قرآن دنیاکی سب سےبڑی نعمت ہے۔اس نعمت کاتقاضاہےکہ اس کی قدرکی جائے۔اس کی قدراسی صورت میں ہوسکتی ہےکہ اسےسمجھاجائےاوراس کی ہدایت کوقبول کیاجائے۔قرآن طاقوں میں سجانےکےلیےنہیں آیاہے۔یہ سینوں میں بسانےکےلیےآیاہے۔یہ دلوں کی دنیاکوبدلنے،افکارونظریات کودرست کرنے،اخلاق وکردارکوسنوارنے اورپوری زندگی کوخدائی تعلیمات کےسانچےمیں ڈھالنےکےلیےآیاہے۔
قرآن جن بھوت بھگانے،کھانسی بخار کاعلاج کرنے،مقدَّمہ جیتنے،نوکری حاصل کرنے،اس کی آیتوں کولکھ کرگلےمیں باندھنےاورگھول کرپینے اوربےسمجھےبوجھےپڑھ کرمحض ثواب کےلیےنہیں آیاہے۔قرآن تواس لیےآیاہےکہ ہم اس کےذریعےاپنےعقیدے،خیالات،معاملات اوراعمال کودرست کریں۔ آج مسلم امت قرآن مجیدسےدورہوتی جارہی ہےاورقرآن مجید سےدوری ہی دراصل امت مسلمہ کی دین سےدوری،فکری کج روی،بےعملی اوربدعملی کاسبب ہے۔سابقہ قوموں نےجب کتابِ الٰہی سےروگردانی اختیارکی توامامت وقیادت کامنصب ان سےچھین لیاگیااورذلت وخواری ان کامقدربن کررہ گئی۔امتِ مسلمہ اگرقرآن سےغفلت برتنانہیں چھوڑےگی توہمیشہ ذلت وپستی کاشکاررہےگی۔
آج مسلم معاشرےپرجوچوطرفہ فکری وتہذیبی یلغارہورہی ہےاس سےعوام اورنئی نسل کوبچانےکےلیےقرآن مجیدسےجوڑناضروری ہے۔قرآن سےجڑنےاورجوڑنےکےلیےسب سےپہلےقرآن کوسمجھناضروری ہے۔ آنےوالےصفحات میں “قرآن فہمی” کےمتعلق کچھ تجاویزاورمشورےپیش کیےجارہےہیں۔
قرآن کی شان
قرآن کی قیادت سب سےبڑی قیادت ہے۔ تمام قیادتوں سےدست بردارہوجائیں لیکن قرآن کی قیادت سےکبھی دست بردارنہ ہوں۔ پیرمحمدکرم شاہ کی گفتگوجودلوں کی جھنجھوڑدینےوالی ہے،سنیے:
“اگر(قرآن)حرمِ کعبہ میں 360 بتوں کی پوجاکرنےوالی قوم کےدل میں معرفتِ الٰہی کی شمع فروزاں کرسکتاہےتوہمارےصنم کدۂ تصورات کےلات وہبل کوکیوں ریزہ ریزہ نہیں کرسکتا۔ہمارےظلمتِ خانۂ حیات کو اس کی کرنیں کیوں منوّرنہیں کرسکتیں۔بخداہوسکتاہے۔سب کچھ ہوسکتاہےبشرط یہ کہ ہم قرآن کی ہدایت کوقبول کرنےکےلیےتیارہوں اورہماراکاروانِ حیات اس شاہ راہِ ہدایت پرگام زن ہوجائےجوقرآن نےہمارےلیےتجویزکی ہے۔” (تفسیرضیاءالقرآن ج۱ص:۹)
نزولِ قرآن کامقصد
- ہدایت
قرآن کاسب سےاہم پہلویہ ہےکہ وہ کتابِ ہدایت ہے۔اسی لیےبارہااللہ تعالیٰ نےاس کاتعارف اس طرح کےالفاظ سےکرایاہے۔یعنی قرآن کی دی ہوئی رہ نمائی کودل سےقبول کریں اوراس کےدکھائے ہوئےراستےپرچلیں اورجس راستےپرچلنےسےوہ روکتاہےاس سےرک جائیں۔ قرآن پرعمل کاصلہ،بلندی اوراس سےاعراض وغفلت کانتیجہ،ذلت وپستی ہے۔
قرآن فہمی کی اہمیت وضرورت
جس طرح قرآن مجیدعظیم نعمت ہےاسی طرح قرآن کافہم بھی عظیم نعمت ہے۔اس نعمت کاتقاضاہےکہ قرآن کوسمجھاجائے۔مفتی محمدشفیعؒ نےقرآن فہمی کوفرضِ عین اورضروری قرادیاہے۔اپنی تفسیر’معارف القرآن‘کےمقدمےمیں لکھتےہیں: “ہرمسلمان کواس کی فکرتوفرضِ عین اورضروری ہےکہ قرآن کریم کوصحّتِ لفظی کےساتھ پڑھنےاوراولادکوپڑھانےکی کوشش کرےاورپھرجس قدرممکن ہواس کےمعانی اوراحکام کوسمجھنےاوران پرعمل کرنےکی فکرمیں لگارہےاوراس کی اپنی پوری عمرکاوظیفہ بنائےاوراپنےحوصلےاورہمت کےمطابق اس کاجوبھی حصہ نصیب ہوجائےاس کواس جہان کی سب سےبڑی نعمت سمجھے۔” (مفتی محمدشفیع صاحبؒ،معارف القرآن ج۱ص:۷۱)
قرآن فہمی حفاظتِ دین کاطاقت ورنظام ہے
موجودہ دورمیں قرآن فہمی کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ڈاکٹرمحی الدین غازی لکھتےہیں: “اس وقت امت جن خطرناک فکری اورتہذیبی حملوں کی زدمیں ہے،ملت کےہرفردکےاندراپنےدین کی حفاظت کاداخلی نظام قائم کرناضروری ہےاوراس کےلیے”قرآن فہمی “سےزیادہ طاقت ورکوئی اورنظام نہیں ہوسکتاہے۔” (ماہ نامہ زندگی نودسمبر۲۰۲۲ءص: ۸۲)
قرآن فہمی کےمقاصد
افکارکی تطہیر اور کردار کی تعمیر
ہم قرآن اس لیےسمجھیں تاکہ قرآنی خطوط کےمطابق اپنی سیرت کی تعمیر کریں۔ “قرآن حکیم کتابِ ہدایت ہے۔اس کی تلاوت مقصدِاوّلین تعمیرِانسانیت اورتشکیلِ سیرت ہےاوریہ مقصد تب ہی حاصل ہوسکتاہےجب پڑھنےوالےکواس کتابِ عزیزسےدلی لگاؤاورطبعی ربط پیداہوجائے۔” (تفسیرضیاءالقرآن ج۱ص:۱۵)
امام غزالیؒ کی ایمان افروزتقریرملاحظہ کریں:
“(آدمی)قرآنِ پاک پڑھ لینےکوہی اپناعمل مقرَّرنہ کرلےبلکہ اسےاس طرح پڑھےجس طرح غلام اپنےآقاکےخط کوپڑھتاہےجواس کی طرف اس لیےلکھاہےتاکہ یہ اس میں غوروفکرکرےاوراس کےتقاضےکےمطابق عمل کرے۔اسی وجہ سےبعض علمائے کرام نےفرمایا: یہ قرآن وہ خطوط ہیں جوہمارےرب کی طرف سےہمارےپاس عہدوپیمان کےساتھ آئے ہیں تاکہ ہم نمازوں میں ان میں غوروفکرکریں،تنہائیوں میں ان سےآگاہی حاصل کریں اورطاعات وعبادات میں ان پرعمل پیراہوں۔” (احیاءعلوم الدین ج۱ص:۸۶۱۔۸۶۲،مترجم)
قرآن فہمی کےوسائل وذرائع
قرآن فہمی کےبہت سےذرائع ہیں۔جس قدرممکن ہو انھیں استعمال میں لائیں۔چندذرائع یہ ہیں:
۱۔عربی زبان
قرآن فہمی کاایک اہم ذریعہ قرآن کی زبان ہے۔کوشش کریں کہ آپ عربی زبان اچھی طرح سیکھ لیں۔اس زبان کااتناذوق پیداکریں کہ قرآن کی ہربات کامفہوم ومدّعااوراس کی روح کواچھی طرح سمجھ سکیں۔قرآن کی زبان سےغفلت دراصل قرآن سےغفلت ہے۔اس غفلت سےباہرنکلناضروری ہے۔
“اس کتابِ مقدس کوصحیح طورپرسمجھنےکےلیےضروری ہےکہ ہم عربی زبان سےربط پیداکریں۔اس کےقواعدوضوابط سےاچھی طرح واقفیت بہم پہنچائیں۔اس کےادب اوراسلوبِ انشاء کی خصوصیت کوسمجھیں تاکہ کلمات کےآبگینوں میں حقیقت کی جوشرابِ طہور چھلک رہی ہےاس سےلطف اندوزہوسکیں۔” (تفسیرضیاءالقرآن ج۱ص:۱۱)
۲۔قرآن میں تلاش
قرآن کوسمجھنےکےلیےقرآن سب سےبہتررہنماہے۔قرآن کی کسی تعلیم اورکسی حکم کوسمجھنےکےلیےسب سےپہلےخودقرآن میں اس کی مثالیں تلاش کیجیے۔اگرایک جگہ کسی چیزکاذکراختصارکےساتھ کیاگیاہےتودوسری جگہ اسی کوتفصیل کےساتھ بیان کیاگیاہے۔ قرآن کوقرآن سےسمجھنا”قرآن فہمی”کی سطح کوبلندکرتااوردرست معنی ،صحیح تاویل اورصحیح سمت کی طرف لےجاتاہے۔جیسےسورہ فاتحہ کی آخری آیت صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی تفسیرخودقرآن کرتاہے۔چناں چہ سورہ آل عمران میں فرمایا: وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ (سورہ نساء:69)
۳۔صحیح احادیث
“قرآن فہمی”کےلیےایک اہم ذریعہ اللہ کےرسولﷺ کی صحیح اورمبارک حدیثیں ہیں۔آپ ﷺکےمبارک اقوال کا’ “سورس” یہی قرآن ہے۔قرآن کےذریعےآپ نےقرآنی معانی ومطالب کواپنی صحیح حدیثوں میں پیش کیاہے۔اس لیے”قرآن فہمی” کاذوق پیداکرنےمیں رسول ﷺکی صحیح حدیثوں سےمددلینا ضروری ہے۔
۴۔ اقوالِ صحابہ
صحابہ اکرام رضی اللہ عنھم کے اقوال اور تفاسیر ، قرآن فہمی کے لیے رہنما ہیں۔
۵۔ترجمہ
قرآن فہمی کاایک اوراہم ذریعہ قرآن مجیدکاترجمہ ہے۔ علماء نےعوام کی خاطرترجمہ کیا۔ ترجمےکےذریعےقرآن کوسمجھنےکی پہل شاہ ولی اللہ دہلویؒ نےکی ہے۔انھوں نےفارسی میں ترجمہ کیا۔ان کےبعدان کےصاحبزادے حضرت شاہ عبدالقادرؒاورحضرت شاہ رفیع الدین صاحبؒ نےاردوزبان میں ترجمہ کیا۔
ترجمہ پڑھیں اورپڑھنےکاشوق دلائیں۔
صحیح ترجمہ تک رسائی حاصل کریں:
قرآن کاصحیح فہم حاصل کرنےکےلیے صحیح ترجمہ کاجانناضروری ہے۔یہاں غلط اورصحیح ترجمہ کی ایک مثال پیش کی جارہی ہے۔
وَلَا تَقْعُدُواْ بِكُلِّ صِرَٰطٍۢ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ مَنْ ءَامَنَ بِهِۦ وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا (اعراف:86)
بعض مترجمین نےترجمہ اس طرح کیا:
“اورہرراستےپریوں نہ بیٹھوکہ راہ گیروں کوڈراؤاوراللہ کی راہ سےانھیں روکوجواس پرایمان لائےاوراس میں کجی چاہو۔”
درست ترجمہ:
“اورہرراستےمیں بیٹھ کرجوایمان لائےانھیں دھمکیاں نہ دواوراللہ کی راہ سےنہ روکواس میں کجی کی خواہش کےساتھ۔”
دراصل “مَن آمَن َبِہ”دونوں افعال سےمتعلق ہے،یعنی وہ دھمکیاں بھی اہلِ ایمان کودیتےہیں اورروکتےبھی اہلِ ایمان کوہیں۔
(رہنمائےترجمہ قرآن،ص:۳۷،ڈاکٹرمحی الدین غازی) یہ کتاب درست ترجمہ کرنےمیں بہترین رہنمائی کرتی ہے۔اس میں بہت سی اصولی باتیں بیان کی گئی ہیں۔اس کامطالعہ کافی مفیدہوگا۔
چندقابلِ ذکراردوترجمے
امت کےبزرگوں نےقرآن کاترجمہ کیاتاکہ لوگ قرآن سمجھ سکیں۔
۱۔ترجمہ شاہ عبدالقادرؒ
۲۔ترجمہ ڈپٹی نذیراحمد صاحبؒ
۳۔ترجمہ شیخ الہندمحمود الحسنؒ
۴۔ترجمہ مولانااشرف علی تھانویؒ
۵۔ترجمہ مولانافتح محمدجالندھریؒ
۶۔ترجمہ مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
۷۔ترجمہ مولاناامین احسن اصلاحیؒ
۶۔تفسیر
ہرتفسیرکی اپنی الگ الگ خوبیاں ہوتی ہیں۔کسی میں ادبی محاسن بیان کیےگئے ہیں،کسی میں بہترین لغوی بحث کی گئی ہے۔کسی میں الفاظ کی بہترین تحقیق پیش کی گئی ہے،کسی میں فقہی اندازسےگفتگوکی گئی ہے،کسی میں دعوتی وتحریکی اورفکری جھلک نظرآتی ہےاورکسی میں باطل افکارونظریات کوٹھوس دلائل کی بنیادوں پرردکیاگیاہے۔کسی ایک آیت کوسمجھنےکےلیےاگرکئی تفسیروں کوسامنےرکھیں تواس آیت کامعنی ومفہوم کھل کرسامنے آجاتاہے۔ایک تفسیرمیں اگربات واضح نہیں ہوسکی ہےتودوسری تفسیراس کمی کوپوراکردیتی ہے۔یاکسی تفسیرمیں اگرکسی آیت کی تفسیروتشریح نہ کی گئی ہوتودوسری تفسیروں میں اس کی تفسیرمل جاتی ہے۔اس لیےمختلف تفسیروں کومطالعہ میں رکھناکافی مفیدہوگا۔
مثال کےطورپرسورہ یونس کی آیت :57کی تفسیراگر مولانا مودودی کی تفہیم القرآن میں دیکھیں توآپ کوترجمہ کےعلاوہ کچھ بھی نہیں ملےگی جب کہ مولاناابوالکلام آزادکی تفسیرترجمان القرآن دیکھیں توآپ کوشان دارگفتگوملےگی۔اسی طرح تفسیرعثمانی اورتدبرقرآن میں بھی بہت کچھ ملےگا۔
قرآن فہمی کےطریقے
قرآن مجیدکوسمجھنامشکل نہیں، آسان ہے۔شرط یہ ہےکہ ہمّت سےکام لیاجائے۔جولوگ اسےسمجھنےکی جتنی سچی کوشش اور محنت کریں گے،اس کےلیےمختلف طریقوں اورذرائع کواپنائیں گےوہ اتناہی زیادہ قرآن مجید کوسمجھیں گےاوران کےاندراتناہی زیادہ قرآن فہمی کا صاف ستھرا ذوق پیداہوگا۔قرآن فہمی کےلیےدرج ذیل طریقےاپنائے جاسکتےہیں۔
- کسی ایک ترجمہ کوسامنے رکھیں
لفظی ترجمہ کےلیےشاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کےصاحبزادےحضرت مولاناشاہ رفیع الدینؒ کاترجمہ دیکھاجاسکتاہے۔ بامحاورہ ترجمہ کےلیےانہیں کےصاحبزادےحضرت شاہ عبدالقادرمحدث دہلویؒ کااردوزبان میں سب سےبہتراورمستنداورمتفق علیہ ترجمہ دیکھناچاہیے۔
- پوری آیت کوسمجھنےکی مشق کریں
کیوں کہ بہت سےالفاظ ذو معنیٰ(ایک سےزیادہ معنیٰ)ہوتےہیں۔عبارت سےالگ لفظ کےمعنی بھی کچھ اورہوتےہیں اورکسی ایک عبارت میں آنےسےاس کےمعنی خاص اورمتعین طور پورہوتےہیں اوردوسری عبارت میں دوسرےمعنی ہوتےہیں۔اس لیےپوری آیت دیکھنےکی مشق ہونی چاہیے۔
- لفظی معنی سمجھیں
آیت کےہرلفظ کامعنی ضرورسمجھیں۔”قرآن فہمی” کےسلسلےمیں یہ چیزبہت ہی اہم اوربنیادی ہے۔ لفظی معنی سمجھنےکےلیےمطالعہ کریں۔” آسان لغات القرآن”، مولاناعبدالکریم پاریکھؒ کی کتاب ہے،جوتلاوت کی ترتیب سےقرآنی الفاظ کابہترین مجموعہ ہے۔ مستنداردوتراجم کوسامنے رکھ کرہرپارےکےمشکل الفاظ کاترجمہ موقع محل کےلحاظ سےکیاگیاہے۔ ترجمہ وتفسیرمیں سادہ اورقرآن کےمزاج سےقریب عمدہ،اچھےاورمناسب معنی کاانتخاب کیاگیاہے۔
- لغوی اوراصطلاحی دونوں معنی سمجھیں
ایک لفظ کالغوی اعتبارسےکیامعنی ہےاسےبھی سمجھیں اوراگراس کااصطلاحی مفہوم ہےتواسےبھی جانیں۔ جیسے:’صلوٰۃ‘کےلغوی معنی ہیں کسی چیز کی طرف رخ کرنا،متوجہ ہونا،تضرع اوردعا،جب کہ اصطلاح میں یہ لفظ نمازیعنی مخصوص عبادت کےلیےاستعمال ہوتاہے۔دونوں معنی میں ربط یہ ہےکہ نمازمیں بندہ دراصل اللہ کی طرف متوجہ ہوتااوراس سےدعامانگتاہے۔
- لفظی فرق کے معنوی فرق کوسمجھیں
کئی آیتیں ایسی ہیں جن میں معمولی لفظی فرق کےساتھ معنوی فرق بھی پایاجاتاہے۔جیسے: سورہ توبہ آیت:۳۲ میں فرمایا:یریدون أن یطفئوا نوراللہ بأفواههم
جب کہ سورہ صف آیت:۸ میں فرمایا:یریدون لیطفئوا نوراللہ بأفواههم۔ دونوں آیتوں میں معنوی فرق موجودہے۔سورہ صف میں جوآیت ہےاس کامطلب ہےکہ لوگ ارادہ کررہےہیں کہ چراغ مصطفوی کوبجھاکررہیں گےاورادھراللہ کافیصلہ ہےکہ یہ چراغ مکمل تریں طورپراپنی روشنی کائنات کودیتارہےگا۔سورہ صف کی آیت میں “لیطفئوا” ہے۔اس کایہی مفہوم ہوااورسورہ توبہ کی آیت میں “أن یطفئوا”ہے۔اس کامطلب یہ ہےکہ چراغ مصطفوی کووہ بجھانےکامکمل انتظام کرچکےہیں اورحقیقت کوتاراج کرنےکاپلان بن چکاہے،مگروہ کام یاب نہیں ہوسکتے کہ یہ چراغ پوری طرح روشن ہوکررہےگا۔ (تفصیل کےلیےملاحظہ ہو:مکرراتِ قرآن،ص:39 بہ حوالہ:تدبرقرآن:علامہ حبنکہ المیدانی)
- ایک لفظ کےمختلف معنوں کوسمجھیں
کئی الفاظ کے مختلف معانی ہوتے ہیں۔جیسے: “هدی”، هدی کالفظ عربی زبان میں بھی اورقرآن مجید میں بھی کئی معنوں میں استعمال ہواہے۔جن معانی کےنظائرخودقرآن میں موجودہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔قلبی نورِبصیرت: مثلاً: وَالَّذِیْنَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى (محمد:۱۷) “اورجولوگ ہدایت کی راہ اختیارکرتےہیں اللہ ان کی قلبی بصیرت میں اضافہ فرماتاہے۔”
2۔دلیل وحجت اورنشانِ راہ: مثلاً: أَوْأَجِدُ عَلَى ٱلنَّارِ هُدًى (طٰہٰ:۱۰) “یامجھےآگ کےپاس پہنچ کرکوئی نشانِ راہ مل جائے۔”
3۔سیدھااورصاف راستہ: مثلاً: إِنَّكَ لَعَلَىٰ هُدًى مُسْتَقِيمٍ (حج:۶۸) “بےشک تم ایک سیدھےراستےپرہو۔”
4۔طریقہ اورشریعت: مثلاً: فَبِهُدَىٰهُمُ ٱقْتَدِهْ (انعام:۹۰) “پس ان کےطریقہ کی پیروی کر۔”
- ایک معنی کےلیےمختلف لفظوں اور تعبیروں کےمعنوی تنوع کوسمجھیں
قرآن میں کبھی کبھی ایک معنی کےلیےمختلف الفاظ استعمال کیےگئےہیں لیکن معنی میں تنوع پایاجاتاہے۔اس معنوی تنوع کوسمجھناضروری ہے۔جیسےقرآن میں سانپ کےلیے تین طرح کےالفاظ استعمال کیےگئےہیں۔
پہلا:حَيَّةٌ، دوسرا:جَآنٌّ، تیسرا:ثُعْبَانٌ۔
- قریب المعنی ٰالفاظ کےمعنوی فرق کوسمجھیں
جیسےقرآن میں ’غیظ اورغضب‘دوالفاظ آئےہیں جن کےدرمیان باریک سافرق ہے۔ یہ دونوں ہم معنی نہیں بلکہ قریب المعنی ٰہیں۔ ’غیظ‘اس ہیجانی کیفیت کوکہتےہیں جوکسی مخالف کےلیےدل ودماغ میں کھولتاہےاوراس کی دافعت اس طرح کرتاہےکہ آدمی گھٹن محسوس کرےاورصبرکرے،صبراوربرداشت کی طاقت اس کےاندرہوتی ہے۔(دیکھیں: مکرراتِ قرآن ص:64)
- سیاق وسباق کی روشنی میں معنی سمجھیں
قرآن مجیدکےصحیح معنوں،اس کےعلوم اوراس کی حکمتوں تک رسائی کےلیےضروری ہےکہ انھیں سیاق وسباق (Context)کی روشنی میں دیکھا،پرکھااورسمجھاجائے۔ایسانہ کرنےسےبات کچھ کی کچھ ہوجاتی ہےاورسمجھنےوالاکچھ کاکچھ سمجھ جاتاہےجب کہ قرآن کامنشاکچھ اورہی ہوتاہے۔
- قرآن مجیدکےاسالیب کوسمجھیں
قرآن مجیدکااپناایک الگ اسلوب اوررنگ ہے۔اس کےاسالیب کو’اسالیب القرآن‘کہتےہیں۔اس موضوع پربہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں،ان سےاستفادہ کیاجاناچاہیے۔ امام فراہیؒ کی کتاب ‘رسائل ‘کافی مفیدہے۔اسی طرح عبیداللہ فہدفلاحی کی کتاب ‘قرآن مبین کےادبی اسالیب’ اورمولانامحمدفاروق خان صاحب کی ‘قرآن مجیدکےادبی محاسن’ کامطالعہ کریں اورخودقرآن مجیدمیں غورکرکےانھیں تلاش بھی کریں۔
قرآن فہمی کی راہ میں حائل رکاوٹیں
قرآن فہمی کی راہ میں چندرکاوٹیں ایسی ہیں جنھیں جاننااور دورکرنابےحدضروری ہے۔جب تک ان رکاوٹوں کاصحیح ادراک کرکےانھیں دورنہیں کیاجائےگاتب تک قرآن فہمی کی نہ راہیں کھلیں گی اورنہ اس کےدروازےکھلیں گے۔ “بہت سےلوگ ان اسباب اورپردوں کی وجہ سےقرآنِ پاک کےمعانی کوسمجھنےسےرک گئے جوشیطان نےان کےدلوں پرڈال رکھےہیں۔لہٰذاوہ قرآن پاک کےعجائب واسرارسےاندھےہوگئے۔” (تفسیرکبیرج:۱ص:۸۵)۔ چند رکاوٹیں، علوم و شرائط کی قید، بھٹک جانےکااندیشہ، اصلاحی کتابوں تک محدودیت اور حصولِ ثواب پراکتفا کرنا، ہیں۔
- قرآن کےمعنی سمجھنےمیں حائل رکاوٹیں:امام غزالیؒ نے قرآن کےمعانی سمجھنےکی راہ میں چندحائل رکاوٹوں کاذکرکیاہے۔
پہلی رکاوٹ:مخارج کی زیادہ فکر
یعنی قرآن پڑھنےوالے کی تمام ترتوجّہ وفکرحروف کومخارج سےاداکرنےکی طرف رہے۔جب پوری توجّہ وفکرمخارجِ حروف کی طرف رہےگی تواس کےلیےمعانی کیسےروشن ہوں گے۔
دوسری رکاوٹ:اندھی تقلیداورتعصب
اس کامطلب یہ ہےکہ وہ سنی سنائی باتوں کی پیروی کرےاوراسی پرجم جائے،اپنی بصیرت ومشاہَدےکےذریعےاس تک پہنچےبغیرصرف انہیں باتوں کی پیروی کرےاوراس کےدل میں تعصب پیداہوجائے۔یہ وہ شخص ہےجسےاس کےاعتقادنےآگےبڑھنےسےقیدکررکھاہے۔اس کےدل میں اپنےعقیدےکےسواکچھ بھی داخل نہیں ہوسکتا۔لہٰذااس کی نظراپنےسنےسنائےعقیدےہی پرموقوف رہتی ہے،اگردورسےاس کےلیےروشنی کی کوئی کرن چمکےاورمعانئ قرآن میں سےکوئی معنی ظاہرہولیکن وہ اس عقیدےکےخلاف ہوتوتقلیدکابھوت اس پرحملہ کرتےہوئےکہتاہے:”تیرےدل میں یہ خیال کیسےآگیا، حالاں کہ یہ تیرےباپ داداکےعقیدےکےخلاف ہے؟تووہ اس معنی کوشیطان کافریب خیال کرکےاس سےدور رہتااوراس طرح دیگرمعانی سےبچتاہے۔
تیسری رکاوٹ:گناہوں پراصراراورتکبر
یعنی قاریٔ قرآن گناہ پرمُصِر یاتکبرکی صفت سےمُتَّصِف ہویادنیوی خواہشات میں مبتلاہواوران کےپیچھےچلے۔یہ چیزیں دل کےتاریک اورزنگ آلود ہونےکاسبب ہیں۔یہ دل کےلیےبہت بڑاحجاب ہےاوراکثرلوگ اسی حجاب کاشکارہیں۔جیسےجیسےشہوات زیادہ ہوتی رہتی ہیں،کلامِ الٰہی کےمعانی سمجھنےکی راہ میں حجاب بھی بڑھتارہتاہےاورجیسےجیسےدل سےدنیاکابوجھ ہلکاہوتاہے،معانئ قرآن کی تجلی بھی قریب ہوتی رہتی ہے۔
چوتھی رکاوٹ:منقول ہی کوحرفِ آخرسمجھنا
چوتھی رکاوٹ یہ ہےکہ وہ قرآنِ پاک کی ظاہری تفسیرپڑھ کریہ عقیدہ رکھےکہ قرآنِ پاک کےکلِمات کےوہی معانی ہیں جوحضرت عبداللہ بن عباسؓ،حضرت مجاہدؓوغیرہ سےمنقول ہیں،اس کےعلاوہ جوکچھ بھی ہے”تفسیربالرَّائے”ہےاورجس نےاپنی رائےسےقرآنِ پاک کی تفسیرکی اس نےاپناٹھکاناجہنم میں بنالیا۔معانی سمجھنےمیں یہ بھی بہت بڑاحجاب ہے۔اگرکلماتِ قرآن کےمعنی صرف اورصرف وہی ہوتےجوظاہراورمنقول ہیں تواس میں لوگوں کااختلاف نہ ہوتا۔
(احیاءعلوم الدین (مترجم)ج:۱ص:۸۵۶تا۸۵۹)
قرآن کےمعنی سمجھنےکی راہ میں بننےوالی رکاوٹوں کاخلاصہ یہ ہےکہ “نفس اورنفس کی پیداکردہ خواہشیں اورمصلحتیں،غلطی اورجہالت سےجگہ پکڑےہوئےنظریات اوراعتقادات،ماحول کی مجبوریاں اورگناہوں کی نحوستیں بسااوقات قرآن فہمی کی راہ میں پہاڑبن کھڑی ہوجاتی ہیں۔قرآن کےحیات بخش چشمہ تک پہنچنےوالےکےلیےضروری ہےکہ ایک ایک رکاوٹ کوپیوندخاک کرےاورمردانہ وارآگے بڑھتاچلاجائے۔” (تفسیرضیاءالقرآن ج۱ص:۱۷،بہ حوالہ:احیاء علوم الدین)
تحریر نگار: محمد اکمل فلاحی