انٹرپرینورشپ پر مبنی نصاب تعلیم اصلاح یا بوجھ

ایڈمن

طلحہ اسماعیل            گزشتہ تین برسوں میں دہلی حکومت نے تعلیم کے میدان میں کئی اصلاحات کی ہیں۔ ان اصلاحات میں ایک اہم کام چند نئے کورسوں کی شروعات بھی ہے۔ اس سلسلے کی کڑی کے طور پر حکومت نے نرسری…

طلحہ اسماعیل

            گزشتہ تین برسوں میں دہلی حکومت نے تعلیم کے میدان میں کئی اصلاحات کی ہیں۔ ان اصلاحات میں ایک اہم کام چند نئے کورسوں کی شروعات بھی ہے۔ اس سلسلے کی کڑی کے طور پر حکومت نے نرسری سے آٹھویں درجات تک HAPPINESS SYLLABUSنامی ایک جدید نصاب تعلیم کو شروع کیا ہے۔ جس میں طلبہ کو اخلاقی کہانیاں سنائی جائیں گی۔ ان کہانیوں کی مدد سے دراصل اگلے درجات کے لیے طلبہ کو ذہنی طور پرتیار کرنا مقصود ہے۔  اس کلاس کادورانیہ صرف نصف گھنٹہ رکھا گیاہے۔ اس ضمن میں اپنے تجربات کا تذکرہ کرتے ہوئے اساتذہ نے بتایا کہ اس طرح کے مضامین کو پڑھنے میں طلبہ بھرپور دل چسپی لیتے ہیں بلکہ آگے کی کلاسوں مثلاً ریاضی، سائنس وغیرہ کے لیے بھی طلبہ کو تیار کرنے میں یہ مضامین معاون ثابت ہوتے ہیں جنہیں عموماً مشکل مضامین سمجھا جاتا ہے۔ عوامی تعلیم کے اس طرح کے نئے تجربات کو لوگ کافی پسند کررہے ہیں۔

            جدت پر مبنی نصابِ تعلیم کیا ہے؟

            یہ نصاب ایک انٹرپرینور(Entrepreneur) نصاب تعلیم ہے۔ جس میں حکومت نویں سے بارہویں درجات تک کے طلبہ پر توجہ مرکوز رکھتی ہے۔ تاکہ سماج کے Future Entrepreneurکی شکل میں طلبہ اپنی ذہنی نشوونما کرسکیں۔اس نصاب تعلیم کی ٹیگ لائن ہے:

            ’نوجوان ذہن بڑا سوچیں‘۔ ’خوداعتمادی‘۔ ’تخلیقیت‘۔ ’اہلیت‘۔ سرکاری محکمہ تعلیم کے مطابق دہلی کے سرکاری اسکولوں میں اس نصاب تعلیم کوشروع کرنے کے لیے تین اہم دلائل ہیں۔ اس نصاب کوایک ’اضافی مضمون‘کے طور پر  1024اسکولوں میں پیش کیا گیا ہے۔ جس میں ہر دن 40منٹ کی کلاس شامل ہے۔ ان کلاسوں میں مخصوص کتابیں نہیں ہوں گی۔ لیکن اساتذہ کی رہ نمائی کے لیے 15ابواب پر مشتمل ایک نصاب تشکیل دیا گیا ہے۔ جس میں ’اونچے خواب‘، ’موقع شناسی‘، ’منصوبہ بندی‘، ’سماعت‘، ’تعاون باہمی‘، ’ناکامی سے ابھرنا‘ جیسے ابواب شامل ہیں۔

            تعلیم میں کام سے متعلق تجربات و مشاہدات کی اہمیت:

            دہلی حکومت نے اپنے قدم کی توثیق کے لیے قومی درسیات کا خاکہ۔ NCF2005کے باب ’مقاصدِ تعلیم‘  کے دو حصوں کا حوالہ دیا ہے:

          ۔ آزادیِ فکر در اصل فیصلہ لینے کی صلاحیت پروان چڑھاتی ہے۔

          ۔ تعلیم کامقصد معاشی ارتقا اور سماجی تبدیلی کے لیے کی جانے والی سرگرمیوں کا فروغ ہونا چاہیے۔

            اس نئی تبدیلی سے دہلی حکومت کے پیش نظر کن مقاصد کا حصول ہے؟

            گزشتہ برس دسمبر میں دہلی کے نائب وزیراعلی منیش سسودیا نے کہا تھا کہ حکومت ہند نوجوانوں میں ’کام جُوذہانت‘ Enterprenuer mentalityکو فروغ دینا چاہتی ہے۔ تاکہ وہ ’ملازمت کی تلاش کرنے‘ کے بجائے ملازمت پیدا کرنے والے بنیں۔ دہلی حکومت کی منشا دو مقاصد کا حصول ہے:

