تبصرہ:محمد عارف اقبال
مصنف: عبدالحیّ
اردو کے جواں سال محقق ڈاکٹر عبدالحئی نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی تکمیل کی۔صحافت سے ان کو خاص دلچسپی رہی ہے۔لہذا پی ایچ ڈی سے قبل ہی انہوں نے اردو صحافتر کے ایک اہم موضوع ’ادبی صحافت‘پر تحقیق کرنا شروع کیا۔اس کام میں انہوں نے ایک مثالی اور محنتی محقق کی حیثیت سے اپنے کام کو انجام دیا۔ڈاکٹر عبدالحی ان دنوں ماہنامہ’اردو دنیا‘ اور سہ ماہی ’فکر و تحقیق‘ نئی دہلی کے نائب مدیر ہیں۔
’ادبی صحافت آزادی کے بعد‘ ڈاکٹر عبدالحی کی اپنے موضوع پر ایک اہم کتاب ہے۔اردو صحافت کے حوالے سے اردو میں متعدد کتابیں لکھی گئیں لیکن اس کا امتیاز اس کی ’ادبی صحافت‘ ہے۔اس کتاب کے آغازہی میں مصنف نے کتاب لکھنے میں جن اہل دانش اور صحافیوں سے استفادہ کیا،ان کا بھر پور تذکرہ کیا ہے۔اس کے آخر میں کتابیات (Bibliography) کی فہرست اور ہر باب کے آخر میں حواشی و حوالہ جات سے بھی کتاب کی تحقیقی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔اس سے قبل ضمیمہ کے طور پر’اردو کے اہم رسائل و جرائد:آغاز سے موجودہ دور تک‘کی فہرست شامل کر دی گئی ہے،جس اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان میں پہلا ادبی رسالہ ’خیر خواہ ہند‘مرزا پور سے 1837میں شائع ہوا تھا جس کے مدیر اور مالک آر۔سی۔ماتھر تھے۔
اپنی ابتدائی تحریر’پہلا لفظ‘ میں مصنف نے آزادی سے قبل جن نمایاں صحافیوں کا ذکر کیا ہے ان میں مولوی محمد باقر،سر سید احمد خاں،مولانا ظفر علی خاں،مولانامحمد علی جوہر،مولانا حسرت موہانی اور مولانا ابوالکلام آزاد کے اسمائے گرامی ہیں۔غالباایک اہم نام سہوارہ گیا ہے یعنی سید ابوالاعلی مودودی۔ان کا شمار بھی نمایاں صحافیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے دہلی کے ’مسلم‘ اور ’الجمیعۃ‘ اخبارات کی ادارت کی۔مولانامحمد عثمان فارقلیط بھی اسی الجمیعۃ سے وابستہ ہوئے جو مولانا مودودی کے دور میں ایک مبتدی صحافی تھے۔الجمیعۃ کے بعد مولانا مودودی برسوں ’ترجمان القرآن‘ کے ایڈیٹر رہے جس کا اجراحیدرآباد میں کیا گیا تھا۔’مسلم‘ میں لکھی گئی مولانامودودی کی تحریروں کو حال ہی میں کتابی شکل دی گئی ہے۔
دوجلدوں پر مشتمل اس کتاب ’مقالات مسلم‘ (1921 تا1923،دوجلدیں)کے مرتب ڈاکٹر رفیع الدین فاروقی ہیں۔دونوں جلدیں قومی کونسل کے مالی تعاون سے شائع کی گئی ہیں۔اسی طرح ’الجمیعۃ‘ کے اداریوں پر مشتمل چار کتابیں صدائے رستا خیز1925) (،بانگ سحر(1926)،آفتاب تازہ (1927) اور جلوہ نور(1928) مولانا خلیل احمد حامدی مرحوم نے ادارہ معارف اسلامی،لاہور سے شائع کردی تھیں۔
’ادبی صحافت:آزادی کے بعد‘ کو سات بڑے عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے۔عنوانات اس طرح ہیں: (1)ہندوستان میں اردو کی صحافت(2)آزادی کے بعد اردو کے رسائل و جرائد]تحقیقی جائزہ[ (3) اردو کے اہم رسائل و جرائد کا فنی جائزہ (4)عہد حاضر کے اہم رسائل و جرائد (5)مسائل وامکانات (6) حاصل مطالعہ (7) ضمیمہ۔
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے اس اہم موضوع پر کتاب کی اشاعت کرکے اردو سرمائے میں اضافہ کیا ہے۔اس کے مطالعہ سے بھی یہ اضافہ ہوتا ہے کہ اردو صحافت میں محض ’اخبار‘کی اہمیت نہیں ہے جس میں جھوٹی سچی خبروں کو یکجا کردیا جاتا ہے بلکہ’ادبی صحافت‘یا ’صحافتی ادب‘ ہی اصل ہے جو اپنے اندر تمام علوم کو سمو لیتی ہے جن کا تعلق انسانی زندگی کے جملہ شعبوں سے ہوتا ہے۔اس کی مثال خود ماہنامہ’آجکل‘ ہے جس میں ان موضوعات کو بھی اہمیت دی جاتی ہے جن کا تعلق انسانی زندگی اور اس کے مسائل سے ہے۔’ادب‘ محض تخلیقی ادب کا نام نہیں ہے بلکہ ادب زندگی کو جملہ شعبوں کو محیط ہے۔اس کتاب میں مصنف نے اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’ادبی صحافت‘ تعریف کی ہے تا کہ اس سلسلے میں اشکال باقی نہ رہے۔ماہنامہ ’اردو دنیا‘ بھی ’ادبی صحافت‘ کی ایک بہترین مثال ہے،جس میں موضوعات کا تنوع بھی ہوتا ہے اور زندگی کی حرارت بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔
محمد عارف اقبال معروف مبصر کتب ہیں۔سہ ماہی ’اردو بک ریویو‘ کے مدیر ہیں۔