اب سیکھئے تجارت نئے اندازمیں انٹرپرینر شپ کی تعلیم

ایڈمن

توقیر اسلم انعامدار، ناگپو ر ،مہاراشٹر ملت میں بز نس و تجارت سے دلچسپی رکھنے والوں کی تعداد بہت ہی کم نظر آتی ہے بلکہ ملت کا کثیر طبقہ اسے بری چیز، دنیا دار ی یا کم پڑھے لکھے لوگوں…

توقیر اسلم انعامدار، ناگپو ر ،مہاراشٹر
ملت میں بز نس و تجارت سے دلچسپی رکھنے والوں کی تعداد بہت ہی کم نظر آتی ہے بلکہ ملت کا کثیر طبقہ اسے بری چیز، دنیا دار ی یا کم پڑھے لکھے لوگوں کا کا م سمجھتاہے، جبکہ تجارت قوم کے معاشی نظام کی جان ہو تی ہے۔ ہر زمانہ میں جن قوموں نے تجارت کو اپنا پیشہ بنایا، انہوں نے ترقی کی۔ چاہے وہ عرب کے قریش ہوں ، ہندوستان آنے والے عرب تجار ہوں،ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز ہوںیا پھر آج کے ترقی یافتہ ممالک ہوں ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بزنس میں مسلمانوں کا تناسب بمشکل ۵؍فیصد ہے،جس کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ نانصافی کا رویہ اپنایا جاتا ہے۔ فسادات کروائے جاتے ہیں،میڈیامیں انہیں بدنام کیاجاتا ہے، ان کی حق تلفی کی جاتی ہے،ملازمت کے لئے انہیں دردر بھٹکنا پڑھتا ہے، اوراگرملازمت مل بھی جاتی ہے تو مذہب کو ذاتی معاملہ قرار دے کر اسلامی شعائر کی پابندی سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے،یہ صورتِ حال ملٹی نیشنل کمپنیوں میں حد سے زیادہ دکھائی دیتی ہے۔
ملت کے زیادہ ترافراد مہارت کی کمی، ناتجر بہ کاری، مایوسی کے شکارہونے اورناکامی سے ڈرنے، مالیاتی نقصان کے خطرے، محدود وسائل کے بہانے، نوکریوں کی طرف معاشرہ کے رجحان، بہت زیادہ رسک اورمسابقت، اور بسااوقات موافق گورنمنٹ پالیسی نہ ہونے کے سبب کسی منظم تجارتی ادارے کا قیام اور اس کا انتظام و انصرام نہیں کرپاتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ملت معاشی زوال کا شکار ہوتی جارہی ہے،جبکہ تجارت سے انسان میں قائدانہ صلاحیت ،خطرات سے بچاؤ ،خریدو فروخت میں فرزانگی ،معاملہ فہمی ،بات چیت کا ڈھنگ ، اپنی بات کو دلائل سے منوانے کا سلیقہ ، مختلف مقامات کی سیاحت اور ان کے احوال و اخبار کا علم ،اور لوگوں کی طبائع اور نفسیات جاننے کا موقع ملتا ہے۔
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ اسلام نے تجارت کے اعلیٰ اصول وفضائل بیان کئے ہیں، چنانچہ حضورؐ نے فرمایا کہ ’’رزقِ حلال کی تلاش فرض عبادت کے بعد فریضہ ہے‘‘۔ ( بیہقی ، شعب الایمان 420:6) اسی طرح ایک روایت ہے کہ رسول اللہؐ سے پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول ؐ!کون سی کمائی سب سے پاکیزہ ہے، تو آپؐ نے فرمایا :’’آدمی کا اپنے ہاتھ سے کمانا اور ہرجائز تجارت‘‘۔
تجارت میں بڑی برکت ہے اور یہ نبی کریم ؐ کی سنت بھی ہے۔ حلال طریقے سے دولت کماکر بھی مالداربناجاسکتاہے، اور دولت کماتے ہوئے بھی آدمی پوری طرح سے اسلام کے اصولو ں پر عمل کر سکتاہے۔ اس لئے اس دور میں ہر مسلمان کو اس کی کوشش کرنی چاہیے، ورنہ باطل قوتیں اس میدان میں آگے بڑھ جائے گی، اور یہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے باعث ضرر ہوگا۔
اب مسلمانو ں کے لئے اچھی ملازمت کے امکانات تشویش ناک اندازمیں کم ہوتے جارہے ہیں، جبکہ ماضی کے مقابلے میں تجارت اور کاروبار کے مواقع سیکڑوں گنا بڑھ چکے ہے۔ہماری غلط فہمی یہ ہے کہ تجارت کے لیے حساب و کتاب کی تھو ڑی سی جانکاری ، تھوڑی چکنی چپڑی باتیں ، ناپ تول میں کمی کی مہارت ،حساب میں خرد برد ،غلط اندراج وغیرہ ہی کافی ہیں۔ دراصل ہماری نظر میں تجارت کا مطلب ہے ، دال چاول یا تیل صابن کی دوکان! بزنس کا یہی نظریہ اصل سبب ہے شہروں میں ہمارے اسکولوں میں ڈراپ آؤٹ کی شرح کے بڑھنے کا۔ تجارت کایہ نظریہ ہمارے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں طلبہ کو تعلیم سے دورکئے ہوئے ہے، جبکہ حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا : ’’اے لوگو! اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہواور روزی کی تلاش میں غلط طریقہ نہ اختیارکرنا۔ اس لئے کہ کوئی شخص اس وقت تک نہیں مر سکتا جب تک کہ اسے پورازرق نہ مل جائے، اگر چہ اُس کے ملنے میں کچھ تاخیر ہوسکتی ہے۔ تم اللہ سے ڈرتے رہنا اورروزی کی تلاش میں اچھاطریقہ اختیار کرنا۔ حلال روزی حاصل کرنا اور حرام روزی کے قریب نہ جانا‘‘۔(ابن ماجہ)
حیرت ہوتی ہے جب بعض طلبہ ونوجوان کہتے ہے کہ وہ خود کا بزنس شروع کر نے میں دلچسپی رکھتے ہیں،جبکہ ان کے پا س نہ کو ئی تجارت کے سلسلہ میں رہنما تعلیم ہوتی ہے، نہ تجربہ ہوتاہے، اور نہ ہی سرمایہ ہوتاہے۔ ہر طالب علم بزنس مین بننا چاہتاہے مگر ان میں سے کچھ ہی کامیاب ہو پاتے ہیں،کیونکہ نئے بزنس میں درپیش مسائل سے بہت کم ہی طلبہ آگا ہ ہو تے ہیں۔وہ نئے بزنس کو شروع کرنے کے لئے قوانین و ضوابط سے بے خبرہوتے ہیں اور برنس کی بھر پور معلومات اورتجربہ نہیں رکھتے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کئی غیر تربیت یافتہ طلبہ ونوجوان بے روزگار وں کی فہرست میں شامل ہو جاتے ہیں۔
دراصل آج ہمیں ضرورت ہے تیزی سے بدلتے ہوئے زمانے کو سمجھنے کی کہ آج ہر تجارت کی بنیاد اعلیٰ تعلیم ہے ۔ آج اعلیٰ تعلیم کے بغیر اگر کو ئی کاروبار کیا جاسکتاہے ۔تو یہی ہے کہ بھیل پوری یا پانی پوری کی دوکان کھولی جاسکتی ہے۔ ورنہ ہر قسم کی تجارت کی پہلی شرط اعلیٰ تعلیم ہے۔ آج مقابلہ اور مسابقت کا معاملہ اتنا سخت ہو تا جارہاہے کہ کچھ عجب نہیں کہ اگر آپ کے پا س اعلیٰ تعلیم، نالج، مہارت اور جد ید تکنیک نہیں ہے تو مدِ مقابل آپ کو مارکیٹ میں ٹکنے نہیں دے گا۔
تجارت کے لئے سب سے موزوں انٹرپرینرشپ کی تعلیم ہے، \”Entreprenuership\” یہ لفظ French زبان سے لیا گیاہے ۔اس اصطلاح کو پہلی مرتبہ فرانسیسی ماہر معاشیات Richar Cartillonنے متعارف کر ایا۔ Peter Druker کے مطابق’’ Entreprenuer ایک ایسا شخص ہے جو نئی تجارت میں تبدیلی کی تلاش میں، اور مواقع کو ڈھونڈنے میں لگا رہتا ہے۔تخلیقیت و ندرت Entreprenuer کا ایک خاص ہتھیار ہے۔ وہ موثر ذرائع کو وسائل میں تبدیل کر تاہے۔‘‘(بحوالہ:Managing Result)اسی طرحA.H Cole کے مطابق ’’ایک فرد یاگروہ کی ایک بامقصد سرگرمی انٹرپرینرشپ ہے۔ انٹرپرینرشپ کا علم معاشی اشیاء اورخدمات کی پیداوار یا تقسیم کو شروع کرنے ، برقرار رکھنے اور منافع بخش تجارت کو چلانے کا علم ہوتاہے۔ ‘‘
(1959, Business enterprises in its social setting, Cambridge hardvard university press)
طریقہ کارکی بنیاد پر انٹرپرینرشپ کی اقسام :
۱) ٹریڈنگ یامینو فیکچرنگ انٹرپرینرشپ: یعنی کارخانہ سے تیار شدہ اشیاء کو مارکیٹ میں فروخت کرنااور خدمات مہیا کرنا۔
۲) زراعتی یا Ruralانٹرپرینرشپ : یعنی زراعت کے وسیع میدان سے متعلق صنعت و تجارت۔
۳) خانگی یا Womenانٹرپرینرشپ: یعنی خواتین کو روزگار مہیا کرانے کے لئے گھریلو صنعت و تجارت۔
۴) فیملی انٹرپرینرشپ : یعنی فیملی بزنس یا خاندانی بیوپاروپیشہ۔
۵) سوشل انٹرپرینرشپ : یعنی خدمتِ خلق و سماجی ترقی و بیداری کے ادارے یاتنظیمیں۔
انٹر پرینرشپ کی تعلیم :
HCLکے فاؤنڈرشیو نادار کے مطابق ’’تعلیم ہی انٹرپرینربننے کے لئے نو جوانوں کا ہتھیار ہے جو روشن مستقبل کی تیاری کے لئے ان کی مدد کر ے کا‘‘۔سچ تو یہ ہے کہ تعلیم ہی ہر میدان میں آگے بڑھنے کا ذریعہ ہے۔ جہاں تک انٹرپرینرشپ کی تعلیم کا سوال ہے، یہ طلبہ کے اندر معلومات، مہارت اور تحریک پیداکرنے کے لئے مہیا کر ائی جاتی ہے۔ انٹرپرینرشپ کے کو رسیس کے بارے میں بیداری بہت کم ہے، لیکن ملک کے کئی اداروں میں یہ کورسیس تیزی سے شروع کئے جارہے ہیں۔معاشیات کے ہر مید ان میں تجارتی سرگرمیوں کی بھیڑ نے ہندوستان میں انٹرپرینرشپ کے لئے کئی مواقع پیدا کر دئیے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ نئے بزنس کے لیے انٹرپرینرشپ کی ٹریننگ حاصل کرنے کے مواقع ڈھونڈ رہے ہیں۔ہندوستان میں اس کورس کی مقبولیت دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے،بالخصوص اعلیٰ طبقوں میں جن کا تجارتی رجحان ہو تا ہے،مثلاً گجراتی،پنجابی،سندھی، مارواڑی اور جین سماج وغیرہ میں۔ امریکہ میں پچھلے ۲۰؍ سالوں سے انٹرپرینرشپ کی تعلیم با قاعدہ نصاب کا حصہ بن چکی ہے، جو کہ بز نس اسکول، انجنیئرنگ کالج اور آرٹس و سائنس کالج میں پڑھائی جارہی ہے۔آج کل ہر مید ان سے گریجویشن مکمل کرنے والے طلبہ پوسٹ گریجویشن کے لئے MBA کا انتخاب کررہے ہیں۔ اگر MBA کے بجا ئے یا اس کے ساتھ ساتھ انٹر پرینر شپ کا کورس بھی کیا جائے تو بہت مفید ہو گاکیونکہ
