سعادت حسین
تعلیم میں عدل و انصاف کی بات بہت سارے ماہر ین تعلیم نے کی ہے۔ جیسے امرتیا سین نے ‘تعلیم میں ’’عدل‘‘ کی بات تو گیتا نمبیسان نے ‘تعلیم میں ’’مساوات‘‘ ‘ کی بات کی ہے۔ ماہر ین تعلیم عدل،انصاف اور مساوات کو متبادل کے طور پر پیش کرتے آ رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی عدل،انصاف اور مساوات متبادل ہیں؟ اس سوال کا جواب نہ دے کر میں اسے قارئین پر چھوڑ دیتا ہوں۔ اس مضمون میں یہ کوشش کی جائےگی کہ تعلیم میں عدل و مساوات کی ایک وسیع تعریف کو پرائمری اسکولی سطح پر کیسے دیکھا جائےگا جہاں ذات پات کی بنیاد پر کلاس روم اور اس کے باہرتفریق کی جاتی رہی ہے۔ اس مضمون میں یہ دکھانے کی کوشش کی جائےگی کے کیسے اور کن موڑ پر اسکولی سطح پر بھید بھاو ہوتا آ رہا ہے۔
تعلیم میں مساوات ، عدل اور انصاف کی جب بات کی گئی زیادہ تر ماہر ین تعلیم نے اسے صرف ایک دائرے میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ان میں کچھ ماہرین نے اس سے پرے جا کر بھی اس مسئلے کو دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ گیتا نمبیسان (1996)، ستیش دیشپانڈے (2013)، ان میں سی۔ایم۔ملیش اور پی۔وی۔الاورسن (2016)، اور انوپ کمار (2017) نے اسکولی سطح پر، انجینئرنگ اور دیگر اعلی تعلیمی تناظر میں تعلیم میں عدل و مساوات کو روایتی تعریف سے صرف نظر کرکے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔
تعلیم میں عدل و مساوات کو روایتی طور پر ایسے دیکھا گیا ہے کہ کس سماج سے(SC, ST, OBC, Minorities, Women, Persons with disabilities-PWD) کتنے لوگ تعلیم کے الگ الگ مرحلوں میں شامل ہو رہے ہیں یا نہیں۔ ملیش اور الاورسن نے اس محدود تعلیم میں عدل و مساوات کی تعریف میں تصحیح کرتے ہوئے تعلیم میں مساوات کو تین حصوں میں بانٹا ہے۔ جو تعلیم کے الگ الگ مراحل بھی ہیں۔ ان کا تصور مساوات باقی ماہرین تعلیم سے کافی وسیع نظر آتا ہے۔ جسے مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کر کے سمجھانے کی کوشش کی ہے:-
1۔رسائی کے منصفانہ مواقع (Equity of Access) :
اس میں یہ دیکھا جائے گا کہ کون کون سے سماجی پس منظر سے لوگ آ رہے ہیں۔ اس میں حاشیہ پر رہنے والے سماجی گروہوں(SC, ST, OBC, Minorities, Women, (Persons with disabilities-PWD کی موجودہ صورتحال پر خاص توجہ دی جائےگی ۔
2۔ تعلیمی زندگی میں منصفانہ تجربات (Equity of Experience)
: جس کے مطابق حاشیہ سے ا سکول/کالج/جامعات میں داخلے کے لئے آنے والے سماجی گروہوں کا داخلی تجربہ کیا ہوگا۔ مثال کے طورپر ایک دلت طالب علم کا ذات پات کی بنیادوں پرتفریقی رویہ کا شکار بننا یا ایک مسلم کا مسلم ہونے کے سبب نفرت کا شکار بننا۔ یہ ممکن ہے کہ اس طرح کا رویہ اپنے ہم جماعت طلبہ /سینئر /جونئر سے یا اساتذہ سے بھی ہو سکتا ہے۔
3۔حصول و نتائج کے اعتبار سے منصفانہ مواقع (Equity of Outcome) :
جس کے مطابق طلبہ جو حاشیہ سے آنے والے سماجی گروہوں سے تعلق رکھتے ہوں آیا وہ اپنی تعلیمی دور کے ہر مرحلوں کو بحسن خوبی مکمل کریں گے یا درمیان میں تعلیم چھوڑ دیں گے۔ اعلیٰ تعلیمی سطح پر یہ بھی دیکھا جائے گا کہ ان میں سے کتنے طلبہ ایسے ہوں گے جو اعلیٰ تعلیمی مراحل میں پہنچنے کے علاوہ اس کو مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ ملازمت (Job) میں بھی اپنے قدم جمائیں گے۔
اس مضمون میں اوپر بیان کئے گئے دوسرے نقطہ پر پرائمری اسکولی پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کی جائےگی۔ ستیش دیشپانڈے نے کہا تھا:
―the notion of empirical evidence has rarely ventured beyond aggregate statistics the experiences of those engaged in translating rules and schemes into living reality are an important part of the evidence to be considered. ( P3, 2013)
اسکا مطلب یہ ہوا کہ تعلیم میں عدل و مساوات کی جب بات ہوگی تو وہ صرف اعداد وشمار تک محدود نہ رہ کر سماج میں حاشیہ سے آنے والے طلبہ کے تجربات، احساسات اور ان کی آپ بیتی بھی اہمیت کی حامل ہوگی۔ جس کو ملیش اور الارسن نے Equity of Experience کا نام دیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ تجربہ یا ایکسپیرئینس (Experience) کیا ہے؟ پروفیسر ساروکائی کہتے ہیں:’’ ایکسپیرئینس بنیادی طور پر ایک احساس ہوتا ہے‘‘۔ (P.47,2012) احساس ہر فرد کے لئے الگ الگ ہو سکتا ہے جس کو ساروکائی نے آگے ‘Subjective Experience’ کہا۔ اس احساس کو وہی صحیح طریقہ سے بیان کر سکتا ہے جو اس سے گزرا ہو۔ ایک آدمی کتنا بھی کسی کے قریب ہو لیکن پہلا آدمی دوسرے آدمی کا احساس مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتا جب تک کہ پہلا آدمی پوری طرح سے دوسرا آدمی نہ بن جائے جو کہ نا ممکن بات ہے۔ مثلا کسی کو وائرل بخار ہو تو صرف وہی صحیح طریقہ سے اپنی تکلیف کو بیان کر سکتا ہے۔
ہندوستانی سماج صدیوں سے ذات پات کے گہرے مرض کا شکار ہے۔ بابا صاحب امبیڈکر نے اس نظام کو Graded inequality بھی کہا ہے۔ اس مرض کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ یہ ذات پات کا نظام مسلم اور عیسائی سماج میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ ایک ‘نچلی ذات کا بچہ جب جدید تعلیم کے حصول کے لئے ایک اسکول میں داخلہ لیتا ہے تو وہاں بھی وہ ذات پات کی بنیادں پر بھید بھاؤکا سامنا کرتا ہے۔ جس کی کئی مثالیں ہندوستانی اسکولوں میں ملتی ہیں۔ یہاں تک کہ کیرل جو خواندگی میں اپنا نام رکھتا ہے وہ بھی اس مرض سے آزاد نہیں ہے۔ اسکول کے الگ الگ مرحلوں میں الگ الگ قسم کے بھید بھاؤ پائے جاتے ہیں ۔ جن کو اس مضمون میں کیس اسٹڈیز کے حوالے سے واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
1-داخلے کے وقت:
آج بھی ہندوستان میں آر۔ٹی۔ای کے آنے کے باوجود سماج میں بڑے پیمانے پر یہ سمجھا گیا ہے کہ سرکاری اسکول صرف ‘نچلی ذاتوں اور پچھڑے طبقات (ہندو اور مسلمانوں)کے لئے ہوتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ان میں ‘اونچی ذات کے بچے داخلہ نہیں لیں گے کیوں کہ یہاں ‘نچلی ذات اور پچھڑے طبقات سے آنے والے طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال کیرل کے پیرامبرا سرکاری اسکول کی ہے جو کالی کٹ سے 40 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اس اسکول کا نام ‘گورنمنٹ ویلفیر لوئر پرائمری اسکول اور اسکی شناخت ‘صرف دلتوں کے لیے بن گئی ہے۔ یہاں کے ہیڈ ماسٹر رگھوناتھ تیٹئیل کا کہنا ہے کہ کل 12 طلبہ 4 درجات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ہماری کوششوں کے باوجود صرف دلت طلبہ ہی داخلہ لے پا رہے ہیں، اچھا انفرا سٹرکچر ہونے کے باوجود پچھلے دس سالوں سےکئی ‘اونچی ذات کے طلبہ نے داخلہ نہیں لیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ اسکول کا Stigmatization بھی ہے۔ ایک ٹیچر کا کہنا ہے کہ اس اسکول میں ‘اونچی ذات کے طلبہ اس لئے داخلہ نہیں لیتے ہیں کیوں کہ وہ پرئیہ قوم (دلت گروہ) کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہتے۔ حال ہی میں ایک آٹھ سالہ طالب علم نے کہا تھا (جس کوایک ٹی وی رپورٹر نے رپورٹ کیا) کہ اس کو ‘پرئیہ کہہ کر کالونی میں ذلیل کیا جاتا ہے۔
یہ صورتحال تعلیم میں اپنا مقام بنانے والی ریاست کیرلا کی ہے۔ تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہندوستان کی باقی ریاستوں میں کیا صورتحال ہو سکتی ہے۔
2۔ کلاس روم میں تفریقِ ذات:
کلاس روم میں ذات پات کی الگ الگ شکلیں ہیں۔ جن پر کوئی سرکاری رپورٹ بھی نہیں ہوتی ہیں ۔ گیتا نمبیسان اور مونا سیڈوال (2002) نے اس کی نشاندہی کی ہے۔ ان دونوں نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس طرح کے رویہ اساتذہ سے بھی، ہم جماعتوںسے بھی ، (Curriculum and pedagogy)سے بھی نظر آتی ہیں۔ ان چیزوں کے علاوہ دلت طلبہ کے عزت نفس کے سوال کو بھی اٹھایا ہے۔
3۔ مڈ ڈے میل:
حکومت نے ڈراپ آوٹ کو کم کرنے اورا سکول کے باہر رہنے والے بچوں کوا سکول کی طرف لانے کے لئے بہت سارے پروگرام بنائے۔ ان میں کافی حد تک کامیاب پروگرام مڈڈے میل اسکیم ہے۔ اس اسکیم کی کامیابی کے ساتھ بہت سارے نقصانات بھی ہوئے ہیں ان میں سے ایک چھوا چھوت ہے۔ کئی جگہوں پر یہ دیکھا گیا کہ ‘اونچی ذات کے طلبہ ‘نچلی ذات کے طلبہ کے ساتھ بیٹھ کر کھانے سے کراہت محسوس کرنے لگے۔ مثال کے طور پر 2015 میں Caring Citizens Collective (CCC) نے ایک رپورٹ تلنگانہ کی پیش کی جس میں کہا گیا کہ مڈ ڈے میل کی تیاری کے حوالے سے نلگنڈہ،میدک اور کھمم کے اسکولوں میں چھوا چھوت کا رویہ دیکھا گیا۔ ‘اونچی ذات کے طلبہ نے نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے باورچی کے ہاتھوں بنا ہوا کھانا کھانے سے انکار کردیا ۔
(The Hindu, 2015, July 25)
2013 میں ایک پارلیمانی پینل نے مڈ ڈے میل کو لے کر رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ اس تناظر میں 144 ضلعوں کی صورتحال بہت ہی نا ساز ہے۔ کئی جگہوں پر ذات پات کی بنیاد پر تعصب پایا گیا ہے۔
تتمہ : صدیوں سے ذات پات کے نظام نے ہندوستان کو مضبوطی سے جکڑا ہے۔ اسکولی ماحول اسی سماج کا عکاس ہے۔ جس میں ‘گریڈڈعدم مساوات کو دہرایا جاتا ہے۔ امبیڈکر، پیریار سوامی، ساوتری بائی پھلے، جیوتی با پھلے ، فاطمہ شیخ، بسوننا جیسے مصلحین نے ذات پات جیسے مرض کو ختم کرنے کے لئے عظیم جد و جہد کی۔ جس کا نتیجہ ہم دیکھتے ہیں کے ہندوستانی دستور نے ‘نچلی ذاتوں کو حقوق دیے۔ لیکن آج بھی اسکول کی حالتوں پر نظر ڈالیں تو تعصب اور امتیازی رویہ نظر آتا ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے ’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ بنی آدم کو بزرگی (عزت) دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت (فضیلت) بخشی‘‘۔(17:70القرآن) اللہ نے جب اس مخلوق کو عزت بخشی ہو تو دوسرا انسان کون ہوتا ہے کہ اس کی عزت کو چھینے۔ حکومتیں لاکھ قانون سازی کرے اس میں کوئی فرق نہیں آنے والا ہے۔ کیوں کہ اس قانون کا نفاذ ہی اگر متعصب شخص کرتا ہے تو کیسےممکن ہے کہ یہ چیزیں ختم ہوں جائیںگی۔ اس ناانصافی پر مبنی سماج کی اصلاح کے لئے ایک بڑی اور لمبی جدودجہد درکار ہے۔ ساتھ ساتھ فوری طور پر اسکولی سطح پر اس وبا کے خاتمے کے لئے ایک جد و جہد ہر اسکول کے SDMC میں شامل ہو کر اس کو چیک کرنے، رپورٹ کرنے، اسکول ٹیچرس اور دیگر اسٹاف جو بھی بھید بھاؤکرتے ہوں ان پرسخت کاروائی یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ پرائمری اسکولی سطح سے ہی تعلیم اور اخلاقیات کے تناظر میں اس وبا کو بچوں کے دماغوں سے نکالنے کا کام مصلحین اور ذمہ دار و با شعور تنظیموں کی ذمہ داری ہے۔ بچوں کو احساس دلایا جائے کہ بنی آدم کو خالق کائنات نے تکریم کے ساتھ پیدا کیا ہے۔
مصنف جے این یو، دہلی میں ریسرچ اسکالرہیں۔
References:
Deshpande, S., & Zacharias. (Eds.) (2013) U. Beyond Inclusion: The Practice of Equal Access in Indian Higher Education. New Delhi : Routledge, 2013.
Guru, G., & Sarukkai, S. (2018). The cracked mirror: An Indian debate on experience and theory. Oxford University Press.
Malish, C. M., & Ilavarasan, P. V. (2016). Higher education, reservation and scheduled castes: exploring institutional habitus of professional engineering colleges in Kerala. Higher Education.72 (5). (pp. 603-617). DOI: 10.1007/s10734-015-9966-7. India: Springer
Nambissan, G. Geetha. (1996). Equity in Education? Schooling of Dalit Children in India. Economics and Political Weekly. Vol. 31
Nambissan, G. Geetha, & Sedwal Mona (2002) Education for All: Situation of Dalit Children India. India Education Report
https://www.thequint.com/news/india/kerala-school-struggles-to-break-caste-barriers