قراۃالعین افراح ریاست کرناٹک کے تاریخی شہر گلبرگہ کی نو خیز ونو عمر ناول نگار ہیں۔ جن کے ناول (Hunt Down The Memory Lane) نے انگریزی ادب کے شائقین کو خوشی سے سرشار کردیا ہے۔ 15 سالہ قراۃالعین افراح کا اس کم عمری میں ادب سے لگاؤ، زبان کی چاشنی ،الفاظ پہ گرفت، خیالات کا تسلسل، بر محل محاورے اور ان کے ناول کے خوبصورت موڑ کمال کے ہیں۔ناول کی سیکڑوں کاپییاں ہاتھوں ہاتھ بک چکی ہیں اوراسے ادبی حلقوں میں زبردست پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔افراح کا تعلق تحریک اسلامی کے گھرانے سے ہے۔ ان کا مختصر انٹرویو ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اس ہیرے کو تحریک کے لئے ، ملک کےلئے اور بامقصدادب کے لئے کوہ نور بنائے۔
ترتیب وپیشکش: ملا بصیرت بازغہ
1 – آپ اپنا تعارف کیسے کرانا پسند کرینگی؟
میں قرۃ العین افراح، اپنے آپ کو ایک طالب علم، مطالعہ کی شوقین اور نو آموز مصنفہ کے طور پر متعارف کروانا چاہوں گی۔ میں نے حال ہی میں دہم جماعت کا امتحان دیا ہے اور آگے میں آرٹس اور ہیومینٹیز میں اپنا کرئیر بنانا چاہتی ہوں۔ انشااللہ۔
2 – اپنے گھریلو ماحول کے بارے میں کچھ بتائیں۔
ہمارے گھر میں شروع ہی سے تعلیمی ماحول رہا ہے۔اپنے والدین سے ہم سب کو مطالعہ اورکچھ اچھے خواب دیکھنے کی ترغیب ملی ہے۔ کبھی بھی فون، سوشل میڈیا وغیرہ ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے نہیں دیا گیا اور کتابوں سے ہماری دوستی بالکل بچپن سے ہی کرادی گئی تھی۔ہمارے گھر میں یہ رواج ہے کہ روزانہ سونے سے پہلے کسی کتاب کے دو چار صفحات کا مطالعہ ضرور کیا جاتا ہے۔
3 – رفیق منزل سے رفاقت ہے؟
جی ہاں۔ بچپن ہی سے میں نے اس کوقریب سے دیکھا ہے، اس کو پڑھا ہے۔خاص طور پر بچوں کا صفحہ بڑی دلچسپی سے پڑھتی ہوں ۔میرے والد خالد پرواز صاحب کی تحریریں بھی رفیق منزل کا حصہ رہی ہیں۔
4 – ہم جاننا چاہیں گے کہ آپ نے قلم سے دوستی کب کی؟
قلم تو جیسے میرا بچپن سےہی سب سے اچھا دوست رہا ہے۔ اپنی امی کی سنائی ہوئی کہانیوں کو لکھنے سے میں نے شروعات کی تھی۔ چھوٹی نظمیں اور کہانیاں لکھنے کی کوشش کرتی تھی۔ بارہ سال کی تھی جب میں نے پہلی ناول “The Noodle Section “لکھی تھی جو جلدہی شائع ہوگی۔
5 – اردو ادب کا شوق ہے؟
میری زیادہ دلچسپی اب تک انگریزی لٹریچر ہی سے رہی ہے۔ مگرشروعات میں مائل خیرآبادی کی کتابیں پڑھی ہیں اور وہ ایک طرح سے پہلے مصنف تھے جنہوں نے کتابوں کی جانب میرا شوق بڑھایا۔ چونکہ انگریزی میں میری اسکولی تعلیم ہوئی ہےاس لئے انگریزی میرے لئے زیادہ آسان ہے ۔ اردو زبان میں نے گھر پر سیکھی ہے ۔ تاہم، کوشش کرونگی کہ اب اردو ادب کی خوبصورتی بھی دیکھوں۔
6 – شعروشاعری کا شوق ہے؟
اشعار سننا اور پڑھنا مجھے اچھا لگتا ہے اور علامہ اقبال کے شعر میں اکثر پڑھا کرتی ہوں۔
7 – آپ کے لکھنے کا محرک کیا ہے؟
مجھے لکھنا پسند ہے اور میں نے اپنی خوشی کے لئےلکھنا شروع کیاتھا۔لیکن ناول کی پذیرائی کے بعد ، اب محرک یہ ہے کہ میں اپنے قارئین کو کچھ مثبت پیغام دے سکوں۔ قارئین کے شوق کو قائم رکھنے کے لئے خیالات کو، الفاظ کو بہتر سے بہتر اندازمیں پیش کروں اور کوشش کروں کہ میں اور میرے قارئین دونوں میرے تحریر سے کچھ نیا سیکھ سکیں۔
8 – کس ماحول میں آپ کے خیالات عروج پر ہوتے ہیں؟ آپ کے لکھنے کا طریقہ کیا ہے؟
ہر مصنف کی طرح میں بھی اکیلے اور خاموشی میں لکھنا پسند کرتی ہوں۔ جب بھی نئے خیالات آتے ہیں، میں نوٹ کرلیتی ہوں اور جب بھی وقت ملتا ہے، آرام سے سمجھ کرلکھتی ہوں۔ اکثر میں روز مرہ کے واقعات اور کیفیات کو مزاحیہ انداز میں پیش کرتی ہوں۔ شایدلوگوں کو روز مرہ کی الجھنیں اور معمولات فضول لگتی ہیں، لیکن یہی باتیں زندگی کا ایک بھرپور حصہ ہیں اور ہم چاہیں تواس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
9 – آپ کے ناول کا مختصر تعارف کرائیے۔ کیا ناول کے کردار ‘ہیری’ اور ‘ہیلن’ ، آپ کے بھائی بہن کے کرداروں کا عکس ہیں؟
یہ ناول ایک چھوٹی سی سنسنی خیز کہانی ہے، جو ‘ہیلن’ اپنا قصہ یاد کرکے لکھ رہی ہے۔ جس میں وہ اپنے بھائی بہن کے ساتھ خزانہ ڈھونڈتی ہے۔ اس میں مزاحیہ طریقے سے جادو، خزانے کی تلاش، اور ایک نو آموز مصنف کے ambitionکومیں نے دکھایا ہے۔ جی ہاں۔ ‘ہیری’ کو میں اپنے بھائی کا عکس کہوں گی، اور’ ہیلن’ کے کردار میں،میں خود کو دیکھتی ہوں۔ میرے بھائیوں کو دیکھ کر ہی میں نے’ ہیری’ کے کردار کو دریافت کیا ہے۔
10 – آپ کی پسندیدہ کتابیں کونسی ہیں؟
کتابوں میں میری پسند وقتاً فوقتاً بدلتی رہتی ہے۔ لیکن “Malgudi Days” ,”Sherlock Holmes” “Famous Five اور “Little Women” میری سب سے زیادہ پسندیدہ کتابیں ہیں۔ اور ان سبھی کو میں نے بہت مرتبہ پڑھا ہے۔
11 – کون کون سی کتابیں آپ کی زیر مطالعہ ہیں؟ کونسے مصنفین سے آپ متاثر ہیں؟
فی الحال میں نے انگلش کلاسکس میں “Bronte Sisters” کی کتابیں شروع کی ہیں۔ ساتھ ہی، سید سعاد ت للہ حسینی صاحب کی کی کتاب، ‘Muslim Ummah The Way” Forward” میں میری دلچسپی قائم ہے۔ ہندوستانی مصنفین آر۔ کے۔ نارائن، لویسا آلکوٹ، ارتھر کونان اور چارلس ڈکنس کے کاموں سے میں متاثرہوں، اور سبھی سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔
12 –ایک مفروضہ ہے کہ، نسل نو کو مطالعہ کا شوق نہیں ہے۔اس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟
بہت افسوس ہوتا ہے کہ، ہمارے سماج میں بہت کم لوگ ہیں جنہیں مطالعہ کا شوق ہے۔ اکثر لوگوں کو لگتا ہے کی کتابیں بورنگ ہوتی ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کے جال میں پھنسے طالب علموں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کتابیں محض امتحان دینے یا جمع کرکے رکھنے کےلئے نہیں ہوتیں ۔ جب آپ کو مطالعہ کا شوق ہو اور اچھی کتابیں، اخبارو رسائل دستیاب ہوں تو پتا چلے گا کہ یہ کس طرح سے ہماری پوری شخصیت کو نکھارتی ہیں۔
13 –کیاموبائل، یوٹیوب اور فلمیں، کتابوں کا بدل ہوسکتی ہیں؟
بالکل نہیں ہوسکتی ہیں۔ کیونکہ یو ٹیوب اور فلموں سے ذہنی تفریح ممکن ہےجبکہ ذہنی غذا مطالعہ ہی سے حاصل ہوتی ہے۔کتاب سے جہاں الفاظ کا ذخیرہ حاصل ہوتا ہے اور اظہار خیال کا طریقہ آتا ہے وہیں شخصیت کا ارتقاءبھی ہوتا ہے۔ میرے لئے ایک ناول پڑھنا کسی فلم دیکھنے سے حد درجہ بہتر ہے۔ کیوں کی مناظر اور مکالموں کو جس دلچسپی سے ہم دیکھتے ہیں اس سے بہتر طریقے سے تصور کی دنیا آباد کر سکتے ہیں۔لیکن شرط یہ ہے کی کتاب واقعی اچھی ہو، الفاظ، کہانی، مورل، سبھی بہترین ہوں۔ کتابیں ہم پر ویڈیوز سے کہیں زیادہ اثر ڈالتی ہیں لیکن اس کے لئے صحیح کتاب کا چننا بہت ضروری ہے۔
14 –افراح ۔!ڈیجیٹل دور اور مطالعہ، کتنا آسان کتنا مشکل؟
ڈیجیٹل دور میں سبھی چیزوں کے ساتھ مطالعہ بھی آسان ہوگیا ہے۔ پہلےدکان پرجاکر کتاب خریدنا پڑھتا تھااب انگلی کے ایک اشارے سے ڈاون لوڈ کر کے پڑھ سکتے ہیں۔ نئے الفاظ کے معنی بھی ڈکشنری سے ڈھونڈنا مشکل تھا اب ایک ہی کلک سے سب کچھ جاننا ممکن ہیں۔الگ الگ طرح کی کتابوں کے بارے میں جان سکتے ہیں، اور مطالعے کے مختلف طریقے سیکھ سکتے ہیں۔
15 – مطالعہ کے شوق کی آبیاری کے لئے آپ کچھ نکات بتانا پسند کرینگی؟
مطالعہ کے شوق کو بڑھانے کے لئے آپ بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ پہلے چھو ٹی چھوٹی کہا نیوں سے آغاز کریں۔ مطالعہ شروعات میں کچھ مشکل ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے ہمارا مطالعہ آگے بڑھے گا، شوق اور آسانی میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ایک ہفتہ کا ہدف طئے کریں، ایک ڈائری رکھیں جس میں آپ مطالعہ شدہ کتابوں کے نام اور ان کے بارے میں لکھیں یا اپنے دوستوں اور گھروالوں کے ساتھ اس کتاب یا کہانی کے بارے میں بات کریں ۔ آسان اخبار اور رسائل سے بھی شغف رکھیں ۔ ہمیشہ سفر میں ایک کتاب اپنے ساتھ رکھیں۔
16 – نو آموز مصنفین کے لئے آپ کا پیغام؟
میرا پیغام تو یہی ہے کہ جتنا ہوسکے مشق کریں۔ زیادہ سے زیادہ مطالعہ کریں اور الگ الگ ا سلوب میں لکھنے کی کوشش کریں۔ ہمارے قلم سے ہم معاشرے کو بہت کچھ دےسکتے ہیں۔ اس لئے ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہم سماج میں مثبت تبدیلی لانے کے لئے کوشاں ہوں۔
“اتنی کم عمر افراح کے اس قدر بہترین فن پارہ کی تخلیق کو دیکھ کر میں نہ صرف متاثر بلکہ مرعوب ہوگیا ہوں۔پلاٹ، کہانی اور زبان، ہر چیز نہایت عمدہ ہے۔”
– سید سعادت اللہ حسینی