من اُبْلِیَ بَلاَءً فَذَکَرَہٗ فَقَدْ شَکَرَہٗ وَ اِنْ کَتَمَہٗ فَقَدْ کَفَرَہٗ۔ (سنن ابی داؤد عن جابر رضی اللہ عنہ)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جس کو کوئی نعمت ملے اور وہ اس کا ذکر کرے تو اس نے اظہار شکر کیا، اور جس نے اسے چھپایا اس نے کفر کیا۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ سے ملی ہوئی نعمت کا اظہار کرنا پسندیدہ ہے اور اس کو ظاہر نہ کرنا ناپسندیدہ ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں اس مفہوم کو ادا کیا ہے
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
حدیث میں نعمتوں کے ذکر کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور ان کے ذکر نہ کرنے کو ان کے چھپانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ذکر بیان کرنے کو کہتے ہیں اور بیان کرنے سے پہلے کا مرحلہ محسوس کرنے کا ہے۔ نعمتوں کا بیان ان کے محسوس کرنے کے بعد ہی ممکن ہے۔ اگر کوئی شخص اتنا بے حس ہو کہ اس پر کیے گئے احسانات کا اسے احساس ہی نہ ہو تو وہ ان کو بیان کیونکر کرے گا۔
نعمتوں کا ذکر یعنی ان کا بیان کرنا صرف زبان کے ذریعہ نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ اس میں انسان کے رویے اور اس کے مطابق عمل کا بھی عمل دخل ہے۔ مثلاً کسی شخص کو کھانے کی کوئی چیز تحفۃََ دی جائے اور وہ دینے والے کے احسان کو بیان بھی کرے لیکن اس چیز کو کھائے نہیں اور اسے نظر انداز کردے تو اس زبانی جمع خرچ کو ذکر نہیں کہیں گے، بلکہ یہ تو صریح احسان فراموشی ہوئی۔ صحیح رویہ تو ہے کہ دینے والے کے منشأ کے مطابق چیز استعمال کی جائے۔ یہی درست قدر دانی ہے۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ دیگر ادیان اور متصوفانہ تصورات کے علی الرغم اسلام وسائل حیات کی نفی نہیں کرتا بلکہ انہیں حلال طریقہ سے حاصل کرنے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کی تعلیم دیتا ہے، بلکہ اس کی ترغیب اور اس کا حکم بھی دیتا ہے۔ نعمتوں کی نفی اسلام کا مزاج نہیں ہے بلکہ انہیں مطلوبہ طریقہ سے لینے اور مطلوبہ طریقہ سے دینے کو پسندیدہ طرز عمل قرار دیتا ہے۔ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس طرح آیا کہ اس کا لباس خراب اور بوسیدہ تھا۔ آپؐ نے اس سے سوال کیا کہ کیا اسے اللہ نے نعمتوں سے نہیں نوازا ہے۔ اس شخص نے اثبات میں جواب دیا تو فرمایا کہ ان نعمتوں کا اثر اس پر پڑنا چاہیے۔
درج بالا حدیث میں نعمت کے ذکر کو ’’شکر‘‘ اور اس کے چھپانے کو ’’کفر‘‘ کہا گیا ہے۔ شکر دراصل اعتراف نعمت کو کہتے ہیں۔ جب کوئی ہمارے ساتھ کوئی بھلا کام کرتاہے تو ہم ’’شکریہ‘‘ کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اپنے ساتھ کیے گئے اچھے کام کااعتراف کیا۔ یہ ایک اچھے اور شریف انسان سے کم سے کم مطلوبہ رویہ ہے، اور وہ انسان رذیل ہے جو اپنے ساتھ کیے گئے احسانات کا اعتراف نہ کرے بلکہ اسے اپنا حق سمجھ لے کہ وہ ہے ہی ایسا بڑا اور اہم شخص کہ اس کے ساتھ دوسرے لوگوں کو اچھے سے اچھا معاملہ کرنا چاہیے! یہی وجہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ مَنْ لَمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللّٰہَ (جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر نہیں بجا لا سکتا)۔ مشکورہونا انسان کا فطری کردار ہے اور ناشکری کا رویہ اس فطرتِ صحیحہ کو مسخ کرنے کا نتیجہ ہے۔ انسان اگر حساس ہو تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ اس پر بہت سے افراد کا احسان ہے۔ والدین، عزیز و اقارب، دوست و احباب، دیگر افراد اور سماج کے ادارے ان سب کے احسانات کا جواب احسان سے دینا مطلوبہ شکر گزاری ہے۔ اور سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ انسان سر تا پیر اور باہر سے اندر تک اللہ تبارک و تعالیٰ کے احسانات میں ڈوبا ہوا ہے۔ حتی کہ اس پر احسان کرنے والے جو دیگر افراد ہیں ان کا بھی خالق وہی ہے اور اسی نے ان کے دلوں میں محبت و شفقت اور جذبات خیر کو پیدا کیا ہے۔ الحمد للہ ۔ شکر کا حقیقی مستحق ہمارا خالق و مالک ہی ہے۔
مذکورہ حدیث میں ’شکر‘ کی ضد کو ’کفر‘ کہا گیا ہے۔ ’کفر‘ دراصل ’اسلام‘ اور ’شکر‘ دونوں کی ضد ہے۔ اور اس طرح غور کیا جائے تو ’اسلام‘ اور ’شکر‘ ہم معنی اور مترادف الفاظ ہیں۔ اسلام اللہ تبارک و تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کا نام ہے۔ اور شکر اللہ کے احسانات کا اعتراف کرنے اور اس کے نتیجہ میں احسان مند ہونے کا نام ہے۔ اور ان دونوں کا تقاضا یہ ہے کہ انسان زندگی کے تمام ہی معاملات میں اپنے آپ کو مرضیات الٰہی کا تابع بنا دے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسلام کے نام سے ایک بہت ہی قیمتی نعمت ہمیں عطا کی ہے۔ اس نعمت عظمیٰ کا ذکر اور اس کا اظہار ہم مسلمانوں پر فرض ہے۔ ایسا کرنا عین شکر ہے، اور اس میں کوتاہی کرنا اور اس سے احتراز برتنا کفر کرنے کے مترادف ہے۔ اظہار دین ہی ایک مومن کا نصب العین ہونا چاہیے۔
(ڈاکٹر وقار انور ، مرکز جماعت اسلامی ہند)
اعتراف نعمت
من اُبْلِیَ بَلاَءً فَذَکَرَہٗ فَقَدْ شَکَرَہٗ وَ اِنْ کَتَمَہٗ فَقَدْ کَفَرَہٗ۔ (سنن ابی داؤد عن جابر رضی اللہ عنہ) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جس کو کوئی نعمت ملے اور وہ…