آیا صوفیہ پر پوپ فرانس کا بیان غیر ضروری

ایڈمن

بشری ثبات روشن ، کانپور یوپی کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ استنبول میں واقع سینٹ صوفیہ کے بارے ميں سوچ کر انہيں شدید دکھ ہو رہا ہے۔ یہ بات انہوں نے ویٹیکن میں سینٹ…

بشری ثبات روشن ، کانپور یوپی

کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ استنبول میں واقع سینٹ صوفیہ کے بارے ميں سوچ کر انہيں شدید دکھ ہو رہا ہے۔ یہ بات انہوں نے ویٹیکن میں سینٹ پیٹرز اسکوائر میں اپنی رہائش گاہ کی کھڑکی سے باہر کھڑے مسیحی زائرین سے اپنے ہفتہ وار خطاب کے دوران کہی۔ کیتھولک چرچ نے اتوار بارہ جولائی کا دن سمندروں کے عالمی دن کے طور پر منایا۔ اتوار کے اپنے معمول کے خطاب میں پوپ نے کہا کہ اس دن کو سمندروں کے حوالے سے مناتے ہوئے دُور سمندر پار استنبول ان کی سوچ میں ہے اور وہاں کے سینٹ صوفیہ نے انہيں اداس کر رکھا ہے۔پوپ فرانسس نے آیا صوفیہ کے حوالے سے براہِ راست اور کچھ نہیں کہا۔ پاپائے روم کے اظہار دکھ سے ایک روز قبل یعنی ہفتہ گیارہ جولائی کو جنیوا میں قائم ورلڈ کونسل آف چرچز نے بھی ترک حکومت کے اس فیصلے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا تھا۔

اس کونسل کا کہنا تھا کہ آیا صوفیہ ساری دنیا کے لوگوں کے لیے ثقافتوں کے سنگم کی حیثیت دھار چکا ہے اور اس تبدیلی سے اس شناخت کو دھچکا پہنچا ہے۔ کونسل نے ترک صدر سے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کو تبدیل کریں۔ ورلڈ کونسل آف چرچز میں پروٹیسٹنٹ، آرتھوڈوکس اور اینجلیکن مسیحی عقیدے شامل ہیں۔دنیا بھر کے آرتھوڈکس چرچ کے روحانی سربراہ پیٹریاک بارتھولومیو نے بھی ترک صدر کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ عالمی آرتھوڈکس چرچ کا مرکزی مقام ترک شہر استنبول میں واقع ہے۔دوسری جانب ترک صدر نے آیا صوفیہ کی شناخت تبدیل کرنے پر اٹھنے والے خدشات اور تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ترکی نے ایسا کرنے میں اپنا ریاستی اختیار استعمال کیا ہے۔ ایردوآن کے مطابق آیا صوفیہ کی حیثیت کی تبدیلی کے بعد بھی یہ مسیحی زائرین اور دوسرے غیر ملکی سیاحوں کے لیے کھلی رہے گی۔یاد رہے۔۔آیاصوفیا سلطان فاتح کی شخصی پراپرٹی تھی ترکی کے شہر استنبول کے یورپی جانب بحیرہ فاسفورس کے کنارے سلطان احمد نامی علاقے میں مسجد جامع السلطان احمد کے قریب واقع آیا صوفیا دنیا کی چند خوبصورت ترین عمارتوں میں سے ایک ہے ۔

 
10 جولائی کو ترکی کے اعلی ترین اتھارٹی ،سپریم کونسل آف اسٹیٹ کی جانب سے آیاصوفیا کو میوزیم سے تبدیل کرکے اس کی مسجد کی حیثیت کو دوبارہ بحال کردیا ہے ۔ جس پر دنیا بھر میں غیرمعمولی ردعمل سامنے آرہا ہے ۔ بہت سے افراد اسے غیرقانونی عمل قراردے کر اس کی مخالفت کررہے ہیں ۔لیکن ترکی کے قومی آرکائیو میں موجود دستاویزات اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ آیاصوفیا سلطان فاتح نے خریدا تھا اوراپنی شخصی پراپرٹی بنانے کے بعد اسے مسجد کے طورپر وقف کردیا تھا ۔


