کے وکلاء نے، جن میں کپل سبل اور اندرا جئے سنگھ بھی شامل ہیں،سپریم کورٹ سے گزارش کی ہے کہ وہ پہلے ہادیہ کو عدالت میں بلائے اور اس معاملے میں اس کے خیالات کو سنا جائے۔چیف جسٹس کھے ہار نے ہادیہ کو بچی قرار دیتے ہوئے ‘بلیو وہیل چیلنج نامی آن لائن گیم کا حوالہ دیا جس کے جال میں پھنس کر کئی نوجوان اپنی جان گنوا چکے ہیں۔لیکن یہ بات غیر مناسب معلوم ہوتی ہے۔ہادیہ کی عمر 25 سال سے زیادہ ہے، وہ ایک تعلیم یافتہ ڈاکٹر ہے، عقل و فہم رکھتی ہے اور خود کفیل ہے۔اگر اس پر یا اس کے شوہر پر یہ الزام سچ ثابت ہوجاتا ہے کہ ان کے تعلقات دہشت گردانہ تنظیموں سے ہیں،تو اس بنیاد پر ان کے خلاف قانونی کاروائی تو کی جا سکتی ہے،لیکن دو باشعور افراد کی شادی کو منسوخ کردینا ، اور ایک بالغ خاتون کو اس کے والدین کا مذہب اختیار کرنے پر مجبور کردینا بہت افسوس ناک ہوگا۔
ذہن سازی یا ‘برین واشنگ کے الزامات بھی عجیب ہیں۔کوئی بھی شخص جب کسی نئے راستے کا انتخاب کرتا ہے، چاہے وہ سیاسی ہو،مذہبی ہو یا نظریاتی، وہ برین واشنگ کے بعد ہی ایسا کرتا ہے۔ اس میں غلط کیا ہے؟
سپریم کورٹ کی بنچ اس بات پر راضی ہوگئی ہے کہ وہ این آئی اے کی تحقیقات مکمل ہونے کہ بعد ہادیہ کے بیانات کی سماعت کرے گی۔ کورٹ اس بات پر بھی راضی ہوگئی ہے کہ معاملہ صاف رکھنے کے لئے این آئی اے کی رپورٹ کی تنقیدی جانچ سپریم کورٹ کے کسی سبک دوش جج سے کروائی جائے گی۔
خاندان، سماج اور سرکاری اداروں کے غیر معمولی دباؤ کو دیکھتے ہوئے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آیا ہادیہ اپنا دین اور اپنی آزادی بچاپائے گی یا نہیں۔ البتہ یہ بات تو طئے ہے کہ خدا نخواستہ ہادیہ کسی مسلم گھرانے میں پیدا ہوئی ہوتی،اس کی ذہن سازی کوئی زعفرانی نظریہ رکھنے والا فرد کرتا، اس کی شادی کسی گئو رکھشک سے ہوتی ،اور وہ ‘ہادیہ سے ‘اکھیلا بنی ہوتی تو اس کی قسمت بالکل الگ واقع ہوئی ہوتی۔
(بشکریہ:دی ٹیلی گراف )