صحیفہ خان
آرے جنگلات کی کٹائی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے 1970 کی ‘چپکو تحریک’ کی یادیں تازہ کردیں جب اسی طرح کا معاملہ اتراکھنڈ کے رینی گاؤں میں پیش آیا تھا۔ گاؤں کی خاتون گورا دیوی کی سربراہی میں اس وقت خواتین نے درختوں سے چپک کر ان کی کٹائی کو رکوایا تھا۔ نتیجہ میں اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی نے خود مداخلت کرتے ہوئے جنگلات کی ممکنہ کٹائی کو روک دیا تھا۔
ٹھیک اسی طرح کا معاملہ ممبئی کے آرے جنگلات کے سلسلے میں چل رہا ہے، جس کی بے تحاشہ کٹائی کی جا رہی ہے اور جس کے خلاف ممبئی کے شہری بڑی تعداد میں سڑکوں پر اتر آئے اور مظاہرہ کیا۔ اس کٹائی کے خلاف قانون کے ایک طالب علم کی عرضداشت پر سنوائی کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے فوری طور پر روک لگا دی ہے۔ عدالت کے اس فیصلے سے ماحول کے حفاظت کاروں کی فتح ہوئی ہے اور تباہ کن ترقیاتی پالیسی اور اس کے پالیسی سازوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
یہ ان تمام معاشرتی اور ماحولیاتی کارکنوں کے لئے تاریخی فتح ہے جو اس کے لئے لڑ رہے تھے۔ دنیا بھر میں وہ تمام لوگ جو آنے والی نسلوں کے لئے ماحول کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں، جو باشعور اور باخبر ہیں. جب کہ ہمارے ملک کے بیشتر افراد بے رحمی کے ساتھ ماحولیات کے قتل کو بچشم سر دیکھ رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کا شعور بیدار نہیں ہورہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے لئے موسمیاتی تبدیلی ایک چیلنج بن چکی ہے۔اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ انیسویں صدی کے آخر سے اب تک زمین کی سطح کا اوسط درجہ حرارت 1.62 ڈگری فارن ہائیٹ (یعنی تقریباً 0.9 ڈگری سینٹی گریڈ) تک بڑھ گیا ہے۔ اس کے علاوہ گذشتہ صدی سے اب تک سطح سمندر میں بھی 8 انچ کا اضافہ ہوا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے ترقی کا لبادہ اوڑھ کر فطرت کو نقصان پہنچانا شروع کیا ہے. فطرت کی حفاظت کے لیے ہمیں ہی اٹھ کھڑا ہونا ہے۔ اور ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ہمیں اس تحریک کو ختم کرنا ہوگا۔ اگر ہم خاموشی سے یہ تماشا دیکھتے رہے، تو یقیناً آئندہ دس بارہ سالوں میں ہمیں اس کے سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہو گا۔ جن کے آثار نمایاں ہونا شروع ہوچکے ہیں۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف ہندوستان میں 1998 سے 2017 کے درمیان سیلاب کے نتیجے میں 79.5 بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اگر ملک میں بارہویں جماعت تک اسکول کھولنے کے لیے اوسطاً دو کروڑ روپے کی لاگت ہوتی ہے تو گذشتہ بیس سالوں میں سیلاب سے اتنا نقصان ہوا ہے جس سے کہ ملک میں تقریباً دو لاکھ تہتر ہزار سے زیادہ انٹرمیڈیٹ سطح کی اسکولیں قائم کی جا سکتی تھیں۔پچھلے سال کیرالا میں سیلاب کے باعث 27 لاکھ افراد بے گھر ہوئے تھے۔
ان میں سے صرف 15 لاکھ افراد کا تعلق کیرل سے تھا۔ اس سانحہ میں تقریباً دو ہزار سے زائد مکانات تباہ ہوئے جب کہ بائیس ہزار مکانات کو زبردست نقصان پہنچا تھا۔ اس کے علاوہ ساحلی علاقوں میں مختلف طوفانوں کے باعث لگ بھگ 7 لاکھ افراد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ ایک طرف ملک کو سیلابی کیفیت کا سامنا ہے تو دوسری طرف ملک گرمی اور خشک سالی کی وجہ سے مسلسل پریشان ہے۔ سیلاب کی وجہ سے اور زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے پیداوار میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ ہندوستان ایک زرعی ملک ہے جہاں زیادہ تر افراد کاشت کاری پر منحصر ہے اور یہی ان کا پیشہ ہے۔
اس پیشے میں بہت زیادہ جسمانی مشقت کرنی پڑتی ہے۔ لہذا بڑھتی ہوئی گرمی کا سیدھا اثر کاشت کاری پر ہورہا ہے، نتیجتاً لوگ بے روزگاری کا شکار ہو رہے ہیں۔بین الاقوامی مزدور آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2030 تک دنیا بھر میں 8 کروڑ افراد اپنی ملازمتوں سے محروم ہوجائیں گے، جب کہ بھارت میں گرمی کی وجہ سے 3.4 ملین ملازمتیں ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق گرمی کی لہروں کی وجہ سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