جدیر ناہض
درست لائحہ عمل کو تلاش کرنے میں مقاصد کی صحیح سمجھ، میدان کار کا مزاج اور بزم کے اصولوں سے واقفیت نا گزیر ہے۔
زمین پر بحیثیت خلیفہ نظر دوڑائیں تو مختلف النوع موضوعات تبدیلی کا تقاضہ کرتے ہیں۔انسان کی ذات اورانسانی سماج میں بہت سی اقدار اور بہت سے اصول بدل دئےجانےکے مستحق ہیں، یہ صورت حال نئی نہیں ہے۔یہ ہمیشہ رہی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ایک ہی چیز ہمیشہ رہی ہے اور وہ تبدل و تغیر ہے۔ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ بنیادی طور پر ذاتی و معاشرتی سطح پر ترجیحات و اقدار اور اصول ہمیشہ موضوع بحث بنتے چلے آئے ہیں۔جی ہاں سماجی تبدیلی جس حد تک سماجی و اجتماعی ہئیت کی نظر آتی ہے، بڑی حد تک انفرادی تبدیلی ہوتی ہے۔ اگر انفرادی تبدیلی نہ ہو تو وہ سماجی تبدیلی کے بجائے سیاسی تبدیلی بن جاتی ہے ۔سیاسی تبدیلیاں کسی سماجی تبدیلی کے لئے معاون یا مزاحم ہو سکتی ہے لیکن بنیاد یا اختتام نہیں ہو سکتی۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں سماجی تبدیلی کو سمجھنا مفید رہے گا۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق سماجیات میں سماجی تبدیلی کو تہذیبی علامات ،طور طر یق، سماجی تنظیموں اور اقدار کے نظام کی تبدیلی قرار دیا گیا ہے۔مولانا مودودی کے نزدیک تہذیب کے پانچ تکوینی عناصر ہیں۔
١: زندگی کا تصور
٢: زندگی کا مقصد
٣:سیرت کی تعمیر کے اساسات
٤:انسان کے اخلاق کا چناؤ
٥: انسان کے معاشرتی تعلقات
سر سری نظر بھی دوڑائ جائے تو سماج میں اہم ترین عوامل افراد کی ذاتی زندگیوں سے متعلق معلوم ہوتے ہیں۔ کسی بھی سماج کا مزاج یا اس کی تہذیب اس سماج کے اکائیوں (افراد) کے گرد گھومتے ہیں ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سماجی تبدیلی در اصل افراد کے افکار اور افکار کی اساسات، اخلاق کے معیار اور معاشرتی وجود کے اصول (social contract) کی تبدیلی کا نام ہے ۔حقیقی اور پائیدار تبدیلی وہی ہوگی جس میں اوپر بیان کی گئی اکائیوں پر بھر توجہ دی گئی ہو۔
اب کچھ سوال:
کیا انقلاب فرانس سماجی تبدیلی تھا؟
کیا امریکی انقلاب سماجی تبدیلی کہلائےجانے کے لائق ہے؟
کیا ہندوستان کی آزادی سماجی تبدیلی ہے؟
کیا بی جے پی کا حکومت میں آنا سماجی تبدیلی ہے؟
کیا فیمنزم سماجی تبدیلی کا اشاریہ ہے؟خواتین کے حقوق کی لڑائی ،ٹرانسجینڈر لوگوں کے حقوق کی لڑائی، ہم جنس لوگوں کی شادیوں کا رواج۔ کیا ان میں سے کوئی ایک سماجی تبدیلی کی اکائی قرار پائے گا؟
جی ہاں پہلی چار چیزیں سماجی نہیں سیاسی تبدیلی کہلائیں گی۔ انقلاب فرانس تو بڑی حد تک مضحکہ خیز ہے۔وہ اس حوالے سے کے بادشاہوں کے ظلم کے خلاف عوام نے احتجاج کیا اور بادشاہ کو ہٹا کر ایک مختلف طر ز کا نظام بنایا جسے جمہوریت کہا گیا۔ اس جمہوریت کی فوج میں نپولین نے ترقی حاصل کی پھر اس نپولین نے نئی نئی جمہوریت کی حفاظت کے لئے یورپ کی دوسری بادشاہتوں سے جنگ کی اور فتح کے بعد اس ہی نپولین نے خود کو بادشاہ کہلوایا۔ بات جہاں سے شروع ہوئی تھی وہی جاکر ختم ہو ئی۔ بات اور بھی مضحکہ خیز اس وقت ہو جاتی ہےجب نپولین اپنے لئےتاج بناتا ہے تو بالکل ویسا ہی بناتا ہےجیسا کہ رومن سلطنت کے بادشاہ کا ہوا کرتا تھا ۔ یہ ایک فرانسیسی ریو لیشن تھا اور ریو لیشن میں جہاں سے دائر ے کا چکر لگنا شروع ہوتا ہے وہیں پر اختتام بھی ہوتا ہے۔
سماجی تبدیلی کا عربی ماڈل
افکار کی سطح پر چھوٹی موٹی تبدیلیاں ہمیشہ ہوتی رہی ہیں لیکن عقائد کی بنیاد پر ہونے والی تبدیلیاں اپنے اثرات کے اعتبار سے طویل عرصے تک ٹکنے والی اور شخصی کردار میں مزاج اور ترجیحات تک کی تبدیلی کی ضامن ہو تی ہیں۔ عقائد سے تبدیلی کی شروعات انبیاء کی دعوت کا طریقہ ہے۔ وقت کے تمام مسا ئل کو عقائد سے جوڑنا اور عقائد سے مسائل کے حل کا راستہ دکھانا انبیاء کی دعوت ہوتی ہے۔ ہمارے لئے اس درجہ کی تبدیلی کا قریب ترین ماڈل رسول صلی االلہ علیہ السلام کی دعوت ہے ،ایسی دعوت جس نے عقائد کو چیلنج کیا اوردرست عقیدے پر لوگوں کو جمع کیا ۔اس اپروچ کی وجہ سے سنجیدہ طبع لوگ قریب آئے اور سطحیت پسند پریشان ہوئے یا دور ہوئے۔پھر ان سنجیدہ لوگوں سے عقائد کی بنیاد پر زندگی کے ہر پہلو کو عملی شکل دی گئی، اس کے نتیجے میں جو نظام حیات ابھرا اور جو تبدیلی آئی وہ پائیدار تبدیلی تھی ۔اس عربی ماڈل کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پائیدار سماجی تبدیلی انبیائی طریقہ کار کی متقاضی ہے۔ پھر یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ سماج چاہے کتنا ہی بگڑا ہوا ہو سماج کے مسائل اور اشوز چاہے جو کچھ ہوں، پائیدار سماجی تبدیلی کی شروعات عقائد کی دعوت سے ہوگی۔۱۳ سال تک صحابہ (رض) کے عقائد کو ہر سطح پر چیلینج کیا گیا ۔عقائد پر ان کے ایقان اور ان عقائد کی بنیاد پر تشکیل پانے والے نظم حیات سے ان کے لگاؤ کا امتحان لیا گیا ۔ان لوگوں کا کام نہ صرف اپنے عقائد اور نظم حیات کو ہر چیلنج سے محفوظ رکھنا تھا بلکہ اس نظم حیات کی کھلے چھپے تبلیغ بھی کرنا تھا۔ ان لوگوں نے زبردست معاشرتی ،معاشی اور نفسیاتی دباؤ کے تحت بھی یہ کام کر دیا، جس کے نتیجے میں ان کے اندر ایک ایسا ذوق تبلیغ پیدا ہوا جو کبھی انہیں دیگر کاموں میں ایسا مصروف کر ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ تبلیغ سے غفلت میں پڑجائیں۔
مولانا مودودی اس ذوق تبلیغ کو مسلمانوں کی قوت کا اصل راز قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ذوقِ تبلیغ ایک ہزار سال سے زائد عرصے تک باقی رہا اور اس ہی ذوق سے ہر حال میں عقائد کی دعوت دینے کے شوق میں مسلمانوں نے کئی سیاسی شکستوں کو فتح میں بدل دیا۔ جب تک یہ ذوق باقی رہا اسلام کو سیاسی سطح پر بھی تقویت پہنچا تا رہا، لیکن ۱۸۵۷ء کے بعد سے یہ ذوق تبلیغ ماند پڑتا گیا۔ مولانا مغربی مادہ پرستانہ نظریہ حیات کی مسلمانوں میں قبولیت کو اس کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ چونکہ مولانا مودودی کا تجربہ بیسویں صدی کے ابتدائی دور کا ہے اس لئے اب ایک بار پھر اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا مسلمان اپنے عقائد پر قائم رہنے اور ان کی دوٹوک تبلیغ کرنے کے نتیجے میں معاشرتی معاشی اور نفسیاتی دباؤ کو جھیلنے کیلئے تیار ہیں؟ یا پھر معاشی، معاشرتی اور نفسیاتی دباؤ جیسا بھی ہو کیا مسلمان دین کی دوٹوک دعوت دے کر مزید دباؤ کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں؟
ذوقِ تبلیغ کا زوال اور فطرت مسلمانی
ایک حاوی احساس یہ ہے کہ تاریخ کا مطالعہ کرتے وقت دعوت وعز یمت کی مثالوں کی اتنی پذیرائی نہیں ہوتی جتنی حرب و جدال کی مثالوں کی ہوتی ہے۔ تاریخ کو چھوڑ بھی دیں تو دعوتی نہج پر عملی سرگرمی کا فقدان ایسی حقیقت ہے جسے ہر کوئی قبول کرتا ہے۔ اسلوب دعوت اور اصول تدریج کے بارے میں ابہام اور وضاحت کے نہ ہونے سے اس میدان میں اقدام کرنے والے کم ہی ہوتے ہیں ۔ مزید یہ کہ دعوت جیسے مشکل کام کا ارادہ کرنے والوں کی پذیرائی نہ ہونا عمومی ذوق تبلیغ کی راہ کا کانٹا ہے۔ کیا دعوتی کام کے لئےخود کو مختص کرنے والوں کے لیے کسی معاشی سہارے کا کوئی منصوبہ ہمارے پاس ہے ؟ کیا اسلوب دعوت سے متعلق رہنمائی اور عملی مثالیں موجود ہیں جو اس کام کو آسان سے آسان تر بنائیں ؟کیا راست اسلوب دعوت اختیار کر نے کے لئے کوئی پلاٹ فارم بنانے کی ضرورت کو ہم نے محسوس کیا ہے؟
حکمت کا خیال رکھنے کے باوجوددعوت کے نتیجے میں ٹکراؤ ہوگا ہی۔ لیکن کیا اس ٹکراؤ سے دور رہنے کے لئے شرک کا انکار کرنا بند کردیا جائے؟ ملت کے قائدین کسی بھی سطح پر راست اسلوب دعوت (مع حکمت و مو عظت) اختیار کر تے ہوئے نظر نہیں آتے ۔تو پھر کیسے عوام کا مزاج اس طرف مائل ہو گا ؟یہ اور کچھ ایسی وجوہات عوامی سطح پر ذوق تبلیغ کے فروغ پانے میں مانع نظر آتی ہیں۔
شرط: مسلمانوں میں سب سے پہلے یہی ذوق پیدا ہوا۔ دین کی تبلیغ اور مشکلات میں دین پر قیام کی شرط نے کرداروں کو نکھارا اور نکھرے ہوئے کرداروں کو ڈھونڈا۔ ان کرداروں سے مربوط و منضبط سماج بنا جس میں صلاحیتوں اور علم کو فروغ ملا ، ایسی خصوصیات نے مسلمانوں کو ریاست کا اہل بنایا۔ آج بھی ریاست کے لئے یہی شرط ہے ۔ مشکلات میں دین کی تبلیغ اور اس پر قیام کو وابستگی کے لئے لازمی قرار دیا جائے۔ ہم جس سماج میں رہتے ہیں اس کے اصول بزم چاہے جو بھی ہوں، اس طریقے پر عمل ، سدید اور مستحکم روحوں کی تلاش کے لیے نا گزیر ہے۔ ہو سکتا ہے ایسے لوگ آج کل کے اصول بزم (Rules of the game) کو تبدیل کرنے کی قوت بھی پیدا کرلیں۔ ظاہر ہے کسی ریاست میں اسلامی روح پھونکنا صرف حقوق کی لڑائی سے ممکن نہ ہو گا اس کےلئے کوئی لانگ کٹ لینا پڑےگا۔۔
دعوتی جدو جہد
ڈاکٹر رفعت صاحب مرحوم دعوتی کام میں مستعدی کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ ” اہل ایمان کو چاہیے کہ اللہ کی طرف بلانے کا کام اس مستعدی کے ساتھ کرے کہ بنی نوع انسانی کے ہر فرد کے لئے اللہ کی پکار کو سننا ممکن ہو سکے اور وہ یہ کہہ سکے کہ :
رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا ۚ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَار”مالک! ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا جو ایمان کی طرف بلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اپنے رب کو مانو ہم نے اس کی دعوت قبول کر لی، پس اے ہمارے آقا! جو قصور ہم سے ہوئے ہیں ان سے درگزر فرما، جو برائیاں ہم میں ہیں انہیں دور کر دے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر”(آل عمران: ۱۹۳)
مزید آج کے دور میں خود مسلمانوں کی اسلام کو لےکرجہالت، غیر مسلموں کی مسلمانوں سے نفرت بڑے چیلنجس بن کر سامنے آتے ہیں۔ اک طرف کام کے مستعدی، قربانی، علم اور صبر کے تقاضے ہیں، دوسری طرف یہ چیلنجس۔ ایسی صورت میں دعوتی کام کو کام نہیں جدو جہد کہہ کر متحرک ہونا ضروری ہے۔ جس مستعدی سے وبا کے دوران CRTFکو چلا یا جا رہا ہے، دعوتی مکالمات اور تعلقات کو بڑھانے کا کام اسی مستعدی سے سالوں تک کرنے کا منصوبہ ہو نا چاہئے۔
متوقع بات
جو جماعت دعوت دین کو اولین ہدف قرار دیتی ہو اس کے ارکان کا شخصی مہمات پر نکلنا، محلہ محلہ جا کر خدا سے بے خبر لوگوں کو اس کی قدرت پر آمادہ کرنا ،وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع کرنا کوئی قابل تعجب بات نہ ہو تی لیکن صورتحال دیکھ کر اس جماعت پر ضرور تعجب ہوگا۔
رجحان کی غلطی
وبا کے دوران مسلمانوں نے جس درجہ پر خدمت خلق کا کام کیا وہ دل کی تسلی و تالیف کا باعث بنا ۔جماعت اسلامی نے بھی ٹاسک فورس کے ذریعے قابل قدر خدمات کی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کاموں کا کریڈٹ لیتے وقت قائدین مسلمانوں کی انسان دوستی پر زور دیتے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ “اے زندان کے ساتھیوں ایک خدا اچھا ہے یا بہت؟”۔ یعنی موقع دیکھ کر توحید کی دعوت۔
دعوت اور سیاست میں ایک ہی چیز مماثل ہےاور وہ ہے مو قع پر ستی۔ لیکن قائدین اکثر دعوتی مواقع کو حکمت کے پردے میں گم کردیتے ہیں، اور حکمت اس لفظ پر بہت ظلم ہوتا ہے۔ کیو ں نہ ہر گفتگو میں الوہیت میں تکثیر پر سوالات اٹھائے جائیں؟ کیوں نہ صرف اسلام کو درست کہنے کی بجائے راست طور پر دیگر ادیان کی غلطی بھی واضح کی جائے، چاہے کوئی بڑا اسٹیج ہو یا چھوٹا؟
دعوتی محاذ پر کرنے کے کام بہت سارے ہیں ۔پڑھے لکھے نوجوانوں اور بزرگوں کو دعوتی ٹریننگ فراہم کرنا، اردو میں کئی کتابیں ایسی ہیں جو بڑی اہمیت کی حامل ہیں، ان کتابوں کے ترجمے کا ایک بڑا کام اب بھی باقی ہے، ٹارگیٹیڈ دعوت کے ماڈلس اور طریقہ کار کی ٹریننگ، اسلام پر علمی تنقیدوں کے جواب کی تیاری اور تشہیر کے لئے کوشش، مختلف سماجی و فلاحی تنظیموں سے باضابطہ گفتگو کا سلسلہ، یہ اور ایسے کئی کام ہو سکتے ہیں جو سرگرمی سے کرنے کے ہیں، اور مختص لوگوں کا ہونا اس جدوجہد کیلئےضروری ہے۔ غور کریں تو کاموں کے کئی پہلو نکل کر آتے ہیں، تحریک کے قائدین کو اس طرف خاص توجہ دینی چاہئے۔ مجموعی طور پر مسلمانوں کو اور خصوصی طور پر تحریک کے ارکان کو دعوتی ٹریننگ کی اشد ضرورت ہے، اور یہ ضرورت قائدین کی طرف سے تلقین اور تقاریر سے پوری نہیں ہوگی، اس کے لئے طویل مدتی منصوبہ بنا کر ہنگامی حالات جیسی سرگرمی اور شدت سے عمل ضروری ہے۔
جس سماج میں ہم رہتے ہیں، یہاں تبلیغ دین کیلئے پکا ایمان ضروری ہے۔ ورنہ سماج کچا چبا جائےگا۔ مانو یہ سماج آپ کے ایمان کو تلاش کرنے کی بھٹی ہے، تحریک کو چاہئے کہ زیادہ سے زیدہ ارکان کو اس بھٹی میں پھینکے۔
اتکاز کا مسئلہ
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دعوتی جدوجہد کی ضرورت اور اس کی باریکیاں اور اس کے تقاضوں سے قائدین ناواقف ہیں! حسن ظن تو کہتا ہے کہ وہ واقف ہیں، تو پھر مسئلہ کہاں ہے؟ مسئلہ کوششوں کے ارتکاز کا محسوس ہوتا ہے، کوششیں بکھری ہوئی ہوں تو کسی ایک کام میں شدت اور سرگرمی مشکل ہو جاتی ہے۔
سیاسی ہنگامہ
اتفاق : کم و بیش اس بات پر سبھی سوچنے والوں کا اتفاق ہے کہ دعوت ایک مستقل کرنے کا کام ہے، اور سیاست ہنگامی، اس اعتبار سے سے دونوں میں شمولیت کے مختلف پہلو ہیں جو کہ مختلف نوعیت کے ہیں لیکن دعوت کی نوعیت کو عملی میدان میں بڑی حد تک Underestimate کیا جاتا ہے۔ سیاست ہنگامی کام ہے جو بہت سرگرمی سے کرنے کا ہے۔ اور دعوت مستقل کام ہے جو یا تو اتنی ہی شدت و سرگرمی سے کرنے کا ہے جتنا سیاست یا پھر اس سے زیادہ۔ قائدین کی طرف سے دعوتی میدان میں عملی کوتاہی دعوت یا سیاست کی بحث کو طول دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر دعوت کو اصل کام عملاً قرار دیا جائے ( تحریراً تو یہ اولین ہدف ہے ہی) ، دعوت کو عملا ًاصل کام قرار دینے کی عملی شکل یہ ہوسکتی ہے کہ سال کا کوئی ایک دن بھی ایسا نہ ہو جس دن ملک کے کسی حصے میں دعوتی تربیت کا کوئی پروگرام نہ ہوا ہو، یا یہ کہ کچھ لوگ اس قسم کے تربیتی پروگرامس کیلئے خود کو مختص کردیں، وغیرہ۔ یہ تو دو مثالیں ہوئی، کئی مثالیں ہو سکتی ہیں جو عزیمت اور بزرگی سے عبارت ہوں گی۔ تبلیغ میں اپنا حصہ شامل کرنے کا کام قائدین سے شروع ہو، اور ہر سطح پر چھوٹی بڑی قربانیوں کے تقاضے ہوں، مسائل اور خطروں کی آنکھوں میں دیکھنے کی تلقین ہو۔ اگر دعوت پر خاطر خواہ توجہ دی گئی تو مسلمان سیاسی طور پر بھی مضبوط ہوں گے۔ اور اس اپروچ کے ساتھ فائدہ یہ ہوگا کہ جس شناخت کے ساتھ آج کل سیاست کرنے کا سوچا جارہا ہے وہ شناخت مسلمانی ہونے کے بجائے انبیائی ہوگی۔
ظاہر ہے سارے مسلمانوں نے طے نہیں کیا کہ دعوت دین ان کا اولین ہدف ہے البتہ جنہوں نے کیا، کم از کم ان کو کما حقہ دعوت کا کام کرنا چاہئے۔
قرآن میں جہاں اللہ کو قرض حسنہ دینے کی بات آتی ہے وہاں معلوم ہوتا ہے کہ دعوت دین دراصل اللہ کے کرنے کا کام اور ہم سے اس کام میں ہاتھ بٹانے کے لئے کہا جا رہا ہے، اور ہاتھ بٹانے کے نتیجے میں اس سے کئی گنا زیادہ کا یقین دلایا گیا ہے۔کیا یہ تو قع کرنا صحیح ہوگا کہ آپ اپنے حقوق کی لڑائی کو چھوڑ کر اللہ کا کام کرنے لگ جائیں اور اللہ سیاسی طور پر آپ کو بے یار و مددگار چھوڑ دے ؟ ایک مثال کے ذریعے سنت اللہ کو سمجھا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔” پندرہویں صدی میں جزیرہ(ملایا) کا سب سے بڑا اسلامی مبلغ راڈن رحمت پیدا ہوا جس نے اسلام کو غربت کے بو ریے سے اٹھا کر بادشاہی اور بالا دستی کے تخت پر پہنچا دیا اس نےشاہانہ نازو نعم میں پر ورش پائی تھی اور اگر چاہتا تو خود بھی کسی تخت کا مالک بن جاتا مگر اس کے دل میں اپنی نفسیات کی خدمت کی بجائے اپنے مذہب کی خدمت کا جوش بھرا ہوا تھا اس لئے اپنی زندگی کا مقصد وحید صرف تبلیغ و اشاعت اسلام کو قرار دیا اور: “اور اپنے قریب ترین رشتے داروں کو ڈراؤ”(الشعرا ء:214)کے ارشاد ربانی کے مطابق سب سے پہلے اپنے خاندان سے تبلیغ کا کام شروع کیا۔ اس نے اپنے نانا کو جو چمپا کا راجا تھا اسلام کی دعوت دی۔پھر “بالم بانگ” پہنچا اور اپنےرشتے کے بھائی آریہ وامر کو جو راجا کی طرف سے وہاں کا گورنر تھا مسلمان کر لیا ۔اس کے بعد مولانا جمادی الکبری کی معیت میں ” ماجا پا ہت”(Majapahit) پہنچا اور راجا کو جو اس کا خالو تھا اسلام کی دعوت دی راجا نے خود تو اسلام قبول نہیں کیا مگر اسے امپل کا گورنر مقرر کرکے پوری آزادی کے ساتھ اشاعت اسلام کی آزادی دی۔۔چنانچہ اس نے اپنے زمانے گورنری میں امپل کے تقریباً تین ہزار خاندانوں کو مسلمان کیا اور اسلامی مبلغین کی ایک بڑی جماعت کو اطراف و جوانب کے جزیروں اور ریاستوں میں پھیلا دیا۔شیخ خلیفہ حسین جس نے مدورا کو اسلام کی روشنیوں سے معمور کردیا تھا اسی کا فرستادہ تھا ۔مولانا اسحاق جنہوں نے ریاست”بالمنگن” میں اسلام کی اشاعت کی اسی کے فیض یافتو میں سے تھے ۔راڈن پاکو (Raien paku)جس نے گریسک کے علاقے میں بت پرستی کا کھوج مٹا دیا تھا اس کے فیض تربیت کا پروردہ تھا۔خود اس کے دونوں بیٹے بھی جاوا کے مشہور اسلامی مبلغین میں شمار ہوتے ہیں اور اس کے دو قریبی رشتے دار راڈن پٹہ(Raden parts) اور راڈن حسین جاوا کی تاریخ میں اس حثیت سے بہت مشہور ہے کہ انہوں نے ہندو مذہب کی سب سے بڑی قوت یعنی ماجاپا ہت کو قطعی طور پر مسخر کر لیا۔راڈن حسین نے ماجاپا ہت کی فوج کو سپہ سالار ہونے کی حیثیت سے اسلام کی طرف دعوت دی اور راڈن پٹہ نے 1478ءمیں کفر کو آخری شکست دے کر ماجاپاہت کو اسلامی حکومت بنا دیا۔۔ ( کتاب : اسلام کیسے پھیلا از مولانا مودودی )
اس قصے کے ذیل میں دعوت کے مخاطبین کون ہوں کا سوال الگ بحث ہے، جس طرف توجہ دلانا مقصود ہے وہ یہ کہ کام کی شروعات ذوق تبلیغ سے ہوتی ہے، اور ہندوستان کے تناظر میں تو یہ شروعات ذوق تبلیغ کی بازیافت سے ہوگی۔ اگر اس مقصد کو لےکر تمام وسائل لگا دئے جائیں،تو پھر نئے افراد کے ساتھ نئی راہیں کھلیں گی، نئے سوال اور الگ الگ پلیٹ فارم ملیں گے، اور سماجی تبدیل کا وہی پائیدار اور انبیائی طریقہ شروع ہوگا جو ریاست کا اہل بنا۔ اس سب کےلئے رجحان اور ترجیحات تبدیلی کا تقاضا کرتے ہیں، ساتھ ہی ایسے پروانوں کی ضرورت ہے جو صلاحیتوں کے ساتھ صبر اور قربانی کی قوت بھی رکھتے ہوں۔ ایسے افراد کی خوب حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ اس کردار کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے جو اپنے جان ، مال کو جنت کے لئےبیچ دیتا ہے۔ راست دعوت ایک چیلنج ہوتی ہے اور چیلنجس لےکر آتی ہے، کبھی وہ ظلم بھی لاتی ہے، کبھی مقاطعہ، فاقہ اور کبھی عام الحزن بھی لاتی ہے۔ لیکن نگاہ بصیرت ہر حال میں پر امید رہتی ہے، اور اللہ ان کی خوب پزیرائی کرتا ہے جو اسکے لئے اپنے جائز حق کو چھوڑ تے ہیں اور اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جو اس کے کا م میں ہاتھ بٹاتے ہیں پھر ان کے لئے کسی کی زیادتی کا ڈر نہیں ہوتا۔
قَالَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافُ أَن يَفْرُطَ عَلَيْنَا أَوْ أَن يَطْغَىٰ قَالَ لَا تَخَافَا إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَىٰ(سورہ طہ : آیات 45-46) “دونوں نے عرض کیا پروردگار، ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا پل پڑے گا۔ ڈرو مت، میں تمہارے ساتھ ہوں، سب کچھ سُن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں”۔