ڈاکٹر محمد رفعت
22؍ جون 2018کو یہ تقریر ایس آئی او کے منتخب ممبران کے مرکزی کیمپ میں کی گئی۔
آج کی نشست میں آئیڈیالوجی کو موضوع بنایا گیا ہے۔یعنی اسلامی نظریہ کی تفہیم پیش نظر ہے تاکہ اس کے مطابق عملی اقدامات تجویزکیے جا سکیں۔ آئیڈیا لوجی اصولوں کا تعین کرتی ہے۔ اس اصطلاح کے مفہوم میں وسعت ہے۔ اقدامات سے مراد حصول مقصد کے لیے کیے جانے والے کام ہیں۔ اس عنوان کا مرکزی لفظ آئیڈیالوجی ہے۔ اور پھر اس کے ساتھ صفت اسلامک کا اضافہ کیا گیا ہے، یعنی اسلامی آئیڈیالوجی۔ چنانچہ اس عنوان کو سمجھنے کے لیے پہلے خود آئیڈیالوجی کا مفہوم سمجھنا ہوگا۔
آئیڈیالوجی کا لفظ اکثر استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ’ نظام فکر و عمل‘ ہوگا۔ یعنی تصورات ، افکار،آئیڈیاز کا ایسا نظام جو سوچ اور عمل کی رہ نمائی کر سکے۔ انگریزی فقرہ ’’سسٹم آف تھاٹ اینڈ ایکشن‘‘ آئیڈیا لوجی کاعام فہم متبادل ہے۔
دین اسلام کی نوعیت
اسلام کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ ’دین‘ ہے اور دین کا مفہوم بہت جامع ہے۔ دوسری زبانوں میں جب ہم دین کے لیے متبادل الفاظ تلاش کرتے ہیںاور ترجمہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کسی ایک ترجمے سے جامع مفہوم کا حق ادا نہیں ہوتا۔ دین کا ترجمہ ’مذہب ‘ کر سکتے ہیں مگر مذہب محض زندگی کے بعض پہلوؤں پر زور دیتا ہے۔ اسی طرح دین کا ترجمہ نظام فکر و عمل اور نظام حیات بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ اصطلاحیں بھی زندگی کے بعض پہلوؤں کا تذکرہ کرتی ہیں۔ اسلام کے تعارف کے لیے موضوع لفظ’دین‘ ہی ہے جوجامع اور مکمل ہے۔ دین کا ایک پہلو اس وقت زیر بحث ہے ۔ یعنی نظام فکر وعمل یا آئیڈئیالوجی۔
اس موضوع پر غورکا ایک پس منظر ہے، جو ہمارے موجودہ حالات سے عبارت ہے۔ آج کی دنیا میں بہت سے انسان آباد ہیں۔ مسلمان بھی غیر مسلم بھی۔ ان کے درمیان کچھ موضوعات پرباتیں ہو رہی ہیں، کچھ تصورات رائج ہیں۔ جن کو فکر و تجزیہ کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ معروف الفاظ میں آئیڈیالوجی کا لفظ بھی ہے۔ اس لحاظ سے ہم اسلام کے نقطۂ نظر کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ یہ پس منظر بھی ہمارے سامنے رہنا چاہیے۔
آئیڈیالوجی میں عمل شامل ہے لیکن فکر مقدم ہے ۔ افکار اور تھنکنگ عمل کی اساس ہیں۔ کسی دین یا تحریک کے پیغام کی تفہیم کی ابتدا فکر سے ہوتی ہے۔ انسان جب غور کرتا ہے تو ہر قسم کے موضوعات پر توجہ دیتا ہے۔ انسان کے فکر کی پرواز کی کوئی حد نہیں ہے،ہر طرح کے موضوعات اس کی گرفت میں آتے ہیں۔ان میں کچھ موضوعات ایسے ہوتے ہیں ، جن کو انسان بنیادی سمجھتا ہے۔ جب تک ان پر غور نہ ہوجائے تفصیلی سوالات پر غور نہیں کیا جا سکتا۔
بنیادی سوال
جو بنیادی سوال ہمارے سامنے آتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم انسان اس دنیا میں موجود ہیںتو ہماری زندگی با معنیٰ ہے یا بے معنیٰ۔کیا ہم انسان محض اس لیے موجود ہیں کہ زندگی گزاریں ساٹھ ،ستر ،یا سو سال اور کھائیں پئیں اور ختم ہو جائیں۔ یا ہماری زندگی کی کوئی معنویت ہے؟ کوئی مقصد ہے؟ کیا کائنات میں ہماری کوئی اہمیت ہے؟ ہم نہیں تھے تو کیوں ہماری تخلیق ہوئی؟
