قرآن رہتی دنیا تک کی انسانیت کے لیے اللہ تعالی کا زبردست احسان اوراس کی عظیم الشان نعمت ہے۔ اس کلام کی کوئی مثال نہیں۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ تمام انسان اور جنات مل کر بھی اس جیسا کلام بنانا چاہیں تو نہیں بنا سکتے۔ (بنی اسرائیل، آیت:۸۸)
قرآن کریم کی عظمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ تمام مخلوق اس کے مقابلے سے عاجز ہیں۔ جیسے خدا کی ذات میں کوئی شریک نہیں، اس کی کوئی تمثیل نہیں، جیسے وہ بے نظیر ہے، ویسے ہی اس کا کلام بھی بے مقصدیت سے پاک، بے مثال اور بے نظیر ہے۔
اللہ کا کلام مومنین کے لیے سراسر رحمت اور شفا ہے، جو بھی اسے تھام لیتا ہے، اسے یہ اللہ کی رحمت کے زیرسایہ لا کھڑا کرتا ہے۔ قرآن مومنین کے لیے شفا ہے، ہر قسم کی قلبی، ذہنی، نفسانی، اخلاقی، معاشرتی اور تمدنی بیماریوں سے نجات دلاکر مومنین کو ایک پرسکون زندگی عطا کرنے کے لیے نازل ہوا ہے:
(وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ہُوَ شِفَاء وَرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلاَ یَزِیْدُ الظَّالِمِیْنَ إَلاَّ خَسَارا۔ بنی اسرائیل: ۸۲)
ترجمہ: اور ہم قرآن (کے ذریعے) سے وہ چیز نازل کرتے ہیں، جو مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے، اور ظالموں کے حق میں تو اس سے نقصان ہی بڑھتا ہے۔
جان لینا چاہئے کہ قرآن ، اس کے ماننے والوں کے لیے رحمت وشفا ہے، لیکن جو لوگ اس کو جاننے کے بعد اس سے اعراض کرتے ہیں، کتراتے ہیں، اس کے سمجھنے میں سستی دکھاتے ہیں، اس کے مقابلے میں دوسرے لٹریچر کو اہمیت دیتے ہیں، اور اس کی تعلیمات کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے کوشش نہیں کرتے، وہی لوگ ظالم ہیں، اور وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔
قرآن تو سراسر رحمت ہے، لیکن جن لوگوں کے سامنے قرآن آچکا ہے، اس کے بعد بھی وہ اس سے دور دور رہتے ہیں، تو انہیں خسارہ کا سامنا کرناہوگا۔ یعنی لوگ اپنی لاعلمی کی وجہ سے نہیں، بلکہ قرآن کو جاننے کے باوجود بے اعتنائی برتنے کی وجہ سے خسارے میں رہیں گے۔
تحریکی زندگی میں دین اسلام کو سمجھنے سمجھانے کے لیے خواہ مخواہ ادھر ادھر کے فلسفوں میں تانک جھانک کرنا، دور کی کوڑیاں لانا، اسلام کو حالات حاضرہ سے سمجھنے کی کوشش کرنا، سب اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ آپ کا قرآن مجید سے تعلق بہت کمزور ہے، جبکہ اللہ نے اس کام کو اور آسان بنادیا ہے:
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ہَذَا الْقُرْآنِ مِن کُلِّ مَثَلٍ فَأَبَی أَکْثَرُ النَّاسِ إِلاَّ کُفُورا۔ بنی اسرائیل: ۸۹)
ترجمہ: اور ہم نے قرآن میں سب باتیں طرح طرح (کی مثالوں) سے بیان کردی ہیں، مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا۔
غلبہ دین کے لیے سرگرم عمل نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ قرآن سے مضبوط تعلق پیدا کریں، ورنہ موجودہ حالات میں دین کے غلبے کے لیے اسٹریٹجی کیا ہو، اس گتھی کو سلجھانا مشکل ہے، بلکہ قرآن کو چھوڑنے کی وجہ سے ہمیں سخت قسم کی ٹھوکریں کھانا پڑیں گی۔ اسی بات کو اللہ کے رسولؐ نے ایک مختصر اور نہایت ہی بلیغ جملے میں بیان کیا ہے:
القرآن حجۃ لک أو علیک۔۔۔ یعنی قرآن تیرے حق میں حجت ہے یا تیرے خلاف حجت ہے۔
(ایس ایم رحمن۔ ناندیڑ، مہاراشٹر)
القرآن حجۃ لک أو علیک
قرآن رہتی دنیا تک کی انسانیت کے لیے اللہ تعالی کا زبردست احسان اوراس کی عظیم الشان نعمت ہے۔ اس کلام کی کوئی مثال نہیں۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ تمام انسان اور جنات مل کر بھی اس جیسا کلام…