جب موت ہی وجود کا واحد بامعنی راستہ بن جائے

عبداللہ عزام

پہلی بات تو یہ ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی موت کو وقتی اور عارضی فہم کے کسی بھی دائرے سے آزاد سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس موت کو ”نام“ دینے اور ”درجہ بند“ کرنے کی زیادتی سے بچانا چاہیے۔ گزشتہ…

پہلی بات تو یہ ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی موت کو وقتی اور عارضی فہم کے کسی بھی دائرے سے آزاد سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس موت کو ”نام“ دینے اور ”درجہ بند“ کرنے کی زیادتی سے بچانا چاہیے۔ گزشتہ اکتوبر سے غزہ میں نسل کشی کے آغاز کے بعد سے ہی قابلِ تعبیر معنی کا مکمل فقدان ہی ہمارا واحد مشترکہ احساس بن گیا ہے۔

اس موت (کی تعبیر) کو سیکولر(معنوں کے) جال سے بچاتے ہوئے، پہلے سے دستیاب لیکن بے وزن ہو چکے زمروں میں درجہ بند کرنے کی فوری اکتاہٹ سے آزاد کرنا چاہیے۔ ہم موجودہ فریم ورک کی طاقت کو سمجھتے ہیں جو ہمیں مجبوراً ایسے کئی بے معنی سوالات میں بھٹکا سکتے ہیں کہ کیا یہ کسی قومی ریاست کی علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی تھی؟ کیا جو کچھ ہو رہا ہے اسے محتاط طور پر نسل کشی کہا جاسکتا ہے؟ کیا اسرائیل بین الاقوامی قانون کی نظر میں جائز اقدامات کر رہا ہے؟ بین الاقوامی قانون میں اب کون سے قوانین اور دفعات ان کے خلاف استعمال کی جاسکتی ہیں؟ اب بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں کون سے امکانات روشن ہوتے ہیں؟ کیا ”جیو پولیٹکس“ پر گفتگو کرنے میں کوئی فائدہ پوشیدہ ہے؟، وغیرہ وغیرہ۔ میں دعوی کرسکتا ہوں کہ یہ مشق بے سود اور بے کار ثابت ہوگی اور ایک طرح سے تشدد ہی کا ارتکاب کرے گی۔ یعنی ”اطمینان“ کا تشدد! یہ خود کشی کا راستہ ہوگا۔ اور یہ اس موت کو سچائی اور ماورائیت کے ہالہ سے بے نیاز کردے گا۔

کاش میں اس موت کو حق و صداقت کے دائرے میں تعبیر کرنے کی صلاحیت رکھتا۔ سچائی مطلق اور ماوراء ہوتی ہے، لہذا یہ اور اب تک ہونے والی ہزاروں اموات کو جامد، مضحکہ خیز اور خراب افسانوں کے بالمقابل ممتاز تخیل سے دیکھا جانا چاہیے۔ چنانچہ ان اموات کو شہادت کے علاوہ کسی اور نام سے پکارنا، قتل اور نقصانات جیسے نام دینا دہشت گردی کے مترادف ہوگا۔ شہادت، حق کی گواہ ہوتی ہے اور ان اموات نے بالکل ایسا ہی کیا ہے۔ اس نے ہمارے نظاموں، قانون، درجہ بندیوں اور فریم ورک کے مصنوعی پن کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اس نے ان افسانوں کو بے نقاب کیا ہے جو ہم پر حکومت کرنے والی بے شرم طاقتوں کو برقرار رکھنے اور چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس نے ہمیں اس حقیقت کی یاد دہانی کرائی کہ ہم دھیرے دھیرے یہ سیکھ رہے تھے کہ انسانیت کا ایک بڑا حصہ نام نہاد پہلی دنیا میں بیٹھے لوگوں کی گرفت اور کنٹرول میں ہے۔ اس نے ہمیں یہ سیکھنے پر مجبور کیا ہے کہ سچائی کو جھٹلانا بدتر ہے، لیکن سچائی پیدا کرنا شدید تر ہے۔ ان اموات نے ان اداکاروں اور اداروں سے نقاب اتار دیا ہے جو مصنوعیت اور جھوٹ کے علمبردار ہیں۔ اس نے ہمارے لیے خارجیت میں جھانکنے کے لیے ایک شگاف پیدا کر دی ہے۔ اس نے صداقت کے خود ساختہ اندرونی دعوؤں کو چیلنج کیا ہے اور خارجیت کے لئے امکانات کی ایک دنیا کھول دی ہے۔

ان اموات میں، میں دیکھتا ہوں کہ سچائی انتخاب اور اس کے لیے جینے کے درمیان میں رکھی گئی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ سچائی مادی نہیں ہے، لیکن جب میں کہتا ہوں کہ سچائی ”وسط“ میں موجود ہے تو میرا مطلب متبادل تخیل کے لیے راہیں کھولنا ہے۔ میرا مطلب وہ قوت ہے جو اس کے لمحاتی اظہار سے وجود میں آتی ہے — وہ طاقت جو ہمیں اپنے سخت محروسی خول اور علمی ڈھانچوں سے نبردآزما ہونے کے ناقابل برداشت کام کے لیے تیار کرتی ہے۔ ناقابل بیان مایوسی کے دور میں، میں ان لمحات میں پنہاں امید دیکھتا ہوں۔ میں نے پہلے کبھی اس کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچا تھا، لیکن اب مجھے شہادت کی امید ہے۔ یہ ہار- جیت کا کھیل نہیں ہے۔ یہ سچ کے ساتھ جینا ہے اور اس کے لیے مر کر زندہ جاوید ہو جانا ہے یا پھر افسانے کی طرح جی کر مر جانا ہے۔ اسماعیل ہنیہ اور غزہ کے ہزاروں جاوداں دوستوں کا شکریہ، جن کی بدولت میں نے اپنا ذہن بنا لیا ہے۔ اللہ ان سے راضی ہو!

ترجمہ: مصدق مبین

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں