ٹرمپ کی دوسری جیت اور امریکی عالمی سیاست: خطرات و امکانات

ریحان بیگ ندوی

”ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ صدارتی جیت کے بعد یقینی طور پر امریکی خارجہ پالیسی ایک نئے دور کا آغاز کرے گی“

مذکورہ تحریر اٹلانٹک کونسل Atlantic Council کی جانب سے شائع کردہ تجزیہ بعنوان:

Donald Trump just won the presidency. Our experts answer the big questions about what that means for America’s role in the world

کا خلاصہ ہے۔ اٹلانٹک کونسل واشنگٹن، ڈی سی میں قائم ایک غیر سرکاری تھنک ٹینک ادارہ ہے، جو بین الاقوامی مسائل پر اپنی تحقیق، ڈپلومیسی و پالیسی سازی کے لیے مشہور ہے۔ ٹرمپ کی جیت کے اعلان کے کچھ ہی دیر بعد اس ادارہ کے محققین و ماہرین نے ایک لمبا تجزیاتی مضمون شائع کیا اور اس تجزیہ میں یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ ٹرمپ کی حالیہ صدارتی جیت عالمی سطح کے مسائل اور امریکی خارجہ پالیسی پر کیا اثرات مرتب کر سکتی ہے؟ اس کے کیا خطرات و امکانات ہیں؟

اس مضمون میں ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی پالیسی سے متعلق 22 متنازع اور ابھرتے موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔ جیسے کہ عالمی تجارت، روس یوکرین جنگ، نیٹو و دیگر عالمی ادارے، چین سے کمپٹیشن، مغربی ایشیائی (ہندوستان) اور افریقی ممالک سے تعلقات، امریکہ اور ترکی، اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان ابراہیمی معاہدہ، ایران اور نیوکلیئر ڈیل کا مسئلہ، تائیوان، نارتھ کوریا اور وینزویلا، اسی طرح قومی سیاست کے داخلی پہلو، اے آئی، ڈیجیٹل کرنسی، امریکہ کی طرف بڑھتی مہاجرتیں، ماحولیاتی تبدیلیاں اور گلوبل ڈیموکریسی پروموشن وغیرہ کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اور ان سب مسائل کے تئیں ٹرمپ کی جیت کے بعد کیا خطرات و مواقع ہیں؟ اس کی طرف قارئین کی توجہ کرائی گئی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ صدارتی جیت کے بعد یقینی طور پر امریکی خارجہ پالیسی ایک نئے دور کا آغاز کرے گی، جو غیر متوقعیت، جھول جھال، یک طرفہ اقدامات اور تعاون و اشتراک کے نقطہ نظر سے دوری سے عبارت ہوگی، جو کہ ایک لمبی مدت سےعالمی مسائل میں امریکہ کی شرکت کا خاصہ رہا ہے۔ ماہرین جب ٹرمپ کے سابقہ دورِ صدارت کے مضمرات کا تجزیہ کرتے ہیں، تو اس بات پر متفق ہیں کہ ان کی پالیسیوں نے عالمی نظام کو نمایاں طور پر از سر نو تشکیل دینے کا کام کیا اور امریکہ اور عالمی برادری دونوں کے لیے مواقع اور خطرات دونوں پیدا کیے۔ اس جیت کے بعد ان دونوں کے مزید بڑھنے کا امکان ہے۔

عالمی حکمرانی اور بین الاقوامی اداروں پر اثرات
بہت سے ماہرین اس بات کے تئیں فکر مند ہیں کہ ٹرمپ کی پالیسیوں سے اقوام متحدہ، عالمی تجارتی تنظیم اور نیٹو جیسے اہم بین الاقوامی ادارے کمزور ہو سکتے ہیں، جو کئی دہائیوں سے عالمی تعاون اور اس کی مضبوطی کی بنیاد رہے ہیں۔ ان کا کثیر الجہتی معاہدات اور عالمی معاہدوں کے بارے میں شکوک و شبہات اور دوطرفہ مذاکرات کو ترجیح دینے سے ایک ایسا تناؤ پیدا ہوگا، جہاں دیرینہ اتحاد اور تعاونی ڈھانچے میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ ماہر ناقدین کا استدلال ہے کہ یہ نقطۂ نظر بین الاقوامی اصولوں کے ٹوٹنے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ کو خود اس کے اپنے بنائے گئے لبرل نظام سے پیچھے ہٹا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر 2016ء میں ٹرمپ کے سابقہ صدارتی عہد میں پیرس معاہدے سے امریکہ کا اخراج عالمی ماحولیاتی قیادت اور تعاون سے پیچھے ہٹنے کی علامت تھا، اور بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ دوسرے ممالک بھی اس کی پیروی کر سکتے ہیں، جس سے بین الاقوامی تعاون اور عالمی وحدت و حصار بندی مزید منتشر ہو سکتی ہے۔

تاہم، کچھ افراد ٹرمپ کے بین الاقوامی اداروں کے بارے میں شکوک و شبہات میں ممکنہ فوائد دیکھتے ہیں۔ حامیوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا نقطۂ نظر دوسرے ممالک کو اپنی سیکیورٹی اور اقتصادی مفادات کی زیادہ ذمہ داری لینے پر مجبور کرتا ہے، جس سے ممکنہ طور پر امریکہ کا عالمی بوجھ کم ہو سکتا ہے۔ منصفانہ تجارتی معاہدوں کو فروغ دینے اور اتحادیوں کو دفاعی اخراجات کے لیے خود ذمہ دار بنانے کی کوششوں کے ذریعہ، ٹرمپ قلیل مدت میں امریکہ کے لیے زیادہ منصفانہ معاہدوں کی وکالت کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا یک طرفہ نقطۂ نظر امریکہ کو کثیر الجہتی مذاکرات کی پابندیوں کے بغیر کام کرنے کی زیادہ آزادی اور لچک فراہم سکتا ہے، جو کچھ جغرافیائی سیاسی حالات میں بے حد فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

مشرق وسطیٰ اور ابراہیمی معاہدے
ٹرمپ کی پچھلی عہد صدارت نے مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی میں نمایاں تبدیلیاں پیدا کی تھیں، ٹرمپ کا یہ جرأت مندانہ اقدام؛ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اور وہاں امریکی سفارتخانہ منتقل کرنا غیر معمولی طور پر متنازع رہا، ان فیصلوں پر اس ناحیہ سے سخت تنقید کی گئی کہ یہ فلسطینی امنگوں کو نقصان پہنچانے اور دو ریاستی حل کی کوششوں کو مزید پیچیدہ بنانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ڈپلومیٹک ماہرین جیسے مارٹن انڈیک Martin Indyk اور ڈینس راس Dennis Ross کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے لیے ٹرمپ کی غیر متزلزل حمایت، اگرچہ یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرتی ہے، لیکن اس نے فلسطینی مفادات کو پس پشت ڈال دیا ہے اور اسرائیلی فلسطینی تنازعے میں امریکہ کی غیر جانبدار ثالث کے طور پر ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ٹرمپ کے مختلف امن معاہدات، جس نے متنازعہ علاقوں پر اسرائیلی خود مختاری کو ترجیح دی، نے مزید تقسیم کو جنم دیا۔

تاہم، ٹرمپ کی انتظامیہ نے اسرائیل اور کئی عرب ریاستوں جیسے کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان تاریخی معاہدے کی بھی سہولت فراہم کی جسے ”ابراہیمی معاہدے“ کہا جاتا ہے۔ ان معاہدوں کو اگرچہ کچھ لوگوں نے سفارتی پیش رفت کے طور پر سراہا، دوسروں کے نزدیک یہ سطحی امن معاہدے ہیں، جو اسرائیلی فلسطینی تنازعے کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہیں گے۔ دیگر ماہرین جیسے رابرٹ میلی Robert Malley اور شبلی تلحمیShibley Telhami خبردار کرتے ہیں کہ یہ معاہدے فلسطینی امنگوں کو پس پشت ڈالنے کا خطرہ رکھتے ہیں اور عرب دنیا میں بڑھتے ہوئے غصے کا سبب بن سکتے ہیں، خاص طور پر اگر فلسطینی مسائل حل نہ کیے گئے۔ ان معاہدوں کے علاقائی استحکام پر وسیع تر اثرات ابھی تک غیر یقینی ہیں، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک نئے مشرق وسطیٰ کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ جبکہ دوسروں کا خیال ہے کہ یہ مزید بدامنی اور عدم استحکام کو جنم دے سکتے ہیں۔ مائیکل اورن (Michael Oren)  (سابق اسرائیلی سفیر اور ماہر خارجہ پالیسی) کے مطابق، ماضی میں ٹرمپ کی پالیسی اسرائیل کے لیے انتہائی فائدہ مند رہی ہے۔ ٹرمپ کا دوبارہ اقتدار میں آنا اسرائیل کے حق میں مزید اقدامات کا باعث بنے گا، جیسے کہ مغربی کنارے کے مزید حصوں کی ضمیت اور فلسطینی ریاست کے امکانات میں کمی۔

بحرین کے وزیر خارجہ خالد بن احمد آل خلیفہ کے مطابق ٹرمپ کی پالیسی عرب دنیا میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی سمت کو متاثر کر سکتی ہے۔ ان کے مطابق، اگرچہ ٹرمپ کی پالیسی کے نتیجے میں کچھ عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی جانب قدم بڑھایا ہے، مگر فلسطینیوں کی حالت میں بہتری نہ آنے کے سبب عرب عوام میں غصہ اور ردعمل کی لہر پیدا ہو سکتی ہے۔ ان کے مطابق، عرب حکومتوں کے لیے فلسطین کے مسئلے پر عوامی دباؤ کا سامنا کرنا مزید مشکل ہو گا۔ اسی طرح فلسطینی تجزیہ کار ولید ابو علی (Walid Abu Ali) کے مطابق ٹرمپ کی پالیسی فلسطینیوں کے لیے ایک تحریک کا سبب بن سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے اقدامات، جیسے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا، فلسطینیوں میں غصے اور مزاحمت کو بڑھایا ہے اور اب اس طرح کے مزید اقدامات فلسطینی گروہ، خاص طور پر حماس، ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کو بڑھا سکتے ہیں، جو پورے خطے میں تشویش کا باعث بن سکتی ہے۔ اس تجزیہ کی تائید تحریک حماس کے بیان سے بھی ہوتی ہے۔ یہ تنظیم کا آفیشل بیان ہے کہ موقفنا من الإدارة الأمريكية الجديدة يعتمد على موقفها وسلوكها العملي تجاه شعبنا الفلسطيني وقضيته العادلة (نئی امریکی انتظامیہ کے تئیں ہمارے موقف کی بنیاد فلسطینی کمیونٹی اور اس کے قضیہ کے تئیں امریکہ کے نظریہ اور کردار پر موقوف ہے(

ان سب کے باوجود، امریکہ اور اسرائیل کے اتحاد میں دراڑ پڑنے کا امکان بھی ہے۔ اسرائیلی فوجی تجزیہ کار عاموس ہرئل نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ”اگرچہ ٹرمپ نے حالیہ بیانات میں اسرائیل کی حمایت کا پرزور اعلان کیا ہے، لیکن اگر انہوں نے اپنی پالیسیوں کو ذاتی مفادات کی بنیاد پر ترتیب دیا، تو اس سے اسرائیل اور امریکہ کے اتحاد میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔“ تجزیہ نگار نے اس کی مثالیں بھی پیش کی ہیں۔

چین، روس، اور بڑی طاقتوں کا مقابلہ
چین اور روس کے بارے میں ٹرمپ کا نقطۂ نظر محاذ آرائی اور عملی حکمت عملی کا مرکب رہا ہے۔ چین کے ساتھ ان کی تجارتی جنگ ان کی صدارت کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک تھی، جس میں چینی اشیاء پر محصولات اور تجارتی پابندیاں عائد کی گئیں، تاکہ امریکہ کے تجارتی خسارے کو کم کیا جا سکے اور امریکی مینوفیکچرنگ ملازمتوں کا تحفظ کیا جا سکے۔ ماہرین جیسے ڈینیئل ڈریزنر Daniel Drezner کا کہنا ہے کہ چین کے ساتھ ٹرمپ کی جارحانہ تجارتی پالیسیوں سے عالمی سپلائی چینز کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور دنیا کو اقتصادی بحران اور اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، لیکن انہوں نے چینی انٹلکچول پراپرٹی کے طریقوں اور غیر منصفانہ تجارتی پالیسیوں پر طویل مدتی خدشات کو بھی اجاگر کیا۔ اس ”اقتصادی علیحدگی“ کے طویل مدتی اثرات عالمی منڈیوں پر سنگین اثرات مرتب کر سکتے ہیں، خاص طور پر اگر اس سے دو سپر پاورز کے درمیان ایک طویل اقتصادی سرد جنگ چھڑ جائے۔

دوسری طرف روس، ٹرمپ کے دور میں ایک طرف جغرافیائی سیاسی حریف رہا تو دوسری طرف کچھ معاملات میں ان کا شریک و پارٹنر بھی۔ ٹرمپ  انتظامیہ نے ماسکو کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی، پابندیوں کو رفع کیا اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی خوب تعریف کی۔ ٹرمپ کے اس نقطۂ نظر کو وسیع پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا، بشمول امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کے اندر کے ماہرین سے، جنہوں نے  امریکی انتخابات میں روسی مداخلت اور یوکرین اور شام میں اس کے عدم استحکام کے اقدامات کی طرف اشارہ کیا۔ ان سب کے باوجود روس کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کا امکان برقرار ہے، خاص طور پر اگر روس کی جارحانہ خارجہ پالیسی کے ساتھ ٹرمپ کی لین دین کی سفارت کاری کا تصادم جاری رہا۔

امریکی عوام اور ملکی سیاست
ملکی سطح پر، ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کو اکثر امریکی عوام میں مقبولیت اور قومیت کے حوالے سے ان کی اپیل کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ امیگریشن، تجارتی عدم توازن اور فوجی اخراجات جیسے مسائل پر توجہ مرکوز کر کے، ٹرمپ نے ان ووٹرز کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کی جنہوں نے عالمگیریت سے پیچھے رہ جانے کا احساس کیا اور عالمی مداخلت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ تاہم، یہ ”America first“ والے نظریہ نے سیاسی تقسیم کو بھی نمایاں کیا ہے، اور بہت سے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس سے پولرائزیشن اور امریکہ میں نظریاتی تقسیم گہری ہوئی ہے۔ اس نے امریکہ کے عالمی رہنما کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں، اور کچھ ایک ایسی خارجہ پالیسی کی واپسی کی وکالت کر رہے ہیں جو سفارت کاری اور کثیر الجہتی پر زور دیتی ہو۔

ممکنہ خطرات اور طویل مدتی نتائج
ٹرمپ کی صدارت کے امریکہ کے عالمی کردار پر طویل مدتی اثرات غیر یقینی ہیں، لیکن خطرات کافی ہیں۔ اگر ان کی پالیسیاں روایتی اتحادیوں کو الگ کرتی رہیں، دنیا کے اسٹیج پر امریکہ کی ساکھ کو کم کرتی رہیں اور عالمی عدم استحکام کو بڑھاتی رہیں، تو امریکہ ایک جڑے ہوئے اور کثیر قطبی دنیا میں خود کو تیزی سے الگ تھلگ پا سکتا ہے۔ ماہرین جیسے ارون ڈیوڈ ملر Aaron David Miller کا کہنا ہے کہ اگرچہ ٹرمپ کا ”سب سے پہلے امریکہ“ والا نظریہ قلیل مدتی فوائد کی حامل ہو سکتا ہے، لیکن یہ بالآخر امریکی قیادت کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور خاص طور پر مشرق وسطیٰ اور مشرقی ایشیا میں عالمی تنازعات کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ چین، روس اور دیگر طاقتوں کے عالمی امور میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے طاقت کا ایک ایسا خلا پیدا ہو سکتا ہے جس میں امریکہ اب وہ غالب پوزیشن نہیں رکھتا جو وہ کبھی رکھتا تھا۔

اختتامیہ
ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ صدارت امریکی خارجہ پالیسی کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوگی۔ اگرچہ ماضی میں ان کے مخصوص افکار نے امریکی معیشت کے کچھ شعبوں کو دوبارہ متحرک کیا اور ماہرین کے نزدیک یہی ان کی حالیہ جیت کا ایک بڑا سبب ہے، لیکن ان کے بیانات اور افکار نے قوم پرستی کے جذبات کو فروغ دیا ہے اور اس نے امریکہ کے دنیا میں رہنما کے کردار پر اہم سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ ٹرمپ کی حالیہ صدارت عالمی و ملکی سطح پر کئی پہلوؤں سے اثر انداز ہو سکتی ہے۔ امریکہ کی جانب سے عالمی قیادت میں کمی سے چین اور روس جیسے ممالک اپنی طاقت بڑھا سکتے ہیں، جس سے جیوپولیٹیکل کشمکش میں اضافہ ہوگا۔ چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ اور روس کی یورپ اور مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اس کی واضح مثالیں ہیں۔ امیگریشن، نسل پرستی اور معاشی عدم مساوات پر ان کی پالیسیوں سے امریکی معاشرتی تقسیم اور داخلی اختلافات مزید گہرے ہو سکتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں ٹرمپ کی پالیسی سے ہندوستان کو ترجیح اور افغانستان میں انخلا پر نئی شرائط ممکن ہیں، جو پاکستان کے لیے چیلنجز بڑھا سکتے ہیں۔ ماحولیاتی مسائل پر ان کے شکوک بین الاقوامی معاہدوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، جس سے عالمی ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ چین اور یورپ کے ساتھ تجارتی جنگ عالمی منڈی میں عدم استحکام اور ممکنہ معاشی بحران پیدا کر سکتی ہے۔ فلسطین کے خلاف مزید سخت اقدامات سے فلسطینی مزاحمت میں شدت آ سکتی ہے، جس کا اثر عالمی سطح پر اور خطے کے امریکی اتحادیوں پر بھی ہوگا۔

ان کی صدارت کے نتائج – ملکی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر آنے والے برسوں میں جب ظاہر ہوں گے، تب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ان کی ”America first“ والی اپروچ دنیا کے لیے کس قدر مفید ہوگی اور امریکہ کی ساکھ مزید مضبوط ہوگی یا انتشار و خلفشار کا شکار ہوکر دنیا کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردے گی۔

(مضمون نگار اللقاء الثقافی، لکھنؤ کے سابق سیکریٹری ہیں)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں