دور حاضر میں ٹیکنالوجی کی بے انتہا ترقی اور اس کےسماجی اثرات نے عالمی سطح پر بحث چھیڑ دی ہے۔ اسی پس منظر میں سید سعادت اللہ حسینی لکھتے ہیں کہ،
“ہم بہت تیزی سے ایک ایسی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں بِگ ڈایٹا (big data)، سب سے بڑی تمدنی قوت بن جائےگا۔ اور ایک ایک انسان کی ایک ایک لمحہ نگرانی (surveillance) اور اس کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت فراہم کرے گا، جہاں حکمرانی اور بڑے فیصلے الگورتھم کریں گے اور اس کے نتیجہ میں الگوکریسی (algocracy) بلکہ اس سے آگے بڑھ کر الگورتھمک ڈکٹیٹر شپ (algorithmic dictatorship) کی راہیں ہموار ہوں گی، جہاں آگمینٹیڈ رئیلٹی (augmented reality) کا انقلاب میڈیا کو انسانی افکار و خیالات بلکہ تصورات پر تک غیر معمولی کنٹرول فراہم کرے گا، جہاں بلاک چین (block chain) مالیات، سارے مالیاتی نظاموں اور لین دین کے تمام معروف طریقوں کو درہم برہم کرکے رکھ دے گی اور جہاں مصنوعی ذہانت (artificial intelligence) کی حامل مشینوں پر انسان کا ہر چھوٹے سے چھوٹا قدم منحصر ہوگا”۔1
جہاں ٹیکنالوجی کی صنعت نے انسان کو غیر معمولی فوائد اور بلندی بخشی ہے وہی اس کے شدید نقصانات بھی ہوئے ہیں۔ کیونکہ ٹیکنالوجی خود اپنے آپ میں ایک غیر جانبدار (neutral) شئے ہے۔ اس کے متعدّد مسائل میں سے ایک نازک اور پیچیدہ مسئلہ انسان کی نجی معلومات (privacy)کو بازار کی زینت بنادینا ہے، جس کی حفاظت کی ذمہ داری راست طور پر ریاست کی ہوتی ہے اگرچہ کہ دیگر ادارہےبھی اس کے لئے ذمہ دار ہیں۔آج دنیا کی ساری حکومتیں ٹیکنالوجی کااستعمال ترقی اور اپنے ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے بڑے پیمانے پر کر رہی ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے نامناسب اور خلاف قانون استعمال ہونے کا خدشہ اب حقیقت بن کر سامنے موجود ہے۔ اگر گفتگو پرائیویسی جیسے نازک موضوع کے استحصال کے تحت ہی کی جائے تو دکھائی دیتا ہے کہ معاشرتی استحکام اور اس جیسے دوسرے کئی حوالوں کے نام پر حکومتیں سیاسی مفادات، متعصبانہ خیالات اور دوسرے مقاصد کے زیر بار ٹیکنالوجی کا اطلاق کرتے ہوئے پرائویسی کے استحصال، بے جا مداخلت و نگرانی ،ناجائز طریقے سے افشائے راز اور انسان کی نجی معلومات کو نذر عام کرنے کے لئے پوری طرح کمربستہ ہیں۔ گويا کہ انسان کی مکمل ذاتی زندگی خرید و فروخت کے لئے معاشی بازار اور ریاستی منڈی کا حصہ بن چکی ہے جو کہ فطرت و حقوق انسانی اور آزادی کے مکمل مغائر ہے ،جس کی ضرب شمشیر سے زیادہ تیز اور جس کا اثر زہر سے زیادہ پُر خطر ہوتا ہے ۔ جب اس مسئلہ کو قانونی اداروں کی جانب سے نظر انداز کردیا جائے تو ایک فتنہ انگیز ماحول برپا ہوجاتا ہے۔
آرٹیفیشل ٹیکنالوجی، روبوٹکس، آٹومیشن، انٹرنیٹ وغیرہ اس دور کی ٹیکنالوجی کی صنعت کے اہم ایجادات میں سے ہیں ۔چونکہ ہم پرائیویسی کے موضوع کو زیر بحث لائے ہیں اس لئے اس مضمون میں چہرے کے شناخت کی ٹیکنالوجی facial recognition technology جو کہ بایومیٹرک سیکیورٹی کا ایک اہم زمرہ ہے،سے متعلق گفتگو کی جائے گی ۔
چہرے کے شناخت کی ٹیکنالوجی(FRT) کیا ہے؟
آسان لفظوں میں FRT چہروں کی دو تصاویر کا موازنہ کرنے کا ایک خودکار عمل ہے۔ اس کا مکمل پروسیس کچھ اس طرح ہے کہ ایڈوانس کیمروں اور دوسرے ذرائع سے قید کیے گئے فوٹوز اور ویڈیوز کے ذریعے سب سے پہلے کسی انسان کی مخصوص یا مجمع میں سے تصویر قید کی جاتی ہے ، پھر اس کی شناخت کے لیے علمِ ہندسہ (Geometrical reading) اور سافٹ ویئر کااستعمال کرتے ہوئے مختلف جہتوں سے تصویر کو پرکھا جاتا ہے مثلاً پیشانی اور ٹھوڑی کے درمیانی فاصلے، کاسہ چشم اور پردہ چشم (eye lens and retina)، ہونٹ کان اور گال کے نقش و نگار وغیرہ جیسے جملہ اڑسٹھ عوامل کی بنیاد پر کسی چہرے کی نشاندہی کی جاتی ہے2 ۔ پھر اس تصویر کو ڈیٹا کی شکل دینے کے لیے ریاضیاتی فارمولا کی مدد سے (face print) بنایا جاتا ہےبالکل (finger print) کی طرح۔ جس طرح ہر انسان کا فنگر پرنٹ دوسرے انسان سے یکسر مختلف ہوتا ہے اسی طرح ایک انسان کا فیس پرنٹ بھی سب انسانوں سے یکتا اور منفرد ہوتا ہے3۔ اس طرح آخر میں یہ تصویر database کا حصہ بن جاتی ہے۔
” ان کیمروں کی مدد سے ہجوم میں بھی مطلوبہ افراد کی شناخت کی جاسکتی ہے، چاہے کسی نے ماسک پہنا ہویا پھر چہرے پر میک اپ کیا ہو۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے کئی دہائیوں پرانی تصویر سے بھی انسانوں کی شناخت کی جاسکتی ہے۔4“
یہ FRT اچانک سے ڈیولپ نہیں ہوئی بلکہ بیسویں صدی کے نصف آخر سے ہی لوگ اس کی کھوج میں ہمہ تن مصروف تھے ۔ پھر مختلف ادوار میں ترقی کرتے کرتے آج اس نے یہ مقام بھی حاصل کرلیا کہ کئی معاشی، سیاسی ، انتظامی اور معاشرتی امور بھی اب اس ٹیکنالوجی کے زیر اثر ہے۔ ولسن بلیڈسو (wilsenbledsoe) کو اس ٹیکنالوجی کا بانی کہا جاتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے موجد کے پیش نظر کیا مقاصد تھے اس سے زیادہ یہ جاننا ہماری ترجیح ہونی چاہئے کہ موجودہ وقت میں عالمی سطح پر اس ٹیکنالوجی کو کن اغراض کے تحت اور کس طرح استعمال کیا جارہا ہے ۔
اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے پیش نظر مختلف ملکوں کے اپنے مقاصد و مفادات ہیں جن کی توضیح کافی تحقیق طلب ہے لیکن کچھ عمومی نکات ایسے ہیں جسے سارے ملکوں نے ملحوظ رکھا مثلاً تحفظ عامہ، قانون کا نفاذ ، انٹلیجنس، انتظامی امور میں آسانی اور پختگی، نئے معاشی ترقی کے مواقع وغیرہ جیسے امور ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈیٹا کس طرح حاصل کیا جاتا ہے؟اس کا جواب بہت آسان ہے، سوشل میڈیا کے سوداگروں (marketers) کے ذریعے، ذاتی دستاویزات کے ذریعے، عوامی جگہوں پر لگوائے گئے surveillance system کے ذریعے، فون کی face ID سے لے کر ایئرپورٹ تک چسپاں کیمروں کے ذریعے وغیرہ جیسی چیزوں کی مدد سے بہت سارا مواد حاصل ہوجاتا ہے۔
اس مسئلہ کی حساسیت، پیچیدگی اور اس کے مضراثرات کا اندازہ سرسری نظر سے بھی لگایا جاسکتا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کے چند عملی ماڈلز پر گفتگو ہو کہ کس طرح مختلف ممالک ان کا استعمال کرتے ہیں اور اس کے ذریعے عوام کے مخصوص حصہ کو کیسے اس کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔
اسرائیل اور چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی
آج اسرائیل چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی کا مرکز بنا ہوا ہے اور پوری تندہی کے ساتھ اُس کے استعمال اور خرید و فروخت میں مصروف ہے۔ ان قابضین نے اپنے ڈیجیٹل رکگنیشن نظام کے تحت فلسطینیوں کا جینا محال کر رکھا ہے۔اس آزردہ حقیقت کا تعارف کرواتے ہوئےایک رپورٹ نے اپنی سرخی کچھ اس طرح سجائی ” اسرائیل کے اس ڈیجیٹل نظام کی نگرانی میں فلسطینیوں کے لیے اب چھپنے کی کوئی جگہ باقی نہیں ہے ۔۔۔”۔ اپنے mass data میں اضافے کے لیے باضابطہ پولیس اور فوج کو بطورِ ٹارگٹ یہ احکامات جاری کیے جاتے ہیں کہ فلاں وقت میں اتنے فوٹوز کا ڈیٹا ریکارڈ ہوجانا چاہیےا گر کوئی افسر ٹارگٹ مکمل نہیں کرتا تو وہ ڈیوٹی سے فارغ نہیں ہوسکتا۔ اس کے حصول کے لیے مقابلہ جاتی طرز پر بھاگ ڈور کی جاتی ہے اس کے لئے کئی مرتبہ گھروں میں گھس گھس کر زبردستی فوٹو لی جاتی ہے اور پھر جس نے سب سے زیادہ تصاویر قید کی اُسے انعام بھی دیا جاتا ہے ۔ blue wolf نامی ایک اپلیکیشن ہے جہاں مکمل ڈیٹابیس جمع ہوتا ہے اور اسی کے ذریعے آسانی کے ساتھ کسی کی بھی نشاہدہی کی جاسکتی ہے۔حد تو یہ ہے کہ پولیس کو بھی اس ڈیٹا تک رسائی حاصل ہے جس سے وہ بآسانی کسی بھی متعلقہ شخص کے بارے میں ہر قسم کی معلومات حاصل کرسکتے ہیں ۔بڑےاچھنبے کی بات یہ ہے کہ اگر اس ایپلیکیشن میں کسی شخص کا نام لال اور زردرنگ کے ڈیٹا کی فہرست میں آتا ہے تو اُسے فوراً گرفتار اور حراست میں لیا جاتا ہے جب کہ سبز رنگ والی فہرست کے افراد رخصت کردیئے جاتے ہیں ۔صورتحال اس قدر سنگین ہے کہ الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق آج فلسطینیوں کے حالات “ڈسٹوپین سائنس فکشن ناول” کی کہانیوں کے مصداق ہے(ڈسٹوپین ایک خیالی اور تصوراتی حالت کو کہتے ہیں جس میں زندگی کے حالات انتہائی خراب ہوں جیسا کہ محرومی، جبر اور دہشت)۔ مکمل نگرانی کے ضابطے کے تحت فلسطینیوں کو ایسے معاشرتی اور نفسیاتی تسلط میں جکڑدیا گیا ہے کہ ہر ایک فلسطینی کی خبر اسرائیل کے یہاں محفوظ ہوتی ہے حتیٰ کہ فون میں ناجائز طریقے سے مختلف اسپائے ویر کے ذریعے فون کی گفتگو کو کھوجنا، انٹرنیٹ سرچ اینڈ واچ ہسٹری کی نگرانی کرنا بہت عام ہے۔ اب تو بہت جلد ہوا میں ڈرون کی مدد سے فیشل رکاگنیشن کے کام کو انجام دیا جانے والا ہے۔ایسی سینکڑوں تہلکہ انگیز کوششیں اس FRT کی مدد سے کی جارہی اور جانے والی ہیں۔ ہزاروں رقت انگیز داستانیں ہیں جو اس ٹیکنالوجی کے سہارے مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل نے رقم کر رکھی ہے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اسرائیل نے جب اس ٹیکنالوجی کا تعارف کروایا تو اس وقت اس کے مقاصد میں قانون کی عمل آوری، جرائم کی آسانی سے سراغ رسانی، فوج اور شہریوں کے درمیان تصادم کو روکنا وغیرہ کو بتایا گیا لیکن امر واقعہ کیا ہے اس کی بہت سرسری جھلک مندرجہ بالا نکات میں گزرچکی ہے۔ 5،6،7،8،9،10
اسی طرح چین میں بھی جاری ایغور Uyghur مسلم اقلیت کی بے رحمانہ نسل کشی (genocide) میں بھی ڈیجیٹل ہتھیاروں کا بھرپور اور بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا رہا ہے، حتیٰ کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور چہرے کی شناخت کے کیمروں کے ذریعے ان کے جذبات کو جانچنے کے بھی تجربات کیے گئے ۔ ان جیسے مختلف تجربات کے لیے ایغور مسلمانوں کو استعمال ایسے کیا جاتا رہا ہے جیسے لیبارٹریوں میں چوہوں کا استعمال ہوتا ہے۔ وہاں ظلم کو بڑی آسانی کے ساتھ اپنی انتہا کو پہنچانے میں FRT کا کلیدی اور موثر رول رہا ہے۔ 2021 ء کی بی بی سی کی شائع کردہ رپورٹ میں کئی ایسے انکشافات درج ہیں جس سے کہ قاری دنگ رہ جائےگا،ان کی تفصیل کا یہا ں موقع نہیں ہے ۔ اسی طرح دوسرے ممالک بھی اپنے اقلیتوں اور نسلی گروہوں کے خلاف ایسے ڈیجیٹل ہتھیار کا استعمال کرتے ہیں۔
ہندوستان میں صورتحال
آئیے آخر میں مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) اور چہرے کے تعین کی ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے دنیا کے مشہور اور جمہوری ملک ہندوستان اور اس کی ریاست تلنگانہ پر بھی ایک نظر ڈالتے ہے۔
“فیشل رکوگنیشن ٹیکنالوجی، ہندوستان میں قابو سے باہر ہے” یہ دراصل ایک بین الاقوامی نیوز چینل “وائس نیوز” کی ایک رپورٹ کا سرنامہ یعنی سرخی ہے بہرحال اس عنوان سے صرف ایک ہی مفروضہ ذہن کا چکر کاٹ سکتا ہے اور وہ یہ کہ “ہندوستان ایک بدنظمی اور بے اطمینانی والی سرگزشت میں رواں ہے” لیکن پھر بھی تفصیل کے ساتھ حالات كا جائزہ ہی مناسب و مطلوب نتیجے کی طرف قدم بقدم ملتفت کر سکتا ہے۔12
گزشتہ دو دہائیوں میں ہندوستان نےزینہ بزینہ digitalisation اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی ہے۔ 2010 سے بایو میڑک ٹیکنالوجی کو موثر متبادل ریکاگنیشن ٹول کے طور پر استعمال کیا گیا لیکن مزید اُبھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کے سامنے یہ ٹیکنالوجیکل ٹول بین الاقوامی سطح پر مقبولیت اور مقام نہیں پاسکا جو کہ چہرے کے شناخت کی ٹیکنالوجی نے حاصل کیا ہے۔ اُس ٹکنالوجی کا بڑے پیمانے پر اطلاق بھی شروع ہوچکا تھا باوجود یہ جانتے ہوئے کہ فیشل ریکوگنیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے عوام الناس کی ذاتی معلومات کی حفاظت خطرے سے خالی نہیں رہتی۔ اس سے قطع نظر یہ مقصد بتایا گیا کہ مستحکم ٹیکنالوجی کے نظام کےذریعےنگرانی کو بہتر بنانے، جرائم کو روکنے اور حفاظت کو یقینی بنانے کا ایک روشن منصوبہ ہے لیکن یہ اس کا یک طرفہ استعمال معلوم ہوتا ہے۔13
آج ہندوستان بڑی تیزی کے ساتھ ٹیکنالوجی کے استعمال سے آگے بڑھ رہا ہے حیدرآباد، دہلی اور چننئی کو عالمی سطح پر ایسے شہروں میں شمار کیا جاتا ہے جو مکمل طور پر ٹکنالوجی کےذریعے زیر نگرانی ہیں۔ موبائل فون سے لے کر ایئر پورٹ میں بھی چہرے کے شناخت کی ٹیکنالوجی کا استعمال ہورہا ہے۔ دیگر ریاستوں کی طرح تلنگانہ بھی اس ٹکنالوجی کے استعمال میں پیش پیش ہے۔
تلنگانہ اور فیشل رکاگنیشن ٹیکنالوجی
تمام امور کو باریک بینی سے سمجھنے کے لیے چندچیزوں کی وضاحت ضروری ہے ۔ کورونا وائرس کی دوسری لہر کے relaxation کے محدود اوقات میں جناب ایس کیو مسعود چھتہ بازار، حیدرآباد میں ایک سڑک پر اپنی گاڑی پر سوار تھے، اتنے میں کچھ پولیس اہلکار ان کو روکتے ہیں، مسعود صاحب بڑے ہی حُسنِ زن کے ساتھ اپنی گاڑی بازو میں لیتے ہیں یہ سوچتے ہوئے کہ لائسنس اور گاڑی کے دستاویزات دکھا کر بنوں گا، لیکن صورت واقعہ اس کے برعکس ہوتی ہیں، پولیس افسر نے ان سے کہتے ہیں کہ ماسک ہٹائے چہرے سے (تاکہ تصویر کھینچی جاسکے)، کیوں! پوچھنے پر کوئی جواب بھی نہیں ملا، مسترد اور انکار کرنے پر پولیس افسران نے آپس میں کچھ گفتگو کی اور اس کے بعد ان کی اور گاڑی کی تصویر قید کرلی ۔ مسعود صاحب اُس کے بعد پھر وہاں سے چلے گئے، لیکن بعد میں وہ تھوڑا سا پریشان بھی ہوگئے کہ آخر میری یہ تصویر کہاں پر محفوظ ہوگی، کیسے اس کا استعمال ہوگا، کس محکمے کہ پاس جائے گی ؟؟؟۔ مسعود ان متعدّد رپورٹوں سے بھی واقف تھے جن میں یہ بتایا گیا تھا کہ چہرے کے شناخت کی ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے خصوصاً تلنگانہ میں پولیس کی جانب سے 360 ڈگری profiling کی جارہی ہے (360 ڈگری پروفائلنگ یعنی ایسا ڈیٹابیس جس میں کسی بھی مطلوبہ شخص کی ہر ہر قسم کی مکمل جانکاری موجود ہو)۔ ان تمام خیالات کے ساتھ وه ہندوستان کی موجودہ سماجی صورتحال اور مسلم اقلیت کے ساتھ سلوک وغیر ہ کے حوالے سے بالخصوص متفکر تھے۔ ایسے میں مسعود صاحب اپنے کچھ وکیل دوستوں سے مشاورت کرتے ہیں اور انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن والوں کی مدد سے ایک قانونی نوٹس پولیس کمشنر کو بھیجتے ہیں جس میں کچھ تفصیلات طلب کی جاتی ہے ۔ ا س نوٹس میں چند بنیادی قسم کے سوالات بھی تھے جیسے کی یہ ڈیٹا کہاں پر محفوظ کیا جاتا ہے، کس کو اس تک رسائی حاصل ہے، اس کا کیا کیا جائے گا وغیرہ۔ لیکن کچھ مہینے انتظار تک کوئی جواب نہ آنے پر انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب اسے چیلنج کرنا چاہیے ۔پھر اس کے خلاف قانونی کوشش کی گئی اور ایک کیس فائل کیا گیا ۔سپریم کورٹ کے پرائیویسی کے متعلق پوٹو سوامی ججمنٹ کی روشنی میں پولیس کی یہ حرکت مکمل غیر قانونی تھی (لیکن عام لوگوں کو اس کا علم نہیں ہے ، پتہ نہیں کتنے لوگ اس کی قید میں آگئے)۔ دراصل فیشل رکاگنیشن ٹیکنالوجی کے خلاف اس قسم کی قانونی کوشش ہندوستان میں پہلی بار کسی نے کی ہے اُمید ہے اس کے اچھے نتائج رونما ہونگے ۔14 حکومت تلنگانہ کی جانب سے کیے جانے والے غیر قانونی اقدامات کی یہ صرف ایک جھلک ہے!! کچھ اور ضروری معلومات بھی اس حوالے سے ہے جس کے بارے میں ہمارا جاننا ضروری ہے۔
ہندوستان میں فی الوقت چہرے کے شناخت کی ٹیکنالوجی کے استعمال کے پروجیکٹس کا اطلاق سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر اور زبردست انداز میں ریاستِ تلنگانہ میں ہورہا ہے۔ ایک آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور بیگ ڈیٹا ریسرچ اسکالر کے مطابق “بہت جلد حیدرآباد مکمل سرویلنس شہر (یعنی Total surveillanced city) بننے کے قریب ہے اور اس کے بعد پھر یہ ناممکن ہوجائے گا کہ کوئی سڑک پر باہر نکلے اور اس کی زد میں نا آجائے”۔ چہرے کے شناخت کی یہ ٹیکنالوجی آسانی سے متعلقہ چہرے کی بنیاد پر یہ سراغ لگا سکتی ہے کہ وہ کون ہے، کیا کرتا ہے، کہاں جاتا ہے، کس کو جانتا ہے وغیرہ۔ تلنگانہ میں نو لاکھ سے زائد سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں جن میں سب سے زیادہ حیدرآباد میں ہیں ۔ اس کا تناسب کچھ اس طرح ہے کہ ہرایک ہزار لوگوں پر چھتیس کیمرے نگراں ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں حیدرآباد کے دو علاقوں ، کالا پتھر اور کشن باغِ کا ایک سیمپل کلیکشن پیش کیا جس میں بتایا گیا کہ یہ دونوں علاقے 513,683 اور 530,864 مربع میٹر پر پھیلے ہوئے ہے جس کا کم و بیش %53 اور %62.7 حصہ مکمل نگرانی میں ہے (حالانکہ یہ بہت پسماندہ علاقے ہے)۔ ریاست کی جانب سے ان پروجیکٹس پر بيش بہا خرچ کیا جارہا ہے لیکن عوام اس سے بالکل نا آشنا ہے۔الجزیرہ نے اپنی ایک رپورٹ میں IFF اور ایمنسٹی کی ایک تحقیقی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ “تلنگانہ ساری دنیا میں سب سے زیادہ زیر نگرانی (surveilled) اسٹیٹ ہے”۔ تلنگانہ پولیس نے ایک نگراں سینٹر بنایا ہے جس کا نام ہے “کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر “ جہاں پوری ریاست کی رئیل ٹائم واچنگ ہوگی FRT کے ذریعے اور جس کی مدد سے لوگوں کے پل پل کی نگرانی کی جائےگی۔15،16 یہ معلومات صرف نگاہ سرسری کی دين ہیں لیکن کوئی نگاہ باز دوڑائے گا تو وہ حیرت میں پڑجائے گا۔ ملکی اور بین الاقوامی نیوز پورٹل پر اس حوالے سے رپورٹس شائع ہو رہی ہے جس میں حکومت تلنگانہ کی ان پالیسیوں پر فکر مندی کا اظہار کیا جارہا ہے ۔ دوسری ریاستیں بھی اپنی جگہ سست گام نہیں بلکہ تیز گامی کے ساتھ اسی نہج پر گامزن ہے مثلاً دہلی میں اس ٹیکنالوجی کی مدد سے احتجاجیوں کا ڈیٹابیس بنانا، انتخابات میں اس کے ذریعے مختلف مذہبی اور اقلیتی گروہوں کی زمرہ کشی کرنا، کووڈ لاک ڈاؤن اقدامات وغیرہ۔
ماہرین کی جانب سے جو خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں اس میں ایک عام سا نکتہ یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے ریاست کے اندر ہی کسی بھی قومی، مذہبی، نسلی یا اقلیتی گروہ کے بنیادی حقوق اس نگرانی کے سسٹم میں غیر محفوظ اور غیر مستحکم رہتے ہیں ۔یہ عام سہ نکتہ دیکھا جائے تو بڑا منطقی اور عقلی بھی ہے اگر اس نکتے کو ہندوستانی پس منظر میں دیکھا جائے تو بڑی آسانی کے ساتھ مستقبل کی تصویر کا تعین کیا جاسکتا ہے ۔ 2019 میں ہی ماہرینِ قانون نے یہ اعتراف کرلیا تھا کہ”ہندوستان میں FRT کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے کوئی لیگل میکانزم نہیں ہے”۔17 ایسا قیاس کرنابھی کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی کہ اگر اس اہم مسئلہ کو قابو نہیں کیا گیا تو مستقبل کا سیاسی اقتدار جوں کا توں اسرائیل اور ایغور کے نقشے قدم پر چل پڑے۔ یہ عین ممکن بھی ہوسکتا ہے۔اتنا سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہورہاہے لیکن عوام الناس اور بیش تر پڑھے لکھے طبقے کا یہ عالم ہے کہ “مست مئے پندار”۔
یہ تحریر دراصل مسئلہ کی حساسیت کو محسوس کرتے ہوئے ایک معمولی سی کوشش ہے ،اس لئے سردست کوئی نجات کی راہ پیش کرنا محال ہے ۔ اس تحریر میں اس موضوع کے متعلق لکھے گئے رپورٹس کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے، اہل علم اور اس موضوع پر جانکاری اور مہارت رکھنے والوں کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اس کا خوب تحقیقی اور تجزیاتی جائزہ لیں اور سب سے اہم حفاظتی اقدامات کیا ہوسکتے ہیں اس کی نشاندہی کریں۔
حوالہ جات:
- ماہ نامہ زندگی نو، اپریل 2020
- https://us.norton.com/internetsecurity-iot-how-facial-recognition-software-works.html
- https://www.kaspersky.com/resource-center/definitions/what-is-facial-recognition
- https://DW.com / چہرے پہچاننے والے باڈی کیمرا کی متنازعہ ٹیکنالوجی
- https://www.mei.edu/publications/nowhere-hide-impact-israels-digital-surveillance-regime-palestinians
- https://www.972mag.com/israel-surveillance-facial-recognition /
- https://amp.france24.com/en/middle-east/20211110-how-israel-uses-facial-recognition-technology-to-monitor-west-bank-palestinians
- https://www.npr.org/2019/08/22/752765606/face-recognition-lets-palestinians-cross-israeli-checkposts-fast-but-raises-conc
- https://www.trtworld.com/magazine/israel-s-dystopian-surveillance-state-targets-palestinians-for-existing-51500/amp
- https://www.aljazeera.com/amp/opinions/2022/4/13/under-israeli-surveillance-living-in-dystopia-in-palestine
- https://www.google.com/amp/s/www.bbc.com/urdu/regional-57254268.amp
- https://www.vice.com/amp/en/article/akew98/facial-recognition-is-out-of-control-in-india
- https://cis-india.org › facial-re…PDF
- Facial Recognition Technology in India , https://m.thewire.in/article/tech/telangana-surveillance-police-cctv-facial-recognition
- https://www.aljazeera.com/amp/news/2022/1/20/india-surveillance-hotspot-telangana-facial-recognition-court-lawsuit-privacy
- https://www.aljazeera.com/amp/news/2022/1/20/india-surveillance-hotspot-telangana-facial-recognition-court-lawsuit-privacy
- https://www.thenewsminute.com/article/india-prepared-tackle-misuse-face-recognition-technology-96458?amp
تحریر نگار: عبدالخالق سبحانی