قمری کلینڈر کا بارہواں اور آخری مہینہ “ذی الحجہ” ہے، یہ مہینہ اسلامی تعلیمات اور تاریخ اسلامی کے اعتبار سے خاص اہمیت و افادیت رکھتا ہے، زبان نبوت اس مہینے کے متعدد فضائل و مناقب میں گویا ہوئی ہے، یہ عظیم الشان ماہ جہاں ایک طرف سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل علیہما السلام کے لازوال کارناموں، بے مثال اخلاص اور بے لوث اطاعت و فرمانبرداری، خدا اور اس کی تعلیمات سے عشق و محبت، اور اس کے حکم کے سامنے سر نگوں ہونے کی داستان کو دوہراتا ہے، تو وہیں اللہ تبارک و تعالی کے نزدیک اس مہینے کے چند ایام دوسرے دنوں سے افضل ہیں۔ اسی ماہ میں اسلام کے اہم رکن “حج” کو ادا کیا جاتا ہے اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت”قربانی” ادا کی جاتی ہے۔
عید سعید، عید قربان، عید الاضحیٰ عشق و محبت، الفت و مودت کا پیغام، رب کی ربوبیت اور اطاعت و فرماں برداری کی یاد دہانی ہے، یوں تو عید ہر سال آتی ہے لیکن ہر سال عالم اسلام اور مسلمانوں کو اللہ کے دامن میں پناہ لینے اور اپنی سب سے قیمتی اشیاء جان و مال وغیرہ کو اللہ کی راہ میں محض اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے قربان کرنے کا پیغام دیتی ہے، یہ ایک جشن، خوشی اور تہوار ہے اس شخص کے لیے جس کا دل محبتِ رب ذوالجلال سے معمور ہو، جس کو اسلامی تعلیمات و شعار سے محبت ہو، سیدنا ابراہیم علیہ السلام، سیدنا اسماعیل اور حضرت ہاجرہ کی لازوال قربانیاں دل پر ثبت ہوں، عید الاضحیٰ نام ہے آزمائشوں کے سرد کرنے کا، کانٹوں سے سلامت نکلنے کا، خارزار وادیوں میں قدم رکھنے اور کوہ کنی کو رو بہ عمل لانے کا، اس کے اندر پیغام ہے دین کے ہر شعبے میں کام کرنے والے افراد کے لیے کہ اس عظیم الشان کام میں اللہ تبارک وتعالی طرح طرح کی مصائب و مشکلات میں ڈال کر آزمائش و امتحان لے گا۔ اسلام کی سر بلندی، دین اسلام کی اشاعت، پرچم اسلام کو افق عالم پر لہرانے کے لیے داعیوں، مجاہدوں، واعظوں، مدرسوں اور قلم کاروں کو اس جد و جہد کے دوران کفار و مشرکین اور عالم رنگ و بو کے نام نہاد انسانیت کے ٹھیکے داروں اور امن و سلامتی کے پاسداروں کی طرف سے طرح طرح کی تکلیفوں سے دوچار کیا جائے گا، ظلم و مصائب کا نشانہ بنایا جائے گا، الزام و اتہام کی یورشیں کی جائیں گی، جیل کی کال کوٹھریوں، زنداں کی تاریکیوں اور بم و اجتماعی تشدد کا شکار بنا جائے گا، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یہ عظیم قربانی ہمارے لیے راہ نما ہے، ہم ظلم کے سامنے سد سکندری ثابت ہوں، مصائب کی وجہ سے حق کا دامن نہ چھوڑیں حتی کہ ہم اپنی جان، مال اور ان سب سے عزیز اپنی اولاد کو قربان کردیں۔
موجودہ عالمی صورتحال سے ہر خاص و عام واقف ہے، غزہ میں میں گزشتہ 215/ دنوں سے مسلسل سفاکیت اور ظلم کا سلسلہ جاری ہے۔ 35/ ہزار سے زائد فلسطینی عوام صہیونی ظلم و بربریت کا شکار ہوچکے ہیں،جس میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ ہزاروں بچے یتیم ہوچکے ہیں، ہزاروں خواتین بیوہ ہوچکی ہیں، غزہ میں ہر طرف لاشیں ہی لاشیں ہیں، چیخ و پکار ہیں، آہ و بکاء کا دور دورہ ہے۔ اسرائیلی کی سفاکیت اور عالمی جنگی قوانین کے خلاف ورزی کے باوجود بھی فلسطینی بچوں، خواتین اور بزرگوں کی آہ و بکاء مسلم ممالک کے بے حس حکمرانوں کو جگا نہیں سکی، ایک طرف امریکہ اور دیگر فسطائی طاقتوں نے علی الاعلان اسرائیل کی مدد کی تو دوسری طرف ہمارے مسلم اور عرب ممالک ہیں جو گاہے بہ گاہے چند ایک ہلکے پھلکے بیانات پر اکتفاء کررہے ہیں، جو کہ صدا بصحرا ثابت ہو رہے ہیں۔ موجودہ عالمی صورت حال سے ہر کس و ناکس واقف ہے۔ موجودہ صورتحال میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی اور آپ کی سیرت مبارکہ سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟ زیر نظر مضمون میں اسی پہلو کو اجاگر کرنے کوشش کی جارہی ہے۔
ابراہیمؑ کی زندگی قربانیوں، آزمائشوں اوراطاعتوں کی لازوال داستان ہے۔ جب ہم حضرت ابراہیمؑ کی زندگی اور آپ کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں آپ کی زندگی کے درج ذیل روشن پہلو خاص طور پر نمایاں نظر آتے ہیں :
- اطاعت و فرماں برداری
- حق پرستی
- ظالم حکمراں سے نبرد آزما ہونا
- باطل کے مقابلے میں جان کی قربانی
- ہجرت
- اپنی قیمتی متاع کی قربانی
موجودہ عالمی صورت حال خصوصاً عربوں کی سرزمین کے ایک چھوٹے سے حصہ “غزہ” کی صورت حال کے تناظر میں سیرت ابراہیمی سے پوری امت کو رہنمائی اور متعدد سبق ملتے ہیں، حضرت ابراہیمؑ کی پوری زندگی باطل طاقتوں سے مقابلہ، حق کی اشاعت، قربانی اور ابتلاء و آزمائش میں گزری ہے۔ غزہ میں انسانیت کی نسل کشی در حقیقت امت مسلمہ کا امتحان ہے، امت مسلمہ کے ابتلاء و آزمائش ہے کہ اس نازک صورتحال میں امت حق کی حمایت میں کھڑی ہے یا باطل کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہے۔ یہ عالم اسلام کے ان تمام رہنماؤں کا ایک امتحان ہے، جو زمین کے مختصر یا طویل حصے پر کسی نہ کسی حیثیت سے حکمران ہیں۔ سیرت ابراہیمی کا پیغام ہے کہ ہم خدا کی مکمل اطاعت و فرمانبرداری کریں۔ خدا کے سامنے سر نگوں ہو جائیں۔ اس کے حکموں پر سر تسلیم کرلیں، خدا کا حکم ہے کہ مظلوم مسلمانوں کی مدد کی جائے، باطل طاقتوں سے امت مسلمہ کی حفاظت کی جائے۔
سیرت ابراہیمی سے امت کے حکمراں طبقہ کو یہ سبق و رہنمائی ملتی ہے کہ اپنے ذاتی مفاد کو درکنار کرکے امت مسلمہ کے مفاد میں سوچیں اور غزہ کے مسلمانوں کی مدد کریں، سیدنا ابراہیمؑ نے اپنے وقت کے ظالم و جابر بادشاہ کے سامنے توحید کا علم بلند کیا، آپ کو ہر طریقے سے روکنے کی کوشش کی گئی اور آخر میں دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا گیا، سیدنا ابراہیم اپنی قیمتی جان کو راہ خدا میں قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے، لیکن حق سے ایک بالشت بھی پیچھے نہیں ہٹے، آج اگر امت مسلمہ کے حکمرانوں کو محض فلسطین اور اہلیانِ فلسطین کی حمایت اور مدد کی وجہ سے اپنے ذاتی مفاد سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے، اپنی حکمرانی اور سلطنت کے جانے کا خدشہ ہے، فسطائی طاقتوں کی مخالفت کا اندیشہ ہے، تو ان تمام مصائب و مشکلات کے باوجود بھی سیرت ابراہیمی کا تقاضا ہے کہ ہمارے حکمراں غزہ کی حمایت میں کھڑے ہوں، علی الاعلان فلسطینیوں کی مدد کریں، خواہ اس کی وجہ سے ان کو اپنی قیمتی متاع “حکمرانی” سے ہاتھ دھونا پڑ جائے۔
موجودہ عالمی صورتحال کے پس منظر میں اگر عوامی نقطہ نظر سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ آپ نے ظالم و جابر حکمراں کے سامنے حقیقت بیانی کی اور حق کی حمایت کی۔ یہیں سے ہمیں خاص طور سے عربی اور اسلامی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو یہ سبق اور پیغام ملتا ہے کہ اگر ان کی حکومتیں اور حکمراں طبقہ امت کے مفاد کے لیے نہیں کام کررہا ہے؛ بلکہ یہ لوگ باطل طاقتوں کی نصرت و حمایت کررہے ہیں تو ایسے ممالک کی عوام کو چاھئے کہ اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں۔ حکومت کو اس بات کا احساس دلائیں کہ وہ فلسطینی مسلمانوں کی مدد کریں۔ اپنے احتجاجات کے ذریعہ حکمراں طبقہ کو مجبور کیا جائے کہ وہ امت کے مفاد کے لیے کام کریں۔ سیرت ابراہیمی سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ اگر ہم ظالم و جابر حکمرانوں سے نبرد آزما ہوئے تو ہمیں مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، حکومت وقت کی سختیوں کو برداشت کرنا پڑے گا، زنداں کی تاریکیوں کو آباد کرنا پڑے گا اور پھانسی کے پھندے کو چومنا پڑے گا، اپنے ملک اور اپنی سرزمین کو چھوڑ کر جانا پڑ جائے گا، لیکن ان عارضی سزاؤں کے باوجود بھی سیرت ابراہیمی کا پیغام ہے کہ ہم باطل کے سامنے سد سکندری بن کر کھڑے ہوں،حق کو حق اور باطل کو باطل کہیں۔ تمام مصائب و مشکلات اور تکالیف کے باوجود بھی حق کا دامن نہ چھوڑیں، اگر ہم حق کی حمایت میں کھڑے ہیں، امت کے مفاد کے لیے کوشش کررہے ہیں، تو خدا لم یزل ہماری اسی طرح مدد کرے گا جیسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی کیا تھا۔
سیدنا ابراہیم کی زندگی کا ایک روشن پہلو محض خدا کی اطاعت کے لیے اپنے اکلوتے فرزند کو راہ خدا میں قربان کرنا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے لیے سب قیمتی متاع ان کے اکلوتے فرزںد سیدنا اسماعیل علیہ السلام تھے، لیکن جب خدا کا حکم ہوا کہ راہ خدا میں اپنے بیٹے کی قربانی کی جائے تو ضعیف والد اپنی اکلوتی اور لاڈلی اولاد کو بلا چوں چراں قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ سیدنا ابراہیم کی زندگی کے اس روشن اور اطاعت و فرمانبرداری کے اعلی درجے کے واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم خدا کی راہ میں اپنی قیمتی متاع اور قیمتی سامان کو لگانے میں دریغ نہ کریں۔ آج امت مسلمہ کی ایک قوم اور ہمارے بھائیوں بہنوں پر ظلم و ستم کیا جارہا ہے، 215/ سے زائد دنوں سے ان کا محاصرہ کیا گیا ہے۔ ان کے کھانے پانی تک کو روک دیا گیا ہے، بچے بھوک سے نڈھال ہوکر جان دے رہے ہیں، لوگ سمندر کا کھارا پانی پینے پر مجبور ہیں، ایسی صورتحال میں سیرت ابراہیمی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اپنے محنت اور پسینے سے حاصل کی ہوئی اپنی قیمتی کمائی کا ایک بڑا حصہ اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کی امداد کے لیے خرچ کریں، ان کے کھانے پینے اور دیگر لوازمات کا انتظام کریں۔ سیدنا ابراہیم کی سیرت طیبہ کے اس اہم واقعے سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ اگر امت کے لیے ہم کو اپنی قیمتی جان کی ضرورت ہے تو اپنی جان امت کے لیے قربان کردیں۔ اگر امت کے لیے ہماری آل و اولاد کی ضرورت ہے تو امت کے مفاد کے لیے ان کو قربان کردیں۔ اگر امت کو ہمارے پیسوں کی ضرورت ہے تو ہم اپنے قیمتی مال کو امت کے مفاد کے لیے قربان کردیں۔ امت کو اگر ہماری زمین و جائیداد کی ضرورت ہے تو ہم اپنی زمین و جائیداد امت کے نام وقف کردیں۔ امت کا مفاد اگر اسرائیلی پروڈکٹس کے بائیکاٹ سے وابستہ ہے تو ہم عہد و پیمان کریں کہ ہم اسرائیلی پروڈیکٹس سے حتی الامکان بچیں گے۔ اسرائیلی کی معیشت میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی بھائیوں بہنوں کی پیٹھ میں خنجر نہیں گھونپیں گے۔
الغرض موجودہ عالمی صورتحال بہت ہی ناگفتہ بہ ہیں۔ غزہ کی صورتحال نے ہر دل و دماغ کو لرزا دیا ہے۔ ہر دل اسرائیلی سفاکیت و بربریت کو دیکھ دہل اٹھا ہے۔ موجودہ حالات میں ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ سیرت ابراہیمی کی پیروی کریں، حضرت ابراہیم کی زندگی سے سبق حاصل کریں اور موجودہ عالمی صورتحال میںں ہم پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ان کو بخوبی انجام دیں۔ اطاعت و فرمانبرداری کا ثبوت دیں۔ خدا کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم ہو جائیں۔ حکمراں طبقے کو چاہیے ذاتی مفاد سے اٹھ کر امت کے مفاد کے لیے کھڑے ہوجائیں۔ عوامی سطح پر امت کو بیدار کیا جائے، امت کے غیور نوجوان کو اپنی اپنی حکومتوں کو صحیح راستے دکھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
(مخمون نگار جامعی ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں بی اے اسلامیات کے طالب علم ہیں۔)