ارسطونے اس کائنات کو آگ ، ہوا ، مٹی اور پانی کا مجموعہ قراردیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ کائنات کی تشکیل میں پانی کا اہم حصہ ہے ۔زمانہ قدیم سے پانی حیات کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ قدیم انسان، خانہ بدوش چراوہے دریاؤں کے کنارے خیمہ زن ہوتے تھے۔ دنیا کی قدیم ترین انسانی تہذیبیں پانی کے مستقل ذخائر کے کناروں پر آباد ہوئیں۔ عراق کی میسوپوٹامئین تہذیب دجلہ و فرات کی گود میں پھلی پھولی، مصر کی تہذیب نے دریائے نیل کے دامن میں جنم لیا، جبکہ ہڑپن تہذیب ، دریائے سندھ کے آغوش میں پرورش پاتی ہے۔
جدید زمانے میں زراعت کے لئے آبپاشی، بجلی، اور روز مرہ کے استعمال کے سلسلے میں ان دریاؤں کی اہمیت مسلم ہے۔
سندھو ندی ، ہمالیہ پہاڑ کی ایک چوٹی مانسرور سے نکلتی ہے جو چین کے زیر انتظام تبت میں واقع ہے۔ یہ ندی ہندوستان کے صوبہ کشمیر کے سنگلاخ کوہساروں کو عبور اور پاکستان کے ایک بڑے علاقے (پنجاب، خیبر پختونخوا، سندھ وغیرہ) کو سیراب کرتے ہوئے خلیج عرب سے جا ملتی ہے۔ سندھو ندی کے ہمالیہ سے نکلنے کے بعد راستے میں کئی دوسری نسبتاً چھوٹی ندیاں اس میں شامل ہوجاتی ہیں ،جنہیں ٹریبیوٹریز (Tributaries)کہا جاتا ہے۔ یہ ندیاں مشرق سے مغرب کی طرف بالترتیب راوی، بیز اور ستلج، اور جھیلم و چناب ہیں۔ یہ ساری ندیاں سندھ (انڈس )ندی سے مل کر ایک نظامِ سندھ (انڈس سسٹم )بناتی ہیں۔
انڈس سسٹم شمالی ہندوستان اور پاکستان کی زندگی ہے۔ ہندوستان کے پنجاب اور راجستھان صوبوں اور پاکستان کے ایک بڑے علاقے کا ان ندیوں پر بڑا انحصار ہے۔
آزادی کے فوراً بعد سند ھ طاس سے قبل آبپاشی اور ان ندیوں کے استعمال سے متعلق پنجاب اور راجستھان جیسی ریاستوں کے تحفظات تھے۔ لہٰذا یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اس ندی کے نظام سے متعلق کسی دیر پا حل تک پہنچا جائے،کیونکہ پاکستانی ریاست کے لئے ان ندیوں کی اہمیت بہت زیادہ تھی۔ جدید دور میں پاکستانی حکمران خاص طور پر اس حوالے سے بہت حساس تھے۔ بالآخر ورلڈ بینک کی نگرانی میں وہ معاہدہ انجام پایا جسے ، ہند طاس معاہدہ (Indus water Treaty) کہا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ ہندوستانی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اور پاکستانی صدر جنرل ایوب کے درمیان 19/ ستمبر 1960ءکو کراچی میں عمل میں آیا تھا۔
اس معاہدے کی رو سے تینوں مشرقی ندیاں، راوی، بیز اور ستلج ، ہندوستان کے لئے مختص کی گئی جبکہ تینوں مغربی ندیاں- انڈس، جھیلم اور چناب پاکستان کے لئے ۔ ہندوستان ان تینوں مغربی ندیوں سے 20 فیصد پانی استعمال کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ non consumptive مقصد کے لئے ہو، مثلاً ہائیڈرو پاور مقاصد کے لئے۔ لیکن نہ تو انہیں بلاک کر سکتا ہے اور نہ ہی ان کے بہاؤ کو متاثر کر سکتا ہے۔
حال ہی میں کشمیر کے پہلگام میں پیش آئے حملے کے بعد ہندوستانی حکومت کی کیبنٹ کمیٹی آن سیکورٹی نے اس تاریخی معاہدے کو ” فوری طور پر معطل” کردیا ہے۔
اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کی کل گھریلو پیداوار کی 25فیصد ضرورت انڈس ریور سسٹم کے ذریعے پوری ہوتی ہے۔تقریباً 80 فیصدزرعی علاقہ اسی سسٹم کے ذریعے سے سیراب ہوتا ہے۔ ندی کا یہ نظام تقریباً 237 ملین لوگوں کو تعاون کرتا ہے جہاں 61 فیصد انڈس بیسن پر پاکستانی آبادی کا انحصار ہے۔ پاکستان کے بڑے شہر مثلاً کراچی، ملتان اور لاہور کو براہ راست انہی ندیوں سے پانی ملتا ہے۔
ان ندیوں میں بہ رہے پانی کے مسائل کا براہ راست اثر پاکستان کی واٹر سیکیورٹی مثلاً، زراعت، پینے کے پانی اور پانی سے بجلی بنانے (ہاڈرو پاؤر) پر پڑ سکتا ہے۔
کیا ہندوستان واقعی میں یہ پانی روک سکتا ہے؟
آبی معاملات کے ماہر ہمانشو ٹھکر کے مطابق یہ تقریباً نا ممکن ہے کہ ہندوستان پانی روک سکے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ ہندوستان کے پاس اتنے بڑے آبی ذخیرے کو اسٹور کرنے کی استعداد نہیں ہے، ساتھ ہی اتنے بڑے آبی ذخیرہ کو روکنے کا منصوبہ پانی کے اس پورے بہاؤ کے رخ کو موڑنے کا متقاضی ہے جو موجودہ حالات میں ہندوستان کی استعداد کو دیکھتے ہوئے تقریبا ًنا ممکن نظر آتا ہے۔
قانونی طور پر بھی ، سندھ طاس معاہدے میں کسی قسم کے خروج کی شق موجود نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو ہندوستان اور نہ ہی پاکستان یک طرفہ طور پر اس سے دستبردار ہو سکتے ہیں ۔ اس معاہدے میں کوئی حتمی اختتامی وقت بھی مذکور نہیں ہے۔ ساتھ ہی کسی بھی قسم کی ترمیم دو طرفہ رضامندی کی متقاضی ہے۔
معاہدہ سے متعلق مسائل کے تصفیے کے لئے میکانزم یہ ہے کہ تعطل کی صورت میں بالترتیب پرماننٹ انڈس کمیشن ، نیوٹرل اکسپرٹ اور آخر میں فورم آف اربیٹریٹر سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ اس میکانزم میں ورلڈ بینک کے نمائندے کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔
تاہم ویانا کنوینشن- جو معاہدوں کے قوانین پر روشنی ڈالتاہے- کے آرٹیکل 62 کے مطابق، ” حالات میں بنیادی تبدیلی” معاہدوں سے نکلنے کا جواز فراہم کر سکتی ہے۔ہندوستان اس وقت در اصل یہیں سے استدلال کررہا ہے۔ لیکن اس طرح کے آبی معاہدوں کی پاسداری اور سخت ترین حالات میں بھی ان کوہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے معاملات میں عالمی اداروں نے بیشتر فیصلے اس کے خلاف دئیے ہیں۔
بہر حال ہندوستان نے اس حملے کے بعد اس قدم سے یہ ظاہر کیا ہے کہ تاریخی طور پر تین بڑی جنگوں میں بھی پائیداری کے ساتھ باقی رہنے والے اس معاہدے پر ضرب لگائی جا سکتی ہے۔ یہ جدید ہندوستان کے واٹر نیشنلزم کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ایک قوم پرست پارٹی کے زیر اقتدار حکومت کے اس اقدامات کے پیچھے مندرجہ ذیل منصوبے ہو سکتے ہیں :
1۔ طویل المیعاد فائدہ: ہندوستان کا یہ قدم دہشت گردی کے تئیں اس کے سخت سفارتی مؤقف کو ظاہر کرتا ہے۔ ساتھ ہی پاکستان کے ساتھ مذاکراتی میزپر اسے ایک مذکراتی اوزار (Negotiating Tool) کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان مستقبل میں آبی ذخائر کی روک تھام کے حوالے سے ضروری انفراسٹرکچر کی تعمیر وغیرہ پر دھیان دے سکتا ہے۔
2۔ سندھ طاس معاہدہ کی معطلی محض دو طرفہ بحران سے زیادہ ، ممکنہ عالمی اثرات کے ساتھ ایک مثال قائم کرسکتی ہے۔ غیر اتحادی پڑوسیوں کے درمیان پانی کے معاہدے پہلے ہی نازک ہیں۔ ترکی، شام اور عراق کے درمیان دجلہ فرات کا تنازعہ، اسرائیل اور اردن کے درمیان دریائے اردن کا امن معاہدہ، اور دریائے میکونگ کے حوالے سے چین اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے درمیان تنازعہ، یہ سب باہمی تحمل پر مبنی ہیں۔ ہندوستان کا فیصلہ اب ہائیڈرو پولیٹکس کے ذریعے فائدہ اٹھانے والی ریاستوں کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے۔
اگر چہ ہندوستان کے پاس موجودہ وسائل کی کمی کی وجہ سے اس سخت مؤقف کو روبہ عمل لانا آسان نہیں ہے۔ لیکن سالوں تک مقدس مانے جانے والے آبی معاہدے بھی اب محترم نہیں رہے۔ واٹر نیشنل ازم اب ہندوستان جیسے ملکوں کا ایک ایسا ٹول ہے جس کے ذریعے سے پاکستان جیسے ملکوں پر سفارتی طور پر خاطر خواہ دباؤ بنایا جا سکتا ہے۔ اگر چہ ابھی اس سلسلے میں بات چیت جاری ہے لیکن یہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے اس دور کی شروعات ہورہی ہے جہاں جنگ اور عشق میں ہر چیز کو جائز مان لیا جاتا ہے یہاں تک کہ عالمی قوانین، بنیادی انسانی اخلاقیات و وسائل اور ضمیر کے مطالبات کی خلاف ورزی کو بھی۔
(مضمون نگار، محمد علی جوہر اکیڈمی آف انٹرنیشنل اسٹڈیز ، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی میں ریسرچ اسکالر ہیں)