پچھلے ماہ دنیا کے امیر ترین شخص الین مسک نے دنیا بھر میں سرخیوں میں جگہ بنائی۔ سوشل میڈیا کی معروف کمپنی ٹویٹر کو 44بلین ڈالرز کے بدلے مسک نے خریدلیا۔ ٹیکنالوجی کی دنیا کی یہ انتہائی اہم خبر تھی۔ لیکن 44بلین ڈالرز کے بدلے ٹویٹر کا سودا اس نوعیت کی کوئی پہلی خبر نہیں تھی۔ اس سے قبل سوشل میڈیا کی ایک اور معروف کمپنی فیس بک نے ایک اور مقبول اپلی کیشن واٹس اپ کو 22بلین ڈالرز کے بدلے خریدا تھا۔ اسی طرح ٹیکنالوجی کی دنیا کی ایک اور معروف کمپنی مائیکروسوفٹ نے 2016 میں لنکڈ ان (LinkedIn)کا سودا 26 بلین ڈالرز میں طئے کیا تھا۔ 2020میں سیلز فورس نے کارپوریٹ میں معروف میسیجنگ ایپلی کیشن Slackکو 27بلین ڈالرز میں خریدا تھا۔ دماغ کو چکرادینے والے یہ اعداد اگرچہ کہ واقعتا ً کافی بڑی رقومات ہیں لیکن درحقیقت سوشل میڈیا جس تیزی سے اپنے اثرات مرتب کررہا ہے اسے دیکھتے ہوئے کوئی تعجب نہیں کہ یہ کمپنیز اس قدر بڑی رقومات کو ان اپلی کیشنز کو حاصل کرنے کے لئے دینے تیار ہیں۔
اس بات پر لگ بھگ سبھی کا اتفا ق ہے کہ نوجوان نسل سوشل میڈیا سے زیادہ جڑی ہے۔ اگرچہ یہ اعداد مختلف اپلی کیشنز میں مختلف ہیں۔ جیسے فیس بک کو استعمال کرنے والے لگ بھگ ایک تہائی لوگ 25سے 34سال کی عمر سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبکہ انسٹا گرام پر لگ بھگ اتنی ہی تعداد 18سے 24سال کے گروپ سے تعلق رکھتی ہے۔ ٹِک ٹاک پر یہ گروپ اور چھوٹا ہوجاتا ہے اور10سے19سال کے افراد میں بہت زیادہ مقبول ہے۔ جبکہ LinkedInپروفیشنلز میں زیادہ مقبول ہے اور اسے استعمال کرنے والی زائد از نصف تعداد26-27سال سے زائد عمر کی حامل ہے۔ ان اپلی کیشنز کی مختلف نوعیت کے پیش نظر یہ اعداد متوقع ہیں لیکن اہم چیز یہ ہے کہ اس کو استعمال کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ان نوجوانوں کی ہے جو اپنے دور طالب علمی سے گزررہے ہیں۔ لہٰذا سوشل میڈیا براہ راست اکیڈمیکس اور نصابی سرگرمیوں سے جڑ جاتا ہے۔
سوشل میڈیا کے بارے میں جب ہم بات کریں تو یہ چیز دھیان میں رکھنا بے حد ضروری ہے کہ ہر سائٹ یا اپلی کیشن کا اپنا ایک طریقہ کار اور پیش کش کا ایک انداز ہوتا ہے۔ ساتھ ہی اپنی سائٹ کو فروغ دینے اور اپنے استعمال کنندگان کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید بنانے نیز دیگر اہم امور جیسے سیکوریٹی و پرائیویسی کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہر سائٹ اپنا ایک الگورتھم تشکیل دیتی ہے۔ ان تمام چیزوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے ان کے استعمال کرنے والوں کی ایک مختلف دنیا تشکیل پاتی ہے۔ بطور مثال ٹویٹر اور فیس بک کا الگورتھم مختلف ہے او ر اس کے مدنظر ان کو استعمال کرنے والے مختلف گروپ کے لوگ ہیں اور ساتھ ہی ان کا انداز استعمال بھی بہت زیادہ مختلف ہے۔ اسی لئے جب ہم سوشل میڈیا کے اکیڈمیک یا اس طرح کی کسی اور سرگرمی پر گفتگو کریں تب ان سائٹس کی نوعیت اور استعمال کی مناسبت سے یہ اثرات بھی مختلف ہوں گے۔ اسی طرح یہ زیادتی ہوگی اگر سوشل میڈیا کو چند بڑے کمپنیز جیسے ٹویٹر ، فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک وغیرہ تک محدود کردیا جائے۔ اگرچہ یہ بڑے نام ہیں لیکن انٹرنیٹ کی دنیا پر ایسی کئی اور سوشل میڈیا سائٹس موجود ہیں جو بالخصوص طلبا، ریسرچرزاور اسی طرح کی دیگر اکیڈمیک ضرورتوں کو بخوبی پوری کرتی ہیں۔
سوشل میڈیا کے مطالعہ کی عادت پر منفی اثرات
یہ مسلمہ حقیت ہے کہ سوشل میڈیا کی لت (Addiction) بالخصوص نوجوانوں کو کئی معاشرتی مسائل میں مبتلا کرتی ہے۔ اس پر کئی اسٹڈیز موجود ہیں۔ یونیورسٹیز میں ریسرچ اسکالرز کے لئے تحقیق کا یہ ایک دلچسپ موضوع رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی لت انسان کو خاندانی زندگی، سماجی تال میل (Social Connect)اور دیگر سماجی سرگرمیوں سے دور کرتی ہے۔ انسان تنہائی پسند بن جاتا ہے اور اس کی سوچ و فکر کا محور اس کے آن لائن سرگرمیوں کے ارد گرد گھومنے لگتا ہے۔ انسانی صحت بھی اس سے لازماً متاثر ہوتی ہے۔ دیگر سماجی مسائل سے قطع نظر اگر ہم صرف طلبا کی نصابی سرگرمیوں اور مطالعہ پر غور کریں تو محسوس ہوگا کہ سوشل میڈیا کی لت نے اس پر بہت زیادہ اثرات مرتب کئے ہیں۔
سوشل میڈیا کی لت کا سب سے پہلا اثر انسان کے تنظیم اوقات (Time Management)پر پڑتا ہے۔ ایک اسٹڈی سے معلوم ہوتا ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت سوشل میڈیا کا استعمال مندرجہ ذیل مقاصد کے لئے سب سے زیادہ کرتی ہے۔
۱۔ آن لائن چیٹنگ
۲۔ فوٹوز اور ویڈیوز شئیر کرنا
۳۔ یوٹیوب اور اس طرح کی دیگر سائیٹس پر ویڈیوز دیکھنا
۴۔ بلامقصد (Random)براوزنگ
ان میں سے ہر سرگرمی وقت کا تقاضا کرتی ہے اور جب کوئی ان سائٹس پر وزٹ کرتا ہے تب اسے اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ اس نے کس قدر وقت ان پر صرف کیا ہے۔اگرچہ کہ یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی کہ کس قدر وقت ان سرگرمیوں پر ضائع کیا جاتا ہے اور اس کا دارومدار انٹرنیٹ کی موجودگی، عمر، علاقہ اور اس طرح کے کئی عوامل پر ہوسکتا ہے لیکن یہ روزانہ ایک سے لے کر 7تا 8گھنٹوں تک بھی ہوسکتا ہے ۔ اسمارٹ فونس، اسمارٹ واچس، ٹیبلیٹس (Tablets)اور اس طرح کے دیگر ٹیکنالوجیز میں ترقی نیز 4Gاور اس کے بعد اب5Gانٹرنیٹ نے سوشل میڈیا کو اور بھی زیادہ آسان اور قابل رسائی بنا دیا ہے۔ 2010کی دہائی کے آغاز تک بھی کئی کمپنیز اور یونیورسٹیز میں سوشل میڈیا سائیٹس کو بلاک کیا جاتا تھا۔ چنانچہ فیس بک، ٹویٹر اور اس طرح کی دیگر سائیٹس کو کھول پانا کسی طرح بھی ممکن نہیں تھا۔ لیکن اسمارٹ فونس اور دیگر Gadgetsنیز انٹرنیٹ کی رفتار میں ترقی کی بنا پر یہ ہرکسی کے لئے ممکن ہوگیا کہ سائیٹس کے ڈیسک ٹاپ پر بلاک ہونے کے باؤجود اپنے موبائل پر اس کو کھول لے اور اپنی توجہ موبائل پر مرکوز کردے۔ اس نئے ٹرینڈ نے اداروں کو مجبور کیا کہ اس طرح کی پابندی کو ہٹادیں ۔ چنانچہ اب کئی کمپنیز اور یونیورسٹیز و کالجز میں آپ بلاروک ٹوک کسی بھی سوشل میڈیا سائٹ کو کھول سکتے ہیں۔گلوبل ویب انڈیکس (GWI) نامی ایک ایجنسی کے مطابق دنیا بھر میں انٹرنیٹ یوزرز ، اوسطاً 2گھنٹہ23منٹ روزانہ سوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔ اور جیسا کہ عرض کیا گیا اس کا بیشتر حصہ بے مقصد سرگرمیوں میں صرف ہوتا ہے۔
جب کوئی کسی لت کو اپنے اوپر سوار کرلے اور اس پر اپنا وقت صرف کرے تب اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تعمیری سرگرمیوں پر صرف ہونے والے وقت میں کٹوتی ہو۔ طلباء اور پڑھنے والوں کے لئے اس کا لازمی مطلب ان کے مطالعہ کے وقت میں کٹوتی ہوگی۔ آج کل آپ کی ڈیجیٹل صحت (Digital Wellbeing)کی جانچ کے لئے کئی ایپس آگئے ہیں جو آپ کے اسکرین ٹائم کی جانچ کرتے ہیں اور ساتھ ہی بتاتے ہیں کہ آپ نے کس ایپ پر کس قدر وقت صرف کیا ہے۔ اسی طرح کے ایک اپلی کیشنOmni Calculatorکا کہنا ہے کہ اگر آپ روزانہ صرف دس منٹ اپنے سوشل میڈیا کے اوقات میں کٹوتی کریں تب آپ ہر سال 30نئی کتابوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دن کا بیشتر حصہ سوشل میڈیا پر (لایعنی) سرگرمیوں میں صرف کرنے والا طالب علم دراصل اسے اپنے مطالعہ کی قیمت پر صرف کررہا ہے۔
امریکن سائیکلوجیکل ایسوسی ایشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک اوسط امریکی ٹین ایجر آج کل میگزینس، نیوز پیپرزیا کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتا۔20فیصد سے بھی کم ٹین ایجرز ایسے ہیں جو روزانہ کچھ نہ کچھ اوقات اس طرح کے مطالعہ میں صرف کرتے ہیں۔اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ صرف مطالعہ کی عادت کم ہوئی ہے بلکہ اسی اسٹڈی کے مطابق روایتی میڈیا کے ذرائع جیسے ٹیلی ویژن اور موویز (تھیٹر میں) دیکھنے کا رجحان بھی کم ہوا ہے اور یہ وقت بھی ٹین ایجرز سوشل میڈیا پر صرف کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اسٹڈی ایک اور اہم حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ سوشل میڈیا نے مطالعہ یا پڑھنے کی عادت پر اس قدر اثر نہیں ڈالا ہے اور نہ ہی اس نے نوجوانوں کی ذہانت کو متاثر کیا ہے ۔ لیکن لمبے مضامین اور پیچیدہ مواد کو پڑھنے اور سمجھنے کی عادت یقینا متاثر ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا چھوٹے ، آسان اور نسبتاً کم پیچیدہ مواد کو پیش کرتا ہے اور اس کا استعمال کرنے والا اسی کا عادی ہوجاتا ہے۔ لیکن کسی سنجیدہ اور پیچیدہ موضوع کو سمجھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس پر ٹھہر کر سمجھا جائے اور ضرورت ہوتو لمبا مطالعہ بھی کیا جائے۔ اس عادت کو سوشل میڈیا کی لت بری طرح متاثر کرتی ہے۔ اور انسانی ذہن کسی ایک موضوع پر لمبے وقت کے لئے رکنے اور غور کرنے لئے آمادہ نہیں ہوپاتا۔
اسی کا ایک اور نقصان یہ ہے کہ انسانی ذہن نئی چیزوں پر سوچنے ، سمجھنے اور نئی راہیں سلجھانے کے لئے آمادہ نہیں ہوتا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انٹرنیٹ کے انقلاب نے تخلیقیت (Creativity)کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔ دنیا بھر میں معلومات کے ذرائع تک رسائی نے انسانی ذہن کو کھولنے میں مدد دی ہے اور انسانی ذہن کی اٹھان صرف اپنے ماحول اور اپنے آس پاس تک محدود نہیں رہی ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ آیا پیچیدہ اور سنجیدہ موضوعات پر غور و فکر اور اس قسم کی گتھیوں کو سلجھانے کے لئے جیسے مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے کیا وہ مواد سوشل میڈیا سے حاصل ہوپاتا ہے۔ تخلیقیت جہاں معلومات تک رسائی چاہتی ہے وہیں وہ سنجیدہ غور و فکر ، گفتگو ، ڈسکشن ، مطالعہ کا بھی تقاضا کرتی ہے۔ سوشل میڈیا ان سب کے لئے پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے لیکن اس کا بے ڈھب اور بے جا استعمال ان تمام کو شدید طور پر متاثر کرنے کا باعث بھی ہے۔
سوشل میڈیا کئی افراد کو معلومات کے ذرائع سے ایک ساتھ جوڑ دیتا ہے اور سیکنڈس میں انفارمیشن کی ترسیل لاکھوں لوگوں تک ہوجاتی ہے۔ یہاں پر معلومات ہر لحظہ تبدیل ہوتی ہے۔ جہاں یہ بات فائدہ مند ہے وہیں کہیں نہ کہیں کسی سنجیدہ موضوع کے مطالعہ اور مضمون کی گہرائی تک سمجھ میں نقصان دہ بھی ثابت ہوتا ہے۔ بطور مثال،تیزی سے تبدیل ہوتے سیاسی حالات میں سوشل میڈیا یوزرز کو اس بات کی جانکاری تو ہوتی ہے کہ صورتحال میں کیا تبدیلی واقع ہوئی ہے اور کوئی فرد یا ملک کیا رول انجام دے رہا ہے لیکن ان میں اکثریت اصل مسئلہ اور اس کی جڑ سے ناواقف ہوتی ہے۔ معلومات کے روایتی ذرائع جیسے کتابیں اور میگزینس اس ضرور ت کو بڑی حد تک پورا کرتے ہیں اور اپنے قارئین کو اصل مسئلہ اور اس کی وجوہات سے واقف کرواتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں بہت تیزی سے آنے والی معلومات کا یہ سیلاب اپنے یوزرز کو سنجیدگی سے سوچنے اور مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کا وقت نہیں دیتا ہے۔
یہ موضوع طویل ہے اور سوشل میڈیا کی وجہ سے مطالعہ پر ہونے والے منفی اثرات مسلم ہیں۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا، سوشل میڈیا کو محض فیس بک ، انسٹاگرام اور ٹِک ٹاک جیسی سائٹس تک محدود کردینا ناانصافی ہوگی اور یہ بات بھی غلط ہوگی کہ سوشل میڈیا کو بہتر مطالعہ کے لئے استعمال ہی نہیں کیا جاسکتا۔آئیے، اس جانب بھی ایک نظر ڈالی جائے۔
سنجیدہ مطالعہ کے لئے سوشل میڈیا کا کیسے استعمال کیا جائے
سوشل میڈیا کے میدان میں Collaborative Learning ایک مقبول عنوان ہے۔ Collaborative Learningیا باہمی مطالعہ ایک ایسا طریقہ کار ہے جس میں کئی لوگ یا گروپس ایک ساتھ باہمی تعاون کے ذریعہ کسی موضوع کا مطالعہ کرتے ہیں یا سیکھتے ہیں۔ اس سرگرمی میں شامل تمام لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کسی پراجیکٹ یا کسی مخصوص موضوع پر کام کرتے ہیں ، ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں، اپنا مطالعہ دوسروں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں اور اس طرح موضوع کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔Collaborative Learningکے لئے سوشل میڈیا آج کل بہت زیادہ استعال ہورہا ہے۔
٭یوٹیوب اور فیس بک کو آن لائن مواد کی ترسیل کے لئے بہت زیادہ استعمال کیا جارہا ہے۔ اگرچہ کہ ویڈیوز ہمارے موضوع (مطالعہ)سے براہ راست تعلق نہیں رکھتے لیکن ویڈیوز آن لائن مواد میں اکثر ٹیکسٹ کے ساتھ ساتھ پوسٹ کیاجاتا ہے ٹھیک اسی طرح جیسے کتابوں اور میگزینس میں ٹیکسٹ کے ساتھ ہم گرافکس، چارٹس اور تصاویر کو پاتے ہیں۔
ٌ٭Slideshareاور اس قسم کی دیگر سوشل میڈیا سائٹس کا استعمال آن لائن مواد کی ترسیل کے لئے کافی بڑھ چکا ہے۔ بالخصوص کالجس اور یونیورسٹیز میں سوشل میڈیا سائٹس طلبا تک ایک ساتھ مواد کی ترسیل کے لئے اہم ذریعہ بن چکا ہے۔
٭یاہو گروپس جوسوشل میڈیا کے اولین دور میں کافی مقبول تھا، وہاں پر مختلف موضوعات پر ہم خیال لوگوں کے آن لائن گروپس تشکیل پاتے تھے۔ یکساں موضوعات پر مواد کو شیئر کرنے، مطالعہ کرنے اور ایک دوسرے سے سیکھنے کا یہ ایک اہم فورم تھا۔ بدقسمتی سے دیگر کئی وجوہات کی بناء پر یاہو کی یہ سائٹ آنے والے دنوں میں کامیابی سے چل نہ پائی۔ لیکن یہ تصور سوشل میڈیا پر آج بھی موجود ہے اور کئی سوشل میڈیا سائیٹس پر ایسے گروپس موجود ہیں۔
٭مطالعہ کو بہتر بنانے کا ایک اہم ذریعہ یہ بھی ہے کہ جو کچھ سیکھا جائے اسے دوسروں تک پہنچایا جائے۔ یہCollaborative Learningکا بھی ایک اہم اصول ہے۔انٹرنیٹ سے پہلے دور میں یہ ہر کسی کے لئے ممکن نہیں تھا چونکہ اپنے خیالات کی تشہیر کے ذرائع صرف کتابیں، اخبار اور میگزینس تھے اور ان کے لئے لکھنا ہر کسی کے بس میں نہیں تھا۔ سوشل میڈیا نے اس کو ازحد آسان بنادیا ہے۔ اور اب یہ ہر فرد کے لئے ممکن ہے کہ وہ کسی بھی موضوع پر انتہائی چھوٹی(جیسے ٹویٹر کے شارٹ میسیجز) یا بہت بڑی(بلاگز وغیرہ) تحریر بآسانی ارسال کرسکتا ہے۔ یہاں تک کہ کتاب کی تصنیف کے بعد ضروری نہیں کہ پبلیشرز کے پیچھے دوڑا جائے، ای بکس سوشل میڈیا پر بہت مقبول تصور بن چکا ہے۔ لیکن اگر سنجیدہ مطالعہ اور سیکھنا مقصد ہو تو ضروری ہے کہ کسی ایک موضوع پر فوکس کیا جائے اور ان لوگوں سے سوشل میڈیا پر زیادہ گفتگو (Interact)کی جائے جو اس موضوع سے دلچسپی رکھتے ہوں۔
٭سوشل میڈیا پر ایسے ماہرین کو فالو کیاجائے اور interactکیا جائے جو آپ کی دلچسپی کے موضوع پر مستقل لکھتے ہوں اور سوشل میڈیا پر سرگرم ہوں۔ یہ ایک ایسا منفرد موقع ہے جو سوشل میڈیا سے پہلے کی دنیا میں بالکل ممکن نہیں تھا۔ یہ ماہرین اپنے موضوعات پر مستقل لکھتے ہیں، سوالات کے جوابات دیتے ہیں، طلباء اور سیکھنے والوں کے شبہات کو دور کرتے ہیں اور اس طرح اپنے موضوع پر پڑھنے اور مطالعہ کرنے کی چاہ کو اور بڑھادیتے ہیں۔ ایک سادہ مثال یہ ہے کہ معروف برازیلین مصنف پاولو کولہو (مقبول عام کتاب الکیمسٹ کے مصنف)سوشل میڈیا پر کافی سرگرم ہیں۔فیس بک ، انسٹا گرام اور ان کا خود کا بلاگ۔ اس طرح کے ماہرین کو سوشل میڈیا پر فالو کرنا، آ پ کے مطالعہ کو اور بڑھاسکتا ہے (بشرطیہ کہ آپ اس موضوع سے واقعتا دلچسپی رکھتے ہوں)۔
٭پاپولر سوشل میڈیا سائٹس کے علاوہ انٹرنیٹ پر ایسی کئی سوشل میڈیا سائٹس موجود ہیں جو مختلف موضوعات پر دلچسپی رکھنے والوں کو جوڑتی ہیں۔ بطور مثال academia.edu ایک ایسی سائٹ ہے جو ریسیرچ اسکالرز اور اکیڈیمکس کو جوڑتی ہے اور زائد از 28ملین ریسرچ پیپرز کا ذخیرہ رکھتی ہے۔ اسی طرح researchgate.net ایک اور سائٹ ہے جہاں زائد 135ملین صفحات موجود ہیں۔
٭ اسٹڈیز یہ بتاتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر وہ لوگ زیادہ بہتر انداز میںCollaborateکرپاتے ہیں جو اپنے تجربات کو شیئر کرنے میں بھی فعال ہوتے ہیں۔ نئی چیزوں کا مطالعہ اور تجربات کا حاصل کرنا، نیز آن لائن ڈسکشن کو آگے بڑھانا اس وقت آسان ہوجاتا ہے جب آپ بھی اپنے تجربات اور علم دوسروں تک پہنچائے۔ اس لئے بہتر ہے کہ آ پ اپنے موضوعات پر بات بھی کرتے رہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ کسی نئے Contentکو تخلیق کرنے ہی کے ذریعہ ہو بلکہ آپ موجود Contentپر تبصرہ، ردعمل اور اپنے نقطہ نظر کو بھی پیش کرسکتے ہوں لیکن یہ اہم ہے کہ آپ کے تبصرے سے موضوع پر ڈسکشن آگے بڑھے۔
اختتام
یہ ایک طویل موضوع ہے اور اس مختصر تحریر میں اس کے کئی پہلوں پر گفتگو ناممکن ہے۔ خلاصہ کلا م یہ کہ، سوشل میڈیا نے جہاں مطالعہ کی عادت کو بری طرح متاثر کیا ہے وہیں اس نے کئی نئے مواقع بھی پیش کئے ہیں۔ سوشل میڈیا کے چند بنیادی اخلاقیات ( جن کا دائرہ محض مطالعہ تک محدود نہیں) پر عمل کے ذریعہ اس کو مفید بنایا جاسکتا ہے۔
بطور مثال ۔
٭ Random Surfingسے پرہیز کیا جائے۔
٭ Random لوگوں کو فالو کرنے سے پرہیز کیا جائے۔
٭سوشل میڈیا پر اپنے وقت کا تعین کریں اور اس پر لازما ً کاربند ہوں۔ اس کے لئے Digital Well beingٹولس کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔
٭ دلچسپی کے موضوعات کا انتخاب کیا جائے اور اپنے سوشل میڈیا ایکٹوزم کو اس جانب مرکو ز کیا جائے۔
٭ مقبول عام سوشل میڈیا ویب سائٹس کے علاوہ ایسی سوشل میڈیا سائٹس کو بھی فالو کیا جائے جو علمی (اکیڈمک) ترقی میں مددگار ہوں۔
٭ فائدہ مند Contentsکی تخلیق پر بھی توجہ دی جائے بجائے یہ کہ صرف دوسروں کے پوسٹس کو فالو کیا جائے۔
٭ کوشش کی جائے ایسے سوشل میڈیا گروپس میں شرکت کریں جہاں original contentتخلیق کیا جاتا ہو بجائے Forwards یا Re-shareکے ۔ ایسے گروپس میں خود بھی فعال رہیں۔
حوالہ جاتـ:
https://www.apa.org/news/press/releases/2018/08/teenagers-read-book