امت مسلمہ کا روایتی نظام تعلیم سرسید علیہ الرحمۃ کے افکار کا مطالعہ

ایڈمن

ڈاکٹر محمد احمد، ادارہ تحقیق وتصنیف، علی گڑھ اسلام اور اہل اسلام کی درخشاں تاریخ سے کون واقف نہیں۔ صدیوں پر محیط ان کا دور عروج آج مغرب کی بلندیوں کی بنیاد اور اساس ہے۔ درحقیقت ان کی سربلندیوں کا…

ڈاکٹر محمد احمد، ادارہ تحقیق وتصنیف، علی گڑھ

اسلام اور اہل اسلام کی درخشاں تاریخ سے کون واقف نہیں۔ صدیوں پر محیط ان کا دور عروج آج مغرب کی بلندیوں کی بنیاد اور اساس ہے۔ درحقیقت ان کی سربلندیوں کا راز ’’انتم الا علون ان کنتم مؤمنین‘‘ میں مضمر تھا۔ تسخیر کائنات کے قرآنی ارشادات پر عمل آوری اور جہد مسلسل ہی نے انہیں اس مقام بلند پر پہنچایا تھا۔ عدل وقسط کا الٰہی حکم اور اسوۂ نبوی ان کے لیے مشعلِ راہ تھا۔ اہل اسلام جب تک اس اختراعاتی ڈگر پر قائم رہے کامیابیوں اور سربلندیوں نے ان کی قدم بوسی کی۔ لیکن جب سے ان کے اندر جمودو تعطل آیا اور اختراعاتی جذبات ماند پڑتے گئے اسی اعتبار سے ان کے عروج واقبال کو گہن لگتا گیا۔ جب سے ان کی درس گاہوں میں قدماء کی کتب پر حاشیہ آرائی کا مزاج پروان چڑھا، دینی ودنیوی تعلیم میں تفریق کی جانے لگی، ان کے زوال کی ابتداء ہوگئی۔ ان کی وہ درس گاہیں جو بیک وقت بلاتفریق قرآن، فقہ، حدیث، طب وفلکیات کے ماہرین پیدا کرتی تھیں، وہاں تسخیر کائنات کی روح مفقود ہوتی گئی اور اس کی جگہ علوم کی تقسیم دینی ودنیوی عمل میں آئی اور موجود درس گاہیں سیلف کی کتابوں پر حاشیہ آرائی کا کارخانہ بن گئیں۔ غیروں نے ان کے علوم سے کسب فیض کر کے علوم ومعارف کے خزانے سمیٹ لیے۔ اور ان کے جمود وتعطل اور تفرقہ کا فائدہ اٹھا کر انہیں جہالت کے عمیق غار میں ڈھکیل دیا۔ اب یہاں دین نام تھا تو صرف چند مراسمِ عبودیت کی بجا آوری کا، اور بقیہ شعبہ ہائے زندگی اس سے آزاد تھے۔امتداد زمانہ کے ساتھ ان اہل اسلام کے اندر کتنی حیرت انگیز منفی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ دین سمٹ کر رہ گیا۔ علوم ومعارف کے سوتے اب کہیں اور سے پھوٹ رہے تھے۔
ان حالات میں وقتاً فوقتاً امت مسلمہ کے اندر کچھ ہستیاں پیدا ہوتی رہیں جنہوں نے اس کرب کو محسوس کیا، اپنے زوال کے اسباب پرغورکیا اور امت کو خبر دار کرنے کی اپنی سی سعی بھی کی۔ لیکن بالعموم امت کے جمودوتعطل کے سیل رواں کے شور میں ان کی آوازیں کوئی ہلچل پیدانہ کرسکیں کہ کوئی عمومی انقلاب برپا ہوتا۔ ان سب کے باوجود ان میں سے بعض نے ایسے نقوش چھوڑے ہیں جوگرچہ کوئی بہت بڑی تبدیلی تو پیدا نہ کرسکے لیکن ان کی گونج فضا میں سنائی دیتی ہے۔ مجددالف ثانیؒ ، شاہ ولی اللہ دہلویؒ ، تحریک سید احمدشہید، جمال الدین افغانی، حسن البنا اور ابوالاعلیٰ مودودیؒ وغیر ہم سبھی نے عام ڈگر سے ہٹ کر اپنے فہم وفراست کے مطابق امت کو بیدار کرنے کی کوشش کی اورکارِ تجدید انجام دیا۔ ان ہی عالی مرتبت ہستیوں میں ایک نام سرسید احمد خاںؒ کا یہی ہے۔ جنہوں نے ۱۸۵۷ ؁ء کا درد ناک منظر دیکھا تھا، امت مسلمہ کی زبوں حالی کا کرب محسوس کیا تھا، امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کی بازیافت کے لیے ماضی وحال کا موازنہ کر کے امت کے لیے ایک لائحہ عمل وضع کیا، سر سید احمد خاں کے بعض فکری استنباطات سے اختلاف کیا جاسکتاہے لیکن امت کے تئیں ان کے بے پناہ جذبہ خلوص سے انکار ممکن نہیں۔ انہوں نے امت کی زبوں حالی اور اس کے زوال کے تدارک کے لیے اعلیٰ تعلیم کے حصول کی آواز لگائی۔ انہوں نے محسوس کیا تھا کہ ماضی میں دینی ودنیوی علوم کی تفریق نہ ہونے کی بناپر امت مسلمہ ہر اعتبار سے سربلند تھی اور جب سے امت کے اعلیٰ دماغ میں حاشیہ نویسی نے جگہ بنائی، ان کا زوال شروع ہوگیا اور بالآخر رفتہ رفتہ وہ قعرمذلت میں جاپڑی۔ کوئی وجہ نہیں کہ آج بھی امت مسلمہ ماضی کے تجربے سے فائدہ اٹھاکر علوم ومعارف میں اختراعی ذہن پیدا کرتی ہے توکامیابی ان کے قدم نہ چومے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ صدیوں کے خودتراشیدہ روایتی ذہن کو جھنجھوڑا جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ امت مسلمہ کا ماضی ایسے ہی تابناک نہیں ہوا تھا۔ بلکہ اس کے حصول کے لیے بغیر کسی تعصب اور تنگ نظری کے علوم ومعارف کے سوتوں کو انہوں نے جذب کر کے اور تجرباتی مراحل سے گزار کردنیا کو حیرت زدہ کردیا تھا۔’’الحکمۃ ضالۃ المومن حیث وجدھا فھوأحق بھا‘‘ کے تحت ایسا نہیں تھا کہ وقت کا فقیہ،ا دیب، طبیب، فلسفی، ماہر فلکیات اور ریاضی داں نہ ہویا سائنسداں تفسیر وحدیث وفقہ سے نابلد ہو۔ اس زمانہ میں ایک شخص بیک وقت سبھی کچھ ہوسکتا تھا، اور حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہی تھا۔ امتداد زمانہ اور اغیار کی سازشوں نے امت مسلمہ کے اذہان کومحصور کردیا۔ زوال اور فتن کے اس دور میں علمائے وقت نے اسی میں عافیت سمجھی کہ دنیا جاتی ہے توجائے امت مسلمہ کا دین تو باقی رہے۔ لیکن اس وقتی حل کو تقدس کا مقام حاصل ہوتا گیا۔ اور یہی سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس درد کو سرسیدنے شدت سے محسوس کیا، اور پوری امت کو اس کرب سے نجات دلانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ اس کے عوض انہیں کتنی مخالفتوں، طعن وتشنیع اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، یہ سب کچھ تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔
بنیادی طور پر سرسید مذہبی تعلیم کے مخالف نہیں تھے بلکہ وہ اس بات کے قائل تھے کہ مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں سائنسی علوم ہوں تو دوسرے ہاتھ میں مذہبی علوم اور پیشانی پر کلمہ طیبہ کا تاج۔ سرسید چاہتے تھے کہ مدارس اسلامیہ میں درس نظامیہ کے نصاب میں تبدیلی ہو، کتاب وسنت کے ساتھ عصری علوم وفنون سے ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ وہ عربی اور فارسی کے ساتھ اپنے بچوں کو انگریزی، فرنچ اور جرمن زبانیں بھی سکھانے کے داعی تھے۔ مدرسۃ العلوم موجودہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کا دراصل یہی مقصد تھا۔ انہوں نے ببانگ دہل علمائے کرام اور ذمہ داران مدارس سے خطاب کر کے کہاکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کے اندرایسی بیداری پیدا کریں کہ سائنس کے تئیں تنفردم توڑدے۔ اسی طرح اس سوچ پر بھی انہوں نے تنقید کی کہ انگریزی پڑھنا وقت کی اہم ضرورت نہیں۔ کیونکہ اس کے بغیر دنیا کی متمدن قوموں کے روبرو کھڑے ہونے سے ہم قاصر رہیں گے۔
سر سید نے اپنے نظریہ تعلیم کو کھل کر پیش کیا۔ جہاں وہ صرف مذہبی تعلیم کے مخالف تھے، وہیں وہ مذہب بیزار صرف عصری علوم کے بھی مخالف تھے۔ انہوں نے دونوں انتہا پسند گروہوں کا موازنہ ان الفاظ میں کیا ہے: ’’تعلیم کو عموماً پھیلانے کے لیے بعض شائستہ اور ترتیب یافتہ قوموں اور ملکوں میں دوطرح پر کوشش ہوئی۔ ایک گروہ تو اس بات پر مصر ہے کہ مذہبی تعلیم بالکل موقوف کی جائے جوباہمی اختلاف اور تبائن کاباعث ہے اور سب لوگ متفق ہوکر اس قسم کی تعلیم کی کوشش کریں جو بلا اختلاف سچ اور فائدہ مند ہے، اگر چہ اس گروہ میں بہت بڑے بڑے عاقل اور فاضل اور لائق آدمی شامل تھے، مگر ان کی کوششوں کی کامیابی کی کچھ بھی توقع نہیں ہوئی اور نہ ہوگی۔ اس لیے کہ مذہبی خیالات کو تمام انسانوں کے دلوں میں سے نکال ڈالنا جن کی تعلیم کے لیے کوشش مقصود ہے ایک ایسا امرہے جس کے ہونے کی ابھی سیکڑوں برس تک توقع نہیں ہے۔
دوسرے گروہ کی کوششوں کا اصلی مقصدِ تعلیم مذہبی رخ پر کوشش کرنا تھا، اور علوم کی تعلیم اس کے ساتھ بطور ضمنی تعلیم کے تھی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس گروہ نے نہایت کامیابی حاصل کی اور اس کے سبب بے انتہا علوم وفنون نے ترقی پائی، اور نہ صرف اپنی قوم اور ملک کو فائدہ دیا بلکہ دور دور کی قوموں اور دور دور کے ملکوں کو ہر قسم کی خوبیوں اور فائدوں سے اپنا احسان مند بنایا۔۔۔ ‘‘
سرسید ماضی کے مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں:’’ اب مسلمانوں کے حالات پر غور کرو کہ وہ لوگ تمام علوم کی تعلیم پاتے تھے، فلسفہ کے بڑے دوست تھے، طب وریاضی سے محبت رکھتے تھے، شعر وشاعری اور علم وادب کے عاشق تھے، اور ان سب کے ساتھ مذہبی علوم کی بھی تعلیم تھی۔ اور اسی پچھلے خیال کے سبب ان مدرسوں اور دارالعلوموں کے لیے روپیہ کی ہر طرف سے مدد پہنچتی تھیں۔ جس کے سبب سے وہ تعلیم قائم تھی۔۔۔‘‘ ( تہذیب الاخلاق، شمارہ: ۲؍جلد: ۱؍ ۱۲۸۷ ؁ھ)
ان حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے، سرسیدان الفاظ میں مشورہ دیتے ہیں:’’ پس مسلمانوں میں ترقی تعلیم کی کوشش کرنے والوں کی دوباتوں سے تونا امید ہونا چاہئے، ایک عام تعلیم کے رواج اور قیام سے بغیر شمول تعلیمِ مذہبی کے دوسرے گورنمنٹ کی جانب سے کسی مذہبی تعلیم کے شروع ہونے میں، اور ان دونوں باتوں سے نا امید ہو کر غور کرنا چاہئے کہ اب اور کیا تدبیر ہے جس سے مسلمانوں کی بہتری اور بہبودی ہو، اور ان میں عموماً تعلیم کا رواج ہو اور اعلیٰ اعلیٰ اور ہر قسم کے مفید علموں کی خواہ وہ مذہبی ہوں یا دنیوی بنیاد ہو، ہر شخص اس کا جواب دے سکے گا کہ صرف ایک ہی تدبیر باقی ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہم خودآپ اپنی تعلیم وتربیت پرمستعدوآمادہ ہوں۔۔۔‘‘(ایضا)
مسلمانوں کے روایتی طریقہ تعلیم کا تنقیدی جائزہ ان الفاظ میں لیتے ہیں: ’’ مسلمانوں کی تعلیم کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ دوچار شخص کسی جگہ پڑھانے کو مقرر کردئیے جائیں اور وہ وہی پر انی کتابیں دوچار، دس پانچ آدمیوں کو پڑھانے لگیں۔ بلکہ سب سے بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ اول فہمیدہ فہمیدہ ذی علم اور ذی عقل لوگ جمع ہوں اور بعد بحث وگفتگو کے یہ بات قرار دیں کہ اب سلسلہ تعلیم بنظر حالات زمانہ اور بلحاظ علوم وفنون جدید ہ کے کس طرح پر قائم ہونا چاہئے، اور ہماری پرانی دقیا نوسی تعلیم کے سلسلے میں کیا کیا تبدیلی اور ترمیم کرنی چاہیے۔ ہمارا سلسلہ تعلیم بلحاظ مقاصدمذہبی کس طرح پر قائم ہو اور بلحاظ مطالب دنیوی کے کس طرح جاری کیا جاوے، اور جب کوئی طریقہ تجویز ہوئے اس وقت اس کے اجزاء پر ہر ضلع کے لوگ اپنے اپنے ضلع میں سعی وکوشش کریں…‘‘( ایضا)
سرسید بنیادی طور پر عام مسلمانوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ تعلیم کا مسئلہ لادینی حکومت کے تعاون کے بجائے مسلمان خود اپنے بل بوتے پر حل کرسکتے ہیں۔ چنانچہ ان کا مشورہ ہے کہ ’’ہر ضلع میں کم سے کم ایسا ایک مدرسہ قائم کرنا چاہئے جس سے ہر قسم کے مطالب اور مقاصد پورے ہوں۔ کیونکہ تمام لوگوں کے ایک ہی سے مقاصد نہیں ہوتے۔ اگر کوئی شخص مولوی، محدث، فقیہ بننا چاہے، تو مولوی بننے کا بھی اس میں موقع موجود ہو، اگر کوئی ریاضی داں بننا چاہے تو وہ بھی اپنا مقصد اس میں حاصل کرسکے۔۔۔ اس طرح کے سلسلہ تعلیم قائم کرنے میں اگرچہ بہت سا روپیہ چاہئے لیکن روپیہ جمع ہونا کچھ مشکل نہیں ہے۔ لوگوں کا دل اور ارادہ اور ہمت چاہئے۔ ہر ضلع میں جس قدر مسلمان آباد ہیں اگر ہر ایک شخص تھوڑا تھوڑا روپیہ بھی دو دو ایک ایک بلکہ آٹھ آنہ تک دے تو ہر ضلع میں اس قدر روپیہ جمع ہوجاتا ہے کہ ان تمام مطالب کے لیے ایک نہایت عمدہ مستقل مدرسہ قائم ہوسکتا ہے۔ صرف لوگوں کا ارادہ کرنا اور اس کے انجام کرنے پر دل سے کوشش کرنا شرط ہے‘‘ ۔(ایضا)
بلاشبہ سرسید ایک عظیم مصلح تھے۔ انہوں نے امت مسلمہ کو بیدار کرنے کے لیے جہاں فکری غذا فراہم کی، وہیں عملی جدوجہد سے یہ ثابت کردیا کہ مدرسۃ العلوم کی شکل میں ان کا بویا ہوا بیج برگ وبار لاکر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کاتناور درخت بن گیا۔
مدارس اسلامیہ کے روایتی نظام تعلیم سے متعلق بعض لوگ یہ کہتے ہوئے ملے کہ مدارس کا یہ روایتی اسٹرکچر دراصل وقت،قوت اور سرمایہ کا سراسر ضیاع ہے۔ مدارس کا سات آٹھ سالوں پر محیط روایتی نصاب اور نظام تعلیم وقت اور قوت اور زکوۃ و صدقات کا کثیرسرمایہ سوائے بربادی کے اور کچھ نہیں۔ اتنے ہی وقت، قوت اور سرمایہ کے صرف سے کثیر الجہات مقاصد کی تکمیل کی جاسکتی ہے۔ وہاں کے فارغین جو کچھ سیکھتے ہیں اس کا مصرف کیا ہے؟ ان حضرات کی باتوں میں کسی نہ کسی حدتک وزن ضرورہے۔ اس لیے کہ ایسا دیکھا گیا ہے کہ مدارس کے فارغین کے مقابلے میں جن لوگوں نے شارٹ ٹرم یا پارٹ ٹائم دینی علوم کا کورس کر کے امت کو جو فائدہ پہنچایا ہے وہ ان فارغین مدارس کے بالمقابل کہیں زیادہ ہے۔ ایسے افراد کی فہرست میں ڈاکٹر، انجینئر، اور سائنٹسٹ سبھی طرح کے افراد ہیں، ڈاکٹر اسرار احمد، جاوید احمد غامدی، ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی، ڈاکٹر عبد الحق انصاری، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، ڈاکٹر ذاکرنائیک اور ڈاکٹر راشد شازو غیرہم کسی مدرسے کے فارغ نہیں، لیکن ان کی دینی بصیرت کا کوئی جواب نہیں۔ اس طرح کی مثالیں ایسے افراد کی باتوں کو دلیل فراہم کرتی ہیں اور ان کی باتوں میں یقیناًصداقت نظر آتی ہے۔
موجودہ حالات میں یہ تو ممکن نظر نہیں آتا کہ مدارس کے روایتی نظام میں کو ئی تبدیلی کی جاسکے، البتہ اتنا ضرور ہے کہ ان فارغین کو فراغت کے بعد اچھی رہنمائی دے کر اعلیٰ تعلیم کے حصول کی راہیں کشادہ کی جاسکتی ہیں۔ ان فارغین مدارس میں بھی ایسے ذہین اور باصلاحیت افراد ہوتے ہیں جن کو جلادے کر انسانیت کو مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا جاسکتا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مدارس کے فارغین کے لیے برج کورس کا دروازہ کھول کر یہاں کے ارباب حل وعقد نے سرسید کے ایک دیرینہ خواب کی تکمیل کی راہ آسان کردی ہے۔
[email protected]

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں