اروناچل پردیش کے طالب علم نیڈوتانیہ کا قتل جس بے رحمی سے کیا گیا، اس سے اس بات کا صاف احساس ہوجاتا ہے کہ انسان کس حد تک بے حسی اور ظلم کا ارتکاب کرسکتا ہے؟ ایک طالب علم کی موت صرف اس لیے ہوجاتی ہے کہ وہ کسی خاص علاقے سے آتا ہے۔ اس کا رہن سہن، بات چیت، اوڑھنا پہنناکچھ عجیب اور اجنبیت کا حامل ہوتا ہے، چنانچہ اس پر طنز یہ جملے کسے جاتے ہیں، اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے، طرح طرح سے اذیت دی جاتی ہے، اور پھر اتنا مارا جاتا ہے کہ چوٹ کو برداشت نہ کرنے کے باعث اس کی موت ہوجاتی ہے۔
ملک میں ظلم وتشدد جس انداز سے بڑھ رہا ہے، وہ نہ صرف تشویشناک صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے بلکہ ایک چبھتے ہوئے سوال کی شکل میں سب کے ذہن میں گردش کررہا ہے، اس سوال کا جواب جلد ڈھونڈا جانا انتہائی ضروری ہے۔
ملک کی راجدھانی دہلی ۲۰۱۲ ء میں میڈیکل کی ایک طالبہ کے ساتھ گینگ ریپ کا معاملہ ریپ کے نتیجے میں ہوئی اس کی موت کی وجہ سے سرخیوں میں رہا تھا، دنیا بھر کے میڈیا نے اس مسئلہ کو خوب سرخیوں میں جگہ دی، حکومت سے لے کر پارلیمنٹ تک یہ بحث کا موضوع رہا، اور اس کے بعد عورتوں پر ظلم وناانصافی کی روک تھام کے لیے ایک نیا قانون پاس کیا گیا۔
نیڈوتانیہ کا یہ واقعہ دہلی میں اکیلا ایسا واقعہ نہیں ہے، بلکہ ملک کے دارالحکومت میں شمال مشرقی ریاستوں کے رہنے والے لوگوں کے ساتھ ظلم وزیادتی ہوتی رہی ہے۔ حالیہ ایک سروے رپورٹ کے مطابق ملک کے مختلف چار بڑے میٹرو شہروں میں شمال مشرقی ریاستوں سے تعلق رکھنے والی ۶۰؍فیصد عورتوں پر ظلم ہوتا ہے۔ وہیں اکیلے دہلی میں ۸۱؍فیصدی عورتوں پر کسی نہ کسی طرح کی ظلم وزیادتی ہوتی ہے۔ یہ سروے رپورٹ دہلی، ممبئی، کلکتہ اور بنگلور میں رہنے والے شمال مشرقی ریاستوں کے لوگوں پر ہورہی مختلف طرح کی زیادتیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے تیار کی گئی ہے۔ یہ زیادتیاں اسکول، کالج، روزگار کے مقامات، اورسڑکوں سے لے کر بس، ٹرین سبھی جگہوں پر ہوتی ہیں۔
نیڈوتانیہ کی موت اس مسئلہ کو پھر سے ایک مرتبہ منظر عام پر لے آئی ہے، اور لوگ نیڈوتانیہ کے لیے انصاف مانگنے کے ساتھ ساتھ پورے شمال مشرق کے لوگوں کے حق میں آواز اٹھارہے ہیں۔ طلبہ کی کثیرتعداد جنترمنتر سے لے کر عام سڑکوں تک انصاف کی اس جدوجہد میں سرگرم عمل نظرآرہی ہے۔ وہیں پارلیمنٹ میں بھی اب اس مسئلہ کو اٹھایا گیا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں نے اس معاملہ کو لے کر سیاست بھی شروع کردی ہے۔
بہرحال آج سوال اس بات کا ہے کہ آخر کیوں علاقائیت، رنگ نسل، اور کلچر کے اختلاف کی بنیاد پر لوگوں کے ساتھ اس قدر زیادتیاں کی جاتی ہیں۔ انہیں الگ قسم کا نچلے طبقے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ کبھی کشمیری طلبہ کے ساتھ مار پیٹ کی جاتی ہے۔ کبھی حجاب میں رہنے والی لڑکیوں پر طنز کسا جاتا ہے، تو کبھی داڑھی ٹوپی کی بنیاد پر طلبہ کی تلاشی لی جاتی ہے اور انہیں پریشان کیا جاتا ہے، طلبہ کی ایک بڑی تعداد جو اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے کالجوں میں رہتی ہے، ان کے ساتھ مارپیٹ، اور ریگنگ جیسے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ نیڈوتانیہ کے واقعے کے بعد بھی دہلی میں شمال مشرق کی رہنے والی ایک لڑکی کے ساتھ ریپ اور دوسرے کے ساتھ مارپیٹ کی شکایت سامنے آچکی ہے۔
سماج میں جس طرح تشدد کا رجحان بڑھتا جارہا ہے، اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر قتل تک کے واقعات ہورہے ہیں، وہ کافی تشویشناک ہے۔ تمل ناڈو کے ایک کالج کا واقعہ ہے کہ پرنسپل کو طلبہ نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا، وہیں دوسری طرف مغربی بنگال میں بھی تشدد کے واقعات کے سبب ایک طالب علم کی موت واقع ہوگئی۔ نیڈوتانیہ کے ساتھ بھی ایک چھوٹی سی بات پر جھگڑا ہوا تھا، اور وہ قتل جیسے سنگین واقعے میں تبدیل ہوگیا۔
ہمیں اس مسئلہ پر سوچنا ہوگا، طلبہ برادری تک عدل وانصاف کا پیغام پہنچانے کے لیے جدوجہد کا ابھی آغاز ہے، ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، تبھی جاکر ہم عدل وانصاف پر مبنی ایک سماج کی تشکیل کرسکتے ہیں۔
(شارق انصر)