آوازِ دوست

فراست فصیح ملا

”آوازِ دوست کا تسلسل آبشار ہے اور کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ اس کو مترنم پڑھا جا سکتا ہے۔“


”اس کتاب میں صرف دو مضمون ہیں۔ ایک طویل مختصر اور دوسرا طویل تر۔ ان دونوں مضامین میں فکر و خون کا رشتہ ہے۔ فکر سے مراد فکر فردا اور خون سے خون تمنا۔“ یہ اس کتاب کا دیباچہ ہے جس کے اسلوب  کو لوگ تاریخ نویسی سے بہت مختلف مانتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے یہ اردو انشاء کی ایک نئے طرز تحریر کی ایجاد ہے۔ کوئی اسے تاریخ،  سوانح اور ادب کا حسین امتزاج گردانتا ہے۔ ابن انشا نے ہمیں سکھایا ہے کہ،  رعنائی  کے بیان میں اپنی رائے دینے کے بجائے، ”کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرہ ترا“ کہہ کر چپ ہو جانا چاہیے۔ لوگ اس تحریر کو گراں قدر اور خوبصورت کہتے ہیں جبکہ اپنا حال یہ ہے، کہ ’آواز دوست‘ پڑھتا ہوں تو خود کو ثروت مند اور رعنا محسوس کرنے لگتا ہوں۔ فارسی کی ملاوٹ سے پاک پہلی کتاب ہے۔ اپنی نوعیت کی اب تک کی آخری کتاب ہے اور ادبیات عالم کے شہکار ترتیب دیے جائیں تو اس سلسلے کی درمیانی کتاب ہے۔

یہ کتنی بڑی بات ہے کہ، قحط الرجال والا پیراگراف، ادب، اردو اور مطالعہ سے نابلد سمجھی جانے والی ہماری نسل کے بہت سوں کو ازبر ہے۔ بات سے بات اس طرح نکلتی جیسے گلبرگہ کی جامع مسجد کی ڈھائی سو قوس دارمحرابیں۔ پتہ نہیں مختار مسعود لکھتے تھے یا حروف کے موتی سے زیورات بناتے تھے۔ وہ تو انہوں نے کرم کیا،  جو ہر کچھ دیر بعد   گانٹھ دال دی اس لیے جملے وقفہ پر ختم ہو گئے۔ ورنہ تو کتاب تھوڑی ہوتی، موتی محل ہوجاتا جس پر لالچی حکومتیں ٹکٹ اور ٹکٹ پر ٹیکس  لگا دیتیں۔  

”پہلے زمانے میں آدمی اپنے کردار سے بڑا بنتا تھا اور ہومر،  پلوٹارک اور فردوسی ان کی عظمت کے محافظ بن جاتے تھے اور اب ایسا اندھیرا ہوگیا ہے کہ آدمی عظمت کا گاہک بن کر تعلقات عا مہ کے تجارتی اداروں سے شہرت خریدنے جاتا ہے۔ وہ مشاہیر تھے اور یہ مشتہر۔ ان کی شہرت میں قوت بازو کو دخل تھا اور ان کی شہرت میں صرف قوت خریدکو۔“ (صفحہ: 72)

آواز دوست کا تسلسل آبشار ہے اور کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ اس کو مترنم پڑھا جا سکتا ہے۔ آواز دوست مولانا  آزاد تک پہنچتے ہی کافی  غیر معتدل ہوجاتی ہے۔ لوگ مولانا آزاد کا احترام  نہیں کرتے تو مجھے بڑا قلق رہتا ہے۔ لیکن  دیکھئے تو کہ کون ہے جو میخانۂ تنقید کا ساقی ہے۔  آزاد سند ہیں تو مختار مسعود مسند۔ وہ حُسن ہیں تو یہ محسن۔  آواز دوست میں محسن کی تعریف کچھ یوں ہے،  

”اہل شہادت اور اہل احسان میں فرق صرف اتنا ہے کہ شہید دوسروں کے لیے جان دیتا ہے اور محسن دوسروں کے لیے زندہ رہتاہے۔ ایک کا صدقہ جان ہے اور دوسرے کا تحفہ زندگی۔ ایک سے ممکن وجود  میں آتا ہے اور دوسرے سے اس وجود کو توانائی ملتی ہے۔ ان کے علاوہ ایک تیسرا گروہ بھی ہوتا ہے جو اس توانا وجود کو تابندگی بخشتا ہے۔جو لوگ اس آخری گروہ میں شامل ہوتے ہیں انہیں اہل جمال کہتے ہیں۔ اہل جمال کی پہچان یہ ہے کہ یہ لوگ مسجد قرطبہ تعمیر بھی کرتے ہیں اور تحریر بھی۔ جس سر حد کو اہل شہادت میسر نہ آئیں وہ مٹ جاتی ہے جس آبادی میں اہل احسان نہ ہو ں اسے خانہ جنگی اور خانہ بربادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس تمدن  کو  اہل جمال  کی خدمات حاصل نہ ہوں وہ خوشنما اور دیر پانہیں ہوتا۔“  (صفحہ 58۔59 )

آواز دوست  قاری کو کبھی کبھی  اتنا نشہ دیتی ہے کہ اس کی حلت پر گمان ہونے لگتا ہے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں