عظیم مرد آہن یحییٰ سنوار حماس کے قدآور قائد اور اس کی سیاسی پارٹی کے موجودہ صدر ہیں۔ آپ کا شمار ان دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے جو دشمنوں کو سیاسی چال بازی اور مجاہدانہ کردار سے زیر و زبر کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ یہی حوصلہ تھا کہ 1986ء میں جنگی دستہ کی تیاری، تحریک کے داخلی امور کی مضبوطی اور اسرائیلی ایجنٹوں اور جاسوسوں کی سراغ رسانی کے لیے منظمة الجهاد والدعوۃ کے نام سے حماس کی ایک ذیلی تنظیم وجود میں آئی، جس کے پیچھے یحییٰ سنوار اور ان جیسے بڑے افراد کا دماغ کارفرما تھا۔ صہیونیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ فلسطین کا حالیہ قضیہ جس کا آغاز 7/ اکتوبر 2023ء کو ہوا، کے اصل خاکہ ساز اور دماغ یہی ہیں۔
یحییٰ ابراہیم حسن السنوار کی پیدائش 29/ اکتوبر 1962ء کو خان یونس میں پناہ گزیں خیمہ میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم خان یونس، غزہ کے ایک اسکول میں ہوئی، جب کہ گریجویشن کی تعلیم غزہ یونیورسٹی سے مکمل کی۔ ان کے بچپن سے جوانی تک کا سفر بڑی صعوبتوں اور آزمائشوں سے بھرا ہے۔ عنفوان شباب ہی میں بعض اسلامی تحریکات سے وابستہ ہوگئے اور ان کے ساتھ مختلف سرگرمیاں انجام دیتے رہے۔ ابتداء میں ثقافتی بزموں کے معتمد بنے۔ غزہ یونیورسٹی میں کھیل کود کے ذمہ دار رہے اور فلسطین میں اخوان کی طلبہ تنظیم کا حصہ رہے۔ ساتھ ہی ساتھ غزہ یونیورسٹی میں طلبہ یونین کے صدر بھی رہے اور پوری مستعدی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔
ان کی زندگی کے زیادہ تر ایام عزیمتوں کی راہ میں پیش آنے والی صعوبتوں میں گزرے۔ ابھی طلب علم اور فکری اٹھان کا آغاز ہی تھا کہ بیس سال کی کم عمر میں سنت یوسفی کی ادائیگی کا حکم آپہنچا۔ 1982ء میں نظر بندی کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ 2011ء تک جاری رہا۔ وہاں بھی ان کی تحریکی سرگرمیاں جاری رہیں اور قید خانے میں قیدیوں کی تحریک کی سربراہی بھی اپنے ذمہ لے لی اور وہاں بھی اجتماعی نظم و نسق جاری رکھا۔ ظالم صہیونیوں کی سخت ایذا رسانی سے تنگ آکر دو مرتبہ راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہے۔ پچیس سال مسلسل قید و بند میں رہتے رہتے ان کی صحت روبہ زوال ہوتی رہی؛ معدہ میں خرابی آگئی، منھ سے خون کی قئے شروع ہوگئی، بدن کی حرارت معمول سے آگے بڑھ گئی، سر درد کی دائمی شکایت رہنے لگی اور دماغ میں خون جم گیا۔
قید و بند سے خلاصی کے بعد کئی بڑی ذمہ داریاں ان کے سر آئیں۔ ترجیحی طور پر 49 سال کی عمر میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے۔ چھوٹی چھوٹی ذمہ داریوں کے بعد 2017ء اور 2021ء میں تحریک حماس کے باضابطہ صدر بنے اور 2024ء میں شہید اسماعیل ھنیہ کے بعد انھوں نے حماس کی سیاسی ونگ کی ذمہ داری قبول کی۔
عزیمتوں کی راہ میں یحییٰ سنوار نے کردار ساز رول ادا کیا ہے۔ ان کے اندر صحیح معنوں میں قیادت کے اوصاف پائے جاتے ہیں۔ قید خانے میں حماس قیدیوں کی تحریک قائم کر کے اس کی سربراہی اپنے ناتواں کاندھوں پر رکھ لی اور ممکنہ فرائض انجام دیتے رہے۔ پھر جب جسم گھلنے لگا تو قلم کا سہارا لیا۔ اسرائیلیوں کے حقائق کو دنیا کے سامنے پیش کیا، حماس کے سلسلہ میں پیدا کی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا اور زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کو قید تحریر میں لے آئے۔ ان کا ایک نمایاں کردار یہ ہے کہ انھوں نے آس پاس کے اسلامی ممالک اور تحریکات سے دو طرفہ بات چیت کی کوششیں بھی کیں اور فلسطین کے مسئلہ کی سنگینی کو ان کے ذہنوں میں پیوست کرنے کی کوشش کی، تاکہ ان کی ہم آہنگی اور موافقت سے فلسطین کو تقویت پہنچے۔
(مضمون نگار، ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ سے وابستہ ہیں)
عظیم مرد آہن یحییٰ سنوار حماس کے قدآور قائد اور اس کی سیاسی پارٹی کے موجودہ صدر ہیں۔ آپ کا شمار ان دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے جو دشمنوں کو سیاسی چال بازی اور مجاہدانہ کردار سے زیر و زبر کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ یہی حوصلہ تھا کہ 1986ء میں جنگی دستہ کی تیاری، تحریک کے داخلی امور کی مضبوطی اور اسرائیلی ایجنٹوں اور جاسوسوں کی سراغ رسانی کے لیے ”منظمة الجهاد والدعوۃ“ کے نام سے حماس کی ایک ذیلی تنظیم وجود میں آئی، جس کے پیچھے یحییٰ سنوار اور ان جیسے بڑے افراد کا دماغ کارفرما تھا۔ صہیونیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ فلسطین کا حالیہ قضیہ جس کا آغاز 7/ اکتوبر 2023ء کو ہوا، کے اصل خاکہ ساز اور دماغ یہی ہیں۔
یحییٰ ابراہیم حسن السنوار کی پیدائش 29/ اکتوبر 1962ء کو خان یونس میں پناہ گزیں خیمہ میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم خان یونس، غزہ کے ایک اسکول میں ہوئی، جب کہ گریجویشن کی تعلیم غزہ یونیورسٹی سے مکمل کی۔ ان کے بچپن سے جوانی تک کا سفر بڑی صعوبتوں اور آزمائشوں سے بھرا ہے۔ عنفوان شباب ہی میں بعض اسلامی تحریکات سے وابستہ ہوگئے اور ان کے ساتھ مختلف سرگرمیاں انجام دیتے رہے۔ ابتداء میں ثقافتی بزموں کے معتمد بنے۔ غزہ یونیورسٹی میں کھیل کود کے ذمہ دار رہے اور فلسطین میں اخوان کی طلبہ تنظیم کا حصہ رہے۔ ساتھ ہی ساتھ غزہ یونیورسٹی میں طلبہ یونین کے صدر بھی رہے اور پوری مستعدی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔
ان کی زندگی کے زیادہ تر ایام عزیمتوں کی راہ میں پیش آنے والی صعوبتوں میں گزرے۔ ابھی طلب علم اور فکری اٹھان کا آغاز ہی تھا کہ بیس سال کی کم عمر میں سنت یوسفی کی ادائیگی کا حکم آپہنچا۔ 1982ء میں نظر بندی کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ 2011ء تک جاری رہا۔ وہاں بھی ان کی تحریکی سرگرمیاں جاری رہیں اور قید خانے میں قیدیوں کی تحریک کی سربراہی بھی اپنے ذمہ لے لی اور وہاں بھی اجتماعی نظم و نسق جاری رکھا۔ ظالم صہیونیوں کی سخت ایذا رسانی سے تنگ آکر دو مرتبہ راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہے۔ پچیس سال مسلسل قید و بند میں رہتے رہتے ان کی صحت روبہ زوال ہوتی رہی؛ معدہ میں خرابی آگئی، منھ سے خون کی قئے شروع ہوگئی، بدن کی حرارت معمول سے آگے بڑھ گئی، سر درد کی دائمی شکایت رہنے لگی اور دماغ میں خون جم گیا۔
قید و بند سے خلاصی کے بعد کئی بڑی ذمہ داریاں ان کے سر آئیں۔ ترجیحی طور پر 49 سال کی عمر میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے۔ چھوٹی چھوٹی ذمہ داریوں کے بعد 2017ء اور 2021ء میں تحریک حماس کے باضابطہ صدر بنے اور 2024ء میں شہید اسماعیل ھنیہ کے بعد انھوں نے حماس کی سیاسی ونگ کی ذمہ داری قبول کی۔
عزیمتوں کی راہ میں یحییٰ سنوار نے کردار ساز رول ادا کیا ہے۔ ان کے اندر صحیح معنوں میں قیادت کے اوصاف پائے جاتے ہیں۔ قید خانے میں حماس قیدیوں کی تحریک قائم کر کے اس کی سربراہی اپنے ناتواں کاندھوں پر رکھ لی اور ممکنہ فرائض انجام دیتے رہے۔ پھر جب جسم گھلنے لگا تو قلم کا سہارا لیا۔ اسرائیلیوں کے حقائق کو دنیا کے سامنے پیش کیا، حماس کے سلسلہ میں پیدا کی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا اور زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کو قید تحریر میں لے آئے۔ ان کا ایک نمایاں کردار یہ ہے کہ انھوں نے آس پاس کے اسلامی ممالک اور تحریکات سے دو طرفہ بات چیت کی کوششیں بھی کیں اور فلسطین کے مسئلہ کی سنگینی کو ان کے ذہنوں میں پیوست کرنے کی کوشش کی، تاکہ ان کی ہم آہنگی اور موافقت سے فلسطین کو تقویت پہنچے۔
(مضمون نگار، ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ سے وابستہ ہیں)