 سمجھ نہیں اتا پوپ کو دکھ کس بات کا ہے؟ عیسائیوں نے وہ عمارت خوشی سے سلطان محمد فاتح کو بیچی تھی عمارت کے منھ مانگے پیسے دیے گیے تھے، سلطان نے چار گنبد کا اضافی کرکے اسے مسجد کی شکل میں ڈھالا، تقریبا 500 سال تک اس میں نماز ادا کی گئی تمام دستاویزات ترکی کی سپریم کورٹ میں جمع ہو چکے ہیں اور سب سے اہم بات عیسائیت میں کلیسا کو بیجنا جایز ہے۔آیا صوفیا لبنانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’الہی حکمت ‘‘ ہے ۔۔آیا صوفیا کا ماضی کی دو اہم ترین سلطنتوں عثمانی اوربیزنطینی کے ساتھ گہرا تعلق اور رشتہ رہا ہے ۔ 532 میں بیزنطینی سلطنت کے حکمران جسٹنین اول کی بنائی ہوئی اس عمارت کی تعمیرپانچ برس میں مکمل ہوگئی تھی ۔تاہم یہاں یہ قابل ذکر ہے کہ آیا صوفیا کے اولین بانی معمار جسٹنین اول نہیں ۔

آیا صوفیا کی پہلی عمارت قسطنطین العظیم کے زمانے میں بنی تھی جو 360 میں قسطنطینوس دوئم کے دورمیں مکمل ہوئی تھی ۔ بعدازاں عیسائیوں کی ایک بغاوتی تحریک کے دوران اسے آگ لگائی گئی جس سے عمارت تباہ ہوگئی ۔ 415 میں تھیوڈوروس دوم نے اسے دوبارہ تعمیر کرکے عبادت کے لئے کھول دیا ۔ تاہم بدقسمتی سے 532 میں دوبارہ ایک بغاوتی تحریک اٹھی اورمشتعل عیسائیوں نے اپنے اس دلکش عبادت خانے کو دوسری مرتبہ آگ لگا کر نذرآتش کردیا ۔ لکڑی کی خوبصورت کشیدہ کاری سے مزین چھت کو آگ نے خاکستر کرکے زمین بوس کردیا ۔ جس پر بینزیطینی حکمران جسٹنین نے 532 میں اسے تیسری مرتبہ تعمیر کردیا ۔537 میں اس کی تیسری مرتبہ تعمیر مکمل ہوئی ۔ 100 میٹر بلند ی کی حامل عمارت کے اوپر 30 قطر کے 55 میٹر بلند گنبد نے اسے روم میں واقع تمام رومی الاہوں کے معبد پینتھیون سے بھی بلند کردیا ۔  اسلامی اور عیسائی طرز تعمیر کے حسین ترین امتزاج کے طورپر آیا صوفیا 916 برس تک آرتھوڈکس گرجاگر کی حیثیت سے قائم رہا ۔ 29 مئی 1453 کو عثمانی سلطان محمدالثانی المعروف سلطان فاتح نے قسطنطینیہ فتح کیا ۔ سلطان محمد فاتح نے اسطنبول فتح کرنے کے بعد آیا صوفیا کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر اسے خریدنے کا فیصلہ کرلیا ۔۔چونکہ اسلام کے برعکس عیسائیت میں مذہبی عبادت خانوں کی خرید وفرخت کی اجازت ہے ۔لہذا آرتھوڈکس کے مذہبی ذمہ داروں کو پیشکش کی گئی جسے انہوں نے قبول کی اوریوں سلطان فاتح نے اس تاریخی عمارت کو خرید لیا ۔

 
تاہم سلطان نے یہ عمارت اپنے ذاتی پیسوں سے خریدا۔ جبکہ خریداری معاہدے میں خود کو ایک عام خریدار کی حیثیت سے متعارف کروا کر سلطان یا سلطنت سے وابستگی کی کسی نسبت کو ظاہر نہ ہونے دیا ۔ سلطان نے اس عمارت کی قیمت پیمنٹ بانڈز کی صورت میں ادا کی ۔

 
عمارت خرید نے کے بعد ایک وقف ٹرسٹ قائم کرکے اس کے حوالے کردیا ۔ وقف ٹرسٹ کے حوالے کرنے کے ساتھ ہی سلطان فاتح نے حسن تعمیر کے اس شاہکار کو مسجد میں تبدیل کردیا ۔انہوں نے اس پر صرف چار میناروں کا اضافہ کرکے باقی کو اپنی صورت پر چھوڑدیا اوریوں یہ پرکشش عمارت 481 برس تک مسجد کے طورپر زیراستعمال رہی ۔

 
1934 میں مصطفیٰ کمال اتا ترک کی وزرا کونسل نے ایک قرارداد کے ذریعے اس مسجد کوانسانیت کے نام پر وقف کرنے کا اعلان کرکے اسے میوزیم میں تبدیل کردیا ۔ 2005 میں آیاصوفیا کا معاملہ اس وقت عالمی توجہ کا مرکز بنا جب ترکی کی متعدد اسلامی تنظیموں نے اس عمارت کی مسجد کی حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ کیا ۔ ترکی کی تاریخی یادگاروں ،ماحولیات اور اوقاف کے ایسوسی ایشن نے 24 جون 2005 نے ترکی کی اعلی عدالت میں مقدمہ دائر کرکے مسجد کی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کیا ۔ تاہم عدالت نے یہ مطالبہ یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ میوزیم کا استعمال مسجد کی حرمت پامال نہیں کررہا لہذا آیا صوفیا کو میوزیم ہی رہنے دیا جائے ۔چونکہ چیمبر کا فیصلہ کمزور دلائل پر قائم تھا لہذا 2016 میں ترکی کے اوقاف کے مذکورہ ادارے نے دوبارہ اپنا مقدمہ دائر کردیا ۔ اس دوران ترکی صدارتی کونسل اور دیگر اعلی اداروں نے آیاصوفیا کی مسجد میں تبدیل کرنے کے تاریخی دستاویزات کو آرکائیوں سے نکال لیں ۔

مارچ 2019 میں ترک صدر رجب طیب اردوغان نے آیاصوفیا کی مسجد کی حیثیت بحال کرنے کا عزم ظاہرکیا ۔ چونکہ ترکی پر دنیا بھر کی جانب سے شدید دبائو تھا جس کے لئے ترکی نے آرکائیوں سے قدیم دستاویزات چھان چھان کر نکالیں ۔ یہ 27 ہزار دستاویزات ہیں جن میں پیمنٹ باونڈز اورآیاصوفیا کی خریداری معاہدے سے متعلق دیگر دستاویزات موجود ہیں ۔ جبکہ وہ اصل سلطانی ٹائٹل (طابو) بھی ان دستاویزات میں موجود ہے جو آیاصوفیا کی فروخت اورشخصی پراپرٹی کو ظاہر کررہی ہے ۔پوپ کا بیان انتہائی غیر ضروری ہے اگر ایسا کرنا لازم تھا تو تاریخی حقائق کے پیش نظر یہ بیان جاری کرتے وقت عین اسی دور میں عیسائیوں کی طرف سے مذہبی بنیادوں پر اسپین میں کی گئی سنل کشی پر بھی معافی مانگنی چاہیے ۔


‏کیا امریکہ یورپ نے کبھی یہ مطالبہ کیا ہے کہ ہسپانوی اسلامی کونسل کی صدیوں سے ضرورت کے مطابق مسلمانوں کو قرطبہ مسجد (جو اب 500 سال سے کیتھولک چرچ ہے) میں نماز پڑھنے کی اجازت دی جاسکے یا صرف مذہبی رواداری اور انسانی ہم آہنگی صرف آیا صوفیہ کے معاملے میں یاد ہے اور یہ رواداری صرف مسلم کے لیے ہے کیا قرطبہ مسجد مسلمانوں کا ورثہ نہیں تھی اس کو کس خوشی میں کیتھولک نے چرچ میں تبدیل کیا تھا اور اس کو کیونکر مسلمانوں کے حوالے نہیں کیا جاتا۔ آیا صوفیہ کو دوبارہ سے مسجد بنانے کی تو اسلام دشمنوں کو بہت تکلیف ہوئی ہے مگر قرطبہ مسجد کے حوالے سے منافقت کیوں۔علامہ اقبال حرم قرطبہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ
“اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود​عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت وبود”
خیال رہے 2006 ء سپین کے مسلم بورڈ نے ریکویسٹ کی تھی ہمیں مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دی تو یہ کہ کر منع کر دیا گیا تھا پوپ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے پریشان ہیں۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں