(یہ تحریر اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ تقسیم ہند کے بعد وقف جائیدادوں پر ریاست نے کس طرح غیر قانونی قبضہ کر کے انہیں مہاجرین کی آبادکاری اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ جبکہ آج، حکومت اور اس کے کارندے وقف بورڈ پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ اس نے حکومتی زمینوں پر قبضہ کر کے انہیں اپنی جائیداد قرار دیا ہے، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہ مضمون انہیں تاریخی حقائق کو واضح کرتا ہے اور تقسیم کے بعد دہلی کی وقف جائیدادوں کے ساتھ ہونے والے ناانصافیوں کی مختصر تفصیل پیش کرتا ہے۔)
تقسیمِ ہند کے بعد دہلی میں وقف کی جائیدادوں پر قبضے کی کہانی، تغلق دور کی چھپی ہوئی مساجد سے لے کر شہر بھر میں بکھرے ہوئے مزارات تک، اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ ان جائیدادوں کو حکومت نے زبردستی اپنے تصرف میں لے لیا۔
آج وقف کی جائیدادوں کو اپنی تحویل میں لینے کے لیے مجوزہ قانون پر جاری تنازع میں فرقہ وارانہ رنگ نمایاں ہے۔ نریندر مودی کی حکومت کسی بھی قانونی منطق یا تاریخی حقیقت کو نظرانداز کرتے ہوئے وقف (ترمیمی) بل کو منظور کرانے کے لیے بضد ہے۔ 15/ نومبر 2024ء کو مہاراشٹرا میں ایک انتخابی ریلی کے دوران، مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اپوزیشن پر طنز کرتے ہوئے کہا:
”چاہے اپوزیشن کتنی بھی مخالفت کرے، مودی جی وقف ایکٹ میں تبدیلی کر کے رہیں گے۔“
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب اپوزیشن کے اراکین نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کے چیئرمین جگدمبیکا پال کی یکطرفہ کارروائیوں کے خلاف لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کے پاس اپنا احتجاج درج کروایا تھا۔
یہ مضمون تقسیم کے دوران دہلی میں وقف کی جائیدادوں کی زبوں حالی اور ان کے ساتھ کیے گئے غیر قانونی رویوں پر ایک تاریخی نوٹ پیش کرتا ہے۔ اس دور میں ہزاروں ہندو اور سکھ مہاجرین کی آبادکاری کے لیے وقف کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کیا گیا، جو کہ قانوناً غیر منصفانہ تھا۔ اگرچہ یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اس وقت کی ہنگامی صورت حال کے پیش نظر یہ اقدام ناگزیر تھا، لیکن یہ ایک الگ موضوعِ بحث ہے۔
اپنی کتاب Migrants, Refugees and the Stateless in South Asia میں، میں نے اس مسئلے پر بحث کی ہے۔ مغربی بنگال کے برخلاف، جہاں مہاجرین نے سرکاری زمینوں پر خود قبضہ کیا، دہلی میں حکومت نے براہِ راست وقف کی زمینوں کا غیر قانونی استعمال کیا۔
تقسیم کے فسادات اور ہجرت کے نتیجے میں دہلی کی مسلم آبادی بڑی حد تک سکڑ گئی۔ 1941ء کی مردم شماری کے مطابق، دہلی کی کل آبادی 9.18 لاکھ تھی، جس میں ہندو اور مسلمان تقریباً برابر تھے۔ لیکن 1947 کے فسادات اور ہجرت کے باعث، 3.3 لاکھ مسلمان پاکستان منتقل ہو گئے، جبکہ ہندو اور سکھ مہاجرین کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ مؤرخ گیانیندر پانڈے Gyanendr pandey کے مطابق: ”1947ء میں دہلی کی کل آبادی 9.5 لاکھ تھی، جس میں سے 3.3 لاکھ مسلمانوں نے ہجرت کی، اور تقریباً 5 لاکھ غیر مسلم مہاجرین دہلی آ گئے۔ 1951ء تک یہ مہاجرین شہر کی کل آبادی کا 28.4 فیصد بن چکے تھے۔“
اس ہنگامہ خیز صورتحال میں دہلی کے مسلمانوں کی بڑی تعداد اندرونی طور پر بے گھر ہو گئی۔ فرقہ وارانہ تشدد سے بچنے کے لیے انہوں نے مساجد اور امیر مسلمانوں کی حویلیوں میں پناہ لی، جب یہ بھی ناکافی ثابت ہوا تو وہ پرانا قلعہ اور ہمایوں کے مقبرے جیسے تاریخی محلوں کو پناہ گزین کیمپوں میں تبدیل کر کے وہاں منتقل ہو گئے۔ ان کیمپوں میں تقریباً 1,74,000 بے گھر مسلمانوں نے پناہ لی۔ اس دوران، حکومت نے مسلمانوں کی قبروں، قبرستانوں، اور وقف کی زمینوں پر قبضہ کر کے ان زمینوں کو پناہ گزینوں کی آبادکاری کے لیے استعمال کیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس عمل میں مسلم تاریخی ورثے کو نقصان پہنچایا گیا، اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا گیا۔
امریکی پروفیسر آنند تنیجا Anand Taneja نے جب آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (ASI) کے ریکارڈ تک رسائی کی کوششیں کیں، تو انہیں بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ بڑی مشکل سے انہیں اس کی اجازت ملی۔ وہ لکھتے ہیں:
”جب مجھے ASI کے دستاویزات دیکھنے کی اجازت مل گئی۔ اس کے دو ہفتے بعد بتایا گیا کہ آرکائیوز تک میری رسائی محض ایک غیر رسمی عنایت تھی، جس پر حکام ناخوش تھے، اور پھر مجھے اس سے روک دیا گیا۔ یوں محسوس ہوا کہ اے ایس آئی کی آرکائیوز یادداشت محفوظ کرنے کے بجائے فراموشی کو یقینی بنانے کا ذریعہ تھیں، جہاں دفن ریکارڈ عوام کی نگاہ سے ہمیشہ کے لیے اوجھل رہنے کے لیے تھے، حتیٰ کہ علمی حوالوں میں بھی۔“
تقسیم کے ابتدائی دنوں میں ہندوستانی حکومت نے پناہ گزینوں کی بحالی اور دہلی کی تعمیر نو کو اپنی اولین ترجیح بنایا۔ اس عمل میں کئی مسلم قبریں، جن میں مشہور بزرگوں کے مزارات بھی شامل تھے، زبردستی قبضے میں لے لی گئیں۔ یہاں تک کہ وزیرِاعظم جواہر لال نہرو کو بھی ان معاملات پر لاعلمی کا اظہار کرنا پڑا۔ عطاء الرحمن قاسمی نے اپنی کتاب ”دہلی کی تاریخی مساجد“ (اشاعت: 2001 مولانا آزاد اکیڈمی) میں اس وقت کے وزیرِ تعلیم مولانا آزاد اور نہرو کے درمیان ایک اہم مکالمے کا ذکر کیا ہے۔ اُس وقت وزارتِ تعلیم کے تحت محکمہ آثارِ قدیمہ کام کرتا تھا۔ مولانا آزاد (جو کابینہ کے واحد مسلم رکن تھے) نے ان قبضوں پر سخت اعتراض کیا۔ مگر نہرو نے بڑی چالاکی سے یہ جواب دیتے ہوئے مولانا کو خاموش کر دیا کہ:
”مولانا! آدھی دہلی قبرستانوں اور مساجد پر مشتمل ہے۔ اگر ہمیں تعمیر کے لیے جگہ نہ ملی تو ہمارے تمام منصوبے ادھورے رہ جائیں گے۔“
قاسمی صاحب کا بیان کردہ ایک نہایت دل چسپ واقعہ وہ ہے جو دہلی کے للت کلا اکیڈمی کے میدان میں دفن ایک تغلق دور کی مسجد کے بارے میں ہے۔ مولانا آزاد، جو چند دوسرے مولاناؤں کے ساتھ ایک گاڑی میں سوار تھے، جب اس 14ویں صدی کی تعمیر کردہ مسجد کے قریب پہنچے، جس کے بارے میں پہلے ہی انہوں نے بہت کچھ سنا تھا، تو آزاد نے گاڑی میں موجود اپنے ایک بزرگ ساتھی سے سوال کیا کہ کیا وہ اس مسجد کی جگہ کو جانتے ہیں؟ بزرگ نے ساہتیہ اکیڈمی اور للت کلا اکیڈمی کے احاطے میں موجود ایک ٹیلے کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ وہ تغلق دور کی مسجد اسی میں دفن ہے۔ جب للت کلا اکیڈمی کے تعمیراتی منصوبے تیار ہو رہے تھے، دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) نے اس مسجد کو مکمل طور پر مٹا دینے کا ارادہ کیا تھا۔ آزاد نے اس فیصلے پر سخت اعتراض کیا۔ بالآخر، طویل مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ مسجد کی دیواروں اور گنبدوں کو ملبے سے ڈھانپ دیا جائے اور اس کے اوپر ایک بلند پلیٹ فارم بنا دیا جائے۔
اسی طرح دہلی وقف بورڈ کی کچھ زمینوں کو یہ کہہ کر قبضے میں لیا گیا کہ وہ ”غیر محفوظ ہاتھوں“میں جا سکتی ہیں۔ دشمن کی جائیداد کے محافظ (Custodian of Enemy Property) نے متعدد مزارات اور قبرستانوں کو اپنے کنٹرول میں لے کر معمولی قیمتوں پر ہندو اور سکھ مہاجرین کو بیچ دیا۔ لادو سرائے کے علاقے میں ایسی زمینوں پر بڑے پیمانے پر قبضے کیے گئے۔
1980-81ءمیں، جب جگموہن لیفٹیننٹ گورنر تھے، جہاں کہیں پرانے مسلم قبرستان یا خالی وقف زمینیں تھیں، وہاں دلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (DDA) کے نام کے سائن بورڈ لگا دیے گئے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر آپ 2006ء کی فلم کھوسلا کا گھوسلا Khosla ka Ghosla کی کہانی سے مماثلت محسوس کر سکتے ہیں۔
اس ساری کہانی کا سیاسی پہلو یہ اجاگر کرتا ہے کہ کس طرح نہرو کی قیادت اور حکمت عملی نے بھارت کے ابتدائی دنوں میں ریاست کی تعمیر کے مشکل ترین چیلنجز کا سامنا کیا۔ بی جے پی کی جانب سے نہرو کو مسلمانوں کے حمایتی کے طور پر بدنام کرنے کی کوششوں کے برعکس، یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اقلیتوں کا اعتماد جیتنے کے لیے نہرو جیسے سیکولر اور دور اندیش رہنما کی ضرورت تھی۔ (جنہوں نے اگرچہ مسلمانوں کی فلاح وبہبود اور ان کے حقوق کے تحفظ کی جانب توجہ دی۔ لیکن دہلی کے وقف املاک غیر قانونی قبضہ ہمارے ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، جس کو بھلایا نہیں جا سکتا۔)
ترجمہ و ترتیب: ریحان بیگ ندوی