الحاج مولوی محمد عبدالغفار صاحب سابق ناظم علاقہ اڑیسہ کی رحلت پر
ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل، لکچرر Mvsڈگری کالج محبوب نگر
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
مت سہل ہمیں جانوں پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
اقبال اور میر نے ہر زمانے میں جن خاص لوگوں کی آمد کی اطلاع دی تھی وہ ہوتے تو زمانے کی ہی پیداوار ہیں، لیکن اپنے گراں قدر کارناموں اور انسانیت کی خدمت اور اپنے خصوصی اوصاف کے ذریعے رہتی دنیا تک جانے جاتے ہیں۔ بڑے انسان آسمان سے نہیں اترتے بلکہ اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ ہی ابھرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو زمانے کے درد کو پہچانتے ہیں، اپنے رب کو پہچانتے ہیں، مردمومن کے منصب کو پہچانتے ہیں، اور اپنی دینی‘فلاحی‘ملی‘سیاسی‘سماجی و تہذیبی خدمات سے نہ صرف اپنے مخصوص علاقے کو بلکہ زمانے بھر کو متأثر کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت الحاج مولوی محمد عبدالغفار صاحب سابق ناظم جماعت اسلامی اڑیسہ کی تھی، جو سرزمین نظام آباد سے اٹھی اور اپنے علاقے میں خدمات پیش کرتے ہوئے اپنے دور اور زمانے کو متأثر کر گئے۔
الحاج مولوی محمد عبدالغفار صاحب 1937ء کو ضلع نظام آباد کے ایک چھوٹے سے قصبے بابا پو ر میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام محمد عبدالمجید تھا جو پیشہ سے پولیس پٹیل تھے۔ مولوی محمد عبدالغفار صاحب کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی ۔ذریعہ معاش کی خا طر انہوں نے 1956ء کو بابا پور کو خیر آباد کیا، اور ضلع مستقر پر سکونت اختیا ر کی۔ اس دوران شہر نظام آبادکی ایک چھوٹی سی مسجد جو شہر کے درمیان میں واقع محلہ احمدی بازار قدیم بس اسٹینڈ پر قائم تھی اور جوبعض احباب کے مطابق غیر آباد تھی اس کو اپنے احباب کے ساتھ مل کر آباد کیا، اور اس مسجد میں امامت کا آغاز کردیا، حالا نکہ وہ کوئی مدرسہ کے فارغ تھے، نہ عالمِ تھے، نہ حافظ، لیکن عربی اور اردو کی مبادیات سے واقف تھے۔ اللہ رب العزت نے انہیں بصیرت و بصارت سے نوازا تھا، وہ علم عطا کیا تھا جو شائد مدرسہ سے فراغت کے بعد بھی بہت کم افراد کے حصہ میں آتا ہے۔ بڑے سے بڑے عالم دین یا تعلیم یافتہ فرد کے سامنے مرعوب نہیں ہوتے تھے۔ انہوں نے مسجد کے ہی ایک کمرے میں اپنے علمی سفر کا آغاز کیا، اور جید علمائے کرام کے سامنے زانوےِ ادب تہہ کیا اور ساتھ ہی انگریزی زبان پر بھی عبور حاصل کیا ۔ اسی دوران مولانا مودودی ؒ کی اقامت دین کی دعوت نظام آباد پہنچ چکی تھی ،جناب عبدالقادر خاں صا حب مرحوم صوبیدار کی تحریک پرجماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہوئے۔
جماعت اسلامی ہند سے وابستگی نے جناب محمد عبدالغفار صاحب کی شخصیت کے اندر مقصد کے حصول کے لئے جہد مسلسل ،تڑپ،لگن ،خلوص، استقلال اور قربانی کا مادہ پیدا کیا۔1960ء میں انہیں جماعت اسلامی ہند کی باضابطہ رکنیت حاصل ہوئی ۔1966 ء مولوی محمد عبدالغفار شہر نظام آباد کے امیر مقامی منتخب ہوئے،اس دوران وہ ضلع میں جماعت کے پھیلاؤ اور فروغ کے لئے ایسے متحرک ہوگئے کہ ان کے شانہ بہ شانہ چلنے والے احباب میں عبدالقادر خان صاحب، خواجہ معین الدین صاحب،قمرالدین صاحب،عبدالرزاق صاحب وغیرہ شامل ہوگئے۔ان کے پیش نظر جماعت کے کاموں کے علاوہ ملت اسلامیہ کا درد بھی پنہاں تھا، وہ سماج میں ہونے والی نا ہمواریوں کے خلاف کمر بستہ ہوجاتے اور اس کے لئے جدوجہد بھی کرتے اور کام کی تکمیل تک بے چین رہتے، دراصل یہ ان کی فطرت کا خصوصی وصف تھا جو دنیا سے تشریف لے جانے تک برقرار رہا۔ 1966ء کے دوران انہوں نے مسلم مجلس مشاورت کے قیام کی مساعی انجام دی۔اور وہ مسلم مجلس مشاورت کے معتمد بنائے گئے،اس وقت مسلم مجلس مشاورات کے مرکزی وفد نے نظام آباد کا دورہ کیا تھا ، جس کی رہنمائی میں وہ پیش پیش تھے،دراصل وہ ہمیشہ ملی مفاد کو عزیز رکھتے تھے۔1965 تا 1967ء نظام آباد میں فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوئے جس میں امن و امان کی بحالی اور نا حق گرفتار ہونے والے مسلمانوں کی رہائی میں انہوں نے اہم رول ادا کیا۔اس سلسلہ میں وہ غیر فرقہ کے افراد کے ہاتھوں زخمی بھی ہوئے اور ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا لیکن وہ ان سب چیزوں میں ثابت قدم رہے اور اپنی رفتار میں کوئی سستی آنے نہیں دی۔ 1972ء میں نظام آباد میں مسلم پرسنل لا بورڈ کاقیام عمل میں لایا اور ہ ایڈہاک کمیٹی کے معتمد بنائے گئے۔مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قیام کے بعد سے انتقال تک وہ معتمد کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ان کا خصوصی وصف تھا کہ وہ کبھی کسی کی برائی نہ کرتے تھے اور نہ سنتے تھے۔ اس لئے لوگ انھیں عزیز رکھتے تھے اور جب کبھی کوئی ملی مسئلہ آجائے، تمام ہی جماعتوں سے مشاورت کرتے اور اس کے حل کے لئے متحرک ہوجاتے۔ اللہ نے انہیں مختلف مکتب فکر کے لوگوں کو جوڑے رکھنے کا خصوصی وصف بخشا تھا۔ 26جون 1975ء میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کا اعلان کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک سے ہزاروں قائدین کو نذرزنداں کردیاگیا، تو نظام آباد سے جن احبا ب کو گرفتار کرتے ہوئے چنچل گوڑہ جیل منتقل کیا گیا، ان میں مولوی محمد عبدالغفار صاحب بھی شامل تھے، جو21ماہ یعنی تا 21مارچ 1977ء تک قید کی صوبتیں برداشت کرتے رہے ۔اس وقت ان کے ساتھ موجو دیگر افراد میں موجودہ وزیر جناب وینکیا نائیڈو بھی تھے ۔انہوں نے کبھی بھی دین کی راہ میں اپنے گھر دار اور بیوی بچوں کو آڑ نہ بنایا، بس خداکے دین کی جدوجہدمیں منہمک رہے ۔ 1977ء میں ہی وہ جماعت اسلامی ضلع نظام آباد کے ناظم منتخب ہوئے۔1988ء میں ناظم علاقہ شمالی تلنگانہ بنائے گئے ۔1980ء سے 1995ء تک مجلس نمائندگان کے رکن منتخب ہوئے۔1985ء شاہ بانو کیس کے وقت عدالتی فیصلہ کے خلاف نظام آباد میں مختلف جماعتوں کے تعاون کے ساتھ بڑے پیمانے پرتاریخی احتجاجی جلوس نکالا گیا تھا جو آج بھی ضلع نظام آباد کی تاریخ میں ایک تاریخ ساز جلوس تسلیم کیا جاتا ہے جس میں سیکڑوں افراد نے شرکت کی تھی جس کے بینر پر ایک شعر بھی درج کروایا گیا تھا۔
عجب نہیں کے بدل دے اسے نگاہ تری
بلا رہی ہے تجھے ممکنات کی دنیا
بابری مسجد کی شہادت کے سانحہ سے قبل بابری مسجد رابطہ کمیٹی قائم کی گئی تھی نظام آباد میں بھی اس کمیٹی کی تشکیل کروائی اور اس سلسلہ میں دہلی میں منعقدہ احتجاجی مظاہرے میں شرکت کے لیے نظام آباد سے اپنے رفقاء کے ساتھ شرکت کی۔2002ء میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ حج کی سعادت حاصل کی ۔2002ء سے 2008ء تک ناظم علاقہ اڑیسہ کی حیثیت سے خدمت انجام دی اور اڑیسہ میں جماعت کے کا م کو استحکام بخشا۔2004ء میں یونائٹیڈ مسلم فورم کے معتمد منتخب کئے گئے۔1956ء تا 2013ء یعنی اپنے انتقال سے قبل تک مسجد رضا بیگ احمدی بازار نظام آباد پرخطیب وامام کے فرائض انجام دیئے اور اللہ کے گھر کی تعمیر اور ترقی میں خوب حصہ لیا۔
