ہمیں تاریخ کی کتابوں پڑھایا گیا کہ انسان کی ابتداء جنگلات میں ہوئی۔ اسے نہ کھانے پینے کا شعور تھا نہ رہن سہن کا طریقہ۔ اس کے برعکس قرآن مجید کے مطابق انسان کی ابتداء وحشی اور ننگے پن کے دور میں نہیں ہوئی بلکہ اس زمین پر پہلا انسان نہ صرف لباس کا استعمال کرتا تھا بلکہ اخلاقی حس و اعلیٰ جذبات رکھتا تھا۔ اسے حیوانی ارتقاء سے نوع انسانی کا ظہور ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاعراف کی ابتدائی آیتوں میں آدم اور حوا علیہم السلام اور شیطان کا قصہ بیان فرمایا اور اس میں شیطان کے بھٹکاوے کی غرض بیان کیا کہ “تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں ان کے سامنے کھول دے۔” اب شیطان کا روزِ اول سے یہ حربہ رہا ہے کہ آدم علیہ السلام کے بیٹوں اور بیٹیوں سے لباس چھینے، ان کو برہنہ کرے اور اسی قسم کے طرز عمل میں انہیں مبتلا رکھے۔ خدا نے انسان کے اندر اول روز سے فطری طور پر حیا و شرم کا جذبہ بیدار رکھا ہے۔ اسی لئے جب شیطان نے فریب دے کر ہمارے والدین آدم و حوا علیہم السلام کو اپنے فریب میں اُلجھا دیا تو اللہ تعالٰی نے ان پر سے اپنی حفاظت اٹھالی اور پردہ کھل گیا تب اسی لمحے وہ بے چین ہوگئے۔ وَطَفِقَا یَخصِفَانِ عَلَیهِمَا مِن وَرَقِ ٱلجَنَّةِۖ اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے (سورہ اعراف: 22)
اس الحادی اور اقدار سے ماورا جدید دور میں پاکدامنی و حیاداری اور انسان کےجنسی اخلاق پر جو تیر و نشتر چلائے گئے ہیں اُس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ شیطان کی پیروی کرتے ہوئے شیطان کے دوستوں نے بھی “ابن آدم سے لباس چھیننے اور اسے برہنہ کرنے” کے مشن کو اپنا ہدف بنا لیا ہے۔ جدیدیت کا اس اطاعت شیطانی کے سفر میں ایک بڑا علمی ‘کارنامہ’ یہ ہے کہ اس نے شیطان کے اس نقش قدم پر چلنے کو آزادی (freedom) اور اختیار (Choice) کا پرفریب نعرہ دیا ہے۔
اس پس منظر میں یہ بیان کرنا ضروری ہوجاتا ہے کہ شرم و حیا کے فطری و دینی تصور میں لباس کی کیا اہمیت ہے؟ نیز باطنی لباس یعنی تقویٰ کے لباس کی کیا معنویت و افادیت ہے؟ اور قرآن میں لباس کے مختلف اشکال کیا ہیں؟
لباس کے مقاصد
اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: یٰبَنِی اٰدَمَ قَد اَنزَلنَا عَلَیکُم لِبَاسًا یُّوَارِیسَواٰتِکُم وَ رِیشًا ؕ وَ لِبَاسُ التَّقوٰی ۙ ذٰلِکَ خَیرٌ ؕ ذٰلِکَ مِن اٰیٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّہُم یَذَّکَّرُونَ۔ اے بنی آدم ! ہم نے تم پر لباس اتارا جو تمہارے لیے ستر پوش بھی ہے اور زینت بھی۔ مزید برآں تقوی کا لباس ہے جو اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی آیات میں سے ہے تاکہ وہ یاد دہانی حاصل کریں۔
انسان کے لباس کے دو مقاصد ہیں،ایک ستر پوشی دوسرا زینت۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ”لباس سے ستر پوشی اور زینت، دونوں چیزیں مقصود ہیں: لباس کا اولین مقصد تو ستر پوشی ہے لیکن زیب وزینت بھی اس کے مقاصد میں داخل ہے۔ قدرت نے جو چیز بھی بنائی ہے اس میں مختلف پہلو ملحوظ رکھے ہیں اور یہ سارے ہی پہلو ہماری فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔ ستر پوشی کے لیے تو لنگوٹی بھی کافی تھی لیکن قدرت نے اتمام نعمت کے طور پر ہمارے لیے ایسے لباس کا انتظام فرمایا جو ستر پوش بھی ہو، سردی اور گرمی سے بھی ہماری حفاظت کرے اور اس سے ہماری شخصیت، ہمارے وقار، ہمارے حسن اور ہماری شان میں بھی اضافہ ہو۔ ان میں سے کوئی مقصد بھی بجائے خود معیوب نہیں ہے البتہ افراط یا تفریط سے جس طرح ہر چیز میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے اسی طرح اس میں بھی خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔ قرآن نے زینت کو مقاصد لباس میں داخل کر کے اس جوگیانہ تصور کی نفی کردی جو لباس کو ایک آلائش اور عریانی یا نیم عریانی کو مذہبی تقدس کا درجہ دیتا ہے۔”
سواۃ کہتے ہی ایسے چیز کو جو قبیح ہو جسے چھپانا چاہیے۔ دور جدید میں ستر پوشی کے مقصد کو بھلا دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال بالی ووڈ کے اداکار رنویر سنگھ کی برہنہ تصویر پر میڈیا میں بڑا چرچہ رہا۔ اس کے علاوہ برہنہ تصاویر و ویڈیوز کا چلن عام ہے۔ سوشل میڈیا کے توسط سے اسے اور پھیلانا اور عام کرنا، نو جوانوں کا مشغلہ بنتاجارہا ہے۔ نومبر 2015ء میں ایک قصبہ کے طلباء کو 300 تا 400 برہنہ تصاویر کو عام کرتے پایا گیا۔ (The cyber effect, page no 198) یہ محض ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ آج بڑی مارکیٹ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ افسوس کے اس میں مسلم طلبہ و نوجوان بھی ملوث ہیں۔
اسلام کی تعلیمات کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لباس کو عظمت عطا کی ہے۔ آدم علیہ السلام کی غلطی پر اللہ تعالیٰ نے ان پر سے لباس چھین لیا، لیکن بعد میں قدردانی فرما کر لباس کا تحفہ عطا کیا۔ جس طرح سے قرآن، ملائکہ اوربارش وغیرہ آسمان سے نازل ہوتے ہی۔ اسی طرز پر فرمایا کہ ہم نے لباس کو نازل کیا ہے۔اگر لباس سے مذکورہ بالا مقاصد حاصل نہ ہوں تو یہ الہی تحفہ کی سخت ناقدری ہوگی۔ اس لیے اللہ نے اگلی آیتوں میں شفقت بھرے انداز میں آگاہ فرمایا:
یٰبَنِی آٰدَمَ لَا یَفتِنَنَّکُمُ الشَّیطٰنُ کَمَا اَخرَجَ اَبَوَیکُم مِّنَ الجَنَّۃِ یَنزِعُ عَنہُمَا لِبَاسَہُمَا لِیُرِیَہُمَا سَواٰتِہِمَا ؕ اِنَّہ یَرٰىکُم ہُوَ وَ قَبِیلُہ مِن حَیثُ لَا تَرَونَہُم ؕ اِنَّا جَعَلنَا الشَّیٰطِینَ اَولِیَآءَ لِلَّذِینَ لَا یُؤمِنُونَ۔ اے بنی آدم! شیطان تمہیں فتنہ میں نہ ڈالنے پائے ، جس طرح اس نے تمہارے باپ ماں کو جنت سے نکلوا چھوڑا، ان کے لباس اتروا کر کہ ان کو ان کے سامنے بے پردہ کردے۔وہ اور اس کا جتھا تم کو وہاں سے تاڑتا ہے ، جہاں سے تم ان کو نہیں تاڑتے ۔ ہم نے شیاطین کو ان لوگوں کا رفیق بنادیا ہے ، جو ایمان سے محروم ہیں ۔ (سورۃ الاعراف : آیت 27)
باطنی لباس
اللہ کی نافرمانی سے حفاظت کے لیے جو لباس پہنا جائے اسے تقویٰ کا لباس کہتے ہیں۔ یہ روحانی و باطنی لباس ہے۔ جس طرح سے لباس جسم کی حفاظت کرتا ہے اسی طرح تقویٰ روح کی حفاظت کرتا ہے۔ظاہری لباس اچھا پہن لیں لیکن کردار ، نگاہیں اور زبان بے حیا ہو تب کیا فائدہ ؟۔ مولانا امین احسن اصلاحی فرماتے ہیں کہ “باطنی لباس تقوی ہے : وَلِبَاسُ التَّقْوٰى ذٰلِكَ خَيْرٌ، یعنی ظاہری لباس کے ساتھ ساتھ ایک باطنی لباس بھی انسان کو عطا ہوا ہے اور وہ تقوی کا لباس ہے جو اس ظاہری لباس سے کہیں بڑھ کر ہے، اس لیے کہ درحقیقت یہ تقوی کا لباس ہی ہے جو ظاہری لباس کی بھی حقیقی افادیت کو نمایاں کرتا ہے بلکہ سچ پوچھئے تو آدمی اس ظاہری لباس کو اختیار کرتا ہی ہے اپنے اسی باطنی لباس کی تحریک سے۔ اگر یہ نہ ہو تو آدمی کپڑے پہن کر بھی ننگا ہی رہتا ہے اور اس کے لباس سے اس کے وقار میں اضافہ ہونے کے بجائے یا تو اس کی رعونت میں اضافہ ہوتا ہے یا اس کی بدقوارگی میں۔ یہ لباس تقوی، حیا، خشیت الہیٰ، اور احساس عبدیت سے بنتا ہے اور جس کے قامت پر اللہ اپنی عنایت کی یہ رِدا ڈال دیتا ہے، دیکھنے کے قابل وقار و جمال اسی کا ہوتا ہے۔ یہ انسانوں کے لباس میں مقدس فرشتہ ہوتا ہے، جو بھی اس کو دیکھتا ہے بےتحاشا ماھذا بشرا ان ھذا الا ملک کریم، پکار اٹھتا ہے۔”
میاں بیوی ایک دوسرے کے لباس
هُنَّ لِبَاس لَّكُم وَأَنتُم لِبَاس لَّهُنَّۗ۔ تم ایک دوسرے کے لباس ہوں (البقرۃ) اس آیت کے آخر میں کہا گیا کہ لعلھم یتقون (یعنی تقوی والے بنوں) معلوم یہ ہوتا ہے کہ ازدوجی رشتہ کے ذریعہ باطنی لباس( تقویٰ) کو تقویت ملتی ہے۔ یہاں لباس کے لیے نہایت ہی جامع و بلیغ استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔ میاں بیوی کا رشتہ ایک دوسرے کے جنسی جذبات و داعیات کے لیے پردہ فراہم کرتے ہیں۔ اس قدرتی عطا کردہ لباس کو زیب تن کرنے کی وجہ سے اپنے فطری تقاضوں کو عریاں و بے نقاب کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ جب ازدواجی زندگی کا یہ نظم درہم برہم ہوجائے تو جنسی انارکی و بے راہ روی کا طوفان بدتمیزی برپا ہوتا ہے۔ اس لئے نبی ﷺ نے نگاہ کو با حیا بنانے کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز نکاح کو قرار دیا ہے۔
لباس کا دوسرا مقصد زینت ہے۔انسان لباس کے ذریعہ حسن و جمال اور تہذیب و تمدن کے میدان میں قدم رکھتا ہے۔ مرد و عورت اپنے فطری رحجانات و میلانات کے ذریعہ ایک پورے نئے ادارہ کو تشکیل دیتے ہیں۔مرد اپنے قوام ( محافظ و نگراں کار) کے کردار کی باگ ڈور سنبھالنے اور عورت اپنے کردار کو ادا کرتے ہوئے ایک دوسرے کی نیز دنیا کی جمالیاتی ضرورت اور مادی ضرورت کی تکمیل کا ذریعہ بنتے ہیں۔ گھریلو زندگیوں کی ساری خوبصورتی و برکتیں ان دونوں کے ارتباط سے ہی وجود میں آتی ہیں۔
مزید یہ کہ لباس انسان کو جاڑے گرمی و موسم کی سختیوں سے بچاتا ہے۔ اس کے ذریعہ سے انسان سکون و محفوظ محسوس کرتا ہے۔ اسی طریقے سے گھر کے باہر کی دنیا میں ہونے والےاخلاقی و عملی چیلنجز و مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے ازدواجی رشتہ اور گھر سکون اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث بنتاہے۔ اسی لئے گھر کو سکون کی جگہ کہا گیا ہے۔ وَٱللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّن بُیُوتِكُم سَكَنا (النحل: 80) اور نکاح کا مقصد بھی سکون کہا گیا ہے۔یہ عمل دراصل شیطان کے حملوں سے تحفظ کی ڈھال بنتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ لباس صرف کپڑے اوڑھنے کا نام نہیں ہے بلکہ قرآن حکیم نے لباس کا ایک جامع تخیل ہمیں عطا کیا ۔ آج کے اس دور میں لباس کے حوالے سے جہاں زینت اور ستر و حیا کا کوئی تصور نہیں ہے ، ضروری ہے کہ صحیح اور حقیقی لباس سے ہم اپنے آپ کو زیب تن کریں اور اپنے ایمان و اعمال کی حفاظت کا سامان کریں۔
تحریر نگار: عبد الحفیظ