n انٹرپرینرشپ کاکو رس کسی کو کمپنی کا مالک بنانے کے لیے تیار کرتا ہے، جبکہMBA کمپنی کے بزنس کا انتظام چلانے کے لیے کیا جاتا ہے،جسے مینجر کہتے ہیں۔
n انٹرپرینر کسی کو رپورٹنگ نہیں کر تا کیونکہ وہ خود مالک ہو تا ہے جبکہ مینجر کمپنی کا ملازم ہوتا اور مینجمنٹ کو رپورٹنگ کر نا اس کی ذمہ داری ہو تی ہے۔
n منیجر کمپنی کے اصول و ضوابط کا پابند ہو تا ہے، جبکہ اصو ل وضوابط خود انٹرپرینر کے بنائے ہو ئے ہوتے ہیں۔
nانٹرپرینر کسی بھی کمپنی کا کلیدی کردار ہوتا ہے، جبکہ منیجر کو کبھی بھی بدلا یا نکا لا جا سکتا ہے۔
n منیجر صر ف ماہا نہ تنخواہ یاچند فیصد منا فع کا حق دار ہو تا ہے جبکہ انٹرپرینر زیا دہ سے زیادہ منافع کا حق دار ہو تا ہے۔
n منیجر کے مقابلے انٹرپرینرکی ذمہ داری ذرا زیادہ ہوتی ہے۔ انٹرپرینر کا کام بازار کی ضرورت کے مطابق اشیاء کوموزوں بنانا، بزنس کے لیے نئے مناسب مواقعوں کی تلاش اور تحقیق کر نا ، پیچیدہ مسائل کو حل کرنا، بز نس کوپھیلانے کے لیے سر مایہ کار تلاش کرنا، ان کے اصل سر ما یہ کو بڑھانا ، بڑھتی تجارت کو چلانا، اور اس کا انتظام و انصر ام وغیرہ کرنا ہے۔
کن چیزوں کا خیال رکھا جائے
انٹرپرینرشپ کے کریئر کا انتخاب کرتے وقت درج ذیل چیزوں کو ملحوظ رکھنا چاہئے:
* خاندان کا ماحول:انٹرپرینر شپ میں داخلہ کے لیے سب سے پہلے یہ دیکھئے کہ آپ کی فیملی کی نظر میں بز نس کی کیا اہمیت ہے،کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ ملازمت کوترجیح دیتے ہیں۔
* تعلیم : کچھ لو گ کم تعلیم یافتہ ہونے کے باو جود ہزاروں روپئے کما تے ہیں لیکن تحقیق بتاتی ہے کہ اگر وہ تعلیم یا فتہ ہو تے ہو تولاکھو ں روپیہ کماسکتے تھے۔
* تجربہ:اگر آپ کو فیملی کا تعاون ہو اور انٹرپرینر شپ کی سند بھی رکھتے ہوں مگر کسی فرم میں کام کاتجربہ نہ ہو تو شاید آپ کو بہت زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا،لیکن آپ میں تجارتی مہارت Business Skill ہوتوآپ ایک اچھے انٹر پرینر بن سکتے ہیں ۔
*سرمایہ:سنُا ہے کہ آج کل پیسہ و سرمایہ کے بغیر پتّہ بھی نہیں ہلتا ہے، لیکن اگرآپ کے پاس تھوڑابہت سرمایہ ہوتوآپ اپنابزنس بنیاد سے دھیرے دھیرے شروع کرسکتے ہیں یا پھر اگر آپ کا بہت اچھا پروجیکٹ ہوتوایسے بہت سے ملی و سماجی ادارے ، تنظیمیں اور سرمایہ دارافرادمو جود ہیں جو کسی بھی وقت آپ کے پروجیکٹ میں مدد کے لیے تیا رہوتے ہیں۔
اس سلسلہ میں حکومتِ ہند بھی تعاون اور تربیت فراہم کر رہی ہے۔ وزاتِ مائیکرو ، اِسمال اور میڈیم انٹرپر ائز(MSME)جوکہ مرکزی حکومت کے تحت چلتی ہے۔آپ اس کے تعاون سے بزنس شرو ع کر سکتے ہیں ۔ یہ وزارت انٹرپرینر کو مائیکرو ، اسمال اور میڈیم صنعت وتجارت شرو ع کر نے میں مد د کر تی ہے۔ یہ وزارت مختلف ضلعی اور ریاستی سطح پر منافع بخش بزنس کی شناخت کر واکر انٹرپرینر کو اس کی جانب متوجہ اور راغب کرتی ہے۔آپ کے بزنس کی پروجیکٹ رپورٹ تیار کرنے میں مدد کرتی ہے،بز نس کو ڈیولپ کر نے میں مدد کر تی ہے،مفت مشاورتی خدمات فراہم کرتی ہے، اورآپ کے تیا ر شدہ مال کو بازار میں فروخت کر نے میں مدد کرتی ہے۔اس وزارت سے منظو ر شدہ بہت سے ادارے چلتے ہیں،جیسے نوئیڈاکا NIESBUD اورحیدرآباد کا National Institute of Micro,Small and Medium Enterprise(NIMSME) ۔وغیرہ، جو مختلف کو رسیس ، سیمینا رس ،ورکشاپ ، مخصوص طویل مدتی اور مختصر مدتی بزنس ڈیولپمنٹ تربیتی پروگرام منعقد کر تے ہیں ۔
چند اہم تعلیمی ادارے
انٹرپرینرشپ کی تعلیم مختصر مدتی اور طویل مدتی بھی ہوتی ہے۔ جاب یا فرم وغیرہ بھی جاری رکھ کرآپ انٹرپرینرشپ کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں، یہ ادارے اورکورس کی لچک پر منحصر ہے۔ذیل میں ہندوستان میں انٹرپرینرشپ کی تعلیم دینے والے ٹاپ لیول کے کچھ اداروں اور کورسیس کی تفصیلات دی گئی ہیں یہ کورسیس عا م نہ ہونے کی وجہ سے اور شروعاتی مرحلے میں ہونے کی وجہ سے مہنگے ضرور ہیں، لیکن اس میں وہ چیزیں سکھائی جاتی ہیں جو آ پ سالوں سال کے تجربہ کے بعد بھی نہیں سیکھ سکتے۔
* ایس پی جین انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی
جو بزنس شروع کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں اور ان کے پاس کوئی بزنس آئیڈیا بھی ہو، ان کے لیے Start Your Business (SYB) سرٹیفکٹ کورس ہوتاہے۔ یہ ۱۲؍ ہفتوں پر مشتمل ہوتاہے۔جن کا پہلے سے کوئی بزنس ہو ان کے لئے Grow Your Business (GYB) نام کا سرٹیفکٹ کو رس ہے، یہ۷؍ہفتوں پر مشتمل ہوتاہے۔
www.spjimr.org
*انٹرپرینرشپ ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ۔ احمدآباد
پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ ان مینجمنٹ۔برنس انٹرپرینرشپ(PGDM-BE)،یہ دوسالہ ریگولرپوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ ہے،قابلیت :ڈگری %۵۰ کے ساتھ،داخلہ، دسمبرمیں اورانتخاب اہلیتی امتحان اور انٹرویوکی بنیادپرہوتاہے۔
ڈپلومہ ان انٹرپرینرشپ اینڈ بزنس مینجمنٹ (DEBM):یہ ایک سالہ فاصلاتی ڈپلومہ ہے ،داخلہ کیلئے ڈگری یا ڈپلومہ یا آخری سال میں ہونا ضروری ہے۔ www.ediindia.org
*Symbiosis Centre for Distance Learning (SCDL) ۔پونہ،بنگلور،ناسک ،دہلی
انٹرپرینرشپ ڈیولپمنٹ میں سرٹیفیکٹ پروگرام(CPED)،یہ۶؍ ماہ کا فاصلاتی سرٹیفکٹ پروگرام ہے۔قابلیت: ڈگری یا ڈپلومہ ،داخلہ: اپریل اور ستمبر میں www.scdl.net
* Welingkar۔ممبئی،بنگلور،دہلی
پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ ان فیملی بزنس (PGDFB)، یہ دوسالہ کورس ،انجنیئرنگ یا سائنس میں گریجویشن یا ڈپلومہ میں کم ازکم %۵۰ کے ساتھ۔ آپ کو جاری فیملی بزنس میں دو سال کا تجربہ ہوناچاہیے اورداخلہ جنوری اور جولائی میں اہلیتی امتحان اور انٹرویو کے ذریعے ہوتاہے۔
ڈپلومہ ان انٹرپرینرشپ مینجمنٹ(DEM) یہ ۶؍ ماہ کافاصلاتی ڈپلومہ ہے۔
www.welingkar.org
*نصیرمونجی انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ NMIMS یونیورسٹی۔ممبئی ،بنگلور،حیدرآباد
فیملی بزنس انٹرپرینرشپ میںMBA :گریجویٹ طلبہ کیلئے یہ دو سالہ فل ٹائم MBAہے۔ داخلہ جنوری میں اہلیتی امتحان اور انٹرویوکے ذریعے ہوتاہے۔
پارٹ ٹائم سوشلانٹرپرینرشپ میںMBA :تین سالہ فل ٹائم MBAہے۔ قابلیت :گریجویشن اورسماجی خدمت کے ادارہ یا تنظیم میں کم از کم دوسال کاتجربہ، سوشل ورک میں گریجویٹ کو تجربہ کی ضرورت نہیں۔
ڈپلومہ ان سوشلانٹرپرینرشپ (DSE) :یک سالہ قابلیت :گریجویشن اورسماجی خدمت کے ادارہ یا تنظیم میں کم از کم ایک سال کاتجربہ ، سوشل ورک میں گریجویٹ کو تجربہ کی ضرورت نہیں۔
www.nmims.edu
*اندراگاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی ۔دہلی
سوشلانٹرپرینرشپ میں MBA یہ دوسالہ کورس شروعاتی مرحلہ میں صرف چنئی کے سینٹر پردستیاب ہے۔ ،قابلیت ڈگری کم ازکم %۵۰اورپسماندہ طبقات کے لئے %۴۵ ،داخلہ جولائی میں اہلیتی امتحان میں کامیابی کی بنیاد پر ہوتاہے۔
*انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پلاننگ اینڈ مینجمنٹ) (IIPM۔نئی دہلی،ممبئی ، پونہ،بنگلور ، چنئی ،احمدآباد، حیدرآباد
نیشنل اکونومِک پلاننگ اینڈانٹرپرینرشپ میں MBA ،یہ دوسالہ فل ٹائم MBAہے،قابلیت %۵۰کے ساتھ گریجویٹ، داخلہ اہلیتی امتحان اور انٹرویوکے ذریعے جون اورستمبر میں ہوتاہے۔
نیشنل اکونومِک پلاننگ اینڈانٹرپرینرشپ میں BBA،تینسالہ فل ٹائم بی بی اے ہے۔قابلیت:جونیئرکالج میں% ۵۰سے زائد مارکس، داخلہ اہلیتی امتحان اور انٹرویوکے ذریعے جون اورستمبر میں ہوتاہے۔
www.iipm.edu
*انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (IIM) ۔کلکتہ
یہ ایک سالہ پوسٹ گریجویٹ پروگرام Visionary leadership in Manufacturing (PGPEX-VLM) فل ٹائم،فرسٹ کلاس کے ساتھ انجنیئرنگ میں ڈگری، اورداخلہ نومبرمیں بذریعہ اہلیتی امتحان، انٹرویواور تجربہ کی بنیاد پرہوتاہے۔
