علماء، نیتا اور تاجروں کے علاوہ بالعموم ملت اسلامیہ میں کسی اور پیشہ و صلاحیت کے افراد کی قدر دانی کم ہی نظرآتی ہے۔ بڑی آسانی سے سائنسدانوں اور سماجی علوم کے ماہرین کو نظر انداز کرنے کا رویہ ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ اس صورتحال نے ایک ایسی نسل کو تیار کیا ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ دین کی خدمت اور سماج میں شرف وعزت کے لیے ان پیشوں سے ہٹ کر کوئی اور مواقع موجود نہیں ہیں۔ اسی طرح ان میں سائنسی تحقیقی مزاج اور چھان پٹک کے رویے میں زبردست کمی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے برعکس وہ قومیں جونظریات کا تجزیہ کرنے اور تنقیح و تنقید کے ذریعے حقائق تک پہنچنے کا مزاج رکھتی ہیں ان کی اجتماعی زندگی میں بھی اور انفرادی زندگی میں بھی سائنسدانوں اورمختلف علوم کے ماہرین کی بڑی قدر کی جاتی ہے۔
یہ زمانہ مذاہب کے ظلم وجَور کے ختم ہونے اور الحاد کی ستم آرائیوں کا ہے۔ انسانوں کو اپنی حسیات اور استعداد کی کمتری قبول نہیں ہے۔ کائنات کی تفہیم اور تصویر، بغیر خدا کے مشکل متصور نہیں کی جارہی ہے۔ ایسے میں اسلامی ”نظریہ“ بھی جانچا اور پرکھا جائے گا۔ یہ دیکھا جائے گا کہ الحاد کے بالمقابل زیادہ مضبوط بنیادوں پر اسلام تشکیل پاتا ہے یا نہیں۔ کائنات اور اس کے جملہ حیوانات کے بارے میں قابل گرفت جوابات اسلام دے سکتا ہے یا نہیں؟ نئے پیش آمدہ مسائل کا کوئی حل اسلام کے دامنِ جلو میں ہے یا نہیں؟ ان سوالوں کے جوابات تلاش کرنا سماجی نشاط الثانیہ اور اسلام کی دعوت کے لیے ناگزیر ہے۔ ظاہر ہے ان سوالات کے جوابات روایتی علماء، نیتا اور تاجروں کے یہاں ملنے سے رہے۔ اس لیے مسلم طلبہ و نو جوانوں کو اس بے حد قیمتی محاذ کوسنبھالنا ہوگا۔
مصنوعی ذہانت نے انسانوں کے شعور، سماجی روابط، خدمت اور رشتے، فیصلہ سازی اور شخصی آزادی، سیاست و سیادت کے بے شمار پہلوؤں پر سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ ان حالات میں صحیح اجتہاد اسی کے بس کی بات ہے جو کمپیوٹر کی ان اعلیٰ درجہ کی معلومات کا ادر اک رکھتا ہو۔ اسی طرح اطلاقی سائنس نے جن اخلاقی مسائل کو پیدا کیا ہے، اس پر گرفت کرنا اور انسانی شعور کی پرداخت کرنا کسی سائنسداں ہی کے بس کی بات ہے۔ دوسری طرف انسانوں کی تکالیف کا ازالہ، آسودگیوں کا اضافہ، تحقیق اور غور وفکر کی نئی جہات کو پیش کرنے کا کام اس وقت اعلیٰ درجہ کے سائنسدانوں ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسان کی پہنچ اور اس کی بے بضاعتی اور اس کے مخلوق اور مجبور ہونے کا شعور دلانا سائنسی تحقیق ہی سے ممکن ہے۔ گویا ہماری ترقی اور دین کی خدمت کا راستہ لازماً سائنسی تحقیقات سے ہو کر گذرتا ہے۔ اس لیے بحیثیت مجموعی پوری قوم کو ایک بڑا طبقہ ماہرین علوم کا پیدا کرنے کی جانب متوجہ ہونا پڑے گا۔
ہندوستان میں بالعموم اعلیٰ تعلیم کی صورتحال بڑی خراب ہے۔ اور اس پہ ستم یہ کہ مسلمانوں کو پیسہ کمانے کے لیے پیشہ وارانہ کورسیس کے علاوہ کسی اور چیز کی دھن نہیں لگی ہے۔ ان دونوں عوامل نے مل کر اس بات کو عملاً ناممکن بنادیا ہے کہ پوری قوم کو اس جانب فوری متوجہ کیا جائے۔ اسی لیے کم از کم ایس آئی او کے نوجوانوں سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ جہاں وہ خود میں اتنی قوت پیدا کریں گے وہیں امت کے ذہین اور محنت کش طلبہ کو جمع کر کے انہیں خوب سے خوب تر ماہرینِ سائنس بنانے کی جانب کوشاں رہیں گے۔
(مضمون نگار، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات میں اسسٹنٹ پروفیسر اور ماہنامہ رفیق منزل کے سابق مدیر ہیں)