دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے 14/ستمبر 2020ء کو جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم عمر خالد کو فروری 2020ء میں شمال-مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات میں ان کے مبینہ کردار کے لیے سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (UAPA) کے تحت گرفتار کیا تھا۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ وہ ان فسادات کے اہم سازشی ہیں۔ چار سال مکمل ہونے کے بعد بھی وہ کسی ضمانت یا ٹرائل کے بغیر تہاڑ جیل کی انتہائی سیکیورٹی کی حامل قید میں ہیں۔ ان چار سالوں میں عمر خالد نے ضمانت کی خاطر مختلف عدالتوں سے رجوع کیا۔ (واضح رہے کہ) سپریم کورٹ نے متعدد مواقع پر (ضمانت کو ) ایک ”قاعدے“ کے طور پر بیان ہے، ایک ایسا قاعدہ جو یو اے پی اے جیسے خصوصی قوانین کے لیے بھی لائق اطلاق ہے۔ 36 سالہ جہد کار، جو ہنوزمجرم قرار نہیں دیے گئے ہیں بلکہ صرف ایک ملزم ہیں، کہتے ہیں کہ انہوں نے صرف ایک پرامن احتجاج میں حصہ لیا تھا۔
وسیع تر سازش کا حامل مقدمہ
فسادات کے بعد مختلف کیسوں کے تحت دہلی پولیس نے چند مہینوں کے اندرون 2500 افراد کو گرفتار کیا۔ ان مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے گذشتہ چار سالوں میں نچلی عدالتوں نے اکثر مواقع پر پولیس کو ناقص تفتیش پر ڈانٹ لگاتے ہوئے 2000 سے زائد افراد کو ضمانت دے دی ہے۔ 2020ء کے فسادات سے متعلق مقدمات میں ایک بڑا سازشی مقدمہ وہ ہے جس میں پولیس نے مسٹر خالد کو دیگر 17 افراد کے ساتھ ملزم قرار دیا ہے، جن میں سے کئی ضمانت پر رِہا ہیں۔
قید کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد پہلی مرتبہ انہیں مارچ 2022ء میں کارکاردوما عدالت کی جانب سے ضمانت دینے سے منع کر دیا گیا تھا۔ بعدازاں انہوں نے دہلی ہائی کورٹ کا رخ کیا ۔ ہائی کورٹ نے بھی اکتوبر 2022ء میں انہیں اس حوالے سے کسی بھی قسم کی راحت فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد جناب خالد نے ضمانت کی عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی ۔ فروری 2024ء تک سپریم کورٹ میں ان کی درخواست سماعت سے پہلے ہی 11 مہینوں میں 14 دفعہ ملتوی کی جا چکی تھی۔ یہ التوا کبھی فریقین میں سے کسی وکیل کی غیر حاضری کے باعث ہوا تو کبھی استغاثہ کی درخواست پر۔ اگست 2023ء میں جسٹس اے ایس بوپنا اور پی کے مشرا کی ایک بینچ نے عمرخالد کی سماعت کو یہ کہتے ہوئے ملتوی کر دیا کہ ”(ججوں کے) اس مجموعے میں سماعت نہیں کی جاسکتی“۔ بعد ازاں / 5 ستمبر 2023ء کو مقدمہ ایک بینچ کو منتقل کر دیا گیا جس کی قیادت جسٹس بیلا. ايم. ترویدی کر رہے تھے جسے جناب خالد کے وکیل کی درخواست پر ملتوی کر دیا گیا۔ اگلے موقع پر 12/ اکتوبر کو بینچ نے ”وقت کی کمی“ کا حوالہ دیتے ہوئے معاملے کو ملتوی کر دیا۔ نومبر میں ”متعلقہ سینئر وکلاء کی عدم دستیابی“ کے باعث ضمانت کی عرضی کو دوبارہ ملتوی کر دیا گیا۔
جنوری 2024ء میں دو مرتبہ مختلف وجوہات کی بنا پر ایسا ہی ہوا۔ 14/ فروری کو جناب خالد نے اپنی ضمانت کی درخواست ”بدلے ہوئے حالات“ کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے واپس لے لی۔ پھر دوبارہ انہوں نے ’وسیع تر سازش کے حامل مقدمے‘ کے دوسرے ملزمین کے ساتھ برابری اور تاخیر کی بنیاد پر ٹرائل کورٹ سے رجوع کیا۔ تاہم 28/ مئی کو انہیں ضمانت دینے سے انکار کر دیا گیا۔ اب یہ عرضی ہائی کورٹ کے جسٹس سریش کمار کیٹ اور گریش کٹھپالیہ کی بینچ کے سامنے ہے، جنہوں نے جولائی میں اس پر پولیس کا موقف طلب کیا تھا۔
بانو جوتسنا لاہری، جو دہلی کی ایک ریسرچر اور مسٹر خالد کی ساتھی ہیں، کہتی ہیں کہ(عمر) ”وہ شخص ہے جو لوگوں کو نفرت کا جواب محبت سے دینے کی ترغیب دیتا ہے“۔ عمر کے بنا کسی ٹرائل کے برسوں جیل میں مقید ہونے سے نالاں محترمہ لاہری کہتی ہیں کہ اب بس وہ اسی چیز کی امید کر سکتی ہیں کہ کم از کم ان کے مقدمے کی سماعت جلدی ہو۔
’ضمانت ایک قاعدہ ہے‘
حال ہی میں 13/ اگست کو سپریم کورٹ کے جسٹس ابھے ایس اوکا اور اگسٹاین جارج مسیح کی بینچ نے کہا کہ قانونی اصول ”ضمانت قاعدہ ہے، جبکہ جیل ایک استثنا ہے“ یو اے پی اے جیسے خصوصی قوانین پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ بینچ نے ایک ایسے فرد کو، جو انسداد دہشت گردی قانون کے تحت ملزم تھا ،ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ اگر عدالت قابل ضمانت مقدمات کو ضمانت دینے سے انکار کرنا شروع کر دے تو یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ جولائی میں جسٹس جے بی پاردیوالا اور اجل بھیان کی بینچ نے تبصرہ کیا کہ جرم کی نوعیت سے قطع نظر ایک ملزم کے حق ضمانت کو سزا کے طور پر روکا نہیں جاسکتا۔
سینئر وکیل سنجے ہیگڑے کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ ایک ”پولی ووکل (Polyvocal) کورٹ“ ہے، جس میں مختلف بینچ اپنی بات کہتے ہیں، یہ بینچس بعض اوقات ایک ہی مسئلے کو مختلف نظر سے دیکھتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ”عمر خالد کی ضمانت ایسے بینچ کے سامنے نہ آئی ہوگی جس نے حال ہی میں آزادی کے حق میں فیصلے سنائے ہیں“۔ انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ افراد ایسی تقاریر کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والی قید میں نہیں رکھے جاسکتے ، جن کے معنی مختلف افراد کے ذریعے مختلف طریقوں سے سمجھے جاسکتے ہو۔
انصاف کا مذاق
سینئر وکیل سنجے گھوس کہتے ہیں، ”یہ تمام لوگوں پر عیاں ہے کہ قتل اور عصمت دری جیسے گھناؤنے جرائم کے ملزمین بھی جناب خالد کی درخواست پر غور ہونے (کے دورانیے) سے بہت پہلے ضمانت پا لیتے ہیں۔ یہ انصاف کے ساتھ مذاق ہے ۔ یہ عمر نہیں بلکہ ہمارا نظام انصاف ہے جو ٹرائل پر ہے“۔
وکیل سوتک بنرجی کے مطابق، جناب خالد آئینی عدالتوں کے لیے یو اے پی اے میں ضمانت پر رکھی گئی قانونی پابندیوں پر آئینی حقوق کی بالادستی کی توثیق کرنے کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عمر خالد کے کیس میں جہاں مقدمے کی سماعت جلد ختم ہونے کا امکان نہیں ہے، مقدمے سے قبل چار سال قید آرٹیکل 21 کے تحت ان کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
(بہ شکریہ روزنامہ دی ہندو )