’اے، کالی عورت کے بیٹے!!‘ تحقیر سے کہا ابوذرؓ نے۔بلالؓ نے دزدیدہ نگاہوں سے پیکر رحمتؐ کی جانب دیکھا۔ مدرسِ مساواتؐ نے کہا ’ابوذر،تمہارے دماغ سے جاہلیت رخصت نہیں ہوئی‘۔ یہ احساس کہ اپنے ہی جیسے ایک انسان کو حقیر سمجھے ، انسان کو خود حقیر کردیتا ہے؛ یہ بات سمجھ میں آئی، تو اپنے خنّاس بھرے سر کو ایک کالے حبشی، غلام کے قدموں میں رکھ دیا۔ علامتی طور پر نہیں بلکہ بالحقیقت سر رکھ دیا۔سنگریزے رخسار وجبیں کو چبھنے لگے۔ابوذر لگے اصرار کرنے کہ اس دماغ کی تربیت کی خاطر تمہارے بھدے پیروں سے تواضع کرو۔ بلالؓ نے بڑی شان سے ابوذرؓ کے اس قصور کو معاف کیا۔کیا خوبصورت انداز ہے مساوات کی فراہمی کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس واقعے کو ایک طرف رکھ دیجیے۔ اور ٹھنڈے دل و دماغ سے حالات پر نگاہِ کرم کیجیے۔ سب سے پہلا تأثر اُبھرے کا ’نفرت‘ کا۔عزت کے لئے، طاقت کے لئے او ر دولت کے لئے نفرت۔ اپنے ذات سے بھی اور دوسروں کی ذات سے نفرت۔ یہ نفرت ہی ہے، جو انسان کو انسانیت کی بلندیوں سے قعر حیوانیت میں لڑھکا دیتی ہے۔یہ نفرت کہتی ہے کہ، بھارت کے ٹکڑے ہونگے اور یہ کہتی ہے کہ ہر احتجاجی غدار وطن ہے، ملک مخالف ہے۔نعرے اور جوابی نعرے۔ کبھی بند مٹھی اور کبھی لاٹھی۔یہ وکیلوں کو غنڈہ بناتی ہے اورسیاست دانوں کو قاتل۔یہ عدلیہ کو اجتماعی خواہش کا پابند اور میڈیا کو فیصلہ ساز بناتی ہے۔غصہ، غصہ اور شدید غصہ۔ ان کو دیکھیں تو محض لفظی بحث اور بحث کو توڑنے اور مروڑنے میںاس قدر طیش کا مظاہرہ کرتے ہیں جنگلی کُتّے اور بھیڑیے بھی نہیں کرتے۔ لوگ ان کے طیش کو ادا سمجھتے ہیں۔کسی وزیر کے گھر کو جلادیتے ہیں،کسی غریب کی جان لیتے ہیںاور کسی کو جذباتی سطح پر اسقدر مجروح کردیتے ہیں کہ وہ خود ہی اپنی جان لے لے۔ اس تمام صورتحال کو دیکھ کر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ، اہل اقتدار بی جے پی اور آر ایس ایس اب اپنے حقیقی رنگ دکھانے لگے ہیں۔ جگہ جگہ آزاد ذہن کے، محروم اور سیکولرطلباء کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حکومتی ادارے ایک جانب خوف کا ماحول پیدا کررہے ہیں وہیں میڈیا ان کو وجہ جواز فراہم کررہا ہے۔ سوشل میڈیا پر دشنام طرازی ، گالی گلوچ اور جھوٹے الزامات کی بوچھار ہے۔مسلمانوں کے تاریخی ادارے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھی اس کی زد میں ہیں۔
ظلم کی داستان دلچسپ ہوتی ہے۔اور کارگر بھی۔یہ جذبات کو تحریک دیتی ہے۔ بلکہ اشتعال تک پہنچادیتی ہے۔مظلوم کو ظالم بنا دیتی ہے۔آج کے حالات میںاس بات کا قوی امکان ہے کہ فریقین اس داستان گوئی کا وسیع استعمال کریں اور ظلم پر اُتر آئیں۔ اس لئے امت مسلمہ کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ اس ملک کی قیادت (نہ کہ حکومت)کا فریضہ انجام دینے کے لئے کمر بستہ ہوجائے۔ ایک فریق کو ظلم سے نجات دلائے اور دوسروں کا بھی دل جیتنے کی کوشش کرے۔ ہمارا اسلوب اشتعال پر مبنی نہ ہو بلکہ دل سوزی کا ہو، ہمارا نقطہ نظر نفرت پر مبنی نہ ہو، بلکہ غم خواری کا ہو۔ یہی نجات ہے۔ یہی داعیانہ کردار ہے۔
نفرت اور اشتعال کی اس فضاء میں مسلم نوجوانوں کا کردار بڑا اہم ہے۔ وقت کے چلتے نعروں کی بازگشت بننا ہمارا مقصود نہیں ہے۔ بلکہ اس انصاف محروم انسانیت کو نئے نعرے دینا اور اپنی استعداد اور حکمت کے ذریعے ان نعروں کو مقبول بنانا یہ وقت کا سب سے اہم چیلنج ہے۔ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہمارے پاس دلتوں کے لئے نجات کا پیغام موجود ہے تو دیگر طبقات کے لئے بھی موجود ہے۔ وہ کیا طریقہ کار ہو کہ اسلام کا مؤقف دونوں کے لئے قابل قبول ٹہرے۔یہ کام محنت کا متقاضی ہے۔بہت بڑی سطح پر تمام ہندوستانیوں کو مخاطب کرنا ہوگا۔ دائیں اور بائیں بازو کی طلباء تنظیموںاور ان کے حمایت کاروں کے ساتھ گفت وشند اور صحت مند ابلاغ کے ذریعے ملک میں تفرقہ اور خانہ جنگی کی صورتحال سے نمٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک پہلو ہے دلتوںکے بے نظیر استحصال اور اس کے مداوہ کی کوششوں کا۔وہ قوم جس کے لئے دستور نے بڑی مراعات فراہم کی ہیںوہ آج بھی انصاف کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہے۔آج بھی معاشرے میں ان کو حقارت کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جس سماج سے انصاف اور مساوات کی بھیک مانگنے کے لئے کشکول بھی اسی کا فراہم کردہ ہے۔ اسی لئے آج بھی مندورں میں داخلے کی آزادی اور ہندو مذہب کے اندرون ہی میں وہ صرف برہمن اقتدار کو ختم کرکے وہ خود کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے غلامی کی نفسیات اتنی تیزی سے ختم نہیں ہوتی ہیں۔ لیکن اگر دلت قوم واقعتاً اپنے قومی وقار کے سلسلے میں فکر مند ہے تو ان کو سب سے پہلے ہندو مذہب کے ہر عنصر سے آزادی حاصل کرنی ہوگی۔ وہیں یہ بہت اہم ذمہ داری ہے کہ مسلم طلباء و نوجوان پورے اعتماد کے ساتھ دین اسلام کی آفاقیت اور حقانیت کی جانب ان ہدایت سے محروم لوگوں کو متوجہ کریں۔
اسلام نے حقوق اور عزت نفس کے تحفظ کا کیا خوبصورت انتظام کیا ہے۔ اوپر درج واقعے کی طرف توجہ دیں۔اگر یہ سلوک ہم دیگر طبقات کے ساتھ روا رکھیںاور ہر معاملے میں ردعمل کا وہ اسلوب جو اللہ کے رسولؐ نے اختیار کیا اسے اپنالیں تو ضرور ہی ہم سماج کے تفرقوں کو ختم کرسکیں گے۔
از: مستجاب خاطر