انصاف اور رحمت ِ خداوندی

ایڈمن

ڈاکٹر وقار انور عَنْ اَنَسٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قالَ: اِنَّ عَزَّوَجَلَّ لاَ یَظْلِمُ الْمُؤْمِنَ حَسَنَۃً یُثَابُ عَلَیْہَا الرِّزْقُ فِی الدُّنْیَا وَ یُجْزَیٰ بِہَا فِی الآخِرَۃِ وَاَمَّا الْکَافِرُ فَیُعْطَی بِحَسَنَاتِہٖ فِی الدُّنْیَا فَاِذَا لَقِیَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَوْمَ…

ڈاکٹر وقار انور

عَنْ اَنَسٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قالَ: اِنَّ عَزَّوَجَلَّ لاَ یَظْلِمُ الْمُؤْمِنَ حَسَنَۃً یُثَابُ عَلَیْہَا الرِّزْقُ فِی الدُّنْیَا وَ یُجْزَیٰ بِہَا فِی الآخِرَۃِ وَاَمَّا الْکَافِرُ فَیُعْطَی بِحَسَنَاتِہٖ فِی الدُّنْیَا فَاِذَا لَقِیَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَوْمَ القِیَامَۃِ لَمْ تَکُنْ لَہُ حَسَنَۃٌ یُعْطَی بِہَا خَیْراً۔ (السلسلۃ الصحیحۃ/ حدیث نمبر: 3647)

’’حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ مومن کی نیکی کے بارے میں ظلم نہیں کرتا، دنیا میں بھی اس کے بدلے میں اسے رزق پہنچایا جاتا ہے اور آخرت میں بھی اس کا بدلہ دیا جائے گا۔ جب کہ کافر کو اس کی نیکیوں کے بدلے، دنیا میں بدلہ دے دیا جاتا ہے، جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقا ت کرے گا تو اس کی ایسی کوئی نیکی نہیں ہوگی جس کے بدلے میں اسے اجر دیا جائے ۔،،

یہ حدیث دین کی ایک بنیادی تعلیم پر زور دیتی ہے اور ایک دوسری اہم بات بتاتی ہے جس کا ذکر قرآن و سنت میں کم آیا ہے۔ جس بنیادی بات کا ذکر حضور ؐ نے یہاں کیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کسی بندے پر ظلم نہیں کرتا ہے۔ گرچہ اس حدیث میں یہ بات مومن بندے کے حوالے سے آئی ہے لیکن پوری حدیث کے متن پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات بندہِ مومن کے ساتھ کفر کرنے والوں کے لیے بھی کہی گئی ہے۔ یہ اتنی اہم بات ہے کہ اس کا ذکر قرآن میں بار بار آیا ہے حتیٰ کہ قرآن کی آخری آیت جو آپؐ کے انتقال سے آٹھ دن قبل نازل ہوئی تھی اس میں بھی اس کا اعادہ کیا گیا ہے:
وَاتَّقُوْا یَوْماً تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ۔ (سورہ بقرہ: ۲۸۱)

’’اس دن کی رسوائی و مصیبت سے بچو، جب کہ تم اللہ کی طرف واپس ہو گے، وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم ہرگز نہ ہوگا۔،،

حدیث میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ ہر عمل صالح کا بدلہ اللہ تعالیٰ دے دے گا چاہے اس کا کرنے والا مومن ہو یا کافر۔ اس فرق کے ساتھ کہ مومن کو دنیا میں دی جانے والے بدلے کے علاوہ آخرت کا اجر بھی ملے گا، جب کہ کافر کے حصہ میں دنیا کا بدلہ تو آئے گا لیکن آخرت میں وہ کسی اجر کا مستحق نہیں ہوگا۔
جو بات اس حدیث میں معمول سے الگ کہی گئی ہے وہ در اصل کسی کافر کے کسی عمل کے عمل صالح ہونے کے بارے میںہے۔ یہ بات ہمارے مشاہدے میں آتی ہے کہ بہت سے کافر بہت سا نیک کام کرتے ہیں۔ حدیث کے مضمون پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ایسے کچھ عمل عملِ صالح کے زمرے میں بھی ہوسکتے ہیں جس میں کسی نام ونمود کی خواہش کے بغیر بندگانِ خدا کی خدمت میں مال اور جان کے استعمال سے اچھا کام کیا جاتا ہو۔ وہ کام جس کے پیچھے نیت کی خرابی ہو یا جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی رضا جوئی کے لیے کیا گیا ہو، عمل صالح نہیں ہوسکتا لیکن اگر کسی کافر کا کوئی عمل بدنیتی یا شرک کی آلائش سے پاک ہو تو وہ عملِ صالح کے زمرے میں ہوگا۔ درج بالا حدیث یہ بتاتی ہے کہ ایسے عملِ صالح کا بھی اچھا بدلہ دیا جائے گا، البتہ یہ بدلہ صرف دنیا کی زندگی میں اس کافر کو ملے گا اور اس طرح انصاف کا تقاضا پورا ہوجائے گا،یعنی اس پر کوئی ظلم نہیں ہوگا لیکن جب وہ مالک دو جہاں کے دربار میںحاضرہوگا جہاں ہر شخص کو فرداً فرداً حاضر ہونا ہی پڑے گا، تو اس کافر کے پاس کوئی عمل ایسا نہیں بچے گا جس کا اسے اللہ تعالیٰ بدلہ دے ۔ اس کا حساب تو دنیا ہی میں بے باک کردیا گیا ہوگا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں کفر پر عمل کرنے والے اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتوں سے سرفراز ہوتے رہتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ دنیا کی کامیابی کا زیادہ حصہ حاملینِ کفر کے حصے میں آیا ہو۔ یہ بات مسلمانوں کے لیے بھی غور طلب ہے کہ ان کے کسی عمل کابدلہ دنیا ہی میں دے کر چھٹی کردی جائے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ ان پر نہ پڑے۔

اصولی طور پر یہ حدیث اللہ تعالیٰ کی طرف سے انصاف اور رحمت کے فرق کو واضح کرتی ہے۔ انصاف یہ ہے کہ کسی پر ظلم نہ ہو خواہ اس کے اچھے عمل کا بدلہ دنیا میں ملے یا آخرت میں ملے یا دونوں جگہ ملے۔ اس حدیث میں اس انصاف کا وعدہ مومن وکافر سب سے کیا گیا ہے کہ دنیا میں ان پر کوئی ظلم نہ ہو لیکن آخرت میں ایک بندۂ مومن کے لیے رحمت کا دروازہ کھلا ہوا ہوگا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ صرف ظلم نہ ہونے اور پورا پورا انصاف کیے جانے کے باوجود کوئی شخص جنت کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ یہ بات ایک دوسری حدیث میں آں حضرت ؐ نے واضح طور پر بتائی ہے۔ آخرت میں ہماری امیدوں کا سہارا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے اور دنیا میں اگر کسی عملِ صالح کا بدلہ کچھ مل بھی گیا ہے تو آخرت میں اس کی وجہ سے اجر میں کوئی کمی نہ کی جائے۔ بندہِ مومن کے لیے یہی امید کا سہارا ہے اور یہ حدیث اسی کی امید دلاتی ہے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں