مذکورہ تحریر بروکنگ انسٹیٹیوشنز کی جانب سے شائع مضمون:
”?The Assad regime falls. What happens now“
کی اردو ترجمانی ہے۔ بروکنگز انسٹی ٹیوشن (Brookings Institutions) 1916ء میں قائم ہوا ایک امریکی غیر سرکاری تھنک ٹینک ادارہ ہے جو معیشت، حکمرانی، خارجہ پالیسی، عالمی معیشت، ترقیاتی امور اور میٹرو پالیسی پر اپنی گہری تحقیق اور پالیسی سازی کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس کے مراکز دوحہ (قطر)، بیجنگ (چین)، اورہندوستان (دہلی) میں بھی کام کر رہے ہیں۔
اس مضمون میں تفصیل سے اس بات کا تجزیہ کیا گیا ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام کو نئے مواقع اور چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے۔ عالمی طاقتوں کے لیے یہ تبدیلی فائدے اور خطرات دونوں کو ساتھ لے کر آ سکتی ہے، جبکہ خطے کی طاقتیں اس صورت حال کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں عالمی سطح پر سیاسی حالات اور اسٹریٹجک مسائل بھی جنم لے سکتے ہیں۔
8/دسمبر 2024ء کو حکومت مخالف فورسز نے شام کے دارالحکومت ’دمشق ‘پر اپنا قبضہ کر لیا، جس کے نتیجے میں صدر بشار الاسد کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ واقعہ 13 سالہ خانہ جنگی کے بعد پیش آیا اور اس کے ساتھ ہی اسد کے ظالمانہ اقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔ ذیل میں بروکنگز انسٹیٹوشنز کے ماہر تجزیہ نگاروں نے اس اہم پیش رفت کے اثرات، آئندہ کی صورت حال اور اٹھنے والے ممکنہ سوالات پر روشنی ڈالی ہے۔
- شامیوں کا جشن انقلاب: عراقیوں کے تجربات کی بازگشت
اہل شام بشار الاسد کی آمرانہ حکمرانی کے زوال پر جو جشن منا رہے ہیں، وہ ایک طویل جدوجہد کی کامیابی کا غماز ہے، جہاں آزادی کی نئی روشنی نے ظلم و جبر کی تاریکی کو مٹایا ہے اور بہتر مستقبل کی نوید سنا رہا ہے۔ یہ منظر تو ساری دنیا کے لیے ایک حسین لمحہ ہے، خاص طور پر اہل عراق کے لیے کہ انہیں یہ ماضی کے ایک خوشگوار لمحہ کی یاد دلاتا ہے۔ کیونکہ دو دہائیاں قبل عراق میں بھی ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملا تھا جب ایک اور متشدد حاکم صدام حسین کو اقتدار سے ہٹا دیاگیا تھا۔ تاہم، اس وقت عراق میں بیرونی قبضہ تھا، جبکہ شام میں موجودہ صورتحال مختلف ہے۔
چہار طرفہ اس جشن کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ شام کے مستقبل کے حوالے سے ابھی تک بے شمار سوالات موجود ہیں۔ خاص طور پر، شام کی موجودہ مسلح اپوزیشن کے اہم رہنماؤں میں ایک ایسا شخص بھی شامل ہے جس نے عراق میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں حصہ لیا تھا اور وہ القاعدہ اور پھر داعش کا حصہ بھی رہا ہے۔ عراق کی شیعہ مسلح جماعتیں، جو کبھی ایران کے دباؤ میں بشار الاسد کی حمایت کیا کرتی تھیں، اب اس سے علاحدہ ہو چکی ہیں اور عراقی حکومت نے دمشق سے اپنے سفارت کار واپس بلا لیا ہے اور داخلی استحکام پر زیادہ فوکس ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق عراق کے تجربات شام کے لیے اہم اسباق فراہم کرتے ہیں، جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں ممالک نے آمریت پسند حکمرانی کا طویل دور گزارا ہے، بیرونی مداخلتیں جھیلیں ہیں اور دونوں ملکوں میں خوب نسلی و ثقافتی تنوع پایا جاتا ہے۔ شام کو عراق کے کردستان کے ماڈل سے سیکھنا چاہیے، جہاں عراقی کردوں کو بڑی حد تک خودمختاری دی گئی ہے، ان کی زبان اور ثقافت کا احترام کیا گیا ہے اور انہیں وفاقی حکومت میں اہم مقام حاصل ہے۔ عراق نے یہ بھی سیکھا کہ عبوری انصاف کو نظرانداز کرنا، نئے آئین کو جلدی سے تشکیل دینا اور شدت پسند طریقے سے De-Ba’athification (یعنی حزب البعث کو کنارہ کش کرنا) ، ملک کو مزید انتشار میں دھکیل سکتا ہے۔
- شام: فتح کا جشن اور مستقبل کے چیلنجز
مشرق وسطیٰ کی ایک ظالم ترین آمریت کے غیر متوقع خاتمے پر لاکھوں شامیوں نے ملک اور بیرون ممالک میں بھرپور جشن منایا اور ان کی یہ خوشی بجا ہے۔ بعث پارٹی، جو 1963ء سے شام پر حکومت کر رہی تھی، جس کی گزشتہ پانچ دہائیاں اسد خاندان کی آمرانہ حکمرانی کے سائے میں گزریں اور جس نے نہ صرف شام کو تباہ کیا بلکہ اس کی زمینوں کو روس کے فوجی اڈے اور ایران کے علاقائی عزائم کے لیے ایک لانچنگ پیڈ میں تبدیل کر دیا۔بشار الاسد کی شکست روس اور ایران کے لیے لیونٹ (بحیرۂ روم) میں ایک بڑی اسٹریٹجک ناکامی کی علامت ہے۔یہ خلیجی عرب ریاستوں کے لیے بھی ایک دھچکا ہے، جو اسد حکومت کو بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف تھیں۔ ان کی سیاسی گرفت کمزور ہو رہی ہے، جبکہ ترکی، جو شامی پناہ گزینوں اور حکومت مخالف فورسز کا دیرینہ حامی رہا ہے، اس صورتحال نمایاں طور پر فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ تاہم، شامی عوام کے لیے حقیقی جدوجہد کا آغاز اب ہوتا ہے۔ اپوزیشن قوتوں کو حکمرانی کا کچھ تجربہ ضرور ہے، لیکن ان میں باہمی اتحاد اور ہم آہنگی کے ساتھ حکومت کرنے کا ہنر کم ہے۔ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس)، جس نے تازہ انقلاب کی کامیابی کی قیادت کی، شمالی صوبے ادلب پر حکومت کر رہی ہے، جہاں 30 لاکھ سے زائد شامی اسلامی نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ ایک مضبوط جنگی قوت ہے، لیکن اس کا جہادی پس منظر اور القاعدہ سے تعلق اسے شامی معاشرے کے متنوع سیاسی اور سماجی ڈھانچے پر غالب آنے سے روکتا ہے۔ خوش قسمتی سے، اس کے رہنما ابو محمد الجولانی کو اس حقیقت کا ادراک ہے۔
امریکی حمایت یافتہ کرد اور ترکی کے حمایت یافتہ سنی عرب وہ دیگر ملیشیا گروہ ہیں جنہوں نے اسد کے زوال میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ گروہ شمالی شام میں اپنی الگ الگ حکومتیں چلا رہے ہیں، لیکن اب انہیں سیاسی اور نظریاتی لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ وہ دمشق میں ایک جامع عبوری حکومت کا حصہ بن سکیں۔ اسلام پسندوں کا اثر کم کرنا مشکل ہوگا، لیکن ان کی شمولیت، انتخابات کی امید اور ترکی کے اثرات سیاسی عمل کو معتدل اور متوازن بنا سکتے ہیں۔شام کے حالات اب ماضی کی طرح بدتر نہیں ہوں گے۔ لاکھوں شامیوں کو اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کا موقع ملے گا، جو مسلح ملیشیاؤں اور انتہا پسندی کے خلاف سماجی توازن قائم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ مغرب اب شام میں اپنی دلچسپی برقرار رکھے گا، نہ صرف داعش جیسے شدت پسند گروہوں کی دوبارہ بحالی کو روکنے کے لیے بلکہ اسرائیل کی سلامتی یقینی بنانے، انتہا پسندی کے خاتمے اور شام کی تعمیرِ نو میں مدد فراہم کرنے کے لیے۔
- شام میں روس کی شکست اور افریقہ میں کمزور ہوتی گرفت
بشار الاسد کی حکومت کا ہیئت تحریر الشام (HTS) کے ہاتھوں اختتام روس کے لیے ایک بڑا اسٹریٹجک دھچکا ہے۔ شام میں روس کی محدود فضائی حملے HTS کی برق رفتار پیش قدمی کو روکنے میں ناکام رہے اور اس کے فوجی اثاثے اور مشیر بے اثر ثابت ہوئے۔ اس ناکامی نے روس کی مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں اسٹریٹجک حیثیت، لاجسٹک صلاحیتوں، اور عالمی ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔
روس کے لیے شام میں حمیمیم ایئربیس اور طرطوس نیول بیس کلیدی اہمیت رکھتے ہیں، جو مشرق وسطیٰ میں اس کی فوجی موجودگی کا مرکز ہیں۔ خاص طور پر طرطوس روس کا بحیرہ روم میں واحد بحری اڈہ ہے، جو فوجی آپریشنز، اسمگلنگ، اور دنیا بھر میں رسد کے لیے اہم ہے۔ ان اڈوں کا نقصان نیٹو کے جنوبی محاذ پر روس کے اثر کو محدود کر دے گا اور اس کی فوجی لاجسٹک سپلائی چین میں رکاوٹ بن جائے گا، خاص طور پر افریقہ کورپس کی معاونت کے حوالے سے۔
روس کی افریقہ کورپس کے لیے ان شامی اڈوں نے طویل عرصے تک لاجسٹک مدد فراہم کی ہے، جو براعظم افریقہ میں روسی اثر و رسوخ بڑھانے کا اہم ذریعہ ہیں۔ اگر یہ اڈے ختم ہو گئے تو روس کو شدید لاجسٹک مسائل کا سامنا ہوگا۔ لیبیا کے متبادل اڈے اس خلا کو پر کرنے کے لیے ناکافی ثابت ہوں گے۔ اس صورت حال کے پیش نظر رکھ کر روس نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرتے ہوئے HTS سے رابطے شروع کر دیے ہیں تاکہ ان اڈوں تک رسائی برقرار رکھی جا سکے۔ لیکن HTS، جو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے کا خواہاں ہے، روسی موجودگی کو مستقبل میں اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
روس کی شام میں ناکامی نے افریقہ میں بھی اس کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ مغربی افریقہ کی فوجی حکومتوں اور روس نواز رہنماؤں نے اس ناکامی کو قریب سے دیکھا ہے، جس نے روس کی طاقت کا تصور کمزور کر دیا ہے۔ مالی میں روسی افواج کو مقامی شدت پسندوں اور باغیوں کے ہاتھوں پہلے ہی نقصان اٹھانا پڑا تھا اور شام میں شکست نے اس کے اثرات کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
یہ وقت ہے کہ امریکہ روس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھائے اور افریقہ کو مشرق وسطیٰ کے طاقتور حکمرانوں کے حوالے نہ کرے۔ ضروری ہے کہ روس کی جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کو بے اثر کیا جائے اور افریقہ میں جمہوریت، قانون کی حکمرانی، اور مقامی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔ امریکہ کو نہ صرف روسی اثر و رسوخ کو محدود کرنے بلکہ شام اور افریقہ میں استحکام کے قیام کے لیے اپنا کردار مضبوط کرنا ہوگا۔
- پر امن شام کے لیے اقوام متحدہ کا رول
اگست 2011ء میں، صدر باراک اوباما نے شامی صدر بشار الاسد سے کہا تھا کہ وہ ” عہدہ چھوڑ دیں “ ۔ فروری 2012ء میں، اس وقت کی امریکی سفیر سوزن رائس نے کہا تھا کہ اسد کے ” دن گنے جا چکے ہیں “ ۔ 13 برسوں اور لاکھوں جانوں کے ضیاع کے بعد، وہ سفاک آمر اور مجرم جو شام کی تباہی کا ذمہ دار تھا، آخرکار ملک چھوڑ چکا ہے، اور شاید بھاگتے ہوئے شام کے مرکزی بینک سے خوب لوٹ مار بھی کی ہوگی۔
اسد کی روانگی آخرکار وہ موقع فراہم کرتی ہے جس کا خاکہ جنیوا میں جون 2012ء میں تیار کیا گیا تھا، جس میں شام میں ایک ” منتقلی حکومت “ کے قیام کی تجویز دی گئی تھی جو مکمل انتظامی اختیارات کے ساتھ ملک کی قیادت کرے۔ اُس وقت اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے مشترکہ خصوصی نمائندے، کوفی عنان کی قیادت میں ایک ایکشن گروپ تشکیل دیا گیا تھا، جس میں امریکہ، فرانس، برطانیہ، روس، چین، ترکی، عراق، کویت، قطر، یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے سربراہ، اور اقوام متحدہ و عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل شامل تھے۔ اس ایکشن گروپ کے حتمی اعلامیہ میں شامی قیادت میں منتقلی کے اصول اور رہنما خطوط وضع کیے گئے تھے، جنہیں اسد نے بیرل بموں اور وحشیانہ تشدد کے ذریعے ناکام بنایا۔ دسمبر 2015ء میں، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک بار پھر جنیوا کے 2012ء کے اعلامیہ کی توثیق کی تھی، جسے قرار داد 2254 میں شامل کیا گیا تھا۔
اب، شام کی منتقلی کے عمل کے لیے ایک واضح منصوبہ پہلے ہی موجود ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور ان کے شامی معاملے کے خصوصی نمائندے کو چاہیے کہ وہ جنیوا کی ناکام آئینی عمل کو چھوڑ کر فوراً دمشق کا رخ کریں اور جنیوا کے اعلامیہ اور قرار داد 2254 کو عملی جامہ پہنائیں۔ ترکی اور دوسرے ممالک جو دمشق میں موجود قوتوں سے رابطے میں ہیں، وہ اس عمل کو آگے بڑھانے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ فوری طور پر ایک منتقلی حکومت کے قیام کی ضرورت ہے، تاکہ وہ گروہ (جو آپس میں لڑ بھڑ سکتے ہیں) ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ملک کی بحالی میں حصہ لے سکیں۔ اگر شام اب بھی افراتفری کا شکار ہوتا ہے، تو باہر سے مختلف گروپوں کی حمایت اور مداخلت اس خونریزی کو مزید بڑھا سکتی ہے، جیسا کہ حالیہ برسوں میں سوڈان، یمن، لیبیا اور ایتھوپیا میں دیکھنے کو ملا ہے۔
دمشق اپنے آپ کو عرب دنیا کا ” دھڑکتا ہوا دل “-” قلب نابض “ کہتا ہے، لیکن اسد نے شام کو ” خون بہتا ہوا دل “ بنا دیا تھا۔ تیونس میں جمہوری پسپائی کے باوجود، شام اب بھی ایک دیرینہ کامیابی کا نمونہ بن سکتا ہے، جو ” عرب بہار “ کی تباہی کے بعد اب تک کی سب سے بڑی امید بن کر سامنے آ سکتا ہے۔ یہ حقیقتاً ایک طویل سفر ہوگا، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت شامی عوام اور جنیوا میں شامل قوتوں کو 2012ءکے اصولوں کے مطابق متحد کرنا اس افراتفری اور مزید تشدد کو روکنے کا پہلا قدم ہو سکتا ہے۔
- بشار الاسد کی فوج کی شکست اور شام کے مستقبل پر اس کے اثرات
بشار الاسد کے اقتدار کی طوالت کی بنیادی وجہ ان کی فوج اور سیکیورٹی فورسز کی مضبوط یکجہتی تھی، خاص طور پر علوی اقلیت کے افسران کی غالبیت، جو حکومت کی تبدیلی کو اپنے وجود کے لیے ایک سنگین خطرہ سمجھتے تھے۔ لیکن پچھلے ہفتے اس فوج کا بغیر کسی مزاحمت کے ہار جانا ایک بڑا سوال اٹھاتا ہے: آخر اس فوج نے اتنی شدید مزاحمت کے بعد اچانک ہار کیوں تسلیم کی؟
اس سوال کے کئی جواب ہیں، جن میں فوج کی تھکاوٹ، اس کے سپاہیوں کا حوصلہ پست ہونا، بشار الاسد کی کمزور حکمت عملی اور باغیوں کی تیز رفتار کامیابیاں شامل ہیں۔ تاہم، اس میں دو اہم عوامل زیادہ معنی رکھتے ہیں: پہلا یہ کہ روس، ایران اور حزب اللہ کی جانب سے اسد کی مدد کا فقدان تھا جس کی وجہ سے شامی فوج میں مایوسی پھیل گئی اور اس نے ہار مان لی۔ دوسری بات یہ کہ باغیوں کی طرف سے علویوں کو عفو اور خودمختاری کی پیشکش نے انہیں یقین دلایا کہ اسد کے بعد بھی ان کا مستقبل محفوظ ہوسکتا ہے۔
مستقبل میں دو اہم عوامل پر نظر رکھنا ضروری ہوگا۔ سب سے پہلے، داخلی سطح پر Hayat Tahrir Al-Sham (HTS) کے ابتدائی اقدامات یہ طے کریں گے کہ آیا شام دوبارہ خانہ جنگی کی طرف جائے گا یا نہیں۔ ابھی تک، HTS نے مثبت اشارے دیے ہیں، جن میں تمام شامیوں کے لیے مساوی حقوق، صوبوں کو خودمختاری دینے کی پیشکش اور اسد کے فوجیوں کے لیے معافی شامل ہے۔ لیکن اگر کسی بھی گروہ کو شکایات ہوئیں اور انہیں حل کرنے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو تشدد کی واپسی ہو سکتی ہے۔
دوسرا، اسد کی اقتدار سے بے دخلی کے اثرات صرف شام تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ پورے خطے میں گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ روس اور ایران کی اسد کی مدد میں ناکامی، لبنان میں حزب اللہ، یمن میں حوثیوں اور عراق میں شیعہ ملیشیاوں کی پوزیشن کو کمزور کر سکتی ہے، جس سے ان خطوں میں طاقت کے توازن میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ (جاری )
(مضمون نگار دار البحث والاعلام، لکھنؤ کے ادارہ اللقاء الثقافی کے سابق سیکریٹری ہیں)