ان کے رفقاء میں جناب عبدالحکیم صاحب، جناب عبدالقادر عارف صاحب، فقیر محمد خان صاحب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔مولو ی محمد عبدالغفار صاحب علامہ اقبال کے شیدائی تھے اللہ نے انھیں بہترین حاٖفظہ عطا کیا تھا،قائدانہ صلاحیت کے علاوہ دروس قران و خطابت ان کا خصوصی وصف تھا۔ مطالعہ کے بہت ہی شوقین تھے، خالی اوقات کو مطالعہ میں گزار تے تھے، انہوں نے ہمیشہ سے ہی گھر اور دفتر میں خصوصی کتب خانہ قائم کیا تھا اور ایک مکتبہ بھی چلاتے تھے، جس کانام انہوں نے ’’مکتبہ تعمیر انسانیت رکھا تھا‘‘۔ اس کے علاوہ عبادتوں کا معمول تھا کہ روزانہ صبح 3:30 بجے بیدار ہو جاتے،تہجد کی ادئیگی کے بعد قبر ستان کی زیارت کرتے، فجر کی نماز کی امامت کے بعد قرآن مجید کا درس دیتے، اس کے بعد مطالعہ میں مصروف ہوجاتے،ساتھ ہی اپنے پیشہ تجارت میں مصرومشغول رہتے۔ ظہر کی ادائیگی ،بعد عصر درس حدیث کا اہتما م کرتے ،مغرب اور عشاء کی ادائیگی کے بعد رات کو جلد سوجاتے تھے، تلنگانہ کے مختلف اضلا ع سے جماعت کے پروگرام یا تقریر کے لئے خصوصی طور پر مدعو کئے جاتے تھے۔ کسی کو ناراض کرنا فطرت نہیں تھی۔ان کی تقریر کا وصف یہ تھا کہ جب تقریر شروع ہوتی تو سامعین تقر یر کے اختتام تک انہماک سے انہیں سنتے تھے۔ قران کی آیتیں اور احادیث حفظ تھیں۔ علامہ اقبال کے اشعار کا بر محل اظہار کرتے تھے۔ مختلف احباب سے تعاون حاصل کرتے ہوئے سیکڑوں بچوں کی تعلیم کا انتظام کرتے۔ غریبوں اور مسکینوں کا خیا ل رکھتے۔ ہر کسی سے خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔ خالی اوقات میں خاموش رہا کرتے تھے۔ چھوٹوں کے ساتھ بہترین رویہ رکھتے تھے۔ جو بھی ان سے ایک بار ملاقات کرتا وہ ان کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔غیر مسلم حضرات بھی ان سے مرعوب تھے۔ان کا اثر قبول کرنے والے افراد میں ڈی سرینوس سابق صدر پردیش کانگریس کمیٹی،مدھو گوڑ یاشکی سابق رکن پارلیمنٹ نظام آباد شامل ہیں۔
یہ لوگ وہ ہیں جو پیڑ لگاتے ہیں بھول جا تے ہیں
انھیں کبھی بھی عزت و شہرت اور مال و دولت کی ہوس نہیں تھی۔ اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی کوئی چیز بالخصوص جائیدا وغیرہ کا نہ تو شوق تھا نہ مستقبل کی فکر۔ہمیشہ دین اسلام کی سر بلندی میں منہمک رہتے۔ وہ اکثر مسلمانوں میں اسلامی شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت پر زور دیتے،اجتماعیت کی اہمیت کو اجاگر کرتے دعوت دین کے لئے جدوجہد کرنے کے لئے افراد کو تیار کرتے تھے۔ان سے فیض حاصل کرنے والے احبا ب میں جناب ملک معتصم خان صاحب سابق امیر حلقہ آندھرا پردیش،جناب ایم این بیگ زاہد سکریٹری جماعت اسلامی آندھراپر دیش،جناب محمد عبدالعزیز سکریٹری جماعت اسلامی آندھرا پریش، جناب ظفر احمد عاقل سکریٹری جماعت اسلامی آندھرا پردیش وغیرہ شامل ہیں۔
موت برحق ہے، جو آتا ہے اسے جانا ہے، اور جانے کی تیاری کرنا ہے، میرے والد محترم نے فانی دنیا میں بس ضرورت کی حد تک دنیا داری کی اور اپنی ساری زندگی اشاعت دین اور ملت کی فلاح کے لئے کام کرتے ہوئے عمر عزیز کے اسی سال مکمل کئے اور مختصر سی علالت کے بعد 12نومبربروز چہارشنبہ 2014 کو انتقال فرما گئے۔ مولوی عبدالغفار صاحب کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی۔ ان کی زندگی لوگوں کو یہ سبق دیتی ہے کہ اپنے لئے تو سب جیتے ہیں دوسروں کے لئے جینا، دوسروں کے لئے کام کرنا، اور دین کی دعوت اور اشاعت کے لئے اپنا سب کچھ نچھا ور کردینا یہ عظیم مقصد ہے۔