سوال: کہا جاتا ہے کہ اللہ نے انسان کو امتحان کے لئے پیدا کیا ہے۔ مگر اس امتحان کی مدت ہر انسان کے لئے ایک جیسی کیوں نہیں ہے؟ کسی کی ۷۰ یا ۶۰ سال اور کوئی تو ۳۰ یا ۲۰ سال ہی میں مر جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک انسان ۲۰ یا ۲۵ سال میں ہی اس دنیا سے رخصت ہوجائے تو وہ جنت میں جائے گا یا جہنم میں؟ اگرجنت میں جائے تو بہت خوش نصیب ہے اور جہنم میں جائے گا تو کیا اس کے ساتھ نا انصافی نہیں ہے؟ (محمد محی الدین اسامہ، حیدر آباد)
جواب: اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ امتحان کی نوعیت میں اور ہمارے بورڈ اور یونیورسٹی کے امتحان میں فرق ہے۔ ہمارے امتحانات انسان کی داخلی کمزوریوں، معاشی اور خاندانی حالات، ذہانت و فطرت کے اعتبار سے امتحان کے سوالات اور چیلنجس میں فرق نہیں کرتے۔ مثلاً دو مختلف طلبہ سے جن کی صورتحال متعدد معیارات کے تحت ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے، (اچھے اسکول اور اساتذہ کی فراہمی، مالی فراغت، والدین کی دلچسپی، ذہانت کا معیار وغیرہ) لیکن اس کے باوجود دونوں سے یکساں سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے جس طالب علم کے لئے ماحول سزا وار رہا ہو، اس کے نشانات دوسرے سے بہتر ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ جبکہ وہ طالب علم جس نے بڑی مشکلوں سے تعلیم حاصل کی اس کے کم تر نشانات حاصل کرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ دراصل ہمارے ادراک میں جس امتحان کا تصور ہے وہ انسان کی محنت اور صلاحیت، کوشش و عزم کا درست احاطہ نہیں کر پاتا۔ لیکن اللہ رب العزت کے یہاں امتحان کے معیارات بالکل انصاف پر مبنی ہیں۔ وہ اس طرح کہ اللہ ہر شخص سے اس کی مقدرت کے اعتبار ہی سے امتحان کی کیفیت اور اس کا مشکل ہونا طئے کرتا ہے۔ اسے قرآن نے کہا، لا یکلف اللہ نفساً الا وسعہا۔ یعنی اگر کسی شخص کو اللہ نے زیادہ صلاحیتوں، علم ، دولت، رتبہ، خاندان اور دیگر وسائل سے نوازا تو اس کاامتحان مشکل تر ہوگا۔ لیکن اگر اللہ نے کسی کو اپنی مشیت کے تحت ایسے وسائل سے محروم رکھا تو اس کا امتحان بھی آسان معیارات پر ہی ہوگا۔ مثال کے طور پر ایک دفعہ ایک لونڈی سے اللہ کے رسولؐ نے دریافت کیا کہ اللہ کہاں ہے؟ تو اس نے زبان ہلائے بغیر آسمان کی طرف اشارہ کردیا۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ وہ جنتی ہے۔
اللہ انسانوں کے درمیان وسائل کی فراہمی میں تفریق کیوں کرتا ہے؟ کیا یہ انصاف کی بات ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کی امتحان کی اسکیم کی یہی خاص بات ہے کہ وہ مختلف لوگوں کو مختلف طریقوں سے آزماتا ہے۔ وہ کسی کو دولت سے تو کسی کو ناداری سے، کسی کو اولاد سے تو کسی کو تعلیم سے، کسی کو رتبہ سے اور کسی کو گم نامی سے آزماتا ہے۔ اسی طرح وہ لوگوں کو طویل مہلت عمل اور قلیل مہلت عمل کے ذریعے بھی آزماتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لمبی عمر کے لوگوں کے نامۂ اعمال میں کم عمر پانے والے لوگوں کے نامۂ اعمال کے مقابلے میں زیادہ اچھے اعمال ہوں گے۔ اور اسی بنیاد پر وہ جنت کے زیادہ مستحق قرار دئے جائیں گے۔ بلکہ حقیقت حال کے اعتبار سے یہ دیکھا جائے گا کہ تناسب کے اعتبار سے کس نے اپنی مہلت عمل میں کس حد تک بہتر کام انجام دئے۔ اگر بہت چھوٹی مہلت عمل میں کسی نے زیادہ اچھے کام انجام دئے تو اس کا درجہ لمبی عمر پانے والے سے بڑھ کر ہوگا۔ کئی احادیث میں ، جوانی کی عبادت کو بڑھاپے کی عبادت سے افضل قرار دیا گیا ہے۔اسی طرح قبر میں پوچھے جانے والے سوالات میں جوانی کے کاموں کا خصوصی تذکرہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ کی امتحان کی اسکیم میں جوانی کو زیادہ وقعت اور وزن دیا گیا ہے۔
یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ کم عمری میں ہر لمحہ خدا کی راہ میں صرف کرنا سب سے آسان طریقہ ہے جس کے ذریعہ ہم بڑے بزرگوں کے مقابلے میں جنت کے اعلیٰ ترین مقامات کے مستحق بن سکتے ہیں۔
اس کالم کے تحت قارئین کے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی جائے گی۔ اپنے سوالات بذریعہ ای میل یا وہاٹس ایپ (اس نمبر 9673022736 پر) بھیج سکتے ہیں۔