www.iimcal.ac
*انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ ٰIIM۔لکھنؤ
یہ دو سالہ پوسٹ گریجویٹ پروگرام Agribusiness Management (PGDPABM)میں ،فل ٹائم،اہلیت:زراعتی سائنس یا زراعتی انجینئرنگ میں ڈگری کم ازکم %۵۰اورپسماندہ طبقات کے لئے %۴۵ سے ، داخلہ امتحان اور انٹرویو کی بنیاد پرہوتاہے۔
www.iiml.ac.in
آخری بات
انٹرپرینر س کسی بھی قوم کے لیے ریڑ کی ہڈی ہو تے ہیں ۔Entreprenuership کی تعلیم ابھی ابھی اس ملک میں آئی ہے، اگرمسلم ملت اس پر دھیان دے تو ملت کے معاشی مسائل ختم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ بن سکتی ہے۔انٹرپرینرس نہ صر ف قوم یا ملک کے لئے پیسہ بناتے ہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کے لیے روزگار بھی فراہم کرتے ہیں ۔دراصل کامیاب لوگ وہی ہیں جن کے وجود سے نہ صر ف ان کی ذات کو فائدہ ہو بلکہ وہ پوری قوم اور ملک و ملت کوفائدہ پہچاتے رہیں۔ ان شاء اللہ ضرور یہ کورسیس روزگا ر تلاش کر نے والوں کے بجائے روزگار پیدا کرنے والے بنائیں گے۔
ہمیںیہ بھی غلط فہمی نہ ہو کہ کاروبار یا بزنس کے سارے رموز ونکات بزنس ایڈ منسٹریشن کے کالجوں سے یا انٹر پرینر شپ کے کورسیس سے ملتے ہیں، بلکہ اپنی اپنی ذاتی لیاقت ،صلاحیت ، دور اندیشی، ہمت، کفایت شعاری،محنت،لگن،جوش یہ سارے عناصر بھی کلیدی کرداراداکرتے ہیں، اور یہی ہر مید ان میں کامیابی کااصل زینہ ہے۔ انٹرپرینرشپ کایہ کو رس مستقبل میں لاکھوں ہندوستانیوں کے کیریر کے انتخاب کا حصہ بننے والاہے۔اگر آپ درپیش چیلنجو ں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو ں اورتخلیقیت و ندرت کی صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے اس میں موجود فوائد سے مستفید ہونے کے لیے تیار ہوں تو یہ میدان آپ کا منتظر ہے۔اپنےSWOTیعنی آپ کی خوبی،کمزوری ، دستیاب مواقع ، اورامکانی خطرات کو جانچئے۔انٹر پرینر شپ کاکورس مکمل کرنے کے بعد اپنی پسند ،صلاحیت اورامکانات کو سمجھ کر کاروبارکا انتخاب کیجئے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ رزق کا دینے والا اللہ ہی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: ’’زمین میں چلنے والاکوئی جاندار ایسانہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو(سورہ ھود:۶)اور ’’اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتاہے کشادہ کرتاہے اورجسے چاہتاہے نپاتُلا دیتاہے‘‘۔(سورہ قصص:۸۲) لیکن ہمیں اس کے لیے موزوں تعلیم اور بہتر سے بہتر تدابیر بھی اختیار کرنی چاہئے۔
([email protected] )

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں