اور انسانیت غرق ہوگئی۔۔۔

ایڈمن

حقوق انسانی کی دہائی دینے والی حکومتوں کا پردہ اس وقت بھی فاش ہوا تھا، جب غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں سمندر کے ساحل سے تین بچوں کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں؛ یہ معصوم بچے جنگ کی تباہیوں…

حقوق انسانی کی دہائی دینے والی حکومتوں کا پردہ اس وقت بھی فاش ہوا تھا، جب غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں سمندر کے ساحل سے تین بچوں کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں؛ یہ معصوم بچے جنگ کی تباہیوں سے دور سمندر کے کنارے کھیل کے میدان کی تلاش میں نکل آئے تھے۔ اسرائیل کی درندہ صفت فوج اپنی دشمن قوم کے بچوں کو کھیلتا ہوا نہیں دیکھ سکی تھی۔
آج خود مسلم دنیا کے حکمرانوں کے ظلم وستم کا شکار ہوکر جب مہاجرین کی ایک ٹولی ترکی سے یونان کا سمندری سفر طے کرنے کی کوشش کرتی ہے اور یورپ سے مدد نہ ملنے کے نتیجے میں اس قافلے کے ایک بچے کی لاش جب ترکی میں واقع سمندر کے ساحل پر ملتی ہے تو انسانیت کا مستقبل ہمیں پھر سے اپنی معصوم نگاہوں سے گھورتا ہے۔
ملک شام میں پچھلے چار سالوں سے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے؛ پورے ملک کے عوام برسہا برس سے ظلم کرتے آرہے حکمراں سے تنگ آکر اس کے خلاف کمربستہ ہوکھڑے ہیں اور وہ جابرحکمراں اپنی جنگی طاقتوں کے ذریعے اپنے عوام کو بھی کچل رہا ہے اور پڑوسیوں کو بھی گونگا کرچکاہے اور جمہوریت کے ٹھیکے داروں کی آنکھوں پر بھی پٹیاں بندھ گئی ہیں۔
سالہاسال کی جنگی بربادیوں سے تنگ آکر وہاں کے عوام جب ہجرت کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو انہیں اتنی وسیع وعریض دنیا بھی تنگ نظر آتی ہے۔ حاجیوں کو پانی پلاکر سستا ثواب کمانے والی سعودی حکومت مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دینے سے انکار کردیتی ہے؛ دنیا کی بلند ترین عمارتیں تعمیر کرنے والا متحدہ عرب امارات اپنا منھ پھیر لیتا ہے۔ خدا کی طرف سے نوازے گئے تیل کے کنوؤں سے مالامال قطر، کویت اور بحرین کی سرزمین پر قدم رکھنے کے لیے بھی یہ اہل ایمان نااہل قرار دے دیے جاتے ہیں۔ راستہ بچتا ہے تو ترکی کا جو کہ چالیس لاکھ میں سے بیس لاکھ کا اپنی سرزمین پر استقبال کرتا ہے، البتہ وہاں بھی وہ گرم جوشی نہیں دکھائی دیتی جس کی امید لیے مہاجرین میلوں کا سفر طے کرتے ہیں؛ بقیہ مہاجرین لبنان، عراق، مصر، اردن اور شمالی افریقہ کے ملکوں میں اپنے خیمے ڈال دیتے ہیں۔
چالیس لاکھ لوگوں کی ہجرت کے باوجود بین الاقوامی میڈیا، حقوق انسانی کی تنظیموں اور جمہوریت کے علم برداروں کے کان پر جوں نہیں رینگتی اور ملک شام کا جابر بادشاہ دنیا کی ناک پر بیٹھ کر عیاشی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ آج جب چند ہزار مہاجرین اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر چھوٹی چھوٹی کشتیوں کے سہارے یورپ کا رخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یورپ ایسا بوکھلایا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ جیسے انسان نہیں بھیڑیے اس کی سرحدوں میں گھسنا چاہتے ہیں؛ ایک ایک سرحد سے گزرنا مہاجرین کے لیے محال ہوجاتا ہے اور میڈیا میں ایسا ہنگامہ برپا کیا جاتا ہے، گویا شام کے تمام مہاجرین کا سہارا صرف یورپ ہی میں موجود ہے۔ جبکہ یو این ایچ سی آر کے اعداد وشمار کے مطابق اب تک چالیس لاکھ لوگ شام سے ہجرت کرچکے ہیں، جن میں سے صرف تین لاکھ مہاجرین نے یورپ سے امان کی درخواست کی ہے جو کہ اب تک منظور بھی نہیں ہوسکی ہے اور اس چھوٹی سی تعداد کو امان دینے کے لیے نہ جانے کتنی بار یورپین یونین کے اجلاس ہوچکے ہیں، اور یورپ کا ہر ملک اپنا دامن جھاڑنے کی کوشش میں لگاہوا ہے اور کسی طرح پہنچ گئے مسافر مہاجرین یورپ کے ریلوے اسٹیشنوں اور سڑکوں پر بے یارومددگار پڑے ہوئے ہیں۔ ہنگری کا وزیراعظم اس مصیبت زدہ عوام کے عقیدے ٹٹول رہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ہمیں مسلم مہاجرین قبول نہیں ہیں؛ آسٹریا کی سڑکوں پر اکہتر مہاجرین کی لاشوں سے بھرا ٹرک برآمد ہوتا ہے؛ جرمنی، برطانیہ اور چند دوسرے ممالک کے علاوہ یورپ کے بیشتر ممالک خود سہارا دینے کے بجائے دوسروں کو آمادہ کرنے میں لگ جاتے ہیں، بہرحال سمندروں کے ساحل پر پڑی یہ بچوں کی لاشیں انسانیت کے غرق ہوچکنے کا اعلان کررہی ہیں۔
مصیبت کی اس گھڑی میں شام کے مہاجرین کو دردر کی ٹھوکریں کھاتا ہوا بے یارومددگار دیکھ کر جی میں آتا ہے کہ اس تاریخی ملک کے بے باک اور عزیمت سے بھرے عوام کو سینے سے لگالیا جائے؛ ملک شام کی یہ تاریخ رہی ہے کہ اس نے کسی بھی خطے اور مذہب سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کا ہمیشہ اپنی سرزمین پر گرم جوشی سے استقبال کیا ہے؛ ابراہیم پاشا کی فوجوں کے قہر سے تنگ آکر جب ۱۸۳۹ ؁ء میں مہاجرین نے شام کا رُخ کیا تو شام نے انہیں کندھوں پہ بٹھایا؛ یورپ کے ملک کاکیسس پر روس کے جنگی حملوں کے نتیجے میں مہاجرین نے ۱۸۶۰ ؁ء میں سرزمین شام میں ہی پناہ لی؛ آرمینیا کے مہاجروں کا ٹھکانہ بھی شام ہی بنا، جب ۱۹۱۴ ؁ء میں انہوں نے اپنے وطن سے بے سروسامانی کی حالت میں ہجرت کی؛ اسرائیل کے ظلم وستم اور جنگی جرائم سے تنگ آکر ۱۹۴۸ ؁ء میں فلسطین کے مہاجروں کا بھی ملک شام نے بڑھ چڑھ کر استقبال کیا اور ۱۹۶۷ ؁ء میں دوبارہ جب مظالم سے تنگ آکر فلسطین کے مہاجروں نے شام کا رُخ کیا تو شام کے عوام نے ان کو پلکوں پہ بٹھایا اور اپنی استطاعت سے زیادہ ان کی مہمان نوازی کی؛ عراق اور کویت کی جنگ کے نتیجے میں ۱۹۹۰ ؁ء میں کویت سے جب عوام نے تباہیوں کے نتیجے میں ہجرت کی تو اس وقت بھی شام کے عوام دونوں ہاتھ پھیلائے ان کا استقبال کرتے نظر آئے؛ ۲۰۰۳ ؁ء میں جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو عراق کے مظلوم عوام کو بھی سرزمین شام میں ہی پناہ حاصل ہوئی؛ ۲۰۰۶ ؁ء کی اسرائیل اور لبنان جنگ کے نتیجے میں لبنان کے عوام نے جب اپنا ملک چھوڑا تو انہیں بھی شام ہی کی شکل میں دوسرا گھر نظر آیا؛
شام کی تاریخ میں یہ بات سنہرے حروف میں لکھی جائے گی اور آنے والی نسلوں کو اس عظیم حقیقت پر فخر ہوگا کہ ملک شام نے اپنی سرحدیں کبھی بھی ان مہاجرین کے لیے بند نہیں کیں، جنہوں نے حفظ وامان کی غرض سے شام کا رُخ کیا۔ شام کی یہ بھی تاریخ رہی ہے کہ اس نے عرب کے شہریوں سے کبھی ویزے کا مطالبہ نہیں کیا، چاہے وہ مستقل قیام کی درخواست ہو یا وقتی قیام کا مطالبہ ہو۔ یہ بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ مہاجرین کے قیام کے لیے ملک شام نے کبھی سرحدوں پر خیمے نہیں لگائے بلکہ گھروں کے دروازے کھول دیئے؛ سڑکیں خالی کردیں؛ اور شہروں کے نام بدل دیئے، تاکہ مہاجرین کو اجنبیت کا احساس نہ ہونے پائے۔
آؤ، اب یہ حقائق بھی تاریخ کے حوالے کردیئے جائیں تاکہ آنے والی نسلیں یاد رکھیں کہ جب شام کے عوام پر برا وقت آیا اور ان کی بستیاں تباہ کردی گئیں؛ پورا ملک دھوئیں، دھول اور راکھ کی نذر ہوگیا، اور شام کے مظلوم ومجبور عوام نے اپنے بچے کچے بچوں اور عورتوں کی امان کے لیے ہجرت کا ارادہ کیا تو ان کے لیے تمام سرحدیں بند کردی گئیں اور دنیا نے ان کی جانب سے رُخ پھیر لیا۔

ڈاکٹر صلاح الدین ایوب، نئی دہلی

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں