وہ ازلی مسرتوں سے شاد کام ہوچکا،اپنے رب سے کیا ہوا وعدہ پوراکر دکھایا، مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ، ارضِ مقدس کے دفاع میں خون کا آخری قطرہ تک بہاگیا۔ وہ کتنی شدت سے اس تاج کا انتظار کر رہا ہوگا، جس کی خوش خبری اس کے رسول ﷺ نے دی تھی: ویُوْضَعُ علیٰ رأسِہ تاجُ الوقار‘۔حوروملائک کس شان وشوکت سے اس کا استقبال کر رہے ہوں گے!
اے کاش اس کے پاس وہ زبان ہوتی جس سے وہ ہمیں بتا پاتا کہ گھن گرج توپوں اوردہشت ناک میزائلوں کے پیچھے سکون بخشنے والی ایسی نغمگی ہے جو دنیا کے کسی ساز میں نہیں،اس کی موسیقی میں ایسی پاکیزہ حلاوت ہے کہ دنیا کی ساری دولت،عیش وعشرت کی ساری رعنائیاں، جام وسبو کی کھنکھناہٹ، چنگ ورباب کا زیر وبم اور دنیوی موسیقی کی تانیں، سب مل کر بھی اس حلاوت کو چھو نہیں سکتی!
خان یونس کیمپ میں پیدا ہونے والا یہ بچہ جانتا تھا کہ عزت کی زندگی کے لیے بھاری قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ اسےمعلوم تھا کہ آزادی کی طرف اٹھنے والا ہر قدم قربانی چاہتا ہے اسے احساس تھا کہ جس مقدس سرزمین میں پرورش پانا میرے مقدر میں ہے، اس پر دشمن کی نگاہیں صدیوں سے ٹکی ہوئی ہیں۔اس کا اس بات پر ایمان تھا کہ ہماری کش مکش وقتی کش مکش نہیں ہے بلکہ یہ ہماری قسمت ہے جس کی لاج ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک اٹھاتے رہیں گے۔
اسے اپنے رب کے ہر وعدے پر کامل یقین تھا، تبھی تو اس نے قید وزنداں کی مشقتیں جھلیں،تمنائے دیدار محبوب ہی تو تھی جس نے اس کے قدم تیز کردیے،وہ بے لوث چاہت ، یقین کی آہنی قوت، محبت کی تڑپ،ارض مقدس کا دفاع اور اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر جی جان گنوادینے کا کوہ افگن جذبۂ ایمان ہی تو تھا ، جس نے طوق ورسن کو زلف دوست اور زنداں کو سایۂ مژۂ یا ر کہا:
میرے راستوں میں قدم قدم جو لہو کے نقش ونگار ہیں
تری چاہ ہیں، ترا شوق ہیں، تراعشق ہیں، ترا پیار ہیں
وہ چاہتا تو دنیائے عیش وعشرت کی ہر خوشی حاصل کر لیتا، اہل وعیال، بال بچےکو نہال کر دیتا، پر لطف زندگی کا نظارہ کراتا۔ بدلے میں صرف ضمیر کا سودا ہی تو کرنا پڑتا؛ لیکن اس کی ایمانی غیرت نے عزیمت کا راستہ چھوڑنے سے انکار کر دیا، عزیمت کا راستہ ہی اختیار نہیں کیا، آغاز جوانی ہی سے دشمن کے حلق کا کانٹا بن گیا۔ زنداں کی صعوبتوں نے اس کے پایۂ استقلال کو اور مزید کیا، وہ ہر سلاخ میں سے روشنی پھوٹتے دیکھتا تھا جو آزادی کا راستہ روشن کرتی تھی۔
عظیم مردِمجاہد کی شہادت سے انتقام کا خون لیے پھرنے والے کفر وشرک کے بھیڑیوں کویقیناً خوشی ملی ہوگی، مادی قوت ونخوت کے بل بوتے پر دندناتے پھرنے والے درندہ صفت سورماؤں کو لگ رہاہوگاکہ ہمارا مشن کا م یاب ہوا؛لیکن نادان غلط فہمی میں ہیں کہ سنوار کی شہادت سے مزاحمت کی لہر کم ہوجائے گی،اسے کیا خبر کہ سنوار’یحییٰ ‘بھی ہے ۔وہ ایک فرد نہیں، ایک زندہ جاوید تحریک کانام ہے، صبرواستقامت اس کی رگوں کا خون، عزم وحوصلہ اس کا خاندانی ورثہ اور غاصب ظالموں کو کڑوا گھونٹ پلانا اس کی فطرت کا تقاضاہے۔تحریک کبھی مرتی نہیں ، بلکہ اس کی ہر شاخ اپنے جلو میں انقلاب کی آندھی لیے پھرتی ہے:
إذا سیِّدٌ مِّنَّا خَلا قامَ سَیِّدٌ
قَؤُوْلٌ لِمَا قَالَ الْکِرَامُ فَعُوْلُ
(جب ہمارا کوئی سردار گزرجاتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے
اوروہ گفتار وکردار میں اپنے سے پہلے شرفاء ہی کے نقش قدم پر ہوتا ہے)
سنوا ر !تیرے فضل وشرف کے لیے اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ تو نے اس سرزمین سے محبت کی، جو انبیاءکا مسکن رہی ہے،تو نے اس رسول کی امت کا دفاع کیا، جس نے اسی سر زمین پر انبیاء کی امامت فرمائی تھی!کیا تیری عظمت کے لیے اتنا کافی نہیں ہے کہ تیری شہادت پر ہر مومن دل رویا ہے، تیری یادیں کس دل میں زندہ نہیں ہیں!تیری روح کی تابندگی توہر حق پرست مجاہد کو لو بخشتی ہے!تونے جس عظیم مشن کے لیے اپنا خون بہایا ہے، وہ قیامت تک زندہ رہے گا۔کاش کہ دنیا ترے ان الفاظ کی گہرائی کو سمجھ سکے:
’’جوقومیں ہار ماننے سے انکار کردیتی ہیں وہ اپنے ہاتھوں سے معجزے تخلیق کرتی ہیں۔‘‘
تیری یہ وصیت سرفروشوں کے دستے کو ہمیشہ تازگی بخشتی رہے گی :
’’دنیا سے توقع مت رکھنا کہ وہ تمہارے ساتھ انصاف کرے گی۔ میں نے اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ دنیا کس طرح ہمارے الم کو خاموش دیکھتی رہی۔ انصاف کا انتظار مت کرو، بلکہ تم خود انصاف بن جاؤ۔ اپنے دلوں میں فلسطین کا خواب سجاکر رکھو۔ ہر زخم کو ہتھیار بنادو اور ہر آنسو کو امید کے چشمے میں بدل لو۔‘‘
(مضمون نگار، ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ سے وابستہ ہیں)