یہ سوال بہت بنیادی سوال ہے۔ انسان کا دل اس کا جواب جانتا ہے۔ دل جو جواب دیتا ہے وہ یہ ہے کہ ہماری شخصیت با معنیٰ ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی یہ بات ماننے کے لیے تیار نہ ہوگا کہ ہم محض مادی ذرات کا مجموعہ ہیں، محض ایک پودے ، جانور اور پتھر کی طرح ہیں۔ بلکہ ہم اپنی معنویت اپنے دل کی گہرائیوں کے اندر محسوس کرتے ہیں۔مذکورہ سوال کے لیے یہ ہمارے دل کا جواب ہے۔ہم میں سے کوئی بھی انسان یہ نہیں ماننا چاہتا کہ ہم محض اس لیے ہیں کہ کھائیں پئیں ختم ہو جائیں ،بلکہ ہمارا وجدان کہتا ہے کہ ہمارے وجود کی معنویت ہے اور کائنات میں ہماری اہم حیثیت ہے۔ یہ وہ بات ہے جو ہم اپنے دل کے اندر محسوس کرتے ہیں۔ لیکن انسان کا وجود بہر حال محض دل تک محدود نہیں۔ اس کی شخصیت صرف احساسات و جذبات کا نام نہیں، بلکہ انسان دماغ سے سوچتا ہے ۔ چنانچہ انسان کو اطمینان اس بات پرہوتا ہے، جس کو دل بھی تسلیم کرے اور دماغ بھی۔
انسانی زندگی کی معنویت کا سوال ایک دوسرے اہم ترسوال سے متعلق ہے کہ اس کائنات کا کوئی چلانے والا، بنانے والا، مدبر اور منتظم ہے یا نہیں؟ کیا کوئی خالق اور مصور موجود ہے، جس نے یہ خوب صورت دنیا بنائی ہے؟ اگر خالق نہیں ہے تویہاں کوئی معنویت بھی نہیں ہو سکتی۔ اس نتیجہ پر پہنچنے کے لیے کچھ زیادہ غورو فکر درکار نہیں ۔ بہت آسانی سے انسان اس نتیجہ تک پہنچ سکتا ہے کہ اگر اس کائنات کے پیچھے کوئی منصوبہ نہیں ، کوئی خدا نہیں ، کوئی خالق نہیں ، کوئی منتظم نہیں تو پھر یہاں معنیٰ کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ پھر نہ انسانی حیات کا کوئی مقصد ہو سکتا ہے اور نہ معنویت۔ منکرین خدا کہتے ہیں ہم کچھ نہیں جانتے کہ کائنات کیسے بن گئی؟ کب تک چلے گی؟ کب ختم ہوگی؟ کائنات کے حال کے بارے میں بس اتنا جانتے ہیں جتنا ہم نامکمل مشاہدات اور ناقص قیاسات کے ذریعے اندازہ لگا لیں۔ نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم۔ جو کہنے والے یہ کہتے ہیں کہ خدا نہیں ہے تو ان کو لازما ً یہ بھی ماننا پڑتاہے کہ کائنات کے اندر کوئی معنویت نہیں پائی جاتی۔
توحید یا الحاد
اس بحث کو دوسرے لفظوں میں یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ کائنات کی ایک توجیہ الحاد ہے اور دوسری خدا کے اقرار پر مبنی ہے۔ یہاں سے فکر کے دو راستے الگ ہوتے ہیں۔ اگر خدا کو مانا جائے تو یہ ماننا ممکن ہے کہ زندگی میں مقصد اور مفہوم موجود ہے۔ اس کے برعکس اگر خالق کو نہ مانا جائے تو پھر حیات کی معنویت کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ بعض لوگ خدا کو مانے بغیر معنویت کی تلاش کرتے ہیں۔ لیکن صحیح بات یہی ہے کہ اگر اس بالاتر حقیقت کو نہ مانا جائے تو پھر کائنات میں کسی معنویت کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی۔ کائنات کے بارے میں غور و فکر کرکے انسان اگر اس حقیقت کو مان لیتا ہے کہ خدا ہے اور اس نے ہمیں تخلیق کیا ہے ۔ تو یہ بھی ماننا چاہیے کہ جو نظام فکر و عمل انسان کو درکار ہے، وہ اسے ہدایت کی شکل میں خدا کی طرف سے ملنا چاہیے۔
اگر خدا ہے تو اس سے ہم توقع کرتے ہیں کہ ہماری دیگر ضرورتوں کی طرح انسان کی ہدایت کا انتظام بھی وہ کرے گا۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو خدا کو مانتے ہیں ، محض خالق کے طور پر لیکن خدا کی ہدایت کو نہیں مانتے۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ موقف معقول نہیں ہے۔ خدا کو ماننے کے معنیٰ ہی یہ ہیں کہ اس کی صفات کا ادراک کیا جائے اورخدا کی صفات کو بھی تسلیم کیا جائے۔ وہ رحیم ہے، مالک ہے، رب ہے، مخلوق کی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ ان سب صفات کو ماننا ضروری ہے۔ انسان کی ضرورتوں میں بہت بڑی ضرورت ہدایت کی ہے۔ اگر خدا کو مانا جائے اور اسے ہادی و رب نہ مانا جائے تو اس ماننے کا کوئی حاصل نہیں ۔ خدا کو ماننا خود بہ خودیہ تقاضا کرتا ہے کہ اس کی ہدایت کو بھی تسلیم کیا جائے۔ اسلام جو نظام فکر و عمل پیش کرتا ہے، اس کا منبع خدا کی ہدایت ہے۔
معنویت کی بے سود تلاش
بعض لوگ خدا کو نہیں مانتے اس کے باوجود حیات و کائنات میں معنویت کی تلاش کرتے ہیں جاننا چاہیے کہ اس تلاش کے معنیٰ کیا ہیں؟ ہمارا وجدان کہتا ہے کہ انسان محض اس لیے نہیں کہ کھائے پیے اور ختم ہوجائے، بلکہ اس کی زندگی میں مقصد ، معنویت اور مفہوم موجودہے۔ اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر منکرین خدا کی دلچسپی انسان کی اجتماعی زندگی اور اس سے متعلق ان کے مخصوص پروگرام سے ہے۔ انسان کی اجتماعی زندگی کے بارے میں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس اجتماعی زندگی میں انصاف قائم ہونا چاہیے۔ آزادی کی فضا ہونی چاہیے۔ استحصال نہیں ہونا چاہیے۔ انسانوں کے حقوق تسلیم کیے جانے چاہییں۔ یعنی انسانوں کے ساتھ اچھا سلوک ہونا چاہیے۔ ان کا منشا یہ ہے کہ اس زمین پر ایک اچھا انسانی سماج وجود میں آئے جس میں ناانصافی نہ ہو، استحصال نہ ہو، نا برابری نہ ہو۔ ایسا انسانی سماج وجود میں لانا ان کے نزدیک انسانی زندگی کا مقصد ہے۔ یہ وہ معنویت ہے جس کی تعیین کے ساتھ ان کی تلاش مکمل ہو جاتی ہے۔ جو لوگ یہ ماننے پر آمادہ نہیں ہیں کہ خدا ہے، ان کا دل مذکورہ بالا جواب سے مطمئن ہو جاتا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے زندگی کا ایک مقصد اعلیٰ دریافت کر لیا ہے۔ یعنی ایک منصفانہ سماج کی تشکیل۔ اس موقف کے بارے میں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ جو بے اطمینانی پیدا کرتے ہیں۔
بے اطمینانی کے وجوہ
تین سوالات ہیں جو بے اطمینانی کا سبب ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ انسانی کاموں کے لیے محرک کیا ہے؟ خدا کو ماننے والے اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ انسان کے اچھے کاموں کا محرک یہ ہے کہ انسان اللہ کو راضی کریں، اللہ کے قریب ہوں، اس کی ناراضگی سے بچیں، ان کی شخصیت بلند ہو، خدا کی شخصیت جیسی صفات ان کے اندر پیدا ہوں، وہ آخرت میں کام یاب ہوں، اللہ کے نیک بندوں کا ساتھ دنیا اور آخرت میںملے اور فرشتوں کا ساتھ ملے۔ یہ سب وہ محرکات ہیں جو خدا پر ایمان لانے والوں کو نیک کاموں پر آمادہ کرتے ہیں۔ظاہر ہے کہ انسانی سماج سے ناانصافی مٹانا کوئی آسان کام نہیں ۔ ایک محلہ سے بھی ناانصافی مٹانا سہل نہیں ہے۔اکثر انسان چاہتے ہیں کہ اچھا سماج وجود میں آئے، جہاں نا انصافی نہ ہوبلکہ انصاف ہو۔ آزادی ہو۔ لیکن لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ اچھا کام ہے مگر مشکل ہے۔اس کام کا محرک کیا ہو؟ جو خدا کو مانتے ہیں ان کے نزدیک محرک واضح ہے۔ یعنی خدا کو راضی کرنا، اپنی شخصیت کو بلند کرنا اور اپنا تزکیہ کرنا ۔
مگر جو خدا کو نہیں مانتا اس کے سامنے محرک کیا ہے؟ اس کا کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دیا جا سکتا۔عموماً انسان نیک عمل کی ابتدا کرتا ہے تو اپنی فطرت کے مطالبے پر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی ابتدائی محرک سامنے نہیں ہوتا۔ مثلاً ہم نے دیکھا ایک آدمی بھوکا ہے، ہماری انسانی فطرت جاگتی ہے اور اسے کھانا کھلاتے ہیں۔ یہ وصف انسانوں میں مشترک ہے چاہے شعوری طور پر وہ خدا کو مانیں یا نہ مانیں۔ سب میں انسانی فطرت موجود ہوتی ہے۔ اب غور کے سلسلے کو آگے بڑھائیے۔دنیا میں ایک ہی شخص تو بھوکا نہیں ہے بلکہ بہت سے مستحقین ہیں۔ غور کے اس مرحلے میں نامطلوب محرکات کے اثرات شروع ہوجاتے ہیں۔ اگر خدا کو راضی کرنے کا محرک سامنے نہیں ہے تو پھر غلط محرکات آدمی کے دل و دماغ پر تیزی کے ساتھ قبضہ کر لیتے ہیں۔ نیک عمل کی ابتدا تو اچھے انسانی جذبے اور فطرت کی پکار سے ہوتی ہے۔ لیکن اس کے بعد پھر دوسرے نامناسب جذبات غالب آجاتے ہیں۔ کوئی خدمت کے صلے میںشہرت چاہتا ہے، کوئی اقتدار چاہتا ہے، کوئی ووٹ کا طلبگار ہے،کوئی لیڈر شپ کا خواہش مند ہے۔ گویا ہر کوئی اپنا مفاد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ سب نامطلوب محرکات ہیں۔
یہ پہلی بے اطمینانی ہے۔ اگر خدا کو نہ مانیں اور انسانی زندگی میں معنیٰ تلاش کریں اور اچھے سماج کے قیام کے لیے کام بھی شروع کر دیں تو جو اس کام کے لیڈر ہوں گے ان کی نیتیں خراب ہو جائیں گی۔ واقعہ یہ ہے کہ انسانی عمل کے لیے ایک ہی نیت ہے جو صحیح ہے ، وہ خدا کو راضی کرنے کی نیت ہے۔ باقی ہر نیت بگاڑ اور فساد پیدا کرتی ہے۔ سب سے پہلے انسان کے اندرون میں فساد پیدا ہوتا ہے پھر باہر۔ جب ایک شخص لیڈر شپ چاہے تو دوسرے کیوں نہ چاہیں، اس طرح انسانوں میں ٹکراؤ ہوتا ہے ۔ یہ سماج میں بگاڑ اور فساد کی ابتدا ہے۔ اگر لیڈر شپ ملتی نظر نہ آئے تو انسان اچھے کاموں سے باز آجائے گا۔ چنانچہ بری نیت فساد پیدا کرتی ہے۔
یہ پہلی بے اطمینانی ہے جو محرک سے متعلق ہے ۔ اگرانسان خدا کو نہ مانے تو اچھے کام کیوں کرے۔ اس سوال سے واسطہ ہر تحریک کے کارکن کو پیش آئے گا۔ چاہے کمیونسٹ تحریک ہو یا جمہوری۔ لیڈر شپ کے حصول کے لیے ٹکراؤ کی اصل وجہ یہی ہے کہ انسانوں کے سامنے صالح محرک موجود نہیں ۔ کسی تحریک کا ٹکراؤ جو مخالفین سے ہوتا ہے وہ بعد میں پیش آتا ہے، پہلے تحریک کے داعیوں میں آپس میں ٹکراؤ ہوتا ہے۔ جب طاقت ملتی نظر آتی ہے۔ تو داعیان انقلاب کے درمیان کشمکش شروع ہو جاتی ہے۔ لوگ خدا کو نہیں مانتے تو اچھے کاموں کے کرنے کا کوئی محرک باقی نہیں رہتا۔
انسان کا انفرادی وجود
دوسری بے اطمینانی یہ ہے کہ انسان محض ایک اجتماعی وجود تو نہیں ہے۔ بلکہ انفرادی شخصیت بھی رکھتا ہے۔ ہم یقیناً انسانوں سے تعلقات رکھتے ہیں، انسانی سماج میں رہتے ہیں، انسانوں سے لین دین کرتے ہیں، حکومت چلاتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ہمارا انفرادی وجود بھی ہے۔ چنانچہ ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ ہم مر جائیں گے تو ہمارا انجام کیا ہوگا؟ ہم کسی رب کے سامنے جواب دہ ہیں کہ نہیں؟ ہم انسان بالاتر حقائق کو بھی جاننا چاہتے ہیں۔ ہم بہ حیثیت انسان اچھے انسان بھی بننا چاہتے ہیں۔ جس طرح یہ فلسفہ غلط ہے جو مارکس نے پیش کیا تھا کہ انسانی سماج میں جو بھی تبدیلی ہوتی ہے اس کی وجہ محض معاشی محرکات ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی غلط ہے کہ انسان محض اجتماعی وجود ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان اپنا انفرادی وجود بھی رکھتا ہے۔ اور انسانوں کے باہمی تعلقات ذریعہ ہیں اس کے وجود کے اظہار کا ۔ ایک بچہ بھی اپنے وجود کا اظہار کرتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ انسان صرف بیٹا یا باپ یا شوہر ہوتاہے، بلکہ وہ اپنا انفرادی وجود رکھتا ہے۔
جو نظام فکر و عمل خدا کو نہیں مانتا ، اس کی پرواز محدود ہوتی ہے، اس نظام میں معنی کی تلاش ناممکن ہے۔اس لیے کہ معنیٰ کی تلاش محض انسان کی اجتماعی زندگی تک محدود نہیں ،وہ انفرادی زندگی سے بھی تعرض کرتی ہے۔یہ سوالات اہم ہیں کہ موت کے بعد کی زندگی کیا ہے؟ انسانوں کی بلند تر شخصیت کیا ہے؟ کائنات کی حقیقت کیا ہے؟ انسان کی انفرادی زندگی سے وہ نظام فکر و عمل سرے سے بحث ہی نہیں کرتا جو خدا کو نہیں مانتا۔ چنانچہ ایسے نظام فکر و عمل کا ناقص ہونا، ظاہر ہے۔
عمل کا نتیجہ
تیسرا سوال اچھے سماج کی تعمیر کے خواب سے متعلق ہے۔ انقلاب کے داعیوں کاخواب یہ ہے کہ مستقبل کے انسانی سماج میں آزادی ہوگی، انصاف ہوگا، استحصال نہیں ہوگا۔ نا برابری نہیں ہوگی، انسانوں کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ یہ خواب دیکھنے والے کچھ لوگ ہوتے ہیں جو انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ کس شخص کو کتنی زندگی ملے گی وہ نہیں جانتا۔ ہوتا یہ ہے کہ اس نے ایک خواب دیکھا ، مگر اس کی زندگی میں وہ خواب پورا نہیں ہوا۔ مثلا مارکس کی زندگی میںاشتراکی انقلاب نہیں آیا، بلکہ مارکس کے بعد آیا۔ انقلابیوں نے کچھ سوچا، مستقبل کا نقشہ بنایا، مگر ان کی زندگی میں خواب پورا نہیں ہوا۔ تو ان کو کیا کام یابی ملی؟ انھوں نے صرف کام کیا ، صرف قربانیاں دیں۔ اگرتبدیلی کے داعی خدا اور آخرت کو مانتے ہیں تب تو اس سوال کا جواب آسان ہے، کہ خدا کو راضی کرنے کے لیے ہم نے کام کیا۔ آخرت میں اس کا اجر ملے گا۔ لیکن جو خدا کو نہیں مانتا اور نہ آخرت کو مانتا ہے، وہ اس سوال کا کیا جواب دے گا؟ اس کو اس محنت سے کیا ملا؟ اس نے کیا حاصل کیا؟ اس سوال کا کوئی اطمینان بخش جواب موجود نہیں۔ جب کہ انسان اپنے کاموں کا، اپنے منصوبوں کا حاصل چاہتا ہے، ان کا نتیجہ چاہتا ہے۔
چنانچہ خدا کو تسلیم کیے بغیر انسانی زندگی میں معانی کی تلاش بے سود ہے،جو منکرین خدامعانی کی دریافت کا دعویٰ کرتے ہیں وہ ان الجھنوں کا کوئی جواب نہیں دے سکتے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ کوئی صحیح محرک ان کے پاس نہیں۔ جو لوگ اس دنیا سے رخصت ہوگئے، ان کا خواب پورا نہیں ہوا، ان کے لیے کوئی کام یابی نہیں ۔ اسی طرح انفرادی زندگی کے لیے ان کے نظام فکر و عمل میںکوئی ہدایت نہیں ۔ ظاہر ہے کہ خدا کو مانے بغیر ہمیں زندگی کے معانی نہیں مل سکتے اور حیات مقصد کا متعین نہیں ہو سکتا۔چنانچہ اس حقیقت کو مان لینا چاہیے کہ خدا موجود ہے اور اس کی ہدایت واجب التسلیم ہے۔ یہی صحیح موقف ہے۔ یہ اسلامی آئیڈیالوجی کا بنیادی نکتہ ہے۔
آئیڈیالوجی اور مذہب
تقریب فہم کے لیے کہا جا سکتا ہے کہ دین کے دو پہلو ہیں: ایک پہلو مذہب ہے، جس کا موضوع اصلاً انسان سے خدا کا تعلق ہے۔ دین کادوسرا جز ء آئیڈیالوجی ہے، جس میں انسان کا انسان سے تعلق زیر بحث آتا ہے۔ ہمارے پاس دین کی ایک جامع اصطلاح موجود ہے جو دونوں اجزا کا احاطہ کرتی ہے۔ ہم دین کے مختلف پہلو بیان کر سکتے ہیں۔اسلام کو ماننے والے محض اجتماعی زندگی کو کُل زندگی نہیں سمجھتے، بلکہ انسان کی انفرادی زندگی کی اہمیت بھی تسلیم کرتے ہیں۔
اسلامی آئیڈیالوجی کی بنیاد واضح افکار پر ہے جن سے عملی پروگرام وجود میں آتے ہیں۔ تصوارات کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہوتا ہے۔ اسلامی نظریے کا بنیادی تصور اللہ کے وجود کو ماننا اور اس کی ہدایت کو ماننا ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قانون ساز اور حاکم مانا جائے۔ قرآن مجید میںلفظ ’دین‘ قانون کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوا ہے۔(ظاہر ہے کہ دین کے معنیٰ میں وسعت ہے۔ لیکن دین کا لفظ قانون کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوا ہے۔) مثال کے طور پر سورۂ یوسف میں ’دین ملک‘ کا لفظ آیاہے اور وہاں دین سے مراد قانون ہے۔ سورۂ النور میں جہاں بدکاری کی سزا بتائی گئی ہے، وہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ یہ سزا نافذ کرو، یعنی اگر کوئی واقعی مجرم ہے تو اس کو سزا دی جائے۔ اور فہمائش کی گئی کہ اللہ کے دین کے معاملے میں تمہیں رحم کا جذبہ اس حکم پر عمل کرنے سے باز نہ رکھے۔ تو نفاذِ حدود کو اللہ کا دین کہا گیا ہے۔ اسلامی آئیڈیالوجی کے مطابق عملی پروگرام یہ ہے کہ الٰہی قانون کو انسانی سماج میں جاری و نافذ کیا جائے۔