ماحولیاتی بحران کے فکری پہلو: ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ اور ماحولیاتی بحران – ایک تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر محمد رضوان

ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ اور اس کی بنیاد پر تشکیل پانے والے ذہنی مشاکلے اور ورلڈ ویو کس طرح ماحولیاتی بحران میں اضافے کا سبب بنتے ہیں، اس کے آخری پہلو پر اس مضمون میں روشنی ڈالی جائے گی۔

 قسط نمبر 8

گزشتہ کچھ اقساط سے ٹیکنالوجی مرکوز نظریے اور ماحولیاتی بحران کے رشتے کو واضح کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چار پہلو جن پر ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ قائم ہے، درج ذیل ہیں۔

  1. ٹیکنالوجی فکس ذہنیت
  2. فطرت سے بے تعلقی
  3. خطر و کبر
  4. ذرائع وسائل کا بے دریغ استعمال

ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ اور اس کی بنیاد پر تشکیل پانے والے ذہنی مشاکلے اور ورلڈ ویو کس طرح ماحولیاتی بحران میں اضافے کا سبب بنتے ہیں، اس کے آخری پہلو پر اس مضمون میں روشنی ڈالی جائے گی۔

ذرائع وسائل کا استحصال/ ذرائع وسائل کا بے دریغ استعمال

ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ اپنی اصل کے اعتبار سے ذرائع وسائل کی کسی داخلی قدر(inherent value) یا اس کے اپنے آپ میں مفید ہونے کا قائل نہیں ہے۔ بلکہ وہ اسے صرف اور صرف ایک افادی نقطہ نظر(Istic view) سے دیکھتا ہے۔ یہ ذہنیت اصل میں ذرائع وسائل سے زیادہ سے زیادہ انسانی آسائش و آ رام اور مختلف سہولیات کی دستیابی پر زور دیتی ہےاور اس کے نتیجے میں ہونے والے ماحولیاتی اثر کو یہ بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتی ہے ۔اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ذرائع وسائل کا استعمال اور اس کا استحصال آپس میں خلط ملط ہو جاتا ہے۔ ذرائع وسائل کا ‘استعمال’ مختلف ہے اور ذرائع وسائل کا ‘استحصال’ مختلف۔

یقیناً اس پر بحث ہو سکتی ہے کہ استعمال کی حدود کون طے کرے گا؟ ضرورت اور لگژری میں فرق کون کرے گا ؟وہ کون سے اصول اور آداب ہوں گے جو استعمال اور استحصال کی حدود کے حوالے سے مختلف پہلوؤں کو مختلف اعتبار سے فیصل کر سکیں گے؟وغیرہ۔ لیکن ان تمام کو انگیز کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اصلاً ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ ذرائع وسائل کے استحصال کی طرف انسانی ذہنی مشاکلے کو موڑ دیتا ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ استعمال بڑھتے بڑھتے استحصال تک پہنچ جاتا ہے۔

مشکل یہ در آتی ہے کہ ذرائع وسائل محدود ہیں اور موجودہ دنیا میں بہت ہی پیچیدہ طریقوں سے ان کی تقسیم وجود میں آتی ہے۔ یہ طریقے سیاسی، سماجی، ثقافتی، جغرافیائی اور مختلف حیثیتوں سے بہت ہی پیچیدہ ثقافتی تعاملات(Cultural interactions) ،معاشرتی معاملات اور سیاسی پس منظر کے ذریعے سے طے پاتے ہیں۔چنانچہ بہت دفعہ یہ انتہائی مشکل ہو جاتا ہے کہ استعمال اور استحصال کی حدوں کو افراد، معاشرے، ممالک اور جغرافیا ئی خطوں کے مطابق فیصل کیا جا سکے کہ استعمال اور استحصال کی حدود کہاں پامال ہو رہی ہیں۔لیکن ان تمام پہلوؤں کے باوجود اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ اصل میں ذرائع وسائل کے استحصال کے لیے راہیں ہموار کرتا ہے۔

ہم یہاں صرف دو مثالوں کے ذریعے سے اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔

سب سے پہلی مثال کنزیومر الیکٹرانکس کی ہے۔کنزیومر الیکٹرانکس میں لیپ ٹاپ، موبائل، ٹیب اور اس طریقے کے دیگر الیکٹرانک آلات کو شامل کیا جا سکتا ہے۔کنزیومر الیکٹرانکس میں دو رویے ممکن تھے، دو طریقوں سے اس پوری صنعت کو منضبط کیا جا سکتا تھا اور اس کے ارتقا اور تشکیل کے سلسلے میں رائے ہموار کی جا سکتی تھی۔

پہلا طریقہ تو وہی ہے جو رائج الوقت ہے کہ سال در سال ضروری اور غیر ضروری اپڈیٹس کی جاتی۔ عام صارف یعنی ایک کامن مین کے ہاتھ میں غیر ضروری ایپس اور غیر ضروری کمپیوٹیشنل پاور نہ دیے جاتے۔ ایک عام صارف کو جن سافٹ ویئرز کی ضرورت نہیں ہے اسے مصنوعی ضرورتوں کی تشکیل دے کر وہ نہ بنائے جاتے۔ ڈیزائن، رنگوں اور مختلف صلاحیتوں کے موبائل کی غیر ضروری نمائش کر کے لوگوں کے دلوں میں اس کو خریدنے کی لالچ کو بڑھاوا نہ دیا جاتا۔ مسابقتی اور کمپٹیشن کے جھوٹے فریب دینے والے اور خوشنما اشتہارات جن کا اصلی عملی زندگی میں کوئی تعلق نہ ہو، کے لیے کمپیوٹنگ پاور، سٹوریج پاور اور اس طرح کے دیگر پاور کے حصول کے لیے انتہائی ذرخیز ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچانے والے طریقوں کا استعمال کر کے کان کنی (Mining) نہ کی جاتی اور اس طرح اپڈیٹ اور نئے جدید آلات کا ایک نہ ختم ہونے والا مقابلہ پوری سوسائٹی اور دنیا میں جاری و ساری نہ ہوتا۔

دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا تھا کہ اصل توجہ ماحولیات اور اس کے نقصان پر ہوتی۔ ضرورت کے مطابق کمپیوٹنگ پاور ، اسٹوریج پاور، جدید ڈیزائن، جدید فیچرز اور اسی طرح ہر نئے پہلو اور نئے سافٹ ویئرز کی تشکیل و ارتقا سے پہلے یہ یقینی بنایا جاتا کہ افادیت، ضرورت اور اہمیت کے اعتبار سے یہ ماحولیات پر کس قدر اثرات مرتب کرتے ہیں؟ کیا ماحولیات کے مقابلے میں ان کی اہمیت، ضرورت و افادیت زیادہ ہے؟ اور اس طرح سے ایک مضبوط، منضبط اور طاقتور نظامِ توازن بنانے کی کوشش کی جاتی جس کے چلتے ماحولیات پر کم اثرات ہوتے اور لوگ اپنی ضرورت کے مطابق مواصلاتی انقلاب سے فائدہ بھی اٹھا پاتے۔ 

لیکن ٹیکنالوجی مرکوز نظر یہ کہ حاملین اصل میں وہی لوگ ہیں جو ایک آزاد، بے لگام، غیر منضبط، لامحدود مادی افادیت پسند(unrestricted utilitarianism) فلسفہ زندگی کے ماننے والے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کرنے سے دنیا کی ترقی رک جاتی ہے۔ لوگ جدید ترین آلات سے محروم رہ جاتے، ان کی زندگیاں پُر سہولت، پُرکشش و پُرتعیش، شاندار اور آرام دہ نہ ہوتی جتنی آج ہے۔ اگر دوسرا طریقہ اپنایا جاتا تو غالباً دنیا اس معراج پر پہنچتی ہی نہیں۔ ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ کے حاملین یہ مانتے ہیں کہ اس طرح کی ٹیکنالوجیز کا استعمال بے لگام جاری رہنا چاہیے اور ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کے لیے مزید نئی ٹیکنالوجیز کا ارتقا ہونا چاہیے تاکہ اس طرح کی تمام ٹیکنالوجی سے ہونے والے خطرات اور نقصانات کو نئی قسم کی ٹیکنالوجیز کا ارتقا کر کے ماحولیاتی بحران پر قابو پایا جائے ۔

 یہ ایک لا متناہی دائرہ ہے۔ یعنی نئے ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے نئی ٹیکنالوجیز بنائی جاتی ہیں جو نئے قسم کے ماحولیاتی مسائل کو جنم دیتی ہیں پھر ان کا حل کرنے کے لیے مزید نئی ٹیکنالوجی کا ارتقا کیا جاتا ہے۔ سابقہ ٹیکنالوجی کے مسائل تو حل ہو جاتے ہیں لیکن نئی ٹیکنالوجی کے مسائل پھر تیار ہوجاتے ہیں اور اس طرح سے یہ دائرہ بھی مسلسل جاری رہتا ہے۔اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کا حل کیا ہے؟ یہ جان لیں کہ اس طرح کے مرکب، پیچیدہ اور تہہ دار سوالات کا جواب بہت سیدھا سادہ اور جمع تفریق سے حل ہونے والا نہیں ہوتا ہے۔ یہ ایسا بھی نہیں ہے کہ اس طرح کے سوالات سے فرار اختیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ صحیح موقف یہ ہے کہ ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ اگر لامحدود اور آزادہو تو وہ اسی قسم کے ماحولیاتی بحران پر جا کر منتج ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ جس تیزی کے ساتھ کنزیومر الیکٹرانکس میں ترقی کرتا جاتا ہے اتنی ہی شدید قسم کے الیکٹرانک آلائشی آلائندے ماحول میں جمع ہوتے جاتے ہیں۔ مسئلہ کی سنگینی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں الیکٹرانک آلات کے پہاڑ در پہاڑ موجود ہیں، جو الیکٹرانک ویسٹ کے جیتے جاگتے مظاہر ہیں۔

ایک ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ کس طرح زیادہ سے زیادہ ذرائع وسائل کے استحصال پر منتج ہو سکتا ہے اس کی دوسری بہت سادہ مثال فریکنگ سے لی جا سکتی ہے۔فریکنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے ایک قسم کی گیس چٹانوں سے حاصل کی جاتی ہےجو توانائی کے انتہائی اہم منبع کے طور پر جانی جاتی ہے۔

جدید دنیا اصل میں توانائی اور توانائی کے لامحدود ضرورتوں سے مجبور ہے۔ یہ توانائی اصل میں مختلف طریقوں سے حاصل کی جا سکتی ہے، مثلاً رکازی ایندھن جیسے پٹرول، ڈیزل، کوئلہ اور اسی طریقے سے CNG وغیرہ۔ پوری دنیا میں توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے مختلف قسم کی کوششیں جاری ہیں۔ اس ضمن میں کچھ بہت ہی ہمت افزا، ماحول کو صاف کرنے والی اور ماحول کو کم نقصان پہنچانے والی توانائی کے حصول کی ٹیکنالوجی کے سلسلے میں بھی پیش رفت ہوئی ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی مرکوز نظریے کی بنیاد پر تشکیل پانے والے مارکیٹ موجود رکازی ایندھن کے ذرائع غیر معمولی طریقوں سے کشید کرتے نظر آتے ہیں جن پر توانائی کے حصول کے لیے پہلے سے ہی غیر معمولی دباؤ موجود ہے۔

 بجائے اس بات کی کوشش ہو کہ ایسی ٹیکنالوجی کو ارتقا دیا جائے جو ماحول کو کم سے کم نقصان پہنچائے، ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ یہ کوشش کرتا ہے کہ موجودہ ذرائع وسائل کو، جو کہ رکازی ہیں (ختم ہو جانے والے) ان کو اس طرح ٹیکنالوجی کے اعتبار سے منطبق کیا جائے کہ انہی میں سے زیادہ سے زیادہ توانائی کا حصول کیا جا سکے۔ مثلاً توانائی کا ایک سب سے سستا، آسان اور موثر طریقہ یہ ہے کہ شیل میں سے کمپریسڈ نیچرل گیس کو نکالا جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ صاف ٹیکنالوجی میں زیادہ پیسہ لگایا جائے چاہے اس سے کچھ کم توانائی حاصل ہو۔ لیکن ٹیکنالوجی مرکوز نظریے کی بڑ یہ ہے کہ اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے، ایک دفعہ ٹیکنالوجی، ریسرچ اور ڈیولپمنٹ میں پیسہ خرچ کر کے بہترین ٹیکنالوجی کو ڈیولپ کیا جائے اور پھر موجود وسائل سے ہی زیادہ سے زیادہ توانائی کشید کی جائے جس کی سب سے بڑی مثال فریکنگ ہے۔اسے ہایڈرولک فریکچرنگ یا عموماً فریکنگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک خاص عمل کے ذریعے زمین پر موجود قدرتی چٹانوں میں گہری زیر زمین چٹان میں سے شیل گیس کو نکالا جاتا ہے۔ اس عمل میں پانی، ریت اور کیمیکلز کے ہائی پریشر مرکب کو چٹان میں داخل کرنا شامل ہے تاکہ دراڑیں (فریکچر) پیدا ہوں اور گیس یا تیل ایک خاص کنویں میں جمع ہونے لگتا ہے۔اس ٹیکنالوجی کے ارتقا میں غیر معمولی محنت اور کثیر پیسہ خرچ ہوا ہے۔دورانِ عمل استعمال ہونے والے مرکبات اور ان کے کمالات حیرت ناک ہیں جو درج ذیل ہیں۔

  1. تیزاب: اس عمل میں استعمال ہونے والا سیال جس سے معدنیات کو تحلیل کرنے اور چٹان میں دراڑیں پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے وہ ہائیڈرو کلورک ایسڈ (HCL) ہے۔ عموماً اسں میں ہائیڈروکلورک ایسڈ کا 15 فیصد تا 28 فیصد ہوتا ہے، اس وجہ سے زیر زمین اور زیر زمین پانی کے چشمے آلودہ ہو جاتے ہیں۔
  2. بائیوسائڈز: فریکنگ کے لیے استعمال کیا جانے والا دوسرا مرکب بائیو سائیڈ ہے۔ بائیو سائیڈ چٹان اور سیال میں موجود بیکٹیریا کو ختم کر کے انہیں صاف کرتے ہیں، اس وجہ سے زیر زمین بیکٹیریا، ان کی آبادی اور تناسب میں فرق واقع ہونے لگتا ہے جس سے اطراف و اکناف کی ایکولوجی متاثر ہوتی ہے۔
  3. سرفیکٹنٹ: اس مرکب کا تیسرا اہم جز جو بجائے خود بہت زیادہ نقصان دہ نہیں ہوتا لیکن اس میں موجود مختلف کیمیائی مرکبات جب زمین میں موجود دوسرے کیمیائی مرکبات کے ساتھ تعامل کرتے ہیں تو یہ بعض اوقات کینسر پیدا کرنے والے آلائندوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں، مثلاً میتھانول ، آئسوپروپینول اور ایتھوکسیلیٹڈ الکوحل وغیر۔

 ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ کس طرح ماحولیاتی بحران میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے اسے ایک لطیف نقطہ سے سمجھا جاسکتا ہے۔

توانائی کی ضرورت یقیناً مسلم ہے۔ توانائی کے حصول کے بغیر انسانی تہذیب کی ترقی نہیں ممکن نہ تھی اور توانائی کی ضرورت انسانی آبادی کے تناسب کے ساتھ بڑھتی رہے گی یہ بھی صد فیصد درست ہے۔ اس کے دو پہلو ہو سکتے تھے۔ ایک طریقہ تو یہ ممکن تھا کہ تمام کوششیں ماحول کو کم از کم نقصان پہنچانے والی توانائی کے حصول میں ہوتیں اور اس کے لیے حد درجہ جدید ٹیکنالوجی کا ارتقا کیا جاتا۔ دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا تھا کہ موجود ذرائع وسائل ہی کو مزید بہتر طریقے سے کشید کرنے کی کوشش کی جاتی۔ ٹیکنالوجی مرکوز نظریے نے دوسرے حل کو زیادہ مناسب سمجھا، بہتر تھا کہ پہلے حل کی طرف زیادہ توجہ ہوتی۔ یقیناً ٹیکنالوجی کا استعمال توانائی کو کشید کرنے اور اس کے حصول کے لیے ناگزیر ہے لیکن وسائل کے استحصال کے تئیں بھی فکریں موجود ہیں یا ایسی ٹیکنالوجی جو نئی اور اختراعی ہو اور ماحول کو کم سے کم نقصان پہنچانے والی ہو اس کی کاوشیں؟ اصل سوال یہی ہے۔ چنانچہ، بجائے اس کی کوشش ہوتی کہ زمین میں موجود گیس کو نئی ٹیکنالوجی ( جس سے نئے آلائندے اور نئے قسم کے ماحولیاتی مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں) کا استعمال نہ کر کےاتنی قوت اور پیسہ اس نئی اختراعی ٹیکنالوجی پر لگایا جاتا جو ماحول کو کم نقصان پہنچانے والی ہو، یہ عقل اور فطرت کے زیادہ قریب ہے۔

یقیناً اب اس فریکنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے بڑے پیمانے پر گیس کا حصول کر لیا گیا اور اس سے توانائی کے سلسلے میں مثبت پیشرفت ہوئی، سہولیات، تعیش اور توانائی کے انسانی دسترس میں ہونے پر یقین بحال ہوا لیکن حال واقعہ یہ ہے کہ فریکنگ کے نتیجے میں مذکورہ بڑے ماحولیاتی، سماجی اور معاشی مسائل وجود میں آئے ہیں۔

ماحولیاتی اثرات

  • زیر زمین پانی کی آلودگی

میکانزم: فریکنگ سیال میں استعمال ہونے والے کیمیکلز بعض اوقات زیر زمین آبی ذخائر میں منتقل ہوسکتے ہیں اور ہو رہے ہیں ، جس سے پینے کا پانی آلودہ ہوجاتا ہے۔ پھر اس پینے کے آلودہ پانی کو دوبارہ پینے کے لائق بنانے کے لیے مخصوص قسم کی ٹیکنالوجیز کا استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ماحولیات پر مزید بوجھ پڑتا ہے۔مزید برآں ، فلو بیک پانی جو فریکنگ کے بعد سطح پر واپس آتا ہے ،اس میں اکثر بھاری دھاتیں ، تابکار مواد اور گہری زیر زمین موجوددیگر آلودگیاں شامل ہوجاتی ہیں۔

مثال: پنِسلوانیا اور ٹیکساس جیسے علاقوں میں فریکنگ سائٹس کے قریب کنویں کے آلودہ پانی کی متعدد اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ رہائشیوں کو ایسے پانی کا سامنا کرنا پڑا ہے جس سے بدبو آتی ہے، دھاتی ذائقہ آتا ہے۔ یہاں تک کہ میتھین آلودگی کی وجہ سے آگ لگنے کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔

  • زلزلے کی سرگرمی میں اضافہ

میکانزم: زیادہ دباؤ پر فریکنگ سیال کا انجکشن زمین کی تہہ میں پریشر کے توازن کو تبدیل کرسکتا ہے جس سے ممکنہ طور پر زلزلے آسکتے ہیں۔ یہ خاص طور پر گہرے زیر زمین کنوؤں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔

مثال: اوکلاہوما ، جہاں تاریخی طور پر بہت کم زلزلے آئے تھے ، فریکنگ آپریشنز کے عروج کے بعد سے زلزلے کی سرگرمی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سے کچھ زلزلے اتنے طاقتور ہیں کہ املاک کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور عوامی حفاظت کے لئے خطرات پیدا کر سکتے ہیں۔

  • آبی وسائل میں کمی

میکانزم: فریکنگ کے لئے بڑی مقدار میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے جو اکثر مقامی دریاؤں ، جھیلوں یا زیر زمین چشموں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس سے آبی وسائل پر غیر معمولی زور پڑتا ہے۔ قارئین جانتے ہیں کہ ساری دنیا میں اگلی جنگوں کے بارے میں پیشن گوئی پانی کے خاتمے یا پانی پر جنگوں کے حوالے سے کی جاتی ہے۔

مثال: کیلیفورنیا کی سینٹرل ویلی جیسے علاقوں میں جہاں پانی پہلے ہی کم یاب ہے ، فریکنگ آپریشنز سے اس کی طلب میں غیر معمولی اضافہ ہوا اور یہ دعوی بھی کیا گیا کہ وہاں مزید ان آپریشنز کی اضافی طلب پانی کی قلت کو بڑھا سکتی ہے جس سے زراعت جنگلی حیات اور گھریلو پینے کے مقصد سے پانی کی سپلائی متاثر ہو سکتی ہے۔

ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ صرف ماحولیاتی عدم استحکام اور اس کی کمی زیادتی کے سلسلے ہی میں اپنا رول ادا نہیں کرتا بلکہ بالواسطہ اس کے درج ذیل اثرات بھی ہوتے ہیں۔

سماجی و معاشی اثرات

  • صحت کے خطرات

فریکنگ سائٹس کے قریب رہنے والے رہائشیوں میں سانس کے مسائل، سر درد اور جلد پر دانے سمیت صحت کے متعدد مسائل نوٹ کیے گئے ہیں۔ کئی محققین اس کی وجہ فریکنگ آپریشنز کے نتیجے میں ہونے والی پانی اور ہوا کی آلودگی کو قرار دیتے ہیں اوراس پر کئی تحقیقات سامنے آ چکی ہیں۔

درج بالا مقدمے سے ثابت ہوا کہ کس طرح ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ دراصل ماحولیاتی بحران کے اضافہ کا سبب بن سکتا ہے حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ دو مثالیں اپنی اصل کے اعتبار سے بہت سادہ ہیں۔ اصلاً ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ مختلف پہلوؤں، مختلف جہات، مختلف ذہنی مشکلوں، مختلف پیداوار اور صارفیت کے مختلف ماڈلوں کے ذریعے سے انسانی رویوں میں موجود صارفیت کی طرف رجحان کے استحصال کے حوالے سے ماحولیات اور اس سے جڑے مختلف پہلوؤں کو بڑے غیر معمولی طریقے سے متاثر کرتا ہے۔(جاری۔۔۔)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں