روس-یوکرین جنگ نے عالمی سیاست میں ایک نیا موڑ پیدا کیا ہے۔ یہ تنازعہ نہ صرف دونوں ممالک بلکہ دنیا کی بڑی طاقتوں کے لیے بھی اہمیت کا حامل بن چکا ہے۔ اس جنگ میں عالمی قوتوں کا رد عمل مختلف پہلوؤں سے دیکھا جا سکتا ہے۔
امریکہ کا رد عمل
امریکہ نے یوکرین کی حمایت میں کھل کر بیانات دئیے ہیں اور روس کے خلاف مختلف اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے کئی مواقع پر روس کے حملے کی مذمت کی اور یوکرین کو دفاعی ساز و سامان فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکہ نے ناٹو (NATO) کے اتحاد کو مضبوط بنانے کی کوششیں بھی تیز کر دی ہیں تاکہ روس کی ممکنہ توسیعی پالیسیوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔
یورپی یونین کا موقف
یورپی یونین نے بھی روس کے خلاف سخت اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں۔ خاص طور پر جرمنی اور فرانس نے اس مسئلے پر بڑی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یورپی یونین نے یوکرین کو مالی امداد فراہم کرنے اور اس کی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے میں معاونت کی ہے۔ یورپی ممالک نے روس کے توانائی کے وسائل پر انحصار کم کرنے کی بھی کوششیں شروع کی ہیں تاکہ مستقبل میں کسی بھی قسم کی اقتصادی دباؤ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
چین کا نقطہ نظر
چین نے اس تنازعے میں نسبتاً غیر جانبدارانہ موقف اختیار کیا ہے۔ چین نے دونوں ممالک کو مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نکالنے کی تاکید کی ہے۔ چین روس کا اہم تجارتی شراکت دار ہے اور اس نے روس کے خلاف عائد کی جانے والی پابندیوں کی مخالفت کی ہے۔ چین کی کوشش ہے کہ وہ اس تنازعے میں اپنے مفادات کو محفوظ رکھتے ہوئے عالمی سیاست میں اپنی پوزیشن مضبوط کرے۔
ناٹو کا کردار
ناٹو نے یوکرین کی حمایت میں اپنے فوجی آپریشنز کو بڑھا دیا ہے۔ ناٹو ممالک نے روس کے خلاف متحد ہو کر رد عمل دیا اور یوکرین کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کا عہد کیا ہے۔ ناٹو کی یہ کارروائیاں روس کے خلاف ایک مضبوط پیغام ہیں کہ ناٹو اس کی جارحیت کو قبول نہیں کرے گی۔
عالمی برادری کا مجموعی رد عمل
عالمی برادری نے روس کے حملے کی مذمت کی اور یوکرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے۔ مختلف ممالک نے روس پر پابندیاں عائد کی اور یوکرین کی اقتصادی و فوجی مدد کی ہے۔ اس تنازعے نے عالمی سطح پر مختلف سیاسی و اقتصادی تبدیلیوں کو جنم دیا ہے اور عالمی قوتوں کی پالیسیوں میں نئے رحجانات پیدا کیے ہیں۔
روس یوکرین جنگ نے عالمی سیاست میں ایک نئے باب کی ابتداء کی ہے۔ عالمی قوتوں کا رد عمل بین الاقوامی سیاست میں طاقت کے بدلتے توازن کا عکاس ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں مستقبل قریب میں عالمی سیاست میں مزید تبدیلیاں متوقع ہیں۔
روس-یوکرین جنگ میں عام شہریوں کے حالات و نقصانات
روس -یوکرین جنگ نے عام شہریوں پر گہرے اور متنوع اثرات مرتب کیے اور نمایاں نقصانات پہنچائے ہیں۔ یہ تنازعہ ، جو 2014ء میں شروع ہوا اور 2022ء میں شدت اختیار کر گیا، لاکھوں زندگیوں کو متاثر کر چکا ہے اور شہری آبادی ہی نے اس کا زیادہ تر بوجھ برداشت کیا ہے۔
نقل مکانی اور پناہ گزینوں کا بحران
جنگ سے پیدا ہونے والے سب سے اہم انسانی بحرانوں میں سے ایک لوگوں کی بڑے پیمانے پر بے دخلی ہے۔ یونایٹڈ نیشنس ہائی کمشنر فار ریفیوجیس(UNHCR) کے مطابق، 2023ء کے وسط تک 8 ملین سے زیادہ یوکرینی شہری دوسرے ممالک میں پناہ لے چکے ہیں جبکہ تقریباً 6.3 ملین اندرونی طور پر یوکرین میں بے گھر ہیں۔ لوگوں کی اس بڑے پیمانے پر نقل و حرکت نے داخلی اور بین الاقوامی امدادی نظاموں پر شدید دباؤ ڈالا ہے۔ پناہ گزین اکثر زیادہ آبادی اور کم وسائل والی پناہ گاہوں کا سامنا کرتے ہیں جس کی وجہ سے کھانے، صاف پانی، صفائی اور صحت کی دیکھ بھال تک رسائی ناکافی ہوتی ہے۔
ہلاکتیں اور مجروحین
شہری ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ آفس آف دی یونایٹڈ نیشنس ہائی کمشنر فار ہیومن رایٹس (OHCHR) نے رپورٹ کیا کہ 2024ء کے اوائل تک 20,000 سے زیادہ شہری ہلاک ہو چکے ہیں اور بہت سے زخمی ہوئے ہیں، اگرچہ اصل تعداد غیر مصدقہ کیسز کی وجہ سے کافی زیادہ ہو سکتی ہے۔ یہ ہلاکتیں توپ خانے کی گولہ باری، فضائی حملوں اور میزائل حملوں کے نتیجے میں ہوئی ہیں جو فوجی اور شہری دونوں انفراسٹرکچر کو نشانہ بناتے ہیں۔ ہسپتال اور ایمرجنسی خدمات زخمیوں کا علاج کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔
انفراسٹرکچر کی تباہی
جنگ اہم انفراسٹرکچر کی وسیع پیمانے پر تباہی کا باعث بنی ہے، جس سے روزمرہ کی زندگی اور اقتصادی سرگرمیاں شدید متاثر ہوئی ہیں۔ اہم سہولیات جیسے گھر، اسکول، ہسپتال اور ضروری خدمات جیسے پانی، بجلی اور ٹرانسپورٹ نیٹ ورک تباہ یا شدید نقصان کا شکار ہوا ہے۔ مثال کے طور پر اندازے کے مطابق یوکرین کے %50 توانائی کے انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا ہے جس سے وسیع پیمانے پر بجلی کی بندش اور حرارت کی کمی ہو گئی ہے (خاص طور پر سردی کے سخت موسموں میں)۔ اس انفراسٹرکچر کی دوبارہ تعمیر کے لیے بڑی مالی سرمایہ کاری اور سالوں کی محنت درکار ہوگی۔
معاشی مشکلات
جنگ نے یوکرینی معیشت کو تباہ کر دیا جس سے بہت سے خاندان غربت میں ڈوب گئے۔ زرعی پیداوار، جو یوکرین کی معیشت کا ایک ستون ہے خاص طور پر متاثر ہوئی ہے۔ایسا ملک جو ”یورپ کی روٹی کی ٹوکری“ کے نام سے جانا جاتا ہے ،نے اپنی زرعی پیداوار میں نمایاں کمی دیکھی ہے۔ اس کمی نے نہ صرف مقامی خوراک کی سلامتی بلکہ عالمی اناج کی سپلائی پر بھی اثر ڈالا ہے، جس سے دنیا بھر میں خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
تنازعے کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی متعدد رپورٹیں سامنے آئی ہیں ، جن میں غیر قانونی حراستیں، تشدد اور دونوں فریقوں کی جانب سے جبری بھرتیاں شامل ہیں۔ شہری اکثر فائرنگ کی زد میں آتے ہیں یا انہیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس سے ان کی تکالیف میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے بین الاقوامی اداروں نے ان خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا اور متاثرین کے لیے احتساب اور انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔
انسانی امداد اور معاونت
بین الاقوامی ردعمل کی کوششیں کافی بڑی رہی ہیں لیکن بڑی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ اقوام متحدہ مختلف این جی اوز کے ساتھ مل کر انسانی امداد فراہم کرنے میں سرگرم رہی ہے جس میں کھانا، طبی سامان اور مالی مدد شامل ہیں۔ ان کوششوں کے باوجود متاثرہ علاقوں تک رسائی جاری تشدد اور لاجسٹک رکاوٹوں کی وجہ سے چیلنجنگ ہے جس سے امداد کی پہنچ اور تاثیر محدود ہو جاتی ہے۔
اقوام متحدہ میں جنگ بندی سے متعلق پیش رفت اور موجودہ صورتحال
روس-یوکرین جنگ بین الاقوامی تشویش کا ایک مرکزی نقطہ بنی ہوئی ہے جس میں جنگ بندی اور پُر امن حل کے لیے متعدد کوششیں کی گئی ہیں۔ اقوام متحدہ نے ان کوششوں میں نمایاں کردار ادا کیا ہے،جس کے نتیجے میں مختلف درجات کی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ میں پیش رفت
روس-یوکرین تنازعے کے 2022ء میں شدت اختیار کرنے کے بعد سے اقوام متحدہ جنگ بندی کے لیے سفارتی کوششوں میں پیش پیش رہی ہے۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل نے اس بحران کو حل کرنے کے لیے متعدد ہنگامی اجلاس منعقد کیے ہیں، حالانکہ قراردادیں اکثر روس، جو کونسل کا مستقل رکن ہے، کے ویٹو کے باعث ناکام رہی ہیں۔ ان چیلنجوں کے باوجود یو این نے تنازعے کی ثالثی کی کوششیں جاری رکھی ہیں۔
اپریل 2022ء میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گیتریس نے ماسکو اور کیف دونوں مقامات کا دورہ کیا اور دونوں جانب سے انسانی ہمدردی کی راہداریوں اور عارضی جنگ بندی پر اتفاق کرنے پر زور دیا۔ اس دورے کے نتیجے میں ایک معمولی معاہدہ ہوا جس نے محصور شہرمَری یوپول سے شہریوں کی محفوظ نکاسی کی اجازت دی۔ تاہم وسیع تر جنگ بندی کے مذاکرات میں نمایاں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا جو بنیادی طور پر باہمی عدم اعتمادی اور جاری فوجی جھڑپوں کی وجہ سے تھے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی ایک اہم کردار ادا کرتے ہوئے روسی حملے کی مذمت کرنے اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قراردادیں منظور کیں۔ خاص طور پر مارچ 2023ء میں ایک قرارداد جس کی حمایت ممبرممالک کی اکثریت نے کی ، نے روسی افواج کے یوکرینی علاقے سے انخلاء اور دشمنیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ اگرچہ یہ قراردادیں قانونی طور پر پابند نہیں ہیں لیکن یہ بین الاقوامی برادری کے موقف کی عکاسی کرتی اور فریقین پر اخلاقی دباؤ ڈالتی ہیں۔
موجودہ صورتحال
وسط 2024ء تک زمینی صورتحال نازک ہے۔ متعدد جنگ بندی کے معاہدوں اور عارضی صلح کے باوجود مشرقی یوکرین سمیت کئی علاقوں میں لڑائی جاری ہے۔ تنازعے کے نتیجے میں نمایاں ہلاکتیں اور وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ آفس آف دی یونایٹڈ نیشنس ہائی کمشنر فار ہیومن رایٹس کے مطابق شہری ہلاکتوں کی تعداد 20,000 سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ لاکھوں افراد اندرونی اور بیرونی طور پر بے گھر ہو چکے ہیں۔
جنگ کا اقتصادی اثر تباہ کن رہا ہے۔ یوکرین کا جی ڈی پی نمایاں طور پر سکڑ گیا ہے۔ ورلڈ بینک کے تخمینوں کے مطابق صرف 2022ء میں 35فیصد کمی درج کی گئی ہے۔ اہم انفراسٹرکچر، نقل و حرکت کے نیٹ ورک اور رہائشی علاقے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ انسانی صورتحال ابتر ہے۔ دفترِ اقوام متحدہ برائے رابطہ بضمن انسانی امور (OCHA) کے مطابق 15 ملین سے زیادہ افراد کو فوری امداد کی ضرورت ہے۔
جنگ بندی کے امکانات
جنگ بندی کے امکانات کئی عوامل پر منحصر ہیں۔ سب سے پہلے روس اور یوکرین دونوں کی جانب سے حقیقی مذاکرات میں شامل ہونے کی خواہش اہم ہے۔ سفارتی کوششوں کو، جو اکثر اقوام متحدہ کی جانب سے ہوتی ہیں، مسلسل اور شدید ہونا چاہیے۔ اعتماد سازی کے اقدامات جیسے قیدیوں کا تبادلہ اور مقامی سطح پر جنگ بندی وسیع تر امن مذاکرات کی ابتدائی بنیادیں بن سکتی ہیں۔
اس حوالے سے بیرونی عناصر کے کردارکو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ بین الاقوامی برادری خاص طور پر یورپی یونین اور امریکہ کا تنازعے کی حرکیات پر اہم اثر ہے۔ مسلسل سفارتی دباؤ اور متعین و مرکوز پابندیوں کا مقصد روس کو بین الاقوامی اصولوں کی پابندی اور پُر امن حل کی تلاش پر مجبور کرنا ہے۔ ایک اہم عامل یہ بھی ہے کہ موجودہ معاہدوں جیسے مِنسک پروٹوکال (Minsk Protocol) کا نفاذ متنازعہ مسئلہ رہا ہے۔ اگرچہ یہ معاہدے کشیدگی کو کم کرنے کے فریم ورک فراہم کرتے ہیں ، لیکن ان کا نفاذ وقفے وقفے سے اور اکثر نئے سرے سے دشمنیوں کی وجہ سے کمزور ہوتا ہے۔ ایک مضبوط مانیٹرنگ میکانزم ممکنہ طور پر یواین کی نگرانی میں تعمیل کو یقینی بنانے اور فریقین کے درمیان اعتماد پیدا کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔
روس-یوکرین تنازعے کی ثالثی میں یو این کے کردار نے بین الاقوامی بحرانوں کو حل کرنے میں اس کی صلاحیت اور حدود دونوں کو اجاگر کیا ہے۔ متنوع ممبر ریاستوں کو اکٹھا کرنے اور اخلاقی اتھارٹی قائم کرنے کی تنظیم کی صلاحیت اہم ہے۔ تاہم سلامتی کونسل کے اندر ویٹو پاور جیسی ساختی پابندیاں فیصلہ کن کارروائی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔
جاری تنازعہ امن قائم کرنے کے لیے کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ صرف فوجی حل ناکافی ہے ۔ سفارتی کوششوں، انسانی امداداور اقتصادی بحالی کو ایک جامع حکمت عملی میں شامل کیا جانا چاہیے۔
جنگ کے عالمی اثرات
روس-یوکرین جنگ نے عالمی سطح پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ تنازعہ ،جو وسیع پیمانے پر فوجی مداخلتوں اور جغرافیائی مفادات سے بھرپور ہے ، نے بین الاقوامی تعلقات، اقتصادی استحکام اور انسانی حالات کو عالمی سطح پر متاثر کیا ہے۔
معاشی خلل
روس-یوکرین جنگ کا سب سے فوری عالمی اثر اقتصادی انتشار ہے۔ اس تنازعے نے عالمی سپلائی چینز کو خاص طور پر توانائی اور زرعی شعبوں میں شدید متاثر کیا ہے۔ یوکرین اور روس عالمی گندم مارکیٹ میں اہم کھلاڑی ہیں، یہ دونوں مل کر گندم اور مکئی کی برآمدات کا ایک بڑا حصہ فراہم کرتے ہیں۔ جنگ نے ان برآمدات میں شدید خلل ڈالا ہے جس کی وجہ سے عالمی کھانے کی قیمتوں اور مختلف علاقوں میں خوراک کی عدم دستیابی میں اضافہ ہوا ہے۔
مزید جنگ نے توانائی کے بازاروں پر بھی بڑا اثر ڈالا ہے۔ روس دنیا کے سب سے بڑے تیل اور قدرتی گیس برآمد کنندگان میں سے ایک ہے اور حالیہ تنازعہ توانائی کی فراہمی میں پابندیوں کی بناء پر خلل انداز ہوا ہے۔ روس کی توانائی پر زیادہ انحصار کرنے والے یورپی ممالک نے توانائی کے بحران کا سامنا کیا ہے جس کی خصوصیات میں بڑھتی قیمتیں اور فراہمی کی کمی شامل ہے۔ اس نےیورپی یونین میں توانائی کے ذرائع کے تنوع اور قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری میں اضافے کی کوششوں کو تیز کر دیا ہے۔
ورلڈ بینک نے رپورٹ کیا ہے کہ جنگ نے عالمی اقتصادی سست روی میں اضافہ کیا ہے۔ براہ راست اثرات میں تجارت میں خلل، افراط زر میں اضافہ، اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی شامل ہے۔
جغرافیائی سیاست کے نتائج
روس-یوکرین تنازعہ نے جغرافیائی منظرنامے کو نمایاں طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ اس نے روس اور مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات کو تناؤ کا شکار کیا ہے۔ روس پر عائد کی گئی پابندیوں نے اسے اقتصادی اور سیاسی طور پر تنہا کر دیا ہے جس کے نتیجے میں بین الاقوامی اتحادات اور شراکت داریوں کی دوبارہ ترتیب ہوئی ہے۔
تنازعے کے جواب میں ناٹو نے اپنے مشرقی کنارے کو مضبوط کیا اور روس کے ساتھ سرحدی ممالک میں اپنے موجودگی کو بڑھایا ہے۔ اس عسکریت نے ناٹو اور روس کے درمیان تناؤ کو بڑھا دیا ہے جبکہ یورپ میں دفاع اور سیکیورٹی پر دوبارہ توجہ دی گئی ہے۔ جنگ نے فن لینڈ اور سویڈن کو اپنی غیر جانبداری کی حیثیت پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کیا ہے اور دونوں ممالک نے اپنی سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے ناٹوکی رکنیت کے لیے درخواست دی ہے۔
تنازعہ نے بین الاقوامی اتحادات اور عالمی تنظیموں کے بحرانوں کے انتظام اور تخفیف میں کردار کو اجاگر کیا ہے۔ اقوام متحدہ انسانی مسائل کو حل کرنے اور سفارتی حل تلاش کرنے میں سرگرم رہی ہے اگرچہ اس کی کوششیں جغرافیائی اختلافات کی وجہ سے پیچیدہ ہو گئی ہیں۔
انسانی اثرات
روس-یوکرین جنگ کے انسانی اثرات وسیع اور تباہ کن ہیں۔ تنازعہ بڑی تعداد میں جانی نقصان اور وسیع پیمانے پر عوام کے بے گھر ہونے کا سبب بنا ہے۔ یونایٹڈ نیشنس ہائی کمشنر فار ریفیوجیس کے مطابق لاکھوں یوکرینی بے گھر ہو چکے ہیں، جن میں سے بہت سے ہمسایہ ممالک میں پناہ لے رہے ہیں۔ اس صورتحال نے میزبان ممالک اور بین الاقوامی امداد کی تنظیموں پر زبردست دباؤ ڈال دیا ہے۔
شہریوں خاص طور پر بچوں پر نفسیاتی اثرات گہرے ہیں۔ تشویش، بے گھر ہونے اور نقصان کے مستقل تجربات نے وسیع پیمانے پر صدمے اور ذہنی صحت کے مسائل پیدا کیے ہیں۔ بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے لیے ذہنی صحت کی خدمات اور نفسیاتی مدد کی فرہمی ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔
ماحولیاتی اور معاشرتی اثرات
جنگ نے ماحولیاتی اثرات بھی مرتب کیے ہیں جن میں قدرتی ٹھکانوں کی تباہی اور فوجی سرگرمیوں کے نتیجے میں آلودگی شامل ہے۔ صنعتی مقامات کی تباہی اور بھاری ہتھیاروں کے استعمال نے آلودگی اور طویل مدتی ماحولیاتی نقصان پیدا کیا ہے۔
سماجی سطح پر جنگ نے متاثرہ ممالک میں سیاسی پولرائزیشن اور قوم پرستی کو فروغ دیا ہے۔ تنازعہ نے عوامی رائے اور سیاسی مباحثے کو متاثر کیا ہے۔ یوکرین اور دیگر جنگ سے متاثرہ ممالک میں قوم پرستانہ اور روس مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔
روس-یوکرین جنگ کے عالمی اثرات گہرے ہیں جو اقتصادی استحکام، جغرافیائی حرکیات، انسانی حالات اور ماحولیاتی صحت کو متاثر کررہے ہیں۔ اس تنازعے نے عالمی نظاموں کے باہمی ارتباط اور جغرافیائی واقعات کے دور رس نتائج کو اجاگر کیا ہے۔ ان اثرات کا سامنا کرنے کے لیے مربوط بین الاقوامی کوششوں، سفارت کاری کے لیے عزم اور متاثر آبادیوں کی مسلسل حمایت کی ضرورت ہے۔ تنازعے کا حل اور اس کے بعد کی صورتحال کئی سالوں تک بین الاقوامی تعلقات اور عالمی استحکام کے مستقبل کی صورت گری کرے گی۔
(مضمون نگار نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پالیٹکس: انٹرنیشنل اینڈ ایریا اسٹڈیز میں ماسٹرس کیا ہے)