اپنی باتیں

ایڈمن

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ایک ایسے معاشرے میں ہوئی تھی، جہاں انسانوں نے اللہ رب العزت کو چھوڑ کرمختلف الہ بنارکھے تھے، ان کے ذہن ودماغ میں آبائی روایات سمائی ہوئی تھیں، وہ کسی بھی نئے…

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ایک ایسے معاشرے میں ہوئی تھی، جہاں انسانوں نے اللہ رب العزت کو چھوڑ کرمختلف الہ بنارکھے تھے، ان کے ذہن ودماغ میں آبائی روایات سمائی ہوئی تھیں، وہ کسی بھی نئے دین کو بآسانی قبول نہیں کرسکتے تھے، چنانچہ اللہ کے رسولؐ نے اپنی دعوت میں جلد بازی کے بجائے تدریج کا پہلو اختیار کیا، ان کے مشرکانہ عقائد اور آبائی روایات کو نشانہ بنانے کے بجائے ان کے سامنے عقل وفطرت پر مبنی دلائل پیش کیے، ان سے پیارومحبت بھرے انداز میں گفتگو کی اوراسلام کا پیغام بالکل کھلے کھلے اور واضح انداز میں پیش کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مزاج اور طریقہ کار سے متعلق ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کافی اہم بات کہی ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ’’قرآن مجید میں اول اول مفصل سورتیں نازل ہوئیں، جن میں جنت اور جہنم کا ذکر آیا ہے، جس کے نتیجہ میں لوگ اسلام کی طرف مائل ہونے لگے، اس کے بعد حلال وحرام کے احکام نازل ہوئے، اگر پہلی ہی بار یہ حکم نازل ہوجاتا کہ شراب چھوڑدو، تو لوگ کہتے کہ ہم کبھی نہیں چھوڑیں گے، اور اگر حکم آتا کہ زناکاری چھوڑدو، تو لوگ کہتے کہ ہم کبھی نہیں چھوڑیں گے‘‘۔ (بخاری)
تدریج کا پہلو اس لحاظ سے کافی اہم ہے کہ اس سے فطری انداز میں مرض کا علاج ہوتا ہے، جیساکہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی روایت سے اشارہ ملتا ہے کہ پہلے جنت اور جہنم کا ذکر کیا گیا، جس میں ترغیب وتشویق بھی ہے اور انذاروترہیب بھی، جس کے نتیجہ میں لوگ اسلام کی طرف آنے لگے، اس کے بعدجب عملی زندگی کے مسائل شروع ہوئے تو مختلف مراحل میں وقت اور حالات کے پیش نظر دوسرے احکامات دیئے گئے۔
اسلام کے دامن رحمت میں آجانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یکلخت تمام ہی آلائشوں اور غلط عادتوں سے پاک کرنے کے بجائے بہت ہی فطری انداز سے وقت اور حالات کی رعایت کرتے ہوئے احکاماتِ الہی سے واقف کرایا۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی دور میں فکر و عقیدے اور اخلاق واقدار پر کافی زور دیا گیا، اس دور میں قرآن مجید کی جو آیات اور سورتیں نازل ہوئیں ان کے اندر جنت، جہنم اور جزا،سزاکا خوب تذکرہ ہے، بہت ہی موثر اور مدلل انداز میں اللہ رب العزت کے الہ اور معبود حقیقی ہونے کی وضاحت ہے، اخلاق واقدار پر بھی کافی زور دیا گیا ہے۔ معبودانِ باطل کو نشانہ بنانے کے بجائے بہت ہی معقول انداز میں ان کی آبائی روایات اور ان کے درمیان موجود انسانی کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی ہے، اور ضرورت اور حالات کے پیش نظر اللہ کے بندوں کو اللہ کے احکام سے واقف کرایا گیا ہے۔
دعوت دین میں تدریج کا ایک اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے ذہن وفکر کو ثبات اور استحکام نصیب ہوتا ہے، کفار جب رسول اللہؐ کے سامنے اعتراض کرنے لگے کہ قرآن کو یکبارگی کیوں نہیں اتارا گیا، تو اس کا جواب اللہ تعالی نے یہی دیا کہ ’’اس طرح آہستہ آہستہ اس لیے اتارا گیا ہے، تاکہ اس سے تمہارے دل کو ثبات اور استحکام عطاکریں‘‘۔ (الفرقان: ۳۲)
رسول اللہؐ کی دعوت میں حکیمانہ تدریج کا تقاضا ہے کہ ایک غیرمسلم کے سامنے انتہائی حکمت اورخیرخواہی کے جذبہ کے ساتھ اسلام کا مکمل نظام حیات پیش کیا جائے، لیکن اس سے یہ مطالبہ ہرگز نہ کیا جائے کہ وہ یکبارگی تمام احکامات کا پابند ہوجائے، اس سے اس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں اس کے قدم ڈگمگانے نہ لگیں، اور وہ اس رحمت سے محروم نہ رہ جائے، حکمت کا تقاضا ہے کہ اس کو سنبھلنے اور خود کو تبدیل کرنے کا بھرپور موقع دیا جائے۔
تدریج کا عمل ایک انتہائی حکیمانہ عمل اوردعوت دین کا کام کرنے والوں کی ایک اہم ضرورت ہے، رسول اللہؐ کی دعوت کے مختلف مراحل میں یہ پہلو کافی نمایاں نظر آتا ہے۔ یہ ایک حکمت عملی ہے، جو داعی معاشرہ کے عمومی حالات اور مدعو کے مخصوص حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد اختیار کرتا ہے۔ داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے اپنی مکی زندگی میں بھی اس کی رعایت کی اور مدنی زندگی میں بھی۔ مکی زندگی میں آپؐ نے دعوت کی شروعات اپنے قریبی لوگوں سے کی، اس کے بعد اپنے خاندان اور قبیلہ تک اسلام کا پیغام پہنچایا، کچھ عرصہ گزرجانے کے بعد عام اہل مکہ اورپھر تمام دنیائے انسانیت تک اس پیغام کو پہنچانے کے لیے جدوجہد کی۔ آپؐ کی دعوت کی حکیمانہ تدریج ہی کا نتیجہ تھا کہ ابتدائی دور میں خاموش طریقے سے دعوت کا کام کرتے رہے، اور حالات کچھ تبدیل ہوئے تو علی الاعلان اس فریضہ کو انجام دیا۔
دور نبویؐ میں احکام الہی کی تنفیذ اور شریعتِ اسلامی کی تطبیق میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ مختلف مراحل میں شراب اور سودکی حرمت اس کی شاندار مثال ہے۔حرمت شراب کے سلسلہ میں پہلی آیت آئی کہ :’’اور کھجور اور انگور کے میووں سے بھی کہ ان سے شراب بناتے ہو اور عمدہ رزق، جو لوگ سمجھ رکھتے ہیں ان کیلئے ان میں نشانی ہے‘‘(النحل:۶۷)، اس آیت میں رزق حسن کے بالمقابل شراب کو رکھ کر اس بات کا اشارہ دے دیا گیا کہ یہ حلال نہیں ہوسکتا، کیونکہ جو چیز رزق حسن کے دائرے میں نہیں آتی، وہ حلال نہیں ہوسکتی، لیکن اس سلسلہ میں حالات کی رعایت کرتے ہوئے کوئی صریح حکم نہیں دیا گیا۔ اس کے بعد آیت آئی: ’’(اے پیغمبر) لوگ تم سے شراب اور جوئے کا حکم دریافت کرتے ہیں تو کہہ دو کہ اُن میں نقصان زیادہ ہیں اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں مگر اُن کے نقصان فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں‘‘(البقرہ: ۲۱۹)، اس آیت میں اس بات کا اشارہ دے دیا گیا کہ شراب نوشی حرام ہے، وجہ یہ بتائی گئی کہ اس میں نقصان کا پہلو ابھرا ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود یہاں بھی اس سلسلہ میں کوئی صریح حکم نہیں دیا گیا، بس اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ نقصانات زیادہ ہیں اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں مگر اُن کے نقصان فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں، کیونکہ ابھی نومسلموں کی ایک بڑی تعداد اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ اس سے باز رہ سکے، اور اندیشہ تھا کہ فوری ممانعت کا غلط ردعمل نہ سامنے آجائے، جو شریعت اور خود ان نومسلموں کے وسیع تر مفاد کے برخلاف ہو، اس لیے قدرے نرم رویہ اختیار کیا گیا۔ اس طرح مذکورہ بالا دونوں ہی مقامات پر سخت اور حاکمانہ لہجہ اختیار کرنے کے بجائے ان کی عقل کو اپیل کیا گیا کہ جو چیز رزق حسن میں نہیں آتی اور جس چیز کے نقصانات بہت زیادہ ہیں، وہ چیز کیونکر جائز ہوسکتی ہے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد جبکہ وہ اس کے لیے ذہنی طور پر کافی تیار ہوچکے تھے، ایک دوسرا حکم آیا، جس میں نماز کے اوقات میں شراب نوشی سے منع کیا گیا: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ،نماز اس وقت پڑھنی چاہئے جب تم جانو کہ کیا پڑھ رہے ہو‘‘(النساء: ۴۳)، اس آیت کے ذریعہ مزید اشارہ دے دیا گیا کہ شراب نوشی اسلام میں قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ پنج وقتہ نماز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ شراب کو ہاتھ بھی نہ لگایا جائے، اس لیے کہ نمازوں کے درمیان جس قدر وقفہ ہوتا ہے، اس قلیل وقفہ میں اس کے اثرات سے چھٹکارا حاصل کرنا مشکل ہوگا۔ اس طرح مختلف مراحل میں ذہنوں کو تربیت دینے کے بعد حتمی حکم نازل ہوا کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو۔‘‘ (المائدہ: ۹۰)
یہ تدریج سود سے متعلق احکام میں اور بھی واضح طور سے نظر آتی ہے کہ ابتدا میں اصل قانون اور فیصلے کی جانب اشارہ کردیا گیا، لیکن اس کے نفاذمیں تدریج پر مبنی نہایت ہی حکیمانہ طرز اختیار کیا گیا۔
نبی کریم ؐ نے دعوت دین کو بہت ہی آسان انداز سے اور بہت ہی حکمت کے ساتھ پیش کیا تھا، آپؐ نے صحابہ کرام ؐ کی تربیت بھی اسی انداز سے فرمائی تھی، اس سلسلہ میں بہت سی روایات موجودہیں، آپؐ نے فرمایا کہ ’’انہیں خوشخبری دو اورمتنفر نہ کرو‘‘ (مسلم)، اسی طرح ایک موقع سے ارشاد فرمایاکہ ’’آسانی پیدا کرو، دشواری میں نہ ڈالو۔‘‘(بخاری)، ایک دفعہ آپؐ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کی جانب روانہ کرتے ہوئے نصیحت فرمائی تھی کہ ’’ تم ایک ایسی قوم کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہیں، سب سے پہلے تم انہیں توحید باری تعالی کی دعوت دینا، جب وہ اس کو مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالی نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جب وہ نماز پڑھنے لگیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالی نے ان کے اموال میں زکوۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے ناداروں میں تقسیم کردی جائے گی۔۔۔‘‘ (متفق علیہ)
آپؐ نے حضرت معاذؓ کو اس بات کی نصیحت کی کہ وہ ان کے سامنے بہت ہی حکمت کے ساتھ اسلام کی دعوت پیش کریں، اور ان کے حالات کوپیش نظر رکھتے ہوئے ایک خاص ترتیب اور تدریج کے ساتھ اپنا پیغام پیش کریں۔ اس حکیمانہ تدریج کا تقاضا ہے کہ داعی دین کا گہرا علم رکھتا ہو، وہ دین کے اصولوں اور بنیادوں سے خوب اچھی طرح واقف ہو، تاکہ وہ پراعتماد انداز سے، اور حکیمانہ تدریج کے ساتھ اپنی دعوت اور اپنے پیغام کا مکمل اور صحیح انداز سے تعارف کراسکے۔
تدریج کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کچھ لوگوں کو بعض احکامات کے سلسلہ میں رعایت دے دی جائے، یا باطل سے کچھ امور میں مصالحت کرلی جائے، بلکہ تدریج سے مراد مدعو کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مخصوص مدت کے لیے اسے اس بات کا موقع دینا ہے کہ وہ اس مدت میں ان آلائشوں سے نجات حاصل کرلے جو برسہابرس سے اس کی شخصیت کا حصہ بنی ہوئی ہیں، یقیناًیہ مرحلہ ایک نومسلم کے لیے بسااوقات بہت ہی صبرآزما اور احتیاط کا متقاضی ہوتا ہے۔
تدریج کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ داعی کسی چیز کو حلال یا حرام کرنے کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لے، بلکہ جو چیز اللہ کی جانب سے حلال ہے وہ حلا ل ہی رہے گی اور جو چیز اس کی جانب سے حرام ہے وہ حرام ہی رہے گی، داع�ئدین تدریج کے ذریعہ بہت ہی حکمت اور دانائی کے ساتھ اپنے اہداف کے حصول کی کوشش کرتا ہے۔ اقامت دین کے علمبرداروں کے لیے نبیؐ کی دعوت کے اس اسلوب میں بڑی رہنمائی موجود ہے۔
(ابوالاعلی سید سبحانی)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں