کتاب کا نام غبار خاطر ہے جس کے مصنف ابوالکلام آزاد ہیں۔ ختم شد۔
اس کتاب کا تعارف بس اتنا ہی ہونا چاہیے۔ یہ تو ہم اردو والے شہرِ قلم کی خشک سالی سے خوف کھاتے ہیں اس لیے مجبوراً اس کا تعارف لکھتے ہیں۔
غبار خاطر کیا ہے۔ ایک دریائے سخن، جس پر آکر اردوئے معلیٰ کے اساتذہ وضو کرتے ہیں۔ باذوق کچھ دور کنارے چلتے ہیں۔ اہل سخن میں سے کچھ سیراب ہوتے ہیں اور کچھ اسکی گہرائیوں میں ڈوب جاتے ہیں جبکہ بد ذوق اس دریا کے کنارے بیٹھ پتھر پھینکنے لگتے ہیں۔ اس جوئے ادب کے سوتے قلعۂ احمد نگرسے پھوٹتے ہیں۔قلعہ نیم شب سو رہا ہوتا تھا جبکہ رخشِ خیالِ آزاد تھا کہ سرکش ہوتا جاتا۔ چائے کے فنجان لنڈھائے جاتے اور انشاء پردازی اوج ثریا کے منازل طئے کرتی۔
طبعِ آزاد پہ قید مضموں بھاری ہے
ہم تو جانیں یہی انشاء کی وضعداری ہے
آزاد نے ۲۴ خط اپنے صدیقِ مکرم حبیب الرحمٰن خان شیروانی، رئیس بھیکم پور کے نام لکھے۔ خطوط کو زحمتِ سفر دینا نہ تو مقاصد میں شامل تھا نہ ہی قانونِ اسیری کی گنجائشوں میں۔ ویسے بھی تاریخ ، ادبِ عالم، فلسفہ اور مذہب کے رنگوں سے قرطاس ِ جمالیات پر بنائی گئی خوبصورت ترین تصویر کو ادب اردو کا شاہکار بننا تھا، وہ ڈاک کے بے ذوق ہاتھوں کے حوالے کیسے ہوتی۔ کہتے ہیں کہ ، تحریر کی ثروت مندی مصنف کی دسترس سے متعین ہوتی ہے۔ آزاد کی دسترس میں الٰہی ہدایات بھی تھیں، قدیم و جدید فلاسفہ بھی تھا کلام و منطق بھی تھے اور چھ، سات زبانوں کے ادب ِ عالیہ بھی اور ساتھ میں رخشِ خیال بھی جو آمادۂ سفر بھی رہتا۔ غبار خاطر میں تصور بھی ہے اور تصویر بھی، تدبر بھی ہے اور تدبیر بھی۔ اس میں تجمل بھی ہے اور درد بھی۔ سلاست بھی ہے اور اِشکال بھی، خموشی بھی ہے اور نغمہ بھی، متانت بھی ہے اور ظرافت بھی۔ آزاد لکھتے ہیں، ’’ اس کارگاہ سود و زیاں کی کوئی عشرت نہیں کہ کسی حسرت سے پیوستہ نہ ہو۔ یہاں زلال صافی کا کوئی جام نہیں بھرا گیا کہ دردِ کدورت اپنی تہہ میں نہ رکھتا ہو۔ بادہ کامرانی کے تعقب میں ہمیشہ خمار ناکامی لگا رہا اور خندہ بہار کے پیچھے ہمیشہ گریہ خزاں کا شیون برپا ہوا۔‘‘
لسانیاتِ عالم میں یہ بات طئے ہے کہ ادب کی اعلیٰ ترین صنف شعر ہے۔ اردو بھی اس سے مستثنٰی نہیں ہے۔ تاریخ میں چند ہی نثری شاہکار ہیں جن کے سامنے شاعری سجدۂ تعظیم بجا لاتی ہے۔ غبار خاطر ان میں سے ایک ہے۔ حسرت موہانی نے کہا،
جب سے دیکھی ابولکلام کی نثر
نظم حسرت میں بھی مزا نہ رہا
خالقِ آوازِ دوست مختار مسعود کہتے ہیں،
’’لوگ اس (غبار خاطر) کو محض احتراماً مراسلہ نگاری مان لیتے ہیں حالانکہ یہ ایک عالی دماغ اور تیز ہوش و حافظہ شخص کی خود کلامی ہے جسے اس نے عالم سرشاری میں رقم کیاہے۔ یہ شخص مزاج دار، خود پسند اور انا پرست ہے۔ یہ اس کی خامی نہیں مجبوری ہے۔ وہ ایک جینئس ہے۔ وہ بے علم اور بے زبان، بے امتیاز و بے اختیار، پسماندہ اور غیر متمدن ٹڈی دل کا شریک بننے سے صاف انکار کرتا ہے۔ جو برطانیہ ہند میں انسانوں کے نام سے آباد ہے۔ وہ فلک نشیں ہے۔ دماغ ہی نہیں اس کا قلم بھی آسمان پر ہے۔ اس کی عبارت فلک سے اردو کے بوریا نشینوں پر نازل ہوتی ہے۔‘‘
منفرد اسالیب اور نرالی تراکیب۔ نثر کے درمیان سات سو سے زائد اردو، فارسی اور عربی اشعار اتنی روانی سے آتے ہیں تسلسل کی کشتی ذرا بھی ہچکولے نہیں کھاتی۔ اعلیٰ شعر کی اعلیٰ ترین تمہید کیسے لکھتے ہیں ملاحظہ کیجیے،
’’کچھ ضروری نہیں کہ آپ اس ڈر سے ہمیشہ اپنا دامن سمیٹے رہیں کہ کہیں بھیگ نہ جائیں ۔ بھیگتا ہے تو بھیگنے دیجئے لیکن آپ کے دست و بازو میں یہ طاقت ضرور ہونی چاہیے کہ جب بھی چاہا اس طرح نچوڑ کے رکھ دیا کہ آلودگی کی ایک بوند بھی باقی نہ رہی۔ ‘‘
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
ادب میں مشروب عموماً، شرابِ کہن ہوتی ہے یا زہر ہلاہل۔ آزاد نے اس میں چائے اور ذوق چائے کا اضافہ کردیا۔۱۵ واں خط چائے کے نام ہے۔ 17واں خط ’انانیتی ادبیات‘ پر اور 18 واں حکایتِ زاغ و بلبل کے نام ہے۔ میخانۂ آزاد کا تنوع بھی منفرد ہے۔
لگتا تھا کہ لوگ غبار خاطر کے متعلق اکثر مبالغہ آ رائی سے کام لیتے ہیں۔ کتاب کا مطالعہ ہوا تو پتا چلا کے لوگ صحیح کرتے ہیں۔ کچھ صورتیں اور کچھ سرورق لباس ِ مبالغہ ہی میں جچتے ہیں۔ حقیقت سے زیادہ ادراک اہم ہوتا ہے۔ ’مبالغہ‘ بیان کی کمیاب زبان کا نام ہے۔ غبار خاطر کی خوبصورتی کا ادراک بزبانِ مبالغہ ہی ہونا چاہیے۔