گاؤں کی مسجد کا استعمال نماز پڑھنے کے علاوہ اور بھی کئی کاموں کے لئے ہوتا تھا۔ مولوی صاحب اردو اور عربی کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ عصر کے بعد فضائل اعمال کا مطالعہ کیا جاتااور شرک و بدعات سے دور رہنے کی تلقین کی جاتی۔ ان کاموں میں خدمت خلق کے بھی کئی کام شامل تھے۔ مثلاً گاؤں کا سب سے اچھا اور صاف ستھرا بیت الخلاء یہیں موجود تھا۔ اکثر مسلمان اور مسجد کے پڑوسی غیر مسلم اس بیت الخلاء کا استعمال کرتے تھے۔ گاؤں کے لوگوں نے مسجد میں پانی کا معقول انتظام کر رکھا تھا۔ گاؤں میں پانی کی جب بھی قلّت ہوتی تو سارا گاؤں مسجد ہی کا رخ کرتا۔ایک پڑھا لکھا ہندو نوجوان اپنے دوست احباب کے ساتھ گاؤں کی زندگی کا مزہ لینے وہاں آیا ہوا تھا۔ایک دوست اسے پانی پلانے کی غرض سے مسجد لے آیا۔ مولوی صاحب نے بھاری بھرکم توند سے آواز نکال کر کہا ’السلام علیکم‘؛ علیکم کی عین کا تلفظ حلق کی کسی کھائی سے ہوا تھا۔ مونچھیں بالکل نہیں تھیں۔ داڑھی یک مشت تھی۔ کلی کا کرتا پہنے ہوئے تھے۔ پاجامہ بہت اونچا باندھا تھا۔ ماتھے اور ٹخنے پر نماز کے گٹھے پڑے تھے۔ نوجوان نے نخوت بھرے انداز سے انہیں دیکھا اور اپنے دوست سے مخاطب ہو کر انگریزی میں بولا’یہاں سے جلدی نکلو، ورنہ یہ مُلّاہم پر بے دین ہونے کا فتویٰ لگا دے گا‘۔ حلق کی اسی کھائی سے ایک مستحکم آواز ابھری’It would still be just an opinion, you know!‘ ۔کچھ دیر تو سناٹا چھا گیا۔ پھر کسی ذہن میں چھناکے کے ساتھ ایک بت ٹوٹ گیا۔
چھوٹی سے عمر کا وہ لڑکا بڑا عجیب سا لگ رہا تھا۔ کلاس میں الٹرا ماڈرن اور سیڈو سیکولر طلباء و طالبات کے درمیان وہ دھوتی اور بھگوا کرتے میں سب سے مختلف اور غیر متعلق تھا۔ سماجیات کے اس لیکچر میں مذاہب پر بات ہونے لگی۔ ایک لڑکی جس نے بالشت بھر کا اسکر ٹ پہنا تھا، بالوں کو ڈائی کرکے اس میں بیڈس پُروا کر، مٹک رہی تھی فوراً کھڑی ہوئی۔ اس نے ٹوٹی ہوئی انگریزی میں کہا کہ آئندہ آنے والے کچھ سالوں میںانڈیا میں صرف مسلمان ہی مسلمان ہوں گے۔ اس لئے کہ وہ فیملی پلانگ نہیں کرتے اور خرگوش کی طرح بچے پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔مسلمانوں کی اس روش سے ہندوستان کے دیگر مذاہب کو زبردست خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ سماجیات کی وہ استانی، افسردہ لہجے میں مسلمانوں کی اس روش اور ہندودھرم کو لاحق خطروں کے بارے میں تفصیل فراہم کرنے لگی۔ کمزور سی آواز اس جانب سے آئی جہاں وہ پنڈت نما نوجوان بیٹھا تھا۔ پوری کلاس کی توجہ اس پر مرکوز ہوگئی۔ اکثر بچے امید کرنے لگے کہ اب مزید شعلہ بیانی پر مشتمل اور جذبات کے طوفان میں بہتی ہوئی ایک تقریر سماعت کرنے کا موقع ملے گا۔ اور ہندو دھرم کے تحفظ کا حقیقی پروگرام پیش ہوگا۔ نوجوان کھڑا ہوا۔ اس نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا۔ کانوں کے اوپر پھنسی ہوئی تلسی کو درست کیا اور شستہ انگریزی میں کہنے لگا،’ مَیم ، ہندو دھرم کو کسی مسلمان سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ مذہب محبت اور سماج کلیان پر مبنی مذہب ہے۔ اگر اس دھرم کو کوئی خطرہ ہے تب بھی کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے کیونکہ بھگوان کرشن خود کہتے ہیں کہ यदा यदा हि धर्मस्य ग्लानिर्भवति भारत । अभ्युत्थानमधर्मस्य तदात्मानं सृजाम्यहम् ॥.۔ اس لئے ہمیں اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ ہمارے کرْم ہمارے دھرم کے مطابق ہیں یا نہیں‘۔ بہت سارے بت ٹوٹ گئے۔ ان چھناکوں سے شعور کا کلاس روم گونج اٹھا۔
وہ ایک زبردست مقرر تھا۔تنظیم میں اس کا ایک خاص مقام تھا۔ خاص بات یہ تھی کہ وہ تقریروں میں دلائل اور منطق کا ایسا جوڑ پیدا کرتا تھا کہ مخاطب کی عقل گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتی تھی۔ اس نے کہا کہ’ جہیز ایک لعنت ہے۔ شریعت کے نکتوں میں نہ پڑتے ہوئے اگرصرف عقل کا استعمال کریں تو بھی اسنتیجہ پر ہر سمجھ دار انسان پہنچ ہی جاتا ہے۔ سماج کے اس ناسور کا مقابلہ کرنےکے لئے علی الاعلان سادہ، آسان، کم خرچ اور جلد شادیوں کی روایت کو فروغ دینا ضروری ہے۔ اسی سے کوئی سماجی نشاط الثانیہ کا آغاز ہو سکتا ہے۔ ورنہ مادیت اور مادی خوبصورتی کے دلدادہ نوجوانوں سے کوئی دین اور کوئی اسلامی معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا۔ جہاں جہیز مردانگی پر حرف ہے وہیں شادیوں میں بے جاخرچ اقامت دین کے منہ پر ایک تمانچہ‘۔ مجلس میں ایک نوجوان اپنے خون میں وہ گرمی محسوس کر رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ ابھی گھر جاکر اپنی والدہ سے اس بابت گفتگو کرے گا۔ لیکن اس سے قبل وہ اپنے محسن کے ہاتھوں کو چومنا چاہتا تھا۔ وہ یہ بتا نا چاہتا تھا کہ یہ تقریر اس کی زندگی کا ایک سنگ میل ثابت ہوگی۔ اور وہ جب تک زندہ رہے گا اس کے دل میں ایک شخص کا راج رہے گا۔ وہ لوگوں کے درمیان سے ہوتا ہوا آڈیٹوریم کے کنارے پر پہنچ گیا۔ اس کا محسن نوٹس بورڈ پر زرق برق کاغذ پر مشتمل ایک رقعہ چسپاں کر رہا تھا۔ تمام اہل مجلس کو دعوت ولیمہ دی گئی تھی۔ ولیمہ شہر کی سب سے مہنگی جگہ منعقد تھا۔ وہ پلٹا تو اس کا محسن اہل مجلس سے مسکرا مسکراکر شادی کے پیشگی مبارک باد قبول کر رہا تھا۔ ساتھ ہی انتظامات ولیمہ کا گاہے بگاہے تذکرہ بھی تھا۔ایک تقریر نے گو اس کو درست راہ عمل دکھلائی تھی، لیکن اس کے دل کی دنیا کا ایک اہم بت مسمار ہو گیا تھا۔
انسان کو علم حاصل کرنے کی صلاحیت اللہ رب العزت نے بخشی ہے۔ اس صلاحیت کا استعمال بالخصوص انسانوں کو سمجھنے اور ان کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لئے ہونا چاہئے۔ اس لئےکے انسانوں کے بارے میں جو ہماری رائے ہوتی ہے اسی کے مطابق ہمارا رویہ بھی ہوتا ہے۔ اوررویہ کا براہ راست تعلق انسان کی آخرت سے ہے۔اس کے برعکس ہمارے لئے یہ بات آسان ہوتی ہے کہ ہم بہت ساری ظاہری اور سطحی بنیادوں پر لوگوں کے بارے میں رائیں قائم کرلیں۔ لیکن چونکہان میں علم کی روشنی نہیں ہوتی، اس لئے یہ اندھی ہوتی ہیں۔ ہمارے تعصبات ہمارے اندھیرے ہیں، ان اندھیروں میں خدا کا نور حاصل کرنے کے لئے خلق خدا کے بارے میں اچھی رائیں قائم کرنا ایک لازمی امر ہے۔ اس شمارے میں تعصبات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ پڑھ کر ہمیں بتائیں کہ کیا ان مضامین نے آپ کے ذہن کی گتھیوں کو سلجھایا؟ کیا اب آپ اپنے تعصبات سے واقف ہو گئے ہیں؟ کیا آپ درست رائیں قائم کر نے کی صحیح بنیادیں جانتے ہیں؟