گیتانجلی شری کی کتاب tomb of sand – صفحہ قرطاس پر ایک اسی سالہ عورت کی کہانی کو رقم کرتی ہے جس کا تعلق شمالی ہندوستان سے ہوتا ہے۔ ناموافق حالات میں شوہر کا انتقال زندگی کی ہر دم حرکت کرنے والی چکی کو جمود کا شکار بنا دیتا ہے۔ ذہنی دباؤ، استقامت پسند انسانوں کا بھی عزم متزلزل کر دیتا ہے۔ یہی حالات مذکورہ خاتون کی زندگی کے پیچ و خم کا باعث بنے جس نے اسے مخنث (transgender) سے بھی دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے لیے مجبور کر دیا۔ یہ کچھ ایسی چیزیں تھیں جس نے اس خاتون کو اپنی بیٹی کی نظر میں جدیدیت پسند بنا دیا تھا۔
چند کرداروں کے گرد گردش کرتی یہ کہانی زندگی کے مد و جزر اور پیچ و خم کا خوب تر امتزاج ہے۔ کہانی میں اضطراب اس وقت بڑھتا ہے جب بوڑھی عورت پاکستان کے سفر کا اصرار کرتی ہے جو تقسیم ہند کے دلگداز واقعات کی یاد کو اس کے ذہن میں تازہ کر دیتے ہیں۔ گویا نو عمر ذہن پر نقش یہ تجربات زمانہ کو یہ بتانا چاہتے ہوں کہ ماں، بہن اور ایک عورت ہونے کا کیا مطلب ہے۔ مصنفہ حقوق نسواں کے اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کسی سنجیدہ روش اختیار کرنے سے اجتناب کرتی ہیں۔ نتیجتاً الفاظ کی سحر آمیز بندش اور کلام مزاح کے حسین امتزاج کی صورت میں ایک ایسی کتاب منظر عام پر آتی ہے جسے بوکر پرائز 2022 سے نوازا گیا۔
اس کتاب میں مصنفہ نے المیہ حقوق نسواں کے علاوہ سرحد پر بر سر پیکار ملکی و مذہبی تصادم کا بھی نقشہ کھینچا ہے۔ ابتدائی کلام کے بعد ناول تقسیم ہند سے قبل کی اس غیر حقیقی دنیا کی طرف بڑھتا ہے جو شاید کسی ماضی قریب میں آپ محمود احتشام کی ضامن ہو۔ ایک طرف ناول ماں کے تمسخر آمیز کردار کے ذریعے تابناک مستقبل کی خواہش کرتا ہے تو دوسری طرف ماضی کے ان دنوں کی یاد تازہ کرتا ہے جہاں زندگی سے مراد جذبات ہوتے تھے نہ کہ نظریاتی اور شناختی سیاست۔ اس سلسلے میں بہت سے لوگ اس ناول کو ایک ایسی کہانی سمجھنے لگتے ہیں جو گویا فیمینزم کا شاہکار ہو۔ اصل میں یہ انفرادیت( individualism) کی پرجوش، کاغذی زندگی کا نشان ہے۔
اس ارض فانی پر بسیرا کیے ہوئے انسان کی زندگی میں برپا ہونے والی ہلچل اس ناول کا مرکزی نکتہ رہا ہے،متعدد واقعات سے جس کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ شوہر کے لقمہ اجل بن جانے کے بعد 80 سالہ چندا بستر غم کو اپنی تنہائی کا رفیق بنا لیتی ہے اور اچانک ایسا واقعہ پیش آتا ہے جس سے اس کی زندگی تبدیل ہوجاتی ہے۔
کرداروں کے مابین گھومتی یہ کہانیاں تفصیلات کے اعتبار سے اکثر بے معنی نظر آتی ہیں۔شاید یہی زندگی کا اصول بھی ہے جس میں انسان اکثر روزمرہ کی چیزوں میں اس قدر مشغول ہوجاتا ہے کہ وہ لا متناہی امکانات کی دنیا کو خود سے جدا کر لیتا ہے۔ اسی طرح سیکڑوں انسان پیدا ہوتے ہیں اور پردہ عدم کے پیچھے چلے جاتے ہیں۔ اس امکانات کی دنیا کو وہی عبور کرتا ہے جو جنون کی حد تک اس زندگی کو نتیجہ خیز بنانے کی کوشش کرتا ہے۔
مصنفہ کی رمز شناسی اطراف و اکناف کی ہر چیز کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے ۔ وہ دیواروں، دروازوں، چلنے کی لاٹھیوں اور کووں کے اندرونی احساسات سے واقف ہے اورہر ذی روح اور غیر ذی روح کے ساتھ اس کی رغبت ایک قسم کی فضول گوئی کا سبب بن جاتی ہے۔ سبق 62 میں مصنفہ borges in passing کا ذکر کرتی ہے جو بتاتا ہے کہ یہ کہانیاں خوابوں سے کتنی قریب ہیں۔
ٹالسٹائی کے ناولوں کی ایک خصوصیت جس میں ایک ایسے کردار کو جو کہانی کا مرکزی کردار بن سکتا ہے سرے سے مسترد کر دینا، شری کی اس ناول میں بھی روزی حجرہ کی موت کی صورت میں آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔کرپٹک سبق 74 (cryptic chapter) میں روزی کی موت کہانی کے پلاٹ میں سنسنی خیز تبدیلی برپا کر دیتی ہے۔ جیسے ہی ہم صفحہ نمبر 500 پر پہنچتے ہیں مصنفہ کہانی کو حقیقی دنیا میں داخل کر دیتی ہےاور کہانی کو مرکزی نکتہ تک پہنچانے کے لیے کافی زیادہ وقت لیتی ہے۔
روزی کی موت کے بعد سے واقعات ایک خاص رفتار اور ایک مخصوص سمت اختیار کرتے ہیں۔ جہاں چندا اپنی آزاد خیال اور فیمنسٹ بیٹی کے ساتھ پاکستان روانہ ہوتی ہے۔ بیٹی مغربی خیال سے سرشار حقوق نسواں اور جنسی مساوات کے نغمہ گنگناتے ہوئے دشمن ملک میں داخل ہوتی ہے جو کبھی وسیع ہندوستان کے اتحاد کی علامت ہوا کرتا تھا، اس کا خیال تھا کہ اس کی ماں کا ماضی نسوانی استحصال کے سوا کچھ نہیں۔
پھر بھی tomb of sand ، ہندوستان اور پاکستان کے درمیان افراد کے تبادلے کا جو پروگرام تقسیم ہند سے قبل پیش آیا تھا اس سے قریب تر ہے۔ اس کتاب کی متعدد خصوصیات ہیں۔ اس کتاب میں کبھی جانبداری کا مظاہرہ نہیں ہوا، اس کبھی کسی مذہب سے متعلق سوال کھڑے نہیں کیے۔کتاب میں جذبات کے بجائے عقل کو آلہ کار بنایا گیا ہے حالانکہ کتاب ساخت کے اعتبار سے خشک واقع ہوئی ہے جس کی جانب مصنفہ کی کوئی توجہ نہیں۔ درحقیقت اس کتاب کی بہت بڑی صفت وہ خطرہ ہے جو ناول کے مغربی خیال پر کم سے کم توجہ دینے کے لیے تیار ہے۔
اس کتاب میں مصنفہ کی حیثیت ایک ذہین خیال افروز انسان کی سی ہے جو اس کے اطراف وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے قدرے پریشان ہے کہ اب جہاز، کمپاس کے تجویز کردہ سمتوں سے انحراف کرنے میں بالکل خائف نہیں۔ Tomb of sand جدید ادب کی ایک نمایاں مثال ہے جو ہر قاری کے لیے کشش جاذبہ رکھتی ہے۔
مبصر: نادیہ خان