           ۔ اس سے طلبہ کو ترقی پذیر ذہنیت کی طرف قدم بڑھانے میں مدد ملے گی جہاں ایک شخص آزادی اور خوداعتمادی کے ساتھ کام کرسکتا ہے۔

          ۔ تعلیم کو ملازمت کے میدان سے منسلک کرنا چاہیے۔

            متوقع نتائج پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے حکومت دہلی نے کہا ہے کہ”انٹرپرینور ذہنیت پر مبنی نصاب تعلیم، مسائل کے حل، فیصلے لینے اورمشکلات سے لوہا لینے کے لیے ضروری ذہانت کے اہم عناصر کو نشوونما دے گا۔

            مذکورہ نصاب تعلیم کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

              انٹرپرینورمسافروں کی کہانیوں کے مطالعات کے ذریعے حوصلہ افزائی کریں۔

             خود ساختہ مائکروریسرچ کے ذریعے تربیت کریں۔

             مقامی برادری کی مدد سے بیداری کا کام کریں۔

           پروجیکٹس میں مختلف افکار وخیالات کو شامل کیا جائے۔

            مذکورہ بالا ہدایات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت ہند کا یہ نیا قدم تعلیم کے میدان میں ایک لائق تحسین قدم ہے۔ چناں چہ اس کی بھرپور حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔

            حالاں کہ بعض ماہرین تعلیم اس نئے نصاب کی شروعات پر بعض اہم سوالات بھی اٹھا رہے ہیں۔ مثلاً نویں سے بارہویں جماعت تک کے طلبہ پر عمومی حالات میں خاندان کو معاشی مدد فراہم کرنے کا بوجھ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ عمر کسی بھی بچے کے لیے ریاضی، سائنس،سماجی علوم اور زبان جیسے بنیادی مضامین سیکھنے کے لیے ہوتی ہے نہ کہ وہ معاشی ذمہ داریوں کے لیے تیا ر ہوں۔اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ اس کے ذریعے بنیادی مضامین سے کئی بچوں کی دلچسپی ختم یا کم ہوجائے گی۔

            آئیے اس دلیل کے تناظر میں غورکریں! ابتداء میں ذکرکردہ’خوداعتمادی‘، ’تخلیقی استعداد‘اور’اہلیت‘ اس سے منسلک ہیں۔ اگر ہم اسے طلبہ پر بوجھ سمجھیں تو ہر دوسری اصلاح پر بھی یہی کہا جاسکتا ہے۔ چاہے وہ ماحولیات کی تعلیم کی شروعات ہویا کھیل، این سی سی اور ثقافتی سرگرمیاں ہوں۔ جملہ غیرنصابی سرگرمیاں اور تخلیقی اصلاحات پہلی ہی نظر میں بوجھ کے خانے میں ڈال دی جائیں گی۔ ویسے یہاں یہ بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ گزشتہ کئی برسوں سے گیارہویں اور بارہویں جماعتوں کے لیے سی بی ایس ای سے متعلق اسکولوں کے لیے انٹرپرینور نصاب موجود ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ سی بی ایس ای کے اسکولوں سے فارغ طلبہ کوزیادہ قابل اور ہونہار مانا جاتا ہے۔

            انٹرپرینوشپ مائنڈسیٹ کریکولم کی شروعات کے خلاف ایک اہم خدشہ یہ بھی جتایا جاتا ہے کہ یہ مضمون درمیان میں پڑھائی چھوڑدینے والے بچوں کی شرح میں اضافے کا باعث ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ دہلی کی اسکولی تعلیم میں ڈراپ آؤٹ کی شرح پہلے سے ہی بہت زیادہ ہے یعنی ہائیر سکینڈری میں 21جب کہ ثانوی درجات میں 11فی صد بنتی ہے۔ چناں چہ اندیشہ ہے کہ کیا اس نصاب کے نفاذ سے ڈراپ آؤٹس کی شرح میں اضافہ ہوگا؟ اس دلیل کی منطق یہ ہے کہ مالی اعتبار سے کم زور طبقوں کے بچوں کو ان کی مہارت کی بنیاد پر مناسب ملازمتیں مل سکتی ہیں۔ اس طرح وہ اسکولوں سے ڈراپ آؤٹ ہوجاتے ہیں۔

            حکومت کا کہنا ہے کہ اس نصاب کو شروع کرنے کا اصل مقصد انٹرپرینور کے ہنر کو پروان چڑھانا ہے جو ایک شخص کو ملازم ہونے کے بجائے ملازمت فراہم کرنے والا بننے کے لیے آمادہ کرے گا۔ اس کے علاوہ موجودہ نصاب تعلیم روزگار پر مبنی مہارت کی ترقی کے پروگرام کے بجائے کاروباری صلاحیت پر کچھ بنیادی نظریاتی علم کے ساتھ محرک بھی ہے۔

            اس کے علاوہ متعینہ طور پر نظریاتی حصہ خوداعتمادی، تخلیقی استعداد، ٹیم ورک، مشکلات کا سامنا کرنے جیسی زندگی کی مہارت کے کچھ اہم پہلوؤں کی ترقی میں مدد کرے گا، جو بذات خود اس نصاب کا مقصد ہے اور درحقیقت مستقبل میں انٹرپرینور بننے کے باوجود طلبہ کے لیے مفید ثابت ہوگا۔ اس کے علاوہ اس بات کاقوی امکان ہے کہ کچھ طلبہ کسی دوسرے مضمون کے مقابلے میں سیکھنے کے ہنر کو مزید دلچسپ بناسکتے ہیں اور یہ انہیں ڈراپ آؤٹ بننے کے بجائے کلاس میں باضابطہ سرگرم رہنے پر آمادہ کرے گا۔

              تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ چلتے ہوئے

            اگر ہم جدید چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے نصاب کی تجدیدکیے بغیر تعلیم فراہم کرنے کے لیے روایتی طرز تعلیم پر قائم رہیں تو ہمیں سخت ترین مشکلات کا سامنا کرناہوگا۔ جس سے مستقبل میں نمٹنا نہایت مشکل ہوگا۔ جیسا کہ بعض تحقیقات کے مطابق انجینئرنگ کے میدان میں موجودہ بے روزگاری کی ایک وجہ انجینئرنگ کے نصاب کا اصولی مزاج بھی ہے۔ جسے بدلتے وقت کے ساتھ تبدیل نہیں کیاگیا۔

            آج کی دنیا میں مہارت زندگی کا بہت اہم حصہ ہے۔ لہٰذا محکمہ تعلیم کے سامنے چیلنج یہ ہے کہ بدلتے منظرنامہ کے ساتھ طلبہ کو اعلیٰ درجے کی مہارتوں سے آراستہ کریں۔ اس لیے اس عمل میں ضروری اصلاحات کے ساتھ نصاب کو اپڈیٹ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں محکمہ تعلیم کے پاس مناسب لائحہ عمل اور نقشہ کارہونا چاہیے۔ 

            معیشت اور آبادی کی صورت حال

            ملک کو درپیش موجودہ معاشی بحران اور سرکاری وغیرسرکاری میدانوں میں ملازمین کی غیرمعینہ برطرفی کے زمانے میں انٹرپرینورشپ مرکوز نصاب کو شروع کرنے کے ا قدام کوایک اچھا قدم ماناجانا چاہیے۔ حالاں کہ مستقل بنیادوں پر انٹرپرینور نصاب کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ اسے مزید موثر، دلچسپ اور بامقصدبنایا جاسکے۔

            اسکول کے اوقات

            انٹرپرینورشپ پر مبنی نصاب کی شروعات کے خلاف ایک اہم منطق یہ ہے کہ آج کل اسکولوں میں پہلے سے ہی کئی اہم مضامین اور زبانوں کے بارے میں تعلیم دی جاتی ہے۔ اساتذہ کی زیادہ تر شکایات کم وقت میں طے شدہ نصاب کاموثر طریقے سے احاطہ کرنا ہیں۔ فی الحال ہر مضمون کے لیے مختص وقت 45منٹ ہے۔ جو اس نئے مضمون کے بعد کم بھی ہوسکتا ہے۔یہ بہ ذات خود ایک تشویش ناک امر ہے۔ لیکن انٹرپرینورنصاب کو غیراہم بھی نہیں مانا جاسکتا۔ اگر ہم اس مضمون کو بھی و ہی وقعت دیتے ہیں جو دوسرے مضامین کو حاصل ہے تو اسکولوں کے اوقات کے اس پورے معاملے کو موثر طریقے سے حل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ چوں کہ حکومت دہلی نے اس طرح کے کسی نصاب تعلیم کو پہلی مرتبہ پیش نہیں کیاہے۔ اس معاملے میں سی بی ایس ای اسکولوں سے بھی تعاون لیا جاسکتا ہے۔

            خلاصہ بحث

             نظام تعلیم میں نئی تخلیقی اصلاحات اور ان کے اثرات کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے ہمیشہ کھلا معیار اختیار کرنا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ ہم نفع بنام نقصان کے اضافی اصولوں میں الجھ کر رہ جائیں۔ اگر عام طور پر یہ طلبہ اور سماج کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے تو اسے قبول کیا جانا چاہیے اور اگر نفع سے زیادہ نقصان کا احتمال ہو تو اس سے احتراز بھی کیا جاسکتا ہے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں