روس یوکرین جنگ: تاریخی پس منظر، حالیہ بحران اور عالمی سیاست

(قسط اول)

محمد غالب فلاحی

روس یوکرین جنگ اکیسویں صدی کا ایک اہم تنازعہ بن چکا ہے جس کے عالمی سیاست، معیشت اور انسانی حقوق پر دور رس اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ یہ جنگ ایک پیچیدہ تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی پس منظر سے جڑی ہوئی…

روس یوکرین جنگ اکیسویں صدی کا ایک اہم تنازعہ بن چکا ہے جس کے عالمی سیاست، معیشت اور انسانی حقوق پر دور رس اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ یہ جنگ ایک پیچیدہ تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی پس منظر سے جڑی ہوئی ہے اور علاقائی جھڑپوں سے شروع ہو کر ایک مکمل جنگ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس تنازعے کی جڑیں سوویت یونین کے 1991 ء میں ٹوٹنے سے شروع ہوتی ہیں جب یوکرین نے آزادی حاصل کی اور روس کے اثر سے الگ ہو کر ایک منفرد قومی شناخت قائم کرنے کی کوشش کی۔ 2014ء میں کریمیا (یوکرین کا ایک علاقہ) کے روس میں الحاق اور مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسند تحریکوں نے کشیدگی کو ہوا دی جو بعد میں ایک وسیع پیمانے پر جنگ میں تبدیل ہوگئی۔

روس اور یوکرین کے تعلقات کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔ دونوں ممالک کے کلچر، زبان اور سیاست مشترک ہیں۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یوکرین نے اپنی آزادی کا اعلان کیا لیکن روس نے ہمیشہ یوکرین کو اپنے دائرہ اثر میں رکھنے کی کوشش کی۔ 2014ء میں یوکرین کے یورپی یونین کے ساتھ قریبی تعلقات کی کوششوں نے روس کو ناراض کیا اور اس نے کریمیا کو ضم کر لیا۔

اس تنازعے کی بنیاد میں شناخت، خودمختاری اور جغرافیائی سیاسی غلبے کی جدوجہد شامل ہے۔ یوکرین جو یورپی یونین اور نیٹو جیسے مغربی اداروں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے ، روس کی طرف سے ایک براہ راست چیلنج کا سامنا کر رہا ہے جو ان اقدامات کو اپنے اثر و رسوخ اور قومی سلامتی کے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ مغربی ممالک کی طرف سے یوکرین کی حمایت جس میں روس کے خلاف اقتصادی پابندیاں اور یوکرین کو فوجی امداد شامل ہیں، نے تنازعے کی پیچیدگی کو بڑھا دیا ہے جس میں متعدد عالمی عوامل اور مفادات شامل ہیں۔

اس تنازعے نے عالمی برادری کو تقسیم کر دیا۔ مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ اور یورپی یونین نے روس پر سخت پابندیاں عائد کیں اور یوکرین کی حمایت کی۔ دوسری جانب روس نے مغربی ممالک پر الزام لگایا کہ وہ اس کے قومی مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جنگ کے دوران ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔

روس یوکرین خطّے کا تاریخی پس منظر

روس اور یوکرین کی تاریخ ایک مشترکہ مگر متنازعہ ہے جو موجودہ تنازعے کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لئے اہم ہے۔ اس تاریخی پس منظر کے بغیر موجودہ حالات کی گہرائی اور اس کے عوامل کو مکمل طور پر سمجھنا مشکل ہے۔

دونوں ممالک کی تاریخ مشترکہ اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے، جس کی جڑیں Kievan Rus (کیوان رس ایک ریاست تھی جو مشرقی یورپ میں موجود تھی اور جس کی بنیاد نویں صدی میں رکھی گئی تھی) کی ریاست تک پھیلی ہوئی ہیں۔

کیوان رَس کے زوال کے بعد یہ علاقہ مختلف طاقتوں کے زیر اثر رہا بشمول منگول، لتھوانیا اور پولینڈ۔ سترہویں صدی میں زار روس نے یوکرین کے مشرقی حصے کو اپنے دائرہ اختیار میں شامل کیا جب کہ مغربی یوکرین پولش-لتھوانین کامن ویلتھ کے زیر اثر رہا۔اٹھارویں صدی کے آخر تک پورا یوکرین روسی سلطنت کا حصہ بن چکا تھا۔

بیسویں صدی میں روسی سلطنت کے خاتمے کے بعد یوکرین نے اپنی آزادی کا اعلان کیا لیکن بالشویک انقلاب(Bolshevik Revolution) کے بعد یوکرین سوویت یونین کا حصہ بن گیا۔ سوویت دور میں یوکرین نے صنعتی ترقی اور زراعت میں نمایاں پیشرفت کی لیکن اسے بھاری قیمت بھی چکانی پڑی خاص طور پر 33-1932 ء کے قحط (Holodomor) کے دوران جس میں لاکھوں یوکرینی ہلاک ہوئے۔

1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یوکرین نے دوبارہ آزادی حاصل کی۔ یوکرین نے اپنی آزادانہ شناخت قائم کرنے کی کوشش کی لیکن روس نے اسے ہمیشہ اپنے دائرہ اثر میں رکھنے کی کوشش کی۔ 2004ء کے نارنگی انقلاب (Orange Revolution) اور 2014ء میں یورومیڈن (Euromaidan) کے یوکرینی انقلابات نے روسی اثر و رسوخ کے خلاف مضبوط مزاحمت کی۔ 2014ء میں روس نے کریمیا کو ضم کر لیا اور مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسند تحریکوں کی حمایت کی جس سے تنازعے نے ایک نیا اور خطرناک موڑ لے لیا۔

روس یوکرین کی ابتدائی جھڑپوں سے جنگ تک

جیسا کہ عرض کیا گیا ، روس اور یوکرین کے درمیان تنازع تاریخی بنیادیں رکھتا ہے لیکن حالیہ برسوں میں یہ نمایاں طور پر شدت اختیار کر گیا ہے جس کا نقطہ عروج 2022ء میں مکمل جنگ کی صورت میں سامنے آیا۔

روس اور یوکرین کے تعلقات صدیوں سے تناؤ میں رہے ہیں۔ یوکرین اپنی زرخیز زرعی زمینوں اور اسٹریٹجک مقام کی وجہ سے طویل عرصے سے ایک اہم علاقہ رہا ہے۔ سوویت یونین کے 1991ء میں خاتمے کے بعد یوکرین نے آزادی کا اعلان کیا جسے ابتدائی طور پر روس نے تسلیم کیا۔ تاہم دونوں ممالک کے راستے اگلے دہائیوں میں تیزی سے الگ ہوگئے۔

2000 کی دہائی کے شروع میں یوکرین نے یورپی یونین (EU) اور ناٹو (NATO) کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس تبدیلی کا روس نے سختی سے مقابلہ کیا کیونکہ وہ یوکرین کو اپنے اثر و رسوخ کے دائرے میں سمجھتا تھا۔ 2004ء میں اورینج انقلاب کے دوران تناؤ بڑھ گیا جس کے نتیجے میں مغرب کی جھکاؤ رکھنے والے صدروکٹر یوشچنکو (Viktor Yushchenko) کا انتخاب ہوا۔ لیکن 2013-14ء کے یورو میڈَن (Euromaidan) احتجاجات ایک اہم موڑثابت ہوئے۔ یہ احتجاجات اس وقت شروع ہوئے جب صدر وکٹر یوشچنکو نے یورپی یونین کے ساتھ ایک معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے روس کے ساتھ قریبی تعلقات کو ترجیح دی۔ ان احتجاجات کے نتیجے میں یوشچنکو کو ہٹا دیا گیا اور ایک نئی حکومت قائم ہوئی جو یورپ کے ساتھ انضمام کی خواہاں تھی۔

یورو میڈَن انقلاب کے جواب میں روس نے مارچ 2014ء میں کریمیا کو ضم کر لیا جس کی بنیاد کے طور پر اس نے اقلیتوں کی حفاظت کا جواز پیش کیا۔ اس اقدام کی عالمی برادری کی جانب سے شدید مذمت کی گئی اور روس پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ اس انضمام کے بعددونسک (Donetsk )اور لوہانسک (Luhansk) کے مشرقی علاقوں میں روسی نواز علیحدگی پسندوں نے یوکرین سے آزادی کا اعلان کیا جس کے نتیجے میں دونباس (Donbas) میں جنگ شروع ہوگئی۔ دونباس میں تنازع کے دوران میں روایتی جنگی گوریلا حکمت عملی اور سائبر جنگی tactics کا ملا جلا استعمال شامل رہا ہے۔ متعدد جنگ بندی معاہدوں کے باوجود، بشمول Minsk معاہدے کے، لڑائی وقفے وقفے سے جاری رہی جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا نقصان اور بے گھر ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔

صورتحال نے 2021ء کے آخر اور 2022ء کی شروعات میں ڈرامائی موڑ لیا۔ روس نے یوکرین کی سرحد کے قریب فوجیں جمع کرنا شروع کر دیں اور بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں کیں۔ ناٹو (NATO) اور مغرب کے سامنے کئی مطالبات پیش کیے جن میں یہ یقین دہانی کرانا شامل تھی کہ یوکرین کبھی ناٹو (NATO) کا رکن نہیں بنے گا۔ حالات کو بہتر کرنے کی سفارتی کوششیں ناکام رہیں اور 24/ فروری 2022ء کو روس نے یوکرین پر مکمل حملہ شروع کر دیا۔

2023ء کے وسط تک جنگ جاری رہی جس کے نتیجے میں دونوں طرف بھاری نقصانات ہوئے اور لاکھوں یوکرینی بے گھر ہو گئے۔ یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑا مہاجرین کا بحران پیدا ہوا۔ اس جنگ کے عالمی اقتصادی اثرات بھی گہرے ہیں، جس نےتوانائی (انرجی) کی قیمتوں، سپلائی چینزاور غذائی سلامتی پر منفی اثر ڈالا ہے۔

اس حملے کو ابتدا میں روسی صدرولادیمیر پوتن نے خصوصی ”فوجی آپریشن“ قرار دیا، جس کا مقصد یوکرین کو ”نازی“ سے پاک کرنا اور روسی بولنے والوں کی حفاظت کرنا تھا۔ تاہم اس کے حقیقی محرکات زیادہ پیچیدہ ہیں اور ممکنہ طور پر روسی اثر و رسوخ کی دوبارہ بحالی، یوکرین کے مغرب کے ساتھ مزید انضمام کی روک تھام اور اسٹریٹجک مفادات کے تحفظ پر مشتمل ہیں۔

2024ء تک روس اور یوکرین کے درمیان جنگ عالمی سطح پر ایک اہم مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ لڑائیاں جاری ہیں ، محاذوں میں تبدیلی آ رہی ہے اور مذاکراتی کوششیں بھی چل رہی ہیں۔

ان شاءاللہ مضمون کی دوسری قسط میں عالمی قوتوں کے رد عمل، عام شہریوں کے حالات و نقصانات، اقوام متحدہ میں جنگ بندی سے متعلق پیش رفت، موجودہ صورتحال و سیز فائر اور جنگ کے عالمی اثرات پر تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی۔

(مضمون نگار نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پولیٹکس: انٹرنیشنل اینڈ ایریا اسٹڈیز میں ماسٹرس کیا ہے)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں