أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُ

ایڈمن

ہمایوں کچھ ٹائپ کرنے کے بعد اسکرین پر نظریں گاڑے ویب پیج کھلنے کا منتظر تھا۔اس کے چہرے پر تفّکر کے احساسات نمایاں تھے۔ ویب پیج کھلتے ہی وہ اچھل پڑااور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاکر چلّایا، ’’یاہوو۔۔ I got It.‘‘۔…

ہمایوں کچھ ٹائپ کرنے کے بعد اسکرین پر نظریں گاڑے ویب پیج کھلنے کا منتظر تھا۔اس کے چہرے پر تفّکر کے احساسات نمایاں تھے۔ ویب پیج کھلتے ہی وہ اچھل پڑااور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاکر چلّایا، ’’یاہوو۔۔ I got It.‘‘۔ دراصل ہندوستان کے مایہ ناز ادارے IITمیں پڑھنے والے ہمایوں نے B.techمیں یونیورسٹی سطح پر ٹاپ کیا تھا۔ کیمپس انٹرویو کے ذریعہ بہترین پیکیج کا جاب پہلے ہی اس کے ہاتھ میں تھا۔اس لئے آ ج وہ بہت خوش تھا۔ اس نے رات دوستوں کے ساتھ پارٹی بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ مغرب کے وقت جب موذّن نے اﷲاکبر کی صدا لگائی ہمایوں اپنی کامیابیوں کے جشن منانے کے لیے بے تاب بیٹھااپنے دوستوں کا انتظار کر رہا تھا ۔ لاالہ اﷲ کے ساتھ اذان ختم ہوئی تو اس کی والدہ نے اس سے کہاکہ بیٹا جاؤ اﷲ کا شکر ادا کر آؤ پر اسی وقت اس کے دوست آدھمکے اور وہ اپنی ماں کی نصیحت کو نظر انداز کرکے چمچماتی کار میں نکل کھڑا ہوا۔وہ ڈرائیونگ سیٹ پر تھا اور اس کے دوست اس کے بغل اور پچھلی سیٹوں پر بیٹھے گپ شپ میں مصروف تھے کہ اچانک ہمایوں کادھیان بٹا اور۔۔۔کار ایک جھٹکے کے ساتھ راستے کے کنارے کھڑے کنٹینرسے جا ٹکرائی۔ ۔۔ ایک زور کی آواز کے ساتھ فضا میں سنّاٹا چھا گیا۔ ہمایوں کی آنکھوں میں اندھیرا چھاچکاتھا۔ درد اور بوجھل پلکوں سے جب اس نے اپنی آنکھیں کھولیں تو اسے احساس ہوا کہ ایک ہموار اور سپاٹ راستے پر وہ دوڑا جارہا ہے۔ لیکن اس راستے کی دوسری جانب تو آگ کی لپٹیں اٹھ رہیں ہیں ۔ دھویں کا بڑا سا بادل ہے جو آسمان پر چھایا ہوا ہے ۔کچھ اور قریب جانے پر اسے اندازہ ہوا کہ وہ تو ایک بڑے آگ کے گڑھے کی جانب دوڑتا جا رہا ہے۔ ہمایوں نے اپنے آپ کو روکنا چاہا لیکن ناکام اس کے پیر تو گویا اس کا حکم ماننے سے انکار کر چکے تھے۔ دوڑتے ہوئے اس نے اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر دوڑائی تو اپنے ساتھ دوڑتے ہوئے ہزاروں لوگ نظر آئے جو اسی کی طرح دوڑرہے تھے۔اسے وقفہ وقفہ سے گزرتے ہوئے جعلی حرفوں میں کنندہMilestone بھی نظر آنے لگے جو راستے کے دائیں بائیںآویزاں تھے۔ پہلے Milestone پر 10th Std.-90% لکھا تھا۔ دوسرے پر12th Std.-95%،تیسرے پر IIT Topperاور چوتھے پر MNC Job۔ نہ جانے کتنے Milestonesوہ ایک کے بعد ایک سر کرتا چلا گیا۔آگ کا گڑھا اب اس کے بہت قریب آچکا تھا۔ اس کے ساتھ دوڑنے والاہجوم بھی پیچھے چھوٹ چکا تھا۔ تبھی اس کی نظریں اچانک دائیں جانب والے راستے پر گئیں۔وہ ایک ناہموار ،کانٹوں بھری گزرگاہ تھی اور اس پر بھی کئی نفوس دوڑے جارہے تھے اوراس راستے کے اختتام پر خوشنما باغ دور ہی سے دیکھائی دے رہا تھا۔ہمایوں چاہتاتھا کہ وہ لپک کر خوشنما باغ والی راہ پر چلا جائے پر وہ ایسا نہ کر سکا۔باغ والے راستے پر دوڑنے والوں میں کوئی اس کا شناسا تھا۔۔کوئی جاناپہچانا چہرا۔۔مگر کون؟؟؟ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سوچتاوہ اس راستے کے دوسرے کنارے پر پہنچ گیا اور آگ کے گھڑے میں گرتا چلا گیا۔جیسے جیسے وہ گرتا جاتاآگ کی تپش اس کے جسم پر بڑھتی جاتی اوروہ آگ میں گرنے والاہی تھاکہ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔حیّ الفلاح کی صدا کے ساتھ اس کی آنکھ کھل گئی او ر وہ جھٹکے کے ساتھ اٹھ بیٹھا۔ سامنے کی دیوار پر موجود گھڑی صبح کے ۶؍ بجارہی تھی اور وہ اپنے بستر پر بیٹھاہانپ رہا تھا۔پاس کی مسجد سے موذن صدالگارہاتھا۔اس کا جسم پسینے میں شرابور تھااور وہ آگ کی تپش اب تک محسوس کر رہا تھا۔توکیا وہ ایک خواب تھا ؟۔۔ اسے یاد آیاکہ وہ تو رات میں پارٹی کرنے کے بعد گہری نیند سوگیا تھا۔ تو کیا اس کا Accidentنہیں ہوا تھا؟ وہ زندہ تھا؟۔۔ ہاں اس نے اپنے جسم پر ہاتھ لگاکر دیکھااور بہت خوش ہوا۔ اچانک اس کے دماغ میں دھماکہ ہوا۔ وہ!۔۔ ۔۔ وہ! ۔۔ باغ کی طرف دوڑتااس کا شناسا کوئی اور نہیں بلکہ سلیم تھا۔اس کا دوست سلیم ۔وہی جو اسے نمازوں کی تلقین کیا کرتا۔ وہی جو اسے دین کی خدمت کرنے اور اقامت دین کی جدوجہد میں حصّہ لینے کو کہتا تھا۔وہی سلیم جو داعی تھا اور ہمایوں کو بھی دعوت کی تلقین کرتا رہتا۔جبکہ اس کے جواب میں ہمایوں یہ کہہ کر ٹالتا رہتا کہ یار پہلے پڑھ لکھ لوں پھر دین کی خدمت کرنے کو پوری زندگی پڑی ہے۔لیکن سلیم اسے سمجھاتاکہ دیکھ میں دین کی خدمت بھی کرتا ہوں اور پڑھائی میں بھی دھیان دیتا ہوں۔لیکن سلیم کی اس نصیحت کا ہمایوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لیکن آج کے خواب نے اسے جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اسے خواب کی تعبیر سمجھ میں آنے لگی۔اسے بہت دن پہلے سلیم نے سورہ تکاثر سمجھائی تھی، اس وقت اسے کچھ سمجھ میں نہ آیاتھا پر آج ایک خواب کی شکل میں سورہ تکاثر کی پوری تفسیراس کی آنکھوں کے سامنے تھی۔ وہ دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو ڈھانک کر بہت رویا اور اس نے کریئرزم اور مادہ پرستی کے اس قلادے کو اپنی گردن سے نکال پھینکنے کا تہیہ کرلیا۔خدا پرستی کے جذبے سے سرشار ہمایوں فجر کی نماز کے لیے وضو کرنے لگا۔۔اس کی زبان پر یہ کلمات جاری تھے۔۔’’الھکم التکاثر۔۔۔۔۔ لترون الجحیم۔۔ ۔ یومئذن عن نعیم۔‘‘

ڈاکٹر عدنان الحق،
پی آر سکریٹری حلقہ مہاراشٹر ساؤتھ

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں